سی پیک ایسٹ انڈیا کمپنی نہیں
پاکستان کے پڑوس میں واقع کوئی بھی ملک ترقی اور خوشحالی میں پاکستان کا مقابلہ نہیں کرپائے گا۔
ہمارے ملک میں بعض ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو ملک کی بہتری اور آگے بڑھنے کے رحجان کو بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب چاغی میں ایٹمی دھماکے کیے گئے پوری پاکستانی قوم خوشی اور فخر سے جھوم اٹھتی تھی کیونکہ ان دھماکوں نے ملک کو ناقابل تسخیر بنادیا تھا مگر بدقسمتی سے کچھ لوگ جو خود کو پاکستانی ضرور کہتے ہیں انھیں پاکستان کا ایٹمی طاقت بننا پسند نہیں آیا تھا۔ کیا یہ ہماری جوہری استعداد حاصل کرنے کی کرامات نہیں ہیں کہ بھارت جو مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کرنے کے بعد مغربی پاکستان کو بھی تباہ کرنے کا ایجنڈا رکھتا تھا اس کا وہ مذموم ایجنڈا خاک میں مل گیا تھا۔
اسی ایٹم بم کے طفیل آج پاکستان بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے اور کشمیریوں کی آزادی کی ڈنکے کی چوٹ پر حمایت کرتا ہے۔ اب پاکستان ایٹمی دھماکوں کے بعد سی پیک کے ذریعے معاشی دھماکہ کرنے جا رہا ہے۔ واضح ہو کہ ایٹم بم بنانے کا پروجیکٹ پاکستان کو محفوظ و مامون بنانے کا منصوبہ تھا اور اب سی پیک کا منصوبہ پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا منصوبہ ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی کچھ لوگ اس گیم چینجر منصوبے کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دے رہے ہیں مگر اس منصوبے کے خلاف پرچار کرنا کسی محب وطن پاکستان کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
اس سے کچھ تکلیف ہمارے دشمنوں کو ضرور ہے کیونکہ وہ پاکستان کو ایک مضبوط اور خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتے مگر خود ہمارے اپنے لوگوں کی اس منصوبے پر تنقید ناقابل فہم ہے۔ اس منصوبے پر تنقید کرنے والے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو شاید اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے آخر ہمارے دشمن کیوں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ دراصل وہ سخت پریشان ہیں کہ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد پاکستان کو فرش سے عرش پر پہنچا دے گا۔
پاکستان کے پڑوس میں واقع کوئی بھی ملک ترقی اور خوشحالی میں پاکستان کا مقابلہ نہیں کرپائے گا۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن جو اس وقت پاکستان کی قید میں ہے برملا اعتراف کرچکا ہے کہ اسے بھارتی حکومت نے گوادر کو ایک عظیم بندرگاہ بنانے کے پاکستانی منصوبے کو خواب و خیال بنانے کا مشن سونپا تھا اور جو بلوچ منحرفین اس وقت بھارت کے خرچ پر غیر ممالک میں مقیم ہیں وہ وہاں اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے عالمی مدد مانگ رہے ہیں۔ وہ بلوچ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں کہ سی پیک منصوبہ چین کا بلوچستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ چونکہ بعض عالمی طاقتیں چین سے دشمنی رکھتی ہیں اور وہ اس کی ترقی سے بھی لرزاں ہیں چنانچہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بلوچستان میں تخریب کاری کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔
امریکی حکومت بھی اب کھل کر سی پیک منصوبے کی مخالفت کر رہی ہے۔ امریکی وزیر جیمز میٹس نے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں کہا ہے کہ سی پیک کشمیر کے متنازعہ خطے سے گزرتا ہے۔ دراصل یہ بھارت کے موقف کی تائید ہے کہ کسی طرح سی پیک کو متنازعہ بناکر اسے رکوا دیا جائے۔ بھارت تو چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے بھی خلاف ہے وہ اسے دنیا پر چین کی اجارہ داری قائم کرنے کی سازش قرار دیتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے چین نے دراصل غریب ممالک کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اس منصوبے کا آغاز کیا ہے دنیا کے بیشتر ممالک بخوشی چین کے اس منصوبے میں حصہ لے رہے ہیں۔
چین، افریقہ، جنوبی امریکا اور ایشیا کے بیشتر غریب ممالک کو مالی امداد دینے کے علاوہ ان کے انفرااسٹرکچر کو ترقی دے رہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس امریکا ایک سپرپاور ہوتے ہوئے ان کی مدد کرنے کے بجائے انھیں تباہ و برباد کرکے ان پر قبضہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ امریکا کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پوری دنیا کے غریب عوام اس سے نفرت کر رہے ہیں جب کہ بھارت اس وقت امریکا کا اسٹریٹیجک پارٹنر بن کر خود پر فخر کر رہا ہے۔
چین چونکہ بھارت اور امریکا کا مشترکہ دشمن ہے چنانچہ بڑھتی ہوئی پاک چین دوستی دونوں کے لیے سخت تکلیف دہ ہے چنانچہ دونوں ہی پاک چین دوستی کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنا رہے ہیں سی پیک منصوبہ بھی ان دونوں کے نشانے پر ہے۔ جہاں تک کشمیر کا معاملہ ہے وہ بجاطور پر ایک متنازعہ خطہ ہے مگر اس کے مستقبل کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے۔ دو کروڑ کشمیری ستر برس سے بھارت کی غلامی میں پس رہے ہیں۔ وہ اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں مگر یہ بات بھارت کو پسند نہیں ہے چنانچہ وہ کشمیریوں کی آزادی کو طاقت کے ذریعے مسلسل کچلتا آرہا ہے۔ پھر آزاد کشمیر میں تمام جاری منصوبے کشمیریوں کی مرضی کیمطابق چل رہے ہیں جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس کام کر رہا ہے۔
وہ اس سے آزادی کے سوا کچھ نہیں چاہتے مگر بھارت کشمیریوں کو آزادی دینے کے بجائے اپنی قابض فوج کے ذریعے روزانہ کئی کئی کشمیری نوجوانوں کو شہید کر رہا ہے۔ اس قتل عام کو روکنا امریکا کا فرض بنتا ہے کیونکہ وہ سپر پاور ہے مگر اس نے اپنی منفی سرگرمیوں سے ثابت کردیا ہے کہ وہ استعماری طاقت ہے جہاں تک پاکستان کے دشمنوں کا تعلق ہے تو ان کی سی پیک منصوبے کے خلاف سرگرمیاں تو سمجھ میں آتی ہیں مگر ملک میں اس وقت جو سیاسی خلفشار جاری ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ جب سے یہ منصوبہ شروع ہوا ہے کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی جاری ہے جب کہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک میں امن و امان کی سخت ضرورت ہے۔
وہ لوگ جو سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دے رہے ہیں وہ کسی طرح بھی ملک کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ چین کسی طرح بھی برطانیہ کی طرح استعماری طاقت نہیں ہے۔ وہ تو خود استعماری طاقتوں سے بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔ کمیونزم انقلاب سے قبل اس کے عوام سامراجی طاقتوں کی غلامی میں پستے رہے ہیں۔ چینی انقلاب صرف چینی عوام کے لیے ہی نہیں تھا اس کا مقصد پوری دنیا کے غریب عوام کو سامراجی طاقتوں کے چنگل سے نجات دلانا تھی آج بھی چین اسی مقصد پر قائم ہے۔ اس نے غریب ممالک کو سامراجی ممالک کے اقتصادی شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ شروع کیا ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ گوادر بندرگاہ سے چین کو بھی زبردست فائدہ پہنچے گا۔ اسے اپنے مال تجارت کو یورپ افریقہ اور جنوبی امریکا کے دور دراز ممالک تک بھیجے اور وہاں سے خام مال لانے میں وقت اور اخراجات کی مدات میں بچت ہوگی۔ اسی فائدے کو دیکھتے ہوئے اس نے گوادر بندرگاہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے سرمائے کے عوض پاکستان پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ یہ صرف دشمنوں کا پاکستان کے بھولے عوام کو بہکانے کا پروپگینڈا ہے جس پر کسی پاکستانی کو دھیان نہیں دینا چاہیے۔
اسی ایٹم بم کے طفیل آج پاکستان بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے اور کشمیریوں کی آزادی کی ڈنکے کی چوٹ پر حمایت کرتا ہے۔ اب پاکستان ایٹمی دھماکوں کے بعد سی پیک کے ذریعے معاشی دھماکہ کرنے جا رہا ہے۔ واضح ہو کہ ایٹم بم بنانے کا پروجیکٹ پاکستان کو محفوظ و مامون بنانے کا منصوبہ تھا اور اب سی پیک کا منصوبہ پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا منصوبہ ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی کچھ لوگ اس گیم چینجر منصوبے کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دے رہے ہیں مگر اس منصوبے کے خلاف پرچار کرنا کسی محب وطن پاکستان کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
اس سے کچھ تکلیف ہمارے دشمنوں کو ضرور ہے کیونکہ وہ پاکستان کو ایک مضبوط اور خوشحال ملک کے طور پر دیکھنا نہیں چاہتے مگر خود ہمارے اپنے لوگوں کی اس منصوبے پر تنقید ناقابل فہم ہے۔ اس منصوبے پر تنقید کرنے والے ہمارے پاکستانی بھائیوں کو شاید اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے آخر ہمارے دشمن کیوں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ دراصل وہ سخت پریشان ہیں کہ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد پاکستان کو فرش سے عرش پر پہنچا دے گا۔
پاکستان کے پڑوس میں واقع کوئی بھی ملک ترقی اور خوشحالی میں پاکستان کا مقابلہ نہیں کرپائے گا۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن جو اس وقت پاکستان کی قید میں ہے برملا اعتراف کرچکا ہے کہ اسے بھارتی حکومت نے گوادر کو ایک عظیم بندرگاہ بنانے کے پاکستانی منصوبے کو خواب و خیال بنانے کا مشن سونپا تھا اور جو بلوچ منحرفین اس وقت بھارت کے خرچ پر غیر ممالک میں مقیم ہیں وہ وہاں اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے عالمی مدد مانگ رہے ہیں۔ وہ بلوچ عوام کو گمراہ کر رہے ہیں کہ سی پیک منصوبہ چین کا بلوچستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ چونکہ بعض عالمی طاقتیں چین سے دشمنی رکھتی ہیں اور وہ اس کی ترقی سے بھی لرزاں ہیں چنانچہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بلوچستان میں تخریب کاری کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔
امریکی حکومت بھی اب کھل کر سی پیک منصوبے کی مخالفت کر رہی ہے۔ امریکی وزیر جیمز میٹس نے امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کو دی گئی بریفنگ میں کہا ہے کہ سی پیک کشمیر کے متنازعہ خطے سے گزرتا ہے۔ دراصل یہ بھارت کے موقف کی تائید ہے کہ کسی طرح سی پیک کو متنازعہ بناکر اسے رکوا دیا جائے۔ بھارت تو چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے بھی خلاف ہے وہ اسے دنیا پر چین کی اجارہ داری قائم کرنے کی سازش قرار دیتا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے چین نے دراصل غریب ممالک کی معاشی مشکلات کو دور کرنے کے لیے اس منصوبے کا آغاز کیا ہے دنیا کے بیشتر ممالک بخوشی چین کے اس منصوبے میں حصہ لے رہے ہیں۔
چین، افریقہ، جنوبی امریکا اور ایشیا کے بیشتر غریب ممالک کو مالی امداد دینے کے علاوہ ان کے انفرااسٹرکچر کو ترقی دے رہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس امریکا ایک سپرپاور ہوتے ہوئے ان کی مدد کرنے کے بجائے انھیں تباہ و برباد کرکے ان پر قبضہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ امریکا کی سامراجی پالیسیوں کی وجہ سے ہی پوری دنیا کے غریب عوام اس سے نفرت کر رہے ہیں جب کہ بھارت اس وقت امریکا کا اسٹریٹیجک پارٹنر بن کر خود پر فخر کر رہا ہے۔
چین چونکہ بھارت اور امریکا کا مشترکہ دشمن ہے چنانچہ بڑھتی ہوئی پاک چین دوستی دونوں کے لیے سخت تکلیف دہ ہے چنانچہ دونوں ہی پاک چین دوستی کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بنا رہے ہیں سی پیک منصوبہ بھی ان دونوں کے نشانے پر ہے۔ جہاں تک کشمیر کا معاملہ ہے وہ بجاطور پر ایک متنازعہ خطہ ہے مگر اس کے مستقبل کا فیصلہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے۔ دو کروڑ کشمیری ستر برس سے بھارت کی غلامی میں پس رہے ہیں۔ وہ اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں مگر یہ بات بھارت کو پسند نہیں ہے چنانچہ وہ کشمیریوں کی آزادی کو طاقت کے ذریعے مسلسل کچلتا آرہا ہے۔ پھر آزاد کشمیر میں تمام جاری منصوبے کشمیریوں کی مرضی کیمطابق چل رہے ہیں جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کشمیریوں کی خواہشات کے برعکس کام کر رہا ہے۔
وہ اس سے آزادی کے سوا کچھ نہیں چاہتے مگر بھارت کشمیریوں کو آزادی دینے کے بجائے اپنی قابض فوج کے ذریعے روزانہ کئی کئی کشمیری نوجوانوں کو شہید کر رہا ہے۔ اس قتل عام کو روکنا امریکا کا فرض بنتا ہے کیونکہ وہ سپر پاور ہے مگر اس نے اپنی منفی سرگرمیوں سے ثابت کردیا ہے کہ وہ استعماری طاقت ہے جہاں تک پاکستان کے دشمنوں کا تعلق ہے تو ان کی سی پیک منصوبے کے خلاف سرگرمیاں تو سمجھ میں آتی ہیں مگر ملک میں اس وقت جو سیاسی خلفشار جاری ہے وہ ناقابل فہم ہے۔ جب سے یہ منصوبہ شروع ہوا ہے کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی جاری ہے جب کہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے ملک میں امن و امان کی سخت ضرورت ہے۔
وہ لوگ جو سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دے رہے ہیں وہ کسی طرح بھی ملک کے خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ چین کسی طرح بھی برطانیہ کی طرح استعماری طاقت نہیں ہے۔ وہ تو خود استعماری طاقتوں سے بہت نقصان اٹھا چکا ہے۔ کمیونزم انقلاب سے قبل اس کے عوام سامراجی طاقتوں کی غلامی میں پستے رہے ہیں۔ چینی انقلاب صرف چینی عوام کے لیے ہی نہیں تھا اس کا مقصد پوری دنیا کے غریب عوام کو سامراجی طاقتوں کے چنگل سے نجات دلانا تھی آج بھی چین اسی مقصد پر قائم ہے۔ اس نے غریب ممالک کو سامراجی ممالک کے اقتصادی شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ شروع کیا ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ گوادر بندرگاہ سے چین کو بھی زبردست فائدہ پہنچے گا۔ اسے اپنے مال تجارت کو یورپ افریقہ اور جنوبی امریکا کے دور دراز ممالک تک بھیجے اور وہاں سے خام مال لانے میں وقت اور اخراجات کی مدات میں بچت ہوگی۔ اسی فائدے کو دیکھتے ہوئے اس نے گوادر بندرگاہ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے سرمائے کے عوض پاکستان پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ یہ صرف دشمنوں کا پاکستان کے بھولے عوام کو بہکانے کا پروپگینڈا ہے جس پر کسی پاکستانی کو دھیان نہیں دینا چاہیے۔