پاکستان میں کوئز کا مستقبل
بلا شبہ لائق تحسین ہیں یہ قابل قدر لوگ جو ہماری وطن عزیز کے اہم اثاثے کی حییثت رکھتے ہیں۔
حضرت انسان جب ماں کے بطن سے دنیا میں آتا ہے تو اللہ تعالی کی پاک و صاف ذات اسے جسمانی اعضا کی دولت کے ساتھ وارد کرتا ہے جو ظاہری اور باطنی اعضاکا مرکب ہوتا ہے۔ یہ دونوں طرح کے اوصاف ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے متحرک رہتے ہیں اور یوں انسان کو مضبوط بدن کے ساتھ کھڑا رکھتے ہیں۔ ان اندرونی اور بیرونی اعضا میں سے کوئی بھی خراب ہو جائے یا خراب ہونے کا ذرا سا بھی خدشہ ہو جائے تو انسان اپنے باطنی وجود میں تکلیف محسوس کرنے لگتا ہے۔
الحمدللہ جدید علمی و سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے ریسرچ کے ذریعہ ان تمام مخفی اعضا کی جانچ پڑتال کے لیے جدید مشینین ایجاد کر لیں اور یوں طب کے ما ہرین کے لیے انسانوں کی بیماریوں کی تشخیص میں آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ اس کی مدد سے اب ہر بیماری کا علاج ہے، صرف موت کا علاج یا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے سوائے اللہ تعالی کی پاک و صاف ذات کے۔
جسمانی اعضا کی حفاظت کے لیے انسان کیا کیا جتن نہیں کرتا، ورزشیں ، وقت مقررہ پر چہل قدمی اور اس سے بھی زیادہ دستیاب فرصت کے لمحات میں کھیل کود کو فو قیت دیتا ہے۔ یہی صحت مند معاشرہ کی پہچان ہے۔ اسی طرح جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مطالعہ ذہنی نشوو نماکا انمول آلہ ہے جو ذہن کی روشن خیالی میں اضافہ کا بہترین سبب بنتا ہے۔ ذہنی صحت کا سب سے بڑا عنصر یادداشت کا ہوتا ہے۔ ذھن کشادہ کرتا ہے اور آپ کی سوچ و خیالات میں مثبت تبدیلی لاتا ہے۔
لاہور میں ہمارے زمانہ طالبعلمی میں اسکول و کالج میں نصابی پڑھائی کے علاوہ کچھ وقت کھیل و تفریح کے لیے بھی مقرر تھا۔ ذہنی آسودگی کے لیے لائبریری میں ہم نصابی کتب کا مطالعہ کے ساتھ ساتھ معلومات پر مبنی ذہنی آزمائش کے مقابلوں کے لیے باقاعدہ ایک کوئز سوسائٹی قائم تھی جس کے تحت طلبا کو معلومات عامہ سے متعلق چیدا چیدا سوالات کی ترتیب اور اس کی مشق کروائی جاتی تھی جو نہ صرف سننے والوں کے لیے ذہنی تفریح کا ذریعہ تھی بلکہ اس پروگرام کے شریک کار کے لیے بھی کھیل ہی کھیل میں معلومات کی پختگی ہو جایا کرتی تھی۔
معلوماتی ذہنی آزمائش کے مقابلوں کا انعقاد فارغ ا لتحصیل طلبا و طالبات کا کسی بھی ادارہ میں سیلیکشن کے لیے ممد ثابت ہوا کرتا تھا بالخصوص اعلی سول سروسیز، دفاعی اور دیگر اداروں میں ملازمت کے حصول کا آسان ذریعہ بھی تھا۔ یہ سلسلہ یہی ختم نہیں ہو جاتا تھا بلکہ سرکاری اور حکومتی سطح پر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن وہ واحد نشریاتی ادارے تھے جو نیک اور پر خلوص انداز میں اپنے تعلیمی پروگراموں میں ہفتہ واراسکول و کالج و یونیورسٹی کی سطح پر طلبا و طالبات کے درمیان کو ئز مقابلوں کو نشر کیا کرتے تھے اور فتح حاصل کرنے والی ٹیموں کے شرکا کو انعامات سے نوازہ جاتا تھا ۔ اسی طرح سے ریڈیو پاکستان کراچی سے کوئز کا پروگرام ''بزم طلبا'' نشر کیا جاتا تھا۔
لاہور پی ٹی وی سینٹر سے طلبا و طالبات کے لیے پنجابی کوئز ''ٹاکرہ''مرحوم دلدار پرویز بھٹی کی میزبانی میں ہر ہفتہ باقاعدگی سے نشر کیا جاتا تھا۔ عوامی سطح کے پی ٹی وی سے نشر ہونیوالے ہفتہ وار معلوماتی پروگرام ''کسوٹی'' جس کی میز بانی جناب قریش پور اور شرکامرحوم عبیداللہ بیگ ، افتخار عارف اور غازی صلاح الدین کیا کرتے تھے اور خوبصورت اور دلکش سخن ساز شخصیت طارق عزیز نے کوئز کی دنیا میں ہر عام آدمی کی شمولیت کو یقین بنانے میں ہلکی پھلکی تفریح کا عنصر شامل کرکے پروگرام کو ایک نئی جہت دی۔
بلا شبہ لائق تحسین ہیں یہ قابل قدر لوگ جو ہماری وطن عزیز کے اہم اثاثے کی حییثت رکھتے ہیں۔اب یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پان کے کھوکھے کی طرح کھلے یہ نام نہاد ٹی وی چینل سوائے سیاستدانوں (کاروباری طبقہ) کے لا حاصل بحث و مباحثہ یا اشتہارات کے اپنی قومی فرائض منصبی میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
گزشتہ ماہ ایک اخباری خبر پر میرا مقامی نجی کالج میں منعقد ہونے والا کوئز پروگرام میں شرکت کا موقع نصیب میں آیا۔ معلوم ہوا کہ اس پروگرام کا انعقا د پاکستان کویز سوسائٹی (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام ہوا جس کے روح رواں پروفیسر حافظ نسیم الدین اور ان کے شریک ممبران کی انتھک محنت کے سبب ممکن ہو سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بغیر کسی تعطل کے شہر کی معروف تعلیمی درسگا ہوں کے طلبا و طالبات کے درمیان ذہنی آزمائش کے مقابلے سال کے بارہ مہینے اس سوسائٹی کے تحت جاری رہتے ہیں۔
یاد رہے ! حافظ نسیم ا لدین وہ خوش نصیب شخصیت ہیں جنہوں نے طارق عزیز کے مقبول ترین پروگرام ''نیلام گھر '' سے سب سے پہلے کار جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔پروگرام کے اختتام پر موصوف حافظ صاحب سے ایک مختصر مگر جامع ملاقا ت کا مو قع ملا ۔ہاتھ میں سفید چھڑی اور سیاہ چشمہ سے لیس ، قوت بینائی سے محروم (کمال دیکھیے کہ انھوں نے اس محرومی کو اپنی ذات پر قطعا حاوی ہونے نہیں دیا)، خود اعتمادی سے بھرپور اس بیکر اں علمی شخصیت نے لمحہ بھر کے لیے حیرانی کے سمندر میں غرق کر دیا۔ بے حد خوشی ہوئی کہ اس بھولے بسرے علمی سلسلہ کو منظم طریقہ سے عمل درآمد حافظ صاحب کی متذکرہ سوسائٹی کسی نہ کسی حوالہ سے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ خدشہ خارج از امکان ہے کہ ان پروگراموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بلاشبہ جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا وہ بھی سوسائٹی کے ذمے داروں کے لیے ایک چیلنج ہوگا جو ایک فطری عمل ہے ۔ یہاں میرا مقصد کسی فرد واحد کی تعریف نہیں بلکہ اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کو سراہنا ہے۔ میں جب چھوٹا تھا ، ہماری گلی میں ایک نابینا فقیر پنجابی زبان میں صدائیں دیا کرتا تھا ''ا کھیاں والو ! اکھیاں بڑی نیامت ہیں ''۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ میں سفید چھڑی کا عالمی دن بھی گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی اکتوبر کی پندرہ تاریخ کو منایا گیا جس میں ایسے ہی افراد کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
''ہمت مرداں مدد خدا'' کے رہنما اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے معلومات عامہ کی دنیا کو جدید تقاصوں سے ہم آہنگ کرنا ان کی زندگی کا اہم مشن ہے۔ خوش و خرم اور ہر قیمت پر اللہ کی نعمتوں پر شکر بجا لانے والی اس عظیم ا لقدر شخصیت کو دوسری علمی شخصیات سے ممتاز و افضل و منفرد بناتی ہے وہ یہ کہ انھوں نے ۱۴ سال کی کمسنی کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور یوں وہ حافظ قرآن بھی کہلائے۔ سر زمین وطن ــ''اکستان '' سے محبت و عشق کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے جامعہ کراچی سے مطالعہ پاکستان سے ماسٹر کی ڈگری امتیازی پوزیشن میں حاصل کی اور اس وقت اسی مضمون کی درس و تدریس میں گویا مشغول ہیں۔
طلبا و طالبات با الخصوص نئی نسل تحریک پاکستان کی شناسائی کے علم کا سہرا بلاشبہ نسیم بھائی کے سر جاتا ہے۔ تحریک پاکستان کے بارے میں معلومات کے خزانہ کا شہنشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تحریک پاکستان سے متعلق چیدہ چیدہ اہم سوالات و جوابات پر مبنی ان کی حالیہ تصنیف ''الیکشن سے الیکشن تک'' حال ہی میں شا یع ہوئی ہے، آپ ضرور پڑہیے۔ سال میں مختلف مذہبی اور قومی مواقع پر موضوع کی مناسبت سے کوئز پروگراموں کی ترتیب و تدوین ان کی سوسائٹی کی دیرینہ روایت رہی ہے ۔ ان کا پورا طالبعلمی کا زمانہ ان کی کوئز مقابلوں کی فتوحات کی ایک طویل فہرست سے بھرا پڑا ہے جس کی ان کے درد مند اہل علم اور معزز ہم عصر بھی معترف ہیں۔
ایک اچھے انسان کے ناطے موصوف نہ صرف مشفق استاد ، تجزیہ کار، کئی تصانیف کے محقق و مولف ہیں بلکہ بہترین کوئز ماسٹر ، اچھے منتظم ، اچھے مشیر کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج، جملے باز، جملہ ساز، با ہنر، حافظے پر کمال کی گرفت، علم کی قدر اور عالم کی پہچان بھی رکھتے ہیں۔ بین ا لکلیاتی ، بین ا لجامعاتی ، ریڈیو اور سماجی اداروں کے تحت مقا بلوں کا انعقاد، بے شمار قومی اور بین ا لاقوامی اعزازی ایوارڈز، لوئی بریل ایوارڈ، گولڈ میڈلز کی ایک طویل فہرست ان کی شخصیت کی مکمل اور روشن عکاس ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے اس کامیاب سفر کو اسی طرح جاری و ساری رکھے۔ (آمین !)
الحمدللہ جدید علمی و سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے ریسرچ کے ذریعہ ان تمام مخفی اعضا کی جانچ پڑتال کے لیے جدید مشینین ایجاد کر لیں اور یوں طب کے ما ہرین کے لیے انسانوں کی بیماریوں کی تشخیص میں آسانیاں پیدا ہو گئیں۔ اس کی مدد سے اب ہر بیماری کا علاج ہے، صرف موت کا علاج یا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے سوائے اللہ تعالی کی پاک و صاف ذات کے۔
جسمانی اعضا کی حفاظت کے لیے انسان کیا کیا جتن نہیں کرتا، ورزشیں ، وقت مقررہ پر چہل قدمی اور اس سے بھی زیادہ دستیاب فرصت کے لمحات میں کھیل کود کو فو قیت دیتا ہے۔ یہی صحت مند معاشرہ کی پہچان ہے۔ اسی طرح جسمانی صحت کے ساتھ ذہنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ مطالعہ ذہنی نشوو نماکا انمول آلہ ہے جو ذہن کی روشن خیالی میں اضافہ کا بہترین سبب بنتا ہے۔ ذہنی صحت کا سب سے بڑا عنصر یادداشت کا ہوتا ہے۔ ذھن کشادہ کرتا ہے اور آپ کی سوچ و خیالات میں مثبت تبدیلی لاتا ہے۔
لاہور میں ہمارے زمانہ طالبعلمی میں اسکول و کالج میں نصابی پڑھائی کے علاوہ کچھ وقت کھیل و تفریح کے لیے بھی مقرر تھا۔ ذہنی آسودگی کے لیے لائبریری میں ہم نصابی کتب کا مطالعہ کے ساتھ ساتھ معلومات پر مبنی ذہنی آزمائش کے مقابلوں کے لیے باقاعدہ ایک کوئز سوسائٹی قائم تھی جس کے تحت طلبا کو معلومات عامہ سے متعلق چیدا چیدا سوالات کی ترتیب اور اس کی مشق کروائی جاتی تھی جو نہ صرف سننے والوں کے لیے ذہنی تفریح کا ذریعہ تھی بلکہ اس پروگرام کے شریک کار کے لیے بھی کھیل ہی کھیل میں معلومات کی پختگی ہو جایا کرتی تھی۔
معلوماتی ذہنی آزمائش کے مقابلوں کا انعقاد فارغ ا لتحصیل طلبا و طالبات کا کسی بھی ادارہ میں سیلیکشن کے لیے ممد ثابت ہوا کرتا تھا بالخصوص اعلی سول سروسیز، دفاعی اور دیگر اداروں میں ملازمت کے حصول کا آسان ذریعہ بھی تھا۔ یہ سلسلہ یہی ختم نہیں ہو جاتا تھا بلکہ سرکاری اور حکومتی سطح پر ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلیویژن وہ واحد نشریاتی ادارے تھے جو نیک اور پر خلوص انداز میں اپنے تعلیمی پروگراموں میں ہفتہ واراسکول و کالج و یونیورسٹی کی سطح پر طلبا و طالبات کے درمیان کو ئز مقابلوں کو نشر کیا کرتے تھے اور فتح حاصل کرنے والی ٹیموں کے شرکا کو انعامات سے نوازہ جاتا تھا ۔ اسی طرح سے ریڈیو پاکستان کراچی سے کوئز کا پروگرام ''بزم طلبا'' نشر کیا جاتا تھا۔
لاہور پی ٹی وی سینٹر سے طلبا و طالبات کے لیے پنجابی کوئز ''ٹاکرہ''مرحوم دلدار پرویز بھٹی کی میزبانی میں ہر ہفتہ باقاعدگی سے نشر کیا جاتا تھا۔ عوامی سطح کے پی ٹی وی سے نشر ہونیوالے ہفتہ وار معلوماتی پروگرام ''کسوٹی'' جس کی میز بانی جناب قریش پور اور شرکامرحوم عبیداللہ بیگ ، افتخار عارف اور غازی صلاح الدین کیا کرتے تھے اور خوبصورت اور دلکش سخن ساز شخصیت طارق عزیز نے کوئز کی دنیا میں ہر عام آدمی کی شمولیت کو یقین بنانے میں ہلکی پھلکی تفریح کا عنصر شامل کرکے پروگرام کو ایک نئی جہت دی۔
بلا شبہ لائق تحسین ہیں یہ قابل قدر لوگ جو ہماری وطن عزیز کے اہم اثاثے کی حییثت رکھتے ہیں۔اب یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پان کے کھوکھے کی طرح کھلے یہ نام نہاد ٹی وی چینل سوائے سیاستدانوں (کاروباری طبقہ) کے لا حاصل بحث و مباحثہ یا اشتہارات کے اپنی قومی فرائض منصبی میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
گزشتہ ماہ ایک اخباری خبر پر میرا مقامی نجی کالج میں منعقد ہونے والا کوئز پروگرام میں شرکت کا موقع نصیب میں آیا۔ معلوم ہوا کہ اس پروگرام کا انعقا د پاکستان کویز سوسائٹی (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام ہوا جس کے روح رواں پروفیسر حافظ نسیم الدین اور ان کے شریک ممبران کی انتھک محنت کے سبب ممکن ہو سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بغیر کسی تعطل کے شہر کی معروف تعلیمی درسگا ہوں کے طلبا و طالبات کے درمیان ذہنی آزمائش کے مقابلے سال کے بارہ مہینے اس سوسائٹی کے تحت جاری رہتے ہیں۔
یاد رہے ! حافظ نسیم ا لدین وہ خوش نصیب شخصیت ہیں جنہوں نے طارق عزیز کے مقبول ترین پروگرام ''نیلام گھر '' سے سب سے پہلے کار جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔پروگرام کے اختتام پر موصوف حافظ صاحب سے ایک مختصر مگر جامع ملاقا ت کا مو قع ملا ۔ہاتھ میں سفید چھڑی اور سیاہ چشمہ سے لیس ، قوت بینائی سے محروم (کمال دیکھیے کہ انھوں نے اس محرومی کو اپنی ذات پر قطعا حاوی ہونے نہیں دیا)، خود اعتمادی سے بھرپور اس بیکر اں علمی شخصیت نے لمحہ بھر کے لیے حیرانی کے سمندر میں غرق کر دیا۔ بے حد خوشی ہوئی کہ اس بھولے بسرے علمی سلسلہ کو منظم طریقہ سے عمل درآمد حافظ صاحب کی متذکرہ سوسائٹی کسی نہ کسی حوالہ سے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ خدشہ خارج از امکان ہے کہ ان پروگراموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بلاشبہ جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا وہ بھی سوسائٹی کے ذمے داروں کے لیے ایک چیلنج ہوگا جو ایک فطری عمل ہے ۔ یہاں میرا مقصد کسی فرد واحد کی تعریف نہیں بلکہ اس ضمن میں کی جانے والی کوششوں کو سراہنا ہے۔ میں جب چھوٹا تھا ، ہماری گلی میں ایک نابینا فقیر پنجابی زبان میں صدائیں دیا کرتا تھا ''ا کھیاں والو ! اکھیاں بڑی نیامت ہیں ''۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ میں سفید چھڑی کا عالمی دن بھی گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی اکتوبر کی پندرہ تاریخ کو منایا گیا جس میں ایسے ہی افراد کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
''ہمت مرداں مدد خدا'' کے رہنما اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے معلومات عامہ کی دنیا کو جدید تقاصوں سے ہم آہنگ کرنا ان کی زندگی کا اہم مشن ہے۔ خوش و خرم اور ہر قیمت پر اللہ کی نعمتوں پر شکر بجا لانے والی اس عظیم ا لقدر شخصیت کو دوسری علمی شخصیات سے ممتاز و افضل و منفرد بناتی ہے وہ یہ کہ انھوں نے ۱۴ سال کی کمسنی کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور یوں وہ حافظ قرآن بھی کہلائے۔ سر زمین وطن ــ''اکستان '' سے محبت و عشق کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے جامعہ کراچی سے مطالعہ پاکستان سے ماسٹر کی ڈگری امتیازی پوزیشن میں حاصل کی اور اس وقت اسی مضمون کی درس و تدریس میں گویا مشغول ہیں۔
طلبا و طالبات با الخصوص نئی نسل تحریک پاکستان کی شناسائی کے علم کا سہرا بلاشبہ نسیم بھائی کے سر جاتا ہے۔ تحریک پاکستان کے بارے میں معلومات کے خزانہ کا شہنشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ تحریک پاکستان سے متعلق چیدہ چیدہ اہم سوالات و جوابات پر مبنی ان کی حالیہ تصنیف ''الیکشن سے الیکشن تک'' حال ہی میں شا یع ہوئی ہے، آپ ضرور پڑہیے۔ سال میں مختلف مذہبی اور قومی مواقع پر موضوع کی مناسبت سے کوئز پروگراموں کی ترتیب و تدوین ان کی سوسائٹی کی دیرینہ روایت رہی ہے ۔ ان کا پورا طالبعلمی کا زمانہ ان کی کوئز مقابلوں کی فتوحات کی ایک طویل فہرست سے بھرا پڑا ہے جس کی ان کے درد مند اہل علم اور معزز ہم عصر بھی معترف ہیں۔
ایک اچھے انسان کے ناطے موصوف نہ صرف مشفق استاد ، تجزیہ کار، کئی تصانیف کے محقق و مولف ہیں بلکہ بہترین کوئز ماسٹر ، اچھے منتظم ، اچھے مشیر کے ساتھ ساتھ بذلہ سنج، جملے باز، جملہ ساز، با ہنر، حافظے پر کمال کی گرفت، علم کی قدر اور عالم کی پہچان بھی رکھتے ہیں۔ بین ا لکلیاتی ، بین ا لجامعاتی ، ریڈیو اور سماجی اداروں کے تحت مقا بلوں کا انعقاد، بے شمار قومی اور بین ا لاقوامی اعزازی ایوارڈز، لوئی بریل ایوارڈ، گولڈ میڈلز کی ایک طویل فہرست ان کی شخصیت کی مکمل اور روشن عکاس ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے اس کامیاب سفر کو اسی طرح جاری و ساری رکھے۔ (آمین !)