مزے مزے کے مشاعرے
اردو ادب کے اہم اور بڑے ادبا و شعرا کی تحریروں نے کتاب کی اہمیت اور دلچسپی میں اضافہ کردیا ہے۔
RAWALPINDI:
''مزے مزے کے مشاعرے'' کے عنوان سے حال ہی میں کتاب شایع ہوئی ہے جسے جناب شجاع الدین غوری نے مرتب کیا ہے، یہ 30 مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے اس سے قبل ان کی دوسری کتابیں ''یہ اقبالیے'' ، ''بذلہ سنجانِ کراچی''، ''نیرنگِ مزاح'' قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں اور مولف داد و تحسین وصول کرچکے ہیں۔
اردو ادب کے اہم اور بڑے ادبا و شعرا کی تحریروں نے کتاب کی اہمیت اور دلچسپی میں اضافہ کردیا ہے۔ طنز و مزاح کی کاٹ اور گزرے وقتوں کی تہذیب و ثقافت نے تحریروں کو دوآتشہ بنادیا ہے، الفاظ کی معنی آفرینی وسعت خیال اور اسلوب بیان کی سادگی اور شگفتگی دل کو موہ لیتی ہے، شجاع الدین غوری کا انتخاب مضامین ان کی علمیت اور شائستگی کو نمایاں کرتا ہے، تحریروں اور کتابوں سے ہٹ کر بھی ان کی شخصیت کا جائزہ لیں تو متانت، وضع داری اور خوش مزاجی کے بہت سے رنگ نظر آئیں گے۔ مذکورہ کتاب میں مولف کے مزاج کا عکس اور سوچ و فکر کے زاویے نظر آتے ہیں، اس حوالے سے چند مضامین سے دو، تین اقتباسات کی رونمائی نذر قارئین ہے۔
''متحرک مشاعرے'' حاجی لق لق کے افسانے سے ماخوذ ہے، پہلے تو ''متحرک مشاعرہ'' کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ مشاعرہ جو سرکس کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر تک حرکت کرے بلکہ موٹر یا گاڑی میں ہوتا چلا جائے ۔ حاجی لق لق تو فرماتے ہیں کہ اس قسم کے مشاعرے میں شریک ہونے کا موقع مجھے بھی ایک بار ملا ہے، جناب اختر شیرانی، حفیظ جالندھری، ہوشیار پوری اور سید الطاف مشہدی لائل پور کے مشاعرے میں شریک ہونے کے لیے جا رہے تھے، ہم لوگ لاری میں بیٹھے تھے۔
صبح کے وقت بیرون شہر کی فضا اور دیہات کے قدرتی مناظر سے شعرا حضرات کی طبعیتیں لہرا اٹھیں اور وہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے۔ ایک صاحب نے کہا ''کیا خوب چھیڑ چھاڑ ہے باد نسیم کی'' ۔ دوسرے حضرات بول اٹھے۔ پردہ اٹھا کے دیکھ لو لڑکی حکیم کی۔ تیسرے نے نہر دیکھ کر کہا ''اگر شراب رواں آبِ نہر ہوجاتا ۔ چوتھے نے مصرعہ لگایا۔ تو اس کے پہلو میں آباد شہر ہوجاتا۔ اس کے بعد باقاعدہ مشاعرہ شروع ہوگیا۔ ایک سواری کا یہ جملہ کیا کہنا تھا کہ بابو جی ماچس دینا، یہ فقرہ الطاف مشہدی کی زبان سے مصرعہ بدل گیا اور وہ بولے۔
ازراہ لطف و کرم بابو جی ماچس دینا، حفیظ جالندھری نے اس طرح شعر موزوں کیا۔
بزمِ اردو میں نئی شمع جلانا ہے مجھے
ازراہ لطف و کرم بابو جی ماچس دینا
اسی طرح مصرعہ ''طرح'' پر شعرا گرہ لگاتے رہے اور سفر تمام ہوا۔
سید ضمیر جعفری نے مشاعرے کے بارے میں لکھا ہے کہ بعض ممالک میں مشاعرہ بھی ہر وقت خارجی اور داخلی خطروں کی زد میں رہتا ہے اس کی موت عموماً داخلی خطروں یعنی خود شعرا کرام کے ہاتھوں واقع ہوتی ہے کسی انڈ و پاک سطح کے مشاعرے میں ظاہر ہے کہ آپ گنتی ہی کے شعرا کو مدعو کرسکتے ہیں۔ مگر وہاں شہر کا شہر شاعر ہوتا ہے۔ ضمیر جعفری صاحب کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ کسی بھی مشاعرے میں شریک حضرات سب کے سب شعر کہتے ہیں۔
شعرا و سامعین کی تعداد قریب قریب برابر ہوتی ہے۔ ماخوذ۔ مشاعرہ تو دلِ ناتواں نے خوب کہا۔
شجاع الدین غوری صاحب کے مضمون ''مشاعرے، مشاعرے، مشاعرے'' کے مطالعہ کے بعد اس بات کی وضاحت بخوبی ہوجاتی ہے کہ ''مشاعرے'' کب اور کن حالات میں وجود میں آئے کیونکہ آج تک کسی بھی زبان میں مشاعروں کی تاریخ مرتب نہیں ہوئی، البتہ فارسی ترکیبوں سے اتنی بات ضرور علم میں آئی ہے کہ جہاں چند سخن گو اور سخن سنج اصحاب جمع ہوکر اشعار سنیں اور سنائیں اور پھر داد و تحسین اور اصلاح کا فریضہ بھی انجام دیں ایسی صورت حال کو مشاعرے کا نام دیا گیا، میرتقی میر نے نکات الشعرا میں جا بہ جا شاعروں کا احول اور مشاعروں کا بھی ذکر کیا ہے۔
اس بات سے بھی آگاہی ہوتی ہے کہ دلی اور لکھنو میں ہونے والے مشاعروں میں ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ مشاعرے زیادہ تر ''طرحی'' اور بادشاہوں، امرا، شہزادوں کی سرپرستی میں منعقد ہوا کرتے تھے طرحی مشاعرے اس بات کا بھی پتا دیتے تھے کہ کس شاعر میں کتنی صلاحیت اور علمیت ہے، لیکن آج کل طرحی مشاعروں کی روایت دم توڑ چکی ہے اور مشاعرہ اب امتحان گاہ نہیں بلکہ تفریح طبع کا سامان بن چکا ہے۔
رام لال نابھوی کی تحریر ''مشاعرہ'' بھی شعری نشستوں کا حال بیان کرتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ '' پہلے مشاعرے زبان اور ادب کی خدمت کے لیے منعقد ہوتے تھے، زبان کا لطف لیا جاتا تھا، ادب کو نکھارا جاتا، شعرا حضرات ردیف و قافیہ کی پابندی سے اپنے دماغ سے اپنا ہی شعر نکالتے تھے، کبھی فی البدیہہ شعر فرماتے تھے، اچھے شعر پر حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، مباحثے اور مناظرے ہوتے تھے، تنقید ہوتی تھی، سامعین فیض یاب ہوتے تھے، لیکن اب مشاعرے کے افتتاح کے لیے کسی بڑے شخص یعنی لیڈر کو افتتاح یا صدارت کے لیے دعوت خاص دی جاتی ہے۔ پہلے بھی مشاعرے میں خواتین شامل ہوتی تھیں اور اب بھی تشریف لاتی ہیں بلکہ شاعرات کو مشاعرے کی کامیابی سے مشروط کیا جاتا ہے۔''
خاتون شاعرہ کے حوالے سے جناب مجتبیٰ حسین نے ''مشاعرے اور مجرے کا فرق'' میں لکھا ہے کہ پچھلے دنوں ہمارے دوست اور اردو کے بہی خواہ پروفیسر ستیہ پال آنند نے ہمیں امریکا سے خط لکھا تھا، اس میں ایک مشاعرے کی روداد بیان کی تھی کہ ''امریکا کے مشاعرے میں ایک شاعرہ جب اپنا کلام سنانے لگی تو ایک سامع کو جو حاضرین میں بیٹھا تھا اس کا کوئی شعر اتنا پسند آیا کہ اس نے اظہار پسندیدگی کے طور پر محفل میں بیٹھے بیٹھے شاعرہ کو دور ہی سے دس ڈالر کرنسی کا نوٹ دکھایا اس پر شاعرہ ڈائس سے اتر کر خراماں، خراماں دس ڈالر کے کرنسی نوٹ کے پاس آگئی اور اسے حاصل کیا۔''
ایسی ہی حرکتوں نے ان کے وقار کو مجروح کیا ہے اور خمار بارہ بنکوی یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ موجودہ دور کی شاعرات نے مشاعرے اور مجرے کے فرق کو ختم کردیا ہے۔'' گوکہ سب شاعرات دولت پر عزت کو قربان کرنے والی ہرگز نہیں ہیں، لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں کہ گھن کے ساتھ گیہوں بھی پستے ہیں، بس کچھ ایسا ہی معاملہ ہے، سستی شہرت کے حصول نے اخلاق و شرافت کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
مولف کا حسن نظر اور فکری وجدان ہی ہے کہ انمول شہ پارے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے ہیں، دھیرج گنج کا پہلا اور آخری مشاعرہ مشتاق احمد یوسفی کی تحریر ہے، اسی سے مشاعرہ کیسے لوٹا گیا ''دو ہنڈولوں کا تیل پہلے ہی ختم ہوچکا تھا، کچھ ہنڈولوں میں ہوا نہیں بھری گئی تھی وہ پھس کر کے بجھ گئے، ساغر جالونوی کے اعتراض کے بعد کسی شرارتی نے باقی ماندہ ہنڈولوں کو جھڑجھڑایا، ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہوگیا، اب مارپیٹ شروع ہوگئی لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا، چنانچہ بے قصور سامعین پٹ رہے تھے، کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے، اتنے میں کسی نے صدا لگائی بھائیو! ہٹو! بھاگو، بچو! حکیم صاحب کی بھینس رسی تڑا گئی ہے۔
یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگدڑ پڑی، اندھیری رات میں بھینس تو کسی کو دکھائی نہ دی لیکن لاٹھیوں سے مسلح مگر دہشت زدہ سامعین نے ایک دوسرے کو بھینس سمجھ کر خوب دھنائی کی لیکن یہ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے کیسے شناخت کرلیے اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں، ہر چیز جو چرائی جاسکتی تھی چرائی گئی، پانوں کی چاندی کی تھالی، درجنوں انگوچھے، تمام چاندنیاں، یتیم خانے کے چندے کی چھری، صندوقچی مع قفل فولادی، یتیم خانے کا سیاہ پرچم، صدر مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک، ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے والی منی ڈوئی خواجہ قمر الدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے، عطر میں بسا ریشمی رومال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا ہوا خط۔ اگر میں صاحب تحریر کا نام نہ بھی لکھتی تو ان کی تحریروں کا قاری بخوبی اس بات سے واقف ہوجاتا کہ موجودہ دور کے نثرنگار مشتاق احمد یوسفی میں جو مزاحیہ ادب کی آبرو اور وقار ہیں اور اس عہد کو عہد یوسفی کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔