مابعد جدید اردو تنقید
سامراج اگر ’’پہلا‘‘ ہے تو استحصال زدہ، ناانصافیوں کا شکار اور محروم طبقات و اقوام اس کا ’’دوسرا‘‘ یا اس کا معروض ہیں۔
مغربی مابعد جدیدیت اور اردو کی ادبی تنقید کے مابین امتزاج کا خیال انھی ''ناقدین'' کے ذہن میں جنم لیتا ہے جو ''امتزاج'' اور ''وحدت'' کے فلسفیانہ مفاہیم کا کچھ ادراک نہیں رکھتے۔ مغربی مابعد جدیدیت جن تعقلات پر استوار ہے وہ مغربی علم الوجود، الٰہیاتی مابعد الطبیعات اور منطقی تعقلات کی نفی سے عبارت ہیں۔ ان نکات کی وضاحت مغربی مابعد جدید ناقدین نے غیر مبہم انداز میں کردی ہے اور اس کے بارے میں کم ازکم اب کسی طرح کی کوئی پیچیدگی نہیں پائی جاتی ۔ اردو ادبی تنقید میں ''امتزاج'' کا مقولہ اپنی سرشت میں مابعد جدیدیت کے بنیادی تعقلات سے متصادم ہے۔ مابعد جدید فکر میں فاعل یا متن کے اندر شگاف اور فتق (Rupture) کو دکھانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ''وحدت یا امتزاج'' کو روکا جاسکے۔
انھی دو مقولات کی وجہ سے ''دوسرے'' کا آزادانہ وجود خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ انھی متخالف موضوعات کے مابین ''مصالحت'' یا دو مختلف علمی و فکری رجحانات کے مابین تفریق و تضاد کی تحلیل مابعد جدیدیت کے لاتشکیلی رجحان سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ کم از کم بیسویں صدی میں اس قسم کی کوئی کوشش مغرب میں نہیں ہوئی ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے جب ''تحریریات'' میں لکھا کہ ڈی کنسٹرکشن ساختوں کو باہر سے نہیں اندر سے غیر مستحکم کرتی ہے تو اس وقت اس کے ذہن میں خارجیت کا وہی مفہوم تھا جس کی تخفیف کے بغیر ''امتزاج'' یا ''وحدت'' کے مقولے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا تھا۔ تفکری جدلیات اور مادی جدلیات کے مابین ایک انتہائی بنیادی فرق یہی ہے کہ تفکری جدلیات تضادات کو خیال کی سطح پر تحلیل کرتی ہے جب کہ مادی جدلیات میں تضادات کی تحلیل مخصوص حالات کے تحت ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت میں الٰہیاتی مابعد الطبیعات، علم الوجود اور منطق کی ہر بحث کا بنیادی مقصد ''دوسرے'' (Other) کو نجات دلانا ہے، یعنی مغرب اگر پہلا ہے تو مشرق اس کا ''دوسرا'' ہے۔
سامراج اگر ''پہلا'' ہے تو استحصال زدہ، ناانصافیوں کا شکار اور محروم طبقات و اقوام اس کا ''دوسرا'' یا اس کا معروض ہیں۔ مصنف اگر ''پہلا'' ہے تو قاری اس کا ''دوسرا'' ہے جو مصنف کی منشا و مرضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متن سے معنی کی تشکیل و ارتقا کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ ژاک دریدا، رولاں بارتھ اور چارلس جینکس سمیت کئی دوسرے مغربی فلسفیوں اور ناقدین نے اس ایک نکتے پر بہت زیادہ زور دیا ہے کہ علمیات، اخلاقیات، جمالیات، سماجیات اور سیاسیات کے حوالے سے اس فوقیتی ترتیب کو ختم کردیا جائے جو ''دوسرے'' کو ''پہلے'' کا محتاج بنا دیتی ہے، بلکہ یہاں تک کہ ''دوسرے'' کی مرکزیت بھی قائم نہ کی جائے، کہیں وہی مثبت و منفی کی ترتیب دوبارہ عمل میں نہ آجائے۔ ''دوسرے'' کی حقیقی آزادی اس وقت شروع ہوتی ہے جب اس کو ''پہلے'' کے جبر سے آزاد کرا دیا جائے گا۔ یہ انتہائی اہم نکتہ ذہن نشین رہے کہ مابعد جدید مفکروں کے عدم تعقلات جیسا کہ افتراق، امتیاز اور التوا کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان کو ''دوسرے'' پر لاگو کردیا جائے، کیونکہ یہ تو خود مغربی مابعد الطبیعاتی متون کے مطالعے کا ماحصل ہیں، جن کو صرف ''دوسرے'' کو آزاد کرانے کے لیے تراشا گیا ہے۔ آزادی کے بعد ''دوسرا'' خود اپنے تعقلات کی تشکیل کرے گا۔ وہ ایک مخصوص شکل میں اپنا اظہار کرے گا۔
دریدا کی لاتشکیل پر جب حملہ کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ''دوسرے'' کو پہلے سے آزاد کراکے اس کو اس کے ''دوسرے پن'' میں جاننا ہی لاتشکیل کی اصل روح ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہ مغربی سامراجی ثقافتی یلغار کا شکار طبقات اور اقوام کو نجات دلانا ہی لاتشکیل کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کے لیے ہمارے سامنے دہشت پسند سامراجی معنی کو ''افتراق و التوا'' کا شکار کرنے والی اصطلاحات پیش کی جاتی ہیں، تاکہ مختلف طبقات اور اقوام کے درمیان ''فرق'' برقرار رہے اور ان اقوام کو ان کے ''خود'' میں جانا جائے۔ سارتر اور فینن کے یہی بنیادی مقدمات تھے جو یہودی مفکرین عمانوئیل لیویناس اور دریدا کی لاتشکیل کی شکل میں انتہا کو پہنچ گئے۔
اردو تنقید میں مابعد جدیدیت کی تبلیغ تو کی گئی ہے، لیکن اس بنیادی خیال تک رسائی حاصل نہیں کی گئی ہے کہ ''دوسرا'' حقیقت میں ہے کیا چیز! جب مابعد جدیدیت کے بنیادی مقولات یعنی''افتراق'' اور ''دوسرے'' کے ''دوسرے پن'' کو حتمی تصور کرلیتے ہیں تو پھر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ مابعد جدیدیت کے برآمد کردہ ان تمام نتائج کو بالائے طاق رکھ دیا جائے جن کا اردو تنقید میں مابعد جدیدیت کے نام پر اطلاق کیا جارہا ہے تاکہ ''دوسرے'' کی حقیقت سامنے آسکے۔ اردو زبان جو مغربی سامراجی زبانوں کا ''دوسرا'' صرف اس لیے بنی رہی ہے کہ اسے سامراجی زبانوں کے تعقلات کی تشریح و توضیح پر لگا دیا گیا تھا۔ اسے اس کے اپنے ثقافتی و سماجی پس منظر میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ اردو ''ناقدین'' کی اکثریت بالخصوص پاکستان میں اس کے شارحین مابعد جدیدیت کی تفہیم سے مکمل طور پر عاری رہے۔ اثبات ذات کے لیے انھوں نے سرقوں اور نقالی کا سہارا لیا اور تمام زندگی نقالی اور سرقہ ہی ان کی اولین ترجیح بنے رہے۔
انھوں نے مابعد جدیدیت کے بنیادی تعقلات کی تفہیم کے بغیر صرف مغربی مابعد جدید ناقدین کے نتائج کو قبول کرتے ہوئے، ادب اور شاعری کو ان کے سماجی پس منظر میں دیکھنے کے بجائے اندھا دھند، انھی تعقلات کا ادب و شاعری پر اطلاق کرنا شروع کردیا، جن کی نفی ''دوسرے'' کے ''دوسرے پن'' تک پہنچنے کے لیے ضروری تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ''دوسرا'' ابھی تک سامراجی یلغار کا شکار ہے اور اپنے اظہار کے ذرایع تلاش کررہا ہے۔ مابعد جدیدیت نے ''پہلے'' کے جس جبر کو ختم کیا جو جدیدیت کی شکل میں بھی اردو میں درآمد کرلیا گیا تھا، اردو کے مابعد جدید ''ناقدین'' نے اس جبر کو ایک بار پھر قائم کردیا۔ مصنف کی موت، معنی کی غیر حتمیت، تضادات اور روزنوں کا انکشاف ایسے نتائج ہیں جن کو دکھانا ''دوسرے'' کے جداگانہ وجود کو ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا۔
حقیقی چیلنج یہ تھا کہ مغربی مابعد جدید فلسفیوں اور ناقدین کے نتائج کو سمجھا جاتا اور اپنے معاشروں کی حقیقی معاشی ساخت اور اس کی بالائی اشکال یعنی الٰہیاتی رجحانات، علم الوجود، منطق کی حقیقت اور شعری و ادبی متون کے سماجی و ثقافتی پس منظر اور پیش منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشریح و توضیح کا سلسلہ قائم کیا جاتا تاکہ وہ ''دوسرا'' جو صدیوں سے مغربی اور امریکی سامراجی افکار کی زد میں آکر اپنی شناخت کھو چکا تھا وہ خود کو منکشف کرپاتا۔ اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے پہلے ہی سے یہ تصور کرنا ضروری نہیں تھا کہ معنی کو التوا میں لے جایا جائے، بلکہ معنی ایک ٹھوس سماجی پس منظر میں اپنا اظہار کرے یا عدم اظہار تک محدود رہے، کیونکہ معنی کے بدیہی التوا کا تصور خود مابعد جدید علمیات، جمالیات اوراخلاقیات سے متصادم ہے۔ جب ''دوسرے'' کو ''دوسرے'' کے اندر یعنی اس کے اپنے تلازمات اور انسلاکات کے تحت جانا جائے گا تو سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی ہیئتوں سے منسلک وہ معنی برآمد ہوگا جو ''دوسرے'' کی حقیقی شناخت کو تسلیم کرانے کے لیے ناگزیر ہے۔
مابعد جدیدیت پر لکھنے والے اردو کے ''ناقدین'' کا سب سے بنیادی المیہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی نہ ہی مغربی جامعات سے تربیت حاصل کی ہے کہ جس سے انھیں جامعات کے نصاب میں مابعد جدید تھیوری کی حقیقت کا ادراک ہوسکے اور نہ ہی یہ لوگ مغربی معاشروں میں رہے ہیں کہ یہاں کی ثقافتی اشکال اور سماجی رویوں کا ہی باریکی سے مشاہدہ کرسکیں۔ بیشتر کا علم ثانوی ذرایع سے ماخوذ ہے، جو خطرناک حد تک گمراہ کن ثابت ہوا ہے۔
انھی دو مقولات کی وجہ سے ''دوسرے'' کا آزادانہ وجود خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ انھی متخالف موضوعات کے مابین ''مصالحت'' یا دو مختلف علمی و فکری رجحانات کے مابین تفریق و تضاد کی تحلیل مابعد جدیدیت کے لاتشکیلی رجحان سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ کم از کم بیسویں صدی میں اس قسم کی کوئی کوشش مغرب میں نہیں ہوئی ہے۔ فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے جب ''تحریریات'' میں لکھا کہ ڈی کنسٹرکشن ساختوں کو باہر سے نہیں اندر سے غیر مستحکم کرتی ہے تو اس وقت اس کے ذہن میں خارجیت کا وہی مفہوم تھا جس کی تخفیف کے بغیر ''امتزاج'' یا ''وحدت'' کے مقولے کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا تھا۔ تفکری جدلیات اور مادی جدلیات کے مابین ایک انتہائی بنیادی فرق یہی ہے کہ تفکری جدلیات تضادات کو خیال کی سطح پر تحلیل کرتی ہے جب کہ مادی جدلیات میں تضادات کی تحلیل مخصوص حالات کے تحت ہوتی ہے۔ مابعد جدیدیت میں الٰہیاتی مابعد الطبیعات، علم الوجود اور منطق کی ہر بحث کا بنیادی مقصد ''دوسرے'' (Other) کو نجات دلانا ہے، یعنی مغرب اگر پہلا ہے تو مشرق اس کا ''دوسرا'' ہے۔
سامراج اگر ''پہلا'' ہے تو استحصال زدہ، ناانصافیوں کا شکار اور محروم طبقات و اقوام اس کا ''دوسرا'' یا اس کا معروض ہیں۔ مصنف اگر ''پہلا'' ہے تو قاری اس کا ''دوسرا'' ہے جو مصنف کی منشا و مرضی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متن سے معنی کی تشکیل و ارتقا کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ ژاک دریدا، رولاں بارتھ اور چارلس جینکس سمیت کئی دوسرے مغربی فلسفیوں اور ناقدین نے اس ایک نکتے پر بہت زیادہ زور دیا ہے کہ علمیات، اخلاقیات، جمالیات، سماجیات اور سیاسیات کے حوالے سے اس فوقیتی ترتیب کو ختم کردیا جائے جو ''دوسرے'' کو ''پہلے'' کا محتاج بنا دیتی ہے، بلکہ یہاں تک کہ ''دوسرے'' کی مرکزیت بھی قائم نہ کی جائے، کہیں وہی مثبت و منفی کی ترتیب دوبارہ عمل میں نہ آجائے۔ ''دوسرے'' کی حقیقی آزادی اس وقت شروع ہوتی ہے جب اس کو ''پہلے'' کے جبر سے آزاد کرا دیا جائے گا۔ یہ انتہائی اہم نکتہ ذہن نشین رہے کہ مابعد جدید مفکروں کے عدم تعقلات جیسا کہ افتراق، امتیاز اور التوا کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان کو ''دوسرے'' پر لاگو کردیا جائے، کیونکہ یہ تو خود مغربی مابعد الطبیعاتی متون کے مطالعے کا ماحصل ہیں، جن کو صرف ''دوسرے'' کو آزاد کرانے کے لیے تراشا گیا ہے۔ آزادی کے بعد ''دوسرا'' خود اپنے تعقلات کی تشکیل کرے گا۔ وہ ایک مخصوص شکل میں اپنا اظہار کرے گا۔
دریدا کی لاتشکیل پر جب حملہ کیا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ''دوسرے'' کو پہلے سے آزاد کراکے اس کو اس کے ''دوسرے پن'' میں جاننا ہی لاتشکیل کی اصل روح ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہ مغربی سامراجی ثقافتی یلغار کا شکار طبقات اور اقوام کو نجات دلانا ہی لاتشکیل کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کے لیے ہمارے سامنے دہشت پسند سامراجی معنی کو ''افتراق و التوا'' کا شکار کرنے والی اصطلاحات پیش کی جاتی ہیں، تاکہ مختلف طبقات اور اقوام کے درمیان ''فرق'' برقرار رہے اور ان اقوام کو ان کے ''خود'' میں جانا جائے۔ سارتر اور فینن کے یہی بنیادی مقدمات تھے جو یہودی مفکرین عمانوئیل لیویناس اور دریدا کی لاتشکیل کی شکل میں انتہا کو پہنچ گئے۔
اردو تنقید میں مابعد جدیدیت کی تبلیغ تو کی گئی ہے، لیکن اس بنیادی خیال تک رسائی حاصل نہیں کی گئی ہے کہ ''دوسرا'' حقیقت میں ہے کیا چیز! جب مابعد جدیدیت کے بنیادی مقولات یعنی''افتراق'' اور ''دوسرے'' کے ''دوسرے پن'' کو حتمی تصور کرلیتے ہیں تو پھر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ مابعد جدیدیت کے برآمد کردہ ان تمام نتائج کو بالائے طاق رکھ دیا جائے جن کا اردو تنقید میں مابعد جدیدیت کے نام پر اطلاق کیا جارہا ہے تاکہ ''دوسرے'' کی حقیقت سامنے آسکے۔ اردو زبان جو مغربی سامراجی زبانوں کا ''دوسرا'' صرف اس لیے بنی رہی ہے کہ اسے سامراجی زبانوں کے تعقلات کی تشریح و توضیح پر لگا دیا گیا تھا۔ اسے اس کے اپنے ثقافتی و سماجی پس منظر میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ اردو ''ناقدین'' کی اکثریت بالخصوص پاکستان میں اس کے شارحین مابعد جدیدیت کی تفہیم سے مکمل طور پر عاری رہے۔ اثبات ذات کے لیے انھوں نے سرقوں اور نقالی کا سہارا لیا اور تمام زندگی نقالی اور سرقہ ہی ان کی اولین ترجیح بنے رہے۔
انھوں نے مابعد جدیدیت کے بنیادی تعقلات کی تفہیم کے بغیر صرف مغربی مابعد جدید ناقدین کے نتائج کو قبول کرتے ہوئے، ادب اور شاعری کو ان کے سماجی پس منظر میں دیکھنے کے بجائے اندھا دھند، انھی تعقلات کا ادب و شاعری پر اطلاق کرنا شروع کردیا، جن کی نفی ''دوسرے'' کے ''دوسرے پن'' تک پہنچنے کے لیے ضروری تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ''دوسرا'' ابھی تک سامراجی یلغار کا شکار ہے اور اپنے اظہار کے ذرایع تلاش کررہا ہے۔ مابعد جدیدیت نے ''پہلے'' کے جس جبر کو ختم کیا جو جدیدیت کی شکل میں بھی اردو میں درآمد کرلیا گیا تھا، اردو کے مابعد جدید ''ناقدین'' نے اس جبر کو ایک بار پھر قائم کردیا۔ مصنف کی موت، معنی کی غیر حتمیت، تضادات اور روزنوں کا انکشاف ایسے نتائج ہیں جن کو دکھانا ''دوسرے'' کے جداگانہ وجود کو ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا۔
حقیقی چیلنج یہ تھا کہ مغربی مابعد جدید فلسفیوں اور ناقدین کے نتائج کو سمجھا جاتا اور اپنے معاشروں کی حقیقی معاشی ساخت اور اس کی بالائی اشکال یعنی الٰہیاتی رجحانات، علم الوجود، منطق کی حقیقت اور شعری و ادبی متون کے سماجی و ثقافتی پس منظر اور پیش منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشریح و توضیح کا سلسلہ قائم کیا جاتا تاکہ وہ ''دوسرا'' جو صدیوں سے مغربی اور امریکی سامراجی افکار کی زد میں آکر اپنی شناخت کھو چکا تھا وہ خود کو منکشف کرپاتا۔ اس عمل کو جاری رکھنے کے لیے پہلے ہی سے یہ تصور کرنا ضروری نہیں تھا کہ معنی کو التوا میں لے جایا جائے، بلکہ معنی ایک ٹھوس سماجی پس منظر میں اپنا اظہار کرے یا عدم اظہار تک محدود رہے، کیونکہ معنی کے بدیہی التوا کا تصور خود مابعد جدید علمیات، جمالیات اوراخلاقیات سے متصادم ہے۔ جب ''دوسرے'' کو ''دوسرے'' کے اندر یعنی اس کے اپنے تلازمات اور انسلاکات کے تحت جانا جائے گا تو سماجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی ہیئتوں سے منسلک وہ معنی برآمد ہوگا جو ''دوسرے'' کی حقیقی شناخت کو تسلیم کرانے کے لیے ناگزیر ہے۔
مابعد جدیدیت پر لکھنے والے اردو کے ''ناقدین'' کا سب سے بنیادی المیہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی نہ ہی مغربی جامعات سے تربیت حاصل کی ہے کہ جس سے انھیں جامعات کے نصاب میں مابعد جدید تھیوری کی حقیقت کا ادراک ہوسکے اور نہ ہی یہ لوگ مغربی معاشروں میں رہے ہیں کہ یہاں کی ثقافتی اشکال اور سماجی رویوں کا ہی باریکی سے مشاہدہ کرسکیں۔ بیشتر کا علم ثانوی ذرایع سے ماخوذ ہے، جو خطرناک حد تک گمراہ کن ثابت ہوا ہے۔