لاہور کا بیٹا
صحت کی بنیادی سہولت پر توجہ دینے کی بات کی جائے تو یہ برا مان جاتے ہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر ایسے محیر العقل واقعات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے جن کو پڑھ سن کر اپنا سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہے ہیں جو کہ براہ راست عوام کی پریشانی سے متعلق ہیں، مگر ارباب اختیار اپنے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود ان عوامی مسائل کا کوئی قابل عمل حل نکالنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
حکمرانوں کی ناک تلے رائیونڈ میں سرکاری اسپتال کے باہر سڑک پر بچے کی پیدائش اس نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے شہریوں کو بہت ہی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے بھی قاصر ہیں اور اس ملک کے معماروں کی مائیں سڑکوں پر بچے جن رہی ہیں۔ ہاں ایک بات حکمرانوں کے حق میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جس سڑک پر اس بدنصیب ماں نے اپنے بچے کو جنم دیا وہ سڑک ہمارے حکمرانوں نے نئی تعمیر کی ہو کہ ان کو سڑکیں تعمیر کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔
صحت کی بنیادی سہولت پر توجہ دینے کی بات کی جائے تو یہ برا مان جاتے ہیں۔ سڑکوں کو بنیادی سہولت میں ہی شمار کرتے ہیں تا کہ ان نئی بنائی جانے والی سڑکوں پر مائیں آرام سے بچے جن سکیں۔ حکمران کی نیکی عوام الناس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی ہے لیکن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید زمین بھی ہم سے ناراض ہوکر دہل گئی ہے۔ مگر زمین نے تو کوئی ایسی زیادتی نہیں کی لیکن زمینی خداؤں نے اپنی علیحدہ سے حکومت بنا رکھی ہے جس میں ان کاا پنا بنایا گیا قانون ہی چلتا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔
وہ ملک جہاں پر مائیں سڑکوں پر ملک کی نئی نسل کو جنم دیں وہ بچہ جس کا ابھی نام بھی نہیں رکھا گیا اس نے آنکھ کھولتے ہی کس طرح کا لاہور دیکھ لیا۔ اس معصوم کو کیا پتہ کہ وہ کس عہد میں اس دنیا میں آ گیا ہے۔اشرافیہ کی اولاد کا دنیا میں آنے سے پہلے ہی یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ اس کی کس اسپتال میں پیدائش ہونی ہے، کس طرح اس کی تربیت کرنی اور کون سے اسکول میں اس کو پڑھانا ہے۔
لیکن لاہور کی سڑک پرپیدا ہونے والا یہ بے نام بچہ جب بڑا ہو گا تو اس وقت نہ جانے اس سڑک کا کیا نام ہوگا جس پر وہ پیدائش کے بعد لیٹا رہا اس حال میں کہ نہ اسے ماں کے بازو نصیب تھے اور نہ باپ کی گود۔ وہ ایک بے گھر بے وطن بے سہارا بچہ تھا جس نے بڑے ہو کر لاہور کی اس روڈ پر اپنا نام تلاش کرنا ہے۔ اس بچے کے لیے یہی بہتر ہے کہ اسے اپنی طبقاتی حیثیت کا ادراک دنیا میں آتے ہی ہو گیا۔
مبارک ہو میاں صاحب کو کہ ان کے بچے تو جن اسپتالوں میں پیدا ہوئے جہاں دنیا جہان کی سہولت موجود تھی ان کے بچوں نے ارب پتی ماحول میں آنکھ کھولی دوسری طرف یہ بچہ جس نے رائیونڈ کے سرکاری اسپتال کے باہر سڑک پر ہاتھ پاؤں مارے اور اپنی پاکستان آمد کا اعلان کیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ یہاں سے کسی آوارہ کتے کا گزر نہیں ہوا اور وہ زندہ بچ گیا۔
ویسے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بچے نے جس ماحول میں آنکھ کھولی ہے وہی ماحول اس کا زندگی بھر کا معمول ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری اشرافیہ نے کبھی بھی اس طبقے کو ترقی کی جانب بڑھنے نہیں دینا۔ اس لیے شاید یہ بہتر ہی ہو گیا ہے کہ اس نامعلوم بچے کو دنیا میں آتے ہی یہ پیغام مل گیا کہ اس کو آنے والی زندگی میں کس طرح کے حالات کا سامنا اور مقابلہ کرنا ہے۔
ایسے کتنے ہی بچے ہر روز نامساعد حالات میں اس دنیا میں اپنی بے بسی کا اعلان کرتے آتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں صحت جیسی اہم سہولت کو ہر حکومت نے کبھی بھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا جس کی وجہ سے صحت کے میدان میں ابتری ہی ابتری نظر آتی ہے بہتری کے دعوے صرف تقریروں میں سنائی دیتے ہیں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں اور ہم روزانہ ہی ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے بارے میں زبردست اشتہاری مہمیں بھی چلائی جاتی ہیں جن پر لاکھوں نہیں کروڑوں خرچ ہوتے ہیں اور یہ اشتہار عوام سے جمع کیے گئے ٹیکسوں سے شایع کرانے کے لیے ہمارے لیڈر حضرات کی خوبصورت تصاویر سے مزین ہوتے ہیں۔ کیا یہ لیڈروں کا حق ہے کہ وہ عوامی پیسے پر اپنی ذاتی تشہیر کریں۔ اگر انھی تشہیری مہموں پر آنے والے اخراجات کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کر لیا جائے تو میرا خیال ہے جو دعائیں عوام کے دل سے نکلیں گی وہ سیدھی ان حکمرانوں کو جا لگیں گی اور ان کو کسی تشہیری مہم جوئی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
لیکن یہ بات ان لیڈروں کو کون سمجھائے وہ تو صرف اپنے آپ کو ہی عوام کے پیسوں سے عوام کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بہر حال سڑکوں پر ایمبولینسوں کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے، اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث اور رکشوں میں دھکے کھاتی خواتین پہلے بھی سڑکوں پر ہی زچگی کے عمل سے گزرتی رہی ہیں اور مجھے امید ہے کہ آتے جاتے بے رحم حکمرانوں کی حکمرانی میں اس قوم کی مائیں سڑکوں پر ہی بچے جنتی رہیں گی جیسے کہ رائیونڈ کے اسپتال کے باہر لاہور کا ایک بیٹا اس دنیا میں آیا ہے۔
حکمرانوں کی ناک تلے رائیونڈ میں سرکاری اسپتال کے باہر سڑک پر بچے کی پیدائش اس نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے شہریوں کو بہت ہی بنیادی سہولتوں کی فراہمی سے بھی قاصر ہیں اور اس ملک کے معماروں کی مائیں سڑکوں پر بچے جن رہی ہیں۔ ہاں ایک بات حکمرانوں کے حق میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جس سڑک پر اس بدنصیب ماں نے اپنے بچے کو جنم دیا وہ سڑک ہمارے حکمرانوں نے نئی تعمیر کی ہو کہ ان کو سڑکیں تعمیر کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔
صحت کی بنیادی سہولت پر توجہ دینے کی بات کی جائے تو یہ برا مان جاتے ہیں۔ سڑکوں کو بنیادی سہولت میں ہی شمار کرتے ہیں تا کہ ان نئی بنائی جانے والی سڑکوں پر مائیں آرام سے بچے جن سکیں۔ حکمران کی نیکی عوام الناس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی ہے لیکن اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید زمین بھی ہم سے ناراض ہوکر دہل گئی ہے۔ مگر زمین نے تو کوئی ایسی زیادتی نہیں کی لیکن زمینی خداؤں نے اپنی علیحدہ سے حکومت بنا رکھی ہے جس میں ان کاا پنا بنایا گیا قانون ہی چلتا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔
وہ ملک جہاں پر مائیں سڑکوں پر ملک کی نئی نسل کو جنم دیں وہ بچہ جس کا ابھی نام بھی نہیں رکھا گیا اس نے آنکھ کھولتے ہی کس طرح کا لاہور دیکھ لیا۔ اس معصوم کو کیا پتہ کہ وہ کس عہد میں اس دنیا میں آ گیا ہے۔اشرافیہ کی اولاد کا دنیا میں آنے سے پہلے ہی یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ اس کی کس اسپتال میں پیدائش ہونی ہے، کس طرح اس کی تربیت کرنی اور کون سے اسکول میں اس کو پڑھانا ہے۔
لیکن لاہور کی سڑک پرپیدا ہونے والا یہ بے نام بچہ جب بڑا ہو گا تو اس وقت نہ جانے اس سڑک کا کیا نام ہوگا جس پر وہ پیدائش کے بعد لیٹا رہا اس حال میں کہ نہ اسے ماں کے بازو نصیب تھے اور نہ باپ کی گود۔ وہ ایک بے گھر بے وطن بے سہارا بچہ تھا جس نے بڑے ہو کر لاہور کی اس روڈ پر اپنا نام تلاش کرنا ہے۔ اس بچے کے لیے یہی بہتر ہے کہ اسے اپنی طبقاتی حیثیت کا ادراک دنیا میں آتے ہی ہو گیا۔
مبارک ہو میاں صاحب کو کہ ان کے بچے تو جن اسپتالوں میں پیدا ہوئے جہاں دنیا جہان کی سہولت موجود تھی ان کے بچوں نے ارب پتی ماحول میں آنکھ کھولی دوسری طرف یہ بچہ جس نے رائیونڈ کے سرکاری اسپتال کے باہر سڑک پر ہاتھ پاؤں مارے اور اپنی پاکستان آمد کا اعلان کیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ یہاں سے کسی آوارہ کتے کا گزر نہیں ہوا اور وہ زندہ بچ گیا۔
ویسے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ اس بچے نے جس ماحول میں آنکھ کھولی ہے وہی ماحول اس کا زندگی بھر کا معمول ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری اشرافیہ نے کبھی بھی اس طبقے کو ترقی کی جانب بڑھنے نہیں دینا۔ اس لیے شاید یہ بہتر ہی ہو گیا ہے کہ اس نامعلوم بچے کو دنیا میں آتے ہی یہ پیغام مل گیا کہ اس کو آنے والی زندگی میں کس طرح کے حالات کا سامنا اور مقابلہ کرنا ہے۔
ایسے کتنے ہی بچے ہر روز نامساعد حالات میں اس دنیا میں اپنی بے بسی کا اعلان کرتے آتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں صحت جیسی اہم سہولت کو ہر حکومت نے کبھی بھی اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھا جس کی وجہ سے صحت کے میدان میں ابتری ہی ابتری نظر آتی ہے بہتری کے دعوے صرف تقریروں میں سنائی دیتے ہیں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں اور ہم روزانہ ہی ان کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے بارے میں زبردست اشتہاری مہمیں بھی چلائی جاتی ہیں جن پر لاکھوں نہیں کروڑوں خرچ ہوتے ہیں اور یہ اشتہار عوام سے جمع کیے گئے ٹیکسوں سے شایع کرانے کے لیے ہمارے لیڈر حضرات کی خوبصورت تصاویر سے مزین ہوتے ہیں۔ کیا یہ لیڈروں کا حق ہے کہ وہ عوامی پیسے پر اپنی ذاتی تشہیر کریں۔ اگر انھی تشہیری مہموں پر آنے والے اخراجات کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کر لیا جائے تو میرا خیال ہے جو دعائیں عوام کے دل سے نکلیں گی وہ سیدھی ان حکمرانوں کو جا لگیں گی اور ان کو کسی تشہیری مہم جوئی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
لیکن یہ بات ان لیڈروں کو کون سمجھائے وہ تو صرف اپنے آپ کو ہی عوام کے پیسوں سے عوام کے سامنے ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بہر حال سڑکوں پر ایمبولینسوں کو راستہ نہ ملنے کی وجہ سے، اسپتالوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث اور رکشوں میں دھکے کھاتی خواتین پہلے بھی سڑکوں پر ہی زچگی کے عمل سے گزرتی رہی ہیں اور مجھے امید ہے کہ آتے جاتے بے رحم حکمرانوں کی حکمرانی میں اس قوم کی مائیں سڑکوں پر ہی بچے جنتی رہیں گی جیسے کہ رائیونڈ کے اسپتال کے باہر لاہور کا ایک بیٹا اس دنیا میں آیا ہے۔