والدین اور بچوں کے درمیان کمیونیکشن

یہ تحقیق واضح کر رہی ہے کہ بچوں کا میڈیا سے بھی ابلاغ ہوتا ہے اور اس کا اثر اس کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے


Dr Naveed Iqbal Ansari October 22, 2017
[email protected]

گزشتہ دنوں ڈاکٹر شاہد نے شعبہ سوشل ورک جامعہ کراچی میں ''والدین اور بچوں کے درمیان کمیونی کیشن پر میڈیا کے اثرات'' کے موضوع پر اظہار خیال کرنے کی دعوت دی۔ اس سلسلے میں جن اہم باتوں کی جانب راقم نے توجہ دلائی ان میں چند ایک قارئین کے لیے بھی پیش ہیں۔

والدین اپنے بچوں کی بہتر تربیت کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیں اور اس سلسلے میں بچے سے کمیونی کیٹ (ابلاغ یا بات چیت) کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ایک بچے سے صرف والدین ہی نہیں پورا ماحول کمیونی کیٹ کر رہا ہوتا ہے، جس میں میڈیا بھی شامل ہے، جیسا کہ ایک امریکن ریسرچر ہیلری کہتی ہیں کہ ایک بچہ جو اوسطاً تین گھنٹے روزانہ ٹی وی دیکھتا ہے، وہ ایک سال میں بیس ہزار اشتہار دیکھ لیتا ہے۔

ہیلری نے بچوں میں ٹی وی دیکھنے کے رحجانات کے اثرات پر تحقیق کی، جس کے نتائج کے مطابق والدین بچوں کو جو اچھی اچھی نصیحت کرتے ہیں، اشتہارات دیکھنے کے باعث وہ نصیحتیں بیکار چلی جاتی ہیں۔ اسی طرح بچوں کی سماعت (سننے کی صلاحیت) بھی بہت کم استعمال ہوتی ہے۔ ایسے بچے ان بچوں کے مقابلے میں جو مطالعے کو زیادہ وقت دیتے ہیں، کند ذہن ہوتے ہیں۔

یہ تحقیق واضح کر رہی ہے کہ بچوں کا میڈیا سے بھی ابلاغ ہوتا ہے اور اس کا اثر اس کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے، یعنی بچے سے ایک جانب والدین کا کمیونی کیشن (ابلاغ) ہوتا ہے تو دوسری جانب میڈیا کا ابلاغ ہوتا ہے، ان دو ذریعوں سے ہونے والے ابلاغ میں ایک بہت بڑا فرق ہے، جس کو سمجھنا بہت ضروری ہے، والدین کا ابلاغ بچوں کی تربیت کرنے، ان کو اچھی باتیں بتانے، اپنے معاشرے کی اخلاقیات، مذہبی روایات کو سکھانے اور بچے کو زندگی کے نظم و ضبط میں لانے کے لیے ہوتا ہے جب کہ میڈیا سے بچے تک پہنچے والا ابلاغ ان خوبیوں سے عاری ہوتا ہے، یہ ابلاغ مکمل طور پر کمرشل نوعیت کا ہوتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف اشیاء فروخت کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ اشیاء فروخت کرنے والے ابلاغ میں وہ تمام نفسیاتی حربے استعمال کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں اچھے برے کی تمیز ختم ہوکر صرف اور صرف اشیاء خریدنے کی طرف ذہن راغب ہوجائے۔

اسی لیے ہم ہیلری کی تحقیق (جو 2004 میں امریکا میں کی گئی تھی) کے مطابق والدین کی ایک اچھی نصیحت بھی بچے کے لیے بیکار ہوجاتی ہے، کے پس منظر میں دیکھیں تو ہمارے ہاں بھی کچھ وہی معاملہ نظر آتا ہے۔ اکثر والدین بچوں کو جب اچھی باتیں بتاتے ہیں مثلاً یہ کہ فلاں چیز نہ کھاؤ کہ صحت کو نقصان پہنچے گا مگر بچہ بضد ہوتا ہے کہ وہ اپنی پسند ہی کی چیز کھائے گا، چاہے وہ کتنی ہی مضر صحت کیوں نہ ہو۔ اسی طرح بہت سے والدین اپنے بچوں کو منع کرتے ہیں کہ موبائل فون استعمال نہ کریں، مگر بچہ مان کر نہیں دیتا۔ اکثر والدین یہ جانتے ہوئے کہ موبائل فون کے بچوں کی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں، بچے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔

مذکورہ بالا تمام صورتوں میں والدین کا بچوں کو نصیحت کرنے سے متعلق ابلاغ بری طرح ناکام ہوجاتا ہے۔ چونکہ جو ابلاغ میڈیا سے بچوں تک پہنچ رہا ہے وہی والدین تک بھی پہنچ رہا ہوتا ہے، یعنی کوئی اشتہار جو بچہ دیکھ اور سن رہا ہے وہی والدین بھی دیکھ اور سن رہے ہوتے ہیں، لہٰذا ایسا بھی ہوتا ہے کہ والدین بھی میڈیا کے اس ابلاغ سے متاثر ہوجاتے ہیں اور بچے کی ضد پر اپنا فیصلہ جلد بدل لیتے ہیں یا پھر خود ہی بچے کے لیے وہی فیصلہ کرلیتے ہیں جو بچہ چاہ رہا ہوتا ہے۔ یوں ایک بچے کی تربیت میں میڈیا کا ابلاغ بھی داخل ہوجاتا ہے جو کہ کمرشل مقاصد پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا ان والدین کے ابلاغ میں یہ رکاوٹ بن جاتا ہے جو اپنے بچے کو ایک اچھا انسان بنانے کے لیے کرتے ہیں۔

ماضی میں سری لنکا کی پارلیمنٹ میں ایک قیمتی گڑیا کے اشتہار پر پابندی کا بل پیش کیا گیا کہ یہ گڑیا والدین کی ایک بڑی تعداد کی قوت خرید سے باہر ہے۔ گرانٹ ڈیوڈ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اب بچوں کے نزدیک محبت اور شفقت کا مفہوم مطلب بدل چکا ہے، اگر انھیں قیمتی کھلونے نہ دیے جائیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ والدین ان سے محبت ہی نہیں کرتے۔ یہ میڈیا ہی کا ابلاغ ہے کہ اب بچوں سے کامیاب ابلاغ عموماً کم ہی ہوتا ہے۔ بچے میڈیا کے ابلاغ سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس ابلاغ ہی کے مطابق اپنے نظریات قائم کرنے لگتے ہیں۔

اس ابلاغ میں جو درست ہو اس کو ہی درست سمجھتے ہیں، یہاں جو ہیرو نظر آئے اس کو ہی یہ ہیرو سمجھتے ہیں اور چونکہ میڈیا کا ابلاغ کمرشل تقاضوں یعنی سرمایہ دار کی اشیاء کو ہر حال میں فروخت کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے، لہٰذا اس میں مذہبی تعلیمات، اخلاقیات، روایات وغیرہ جیسی چیزوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور ایک غیر حقیقی دنیا پیش کردی جاتی ہے، یوں یہ ابلاغ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے ذہن کو بھی جکڑ لیتا ہے، جس سے نہ صرف والدین اور بچوں کے ابلاغ میں شدید رکاوٹ آجاتی ہے بلکہ اکثر اوقات والدین بھی دھوکا کھا جاتے ہیں اور وہ فیصلے کرلیتے ہیں جو شدید نقصان کا باعث بھی بن سکتے ہیں، مثلاً اکثر والدین جانتے ہیں کہ کولڈ ڈرنک صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور اگر بھوک (یعنی خالی پیٹ) میں پی لی جائے تو جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، مگر بہت سے والدین اپنے بچوں کو کمیونیکیٹ ( موثر ابلاغ) نہیں کرپاتے اور مجبوراً انھیں اس کی اجازت دینی پڑتی ہے، لیکن چونکہ ان کا اشتہاری پیغام بڑوں کے لیے بھی ہوتا ہے لہٰذا بچے ہی نہیں بڑے بھی اس کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور گھر میں آنے والے مہمانوں کو بھی یہی پیش کرتے ہیں۔

ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے بچوں کو تو سختی سے روک لیتے ہیں مگر آنے والے مہمان اور ان میں شامل بچوں کو کولڈ ڈرنک ہی پیش کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ مہمان کی صحت خراب کرنا چاہتے ہیں بلکہ اس لیے کہ میڈیا کے ذریعے یہ ابلاغ ہم سب کے ذہنوں پر اپنا اثر ڈال چکا ہے کہ کولڈ ڈرنک پینا ایک اچھا اور باعزت عمل ہے اور مہمان کو پیش کرنا انھیں عزت دینا ہے۔

اندازہ کیجیے کہ جہاں میڈیا اس قدر طاقتور انداز میں لوگوں کو کمیو نی کیٹ (بلکہ درست لفظ، ڈکٹیٹ) کر رہا ہو، وہاں والدین کا بچوں کے ساتھ ابلاغ (یعنی ان کو سمجھانے کے لیے کی گئی نصیحتیں وغیرہ) کیسے موثر ہوسکتی ہیں؟ اسی لیے آج کے والدین کو ماضی کی بہ نسبت اپنے بچوں سے ابلاغ کرنے میں تو کوئی رکاوٹ نہیں آتی کہ وہ گھر سے بہت دور ہوں تو بھی فون پر ابلاغ ہوجاتا ہے، مگر موثر ابلاغ نہیں ہوتا، یعنی والدین کی باتیں اور نصیحیتں کوئی رنگ نہیں لاتیں۔

بچے خواہ وہ بڑے ہی کیوں نہ ہوں، میڈیا سے آنے والے پیغامات کو درست اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے والدین کو دنیا کا کچھ علم نہیں، حالانکہ انھیں خود علم نہیں ہوتا کہ میڈیا سے جو پیغامات مل رہے ہیں وہ کمرشل ازم یعنی خودغرضی پر مبنی ہیں، جس کا ایک ہی منشا ہے کہ سرمایہ دار کا سرمایہ بڑھے، جب کہ والدین کا ابلاغ کسی بھی خودغرضی سے پاک ہوتا ہے، جس کا مقصد اولاد کو اچھے سے اچھا اور مضبوط سے مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ آیئے غور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔