پاکستانی معیشت کی حقیقت
پہلے ہی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد ٹیکسوں اور کسٹم ڈیوٹی میں بہت بڑی چھوٹ حاصل کر رہے ہیں۔
وسائل میں پاکستان سیکڑوں ملکوں سے آگے ہے۔ یہاں سونا، تیل، گیس، کوئلہ، تانبہ، چاول، نمک، گندم، کپاس، کینو، دودھ، چمڑا، مچھلی، پھل اور سبزی غرضیکہ ہر چیز کا ریکارڈ ذخیرہ اور پیداوار ہے، مگر معیشت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے اور دوسری جانب کروڑوں عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، بھوک اور غذائی قلت سے مر رہے ہیں، بیماری اور قدرتی آفات میں جان سے جا رہے ہیں جب کہ 1 فیصد لوگوں کے پاس دنیا کی ساری سہولتیں موجود ہیں۔ لہٰذا آنے والے دنوں میں ہماری معیشت میں بہتری آنے کا کوئی امکان نہیں بلکہ مزید بدتری آئے گی۔
صرف فروری 2013 میں پاکستان کو 520 ملین ڈالر کی ادائیگی کرنی تھی، پاکستان نے آئی ایم ایف سے وصول کردہ 7.80 ارب ڈالر میں صرف 2.38 ارب ڈالر واپس کیے ہیں، لیکن کرنسی ماہرین کے مطابق گزشتہ چار سال میں روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث پاکستان کو 21 فیصد زیادہ ادائیگی کرنی پڑے گی، جب 2008 میں پاکستان نے قرضہ لیا تھا اس وقت ڈالر 79 روپے کا تھا، جو اب 100 روپے کا ہوگیا ہے، حاصل کردہ قرضے میں سے ابھی 5.42 ارب ڈالر 2014-15 تک مزید قسطوں میں واپس کرنے ہیں۔ پاکستان اس قرضے پر 2.5 فیصد سود بھی ہر سال ادا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر میں گراوٹ سے قرضے میں 5.5 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے۔
درحقیقت پاکستانی معیشت قرضے کے چنگل میں پھنس چکی ہے جہاں اب اسے پرانے قرضے واپس کرنے کے لیے مسلسل نئے قرضوں کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کے اندرونی قرضوں میں بھی گزشتہ ایک سال میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے جو 15 دسمبر 2012 تک 12600 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہ گزشتہ سال کی نسبت دگنے ہیں، گزشتہ سال اسی وقت یہ 6370 ارب روپے تھے، فروری 2013 میں یہ حجم 15 کھرب روپے سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری ہونے والی مالیاتی رپورٹ کے مطابق قرضوں اور جی ڈی پی کی شرح 60 فیصد کی خطرناک حد عبور کرچکی ہے اور مالی سال 2011-12 کے اختتام پر یہ 61.3 فیصد تھی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2012 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق 2012 کے آخر تک یہ شرح 62.6 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ مالیاتی خسارہ 8.5 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ جون 2008 کے اختتام سے لے کر 2012 کے اختتام تک اندرونی قرضوں میں 13.3 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 7638 ارب روپے تک پہنچ گیا، یعنی موجودہ حکومت نے 4 سال میں جتنا قرضہ لیا ہے اتنا گزشتہ ساٹھ برسوں کی حکومتوں نے مل کر بھی نہیں لیا۔ اسی باعث 2012 کے اختتام تک ہر پاکستانی 72 ہزار روپے کا مقروض ہوگیا۔
اپنے بدترین بحران میں بھی حکومت سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے اور دولت مند افراد سے ٹیکس لینے کی کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں۔ تمام قرضوں کا بوجھ عام آدمی کے کاندھوں پر ڈالا جاتا ہے اور اس کی خون پسینے کی کمائی کو بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے چھین لیا جاتا ہے۔ پٹرول اور بجلی سمیت ضروریات زندگی کی ہر چیز پر ٹیکس بڑھایا جارہا ہے جب کہ دولت مند افراد سے براہ راست ٹیکس وصول کرنے کے اہداف میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ دولت مند افراد جو دونوں ہاتھوں سے غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں، ان کے لیے تو بنیادی اشیاء کی مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی، عذاب نازل ہوتا ہے تو محنت کشوں پر جن کی آمدنی پہلے ہی کم ہے اور بالواسطہ ٹیکس میں ہونے والے اضافے سے ہونے والی مہنگائی اس کے معیار زندگی کو مزید گہری کھائی میں دھکیل دیتی ہے۔
پاکستان میں صرف0.6 فیصد لوگ براہ راست ٹیکس ادا کرتے ہیں، پہلے ہی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے افراد ٹیکسوں اور کسٹم ڈیوٹی میں بہت بڑی چھوٹ حاصل کر رہے ہیں۔ 2008 سے لے کر 2012 کے آخر تک ملک 298 ارب روپے سے زیادہ کا انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس چہیتے افراد کو معاف کرچکی ہے۔ اسی طرح اس عرصے کے دوران 420 ارب روپے سے زائد کا کسٹم معاف کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ برسوں میں خصوصی صدارتی حکم ناموں SRO کے ذریعے تقریباً 84 فیصد ٹیرف اور ڈیوٹی ریٹ میں کمی یا خاتمہ کردیا گیا ہے جس کے سرمایہ داروں کے بااثر گروہ کام کر رہے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2012 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملکی بینکوں سے قرضوں کے حصول میں46 فیصد اضافہ ہوا اور وہ 3.8 کھرب روپے کے حجم تک پہنچ گئے۔ بجلی اور گیس کی بندش کی وجہ سے صرف پنجاب میں 40 فیصد صنعتیں بند ہوچکی ہیں، آئی ایم ایف کے اعدادوشمار کے مطابق 2012 میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد کے قریب رہی۔ 2012 کے Legatum سروے کے مطابق ایشیا پیسفک خطے میں پاکستان کی معیشت سب سے زیادہ خستہ حال ہے۔ دنیا کے 142 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 132 واں ہے۔
بجلی کا بحران بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے، لیکن عوام سے جھوٹ بولا جارہا ہے کہ اس بحران کی وجہ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔ جس کے لیے نئے ڈیم اور بجلی گھر چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں موجود پیداواری صلاحیت اتنی زیادہ ہے کہ ملک کی تمام ضروریات پوری کرنے کے بعد بھی بجلی بچ سکتی ہے بلکہ برآمد کی جاسکتی ہے۔ لیکن نجی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوںکے ہوشربا منافعوں کے باعث عوام کو لوڈ شیڈنگ کی اذیت سہنی پڑتی ہے۔ جس سے بڑے پیمانے پر صنعتیں بھی بند ہورہی ہیں اور بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستانی سرمایہ دارانہ ریاست سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں اور ریاست تمام تر فوج اور ایٹم بم رکھنے کے باوجود ان کمپنیوں پر حاوی نہیں ہوسکتی بلکہ ان کی آلہ کار ہیں۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے سروے کے مطابق ملک کی 45.7 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 8 کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان 8 کروڑ میں سے بھی 6 کروڑ 40 لاکھ دائمی غربت میں رہ رہے ہیں، یعنی یہ تعداد آبادی کا 36.5 فیصد ہے۔ خود سرمایہ دارانہ تجزیہ نگاروں کے مطابق صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے نوکریوں کی تعداد میں 8 فیصد اضافہ ہونا چاہیے، لیکن گذشتہ چار سال سے نوکریوں میں اضافے کی اوسط شرح 2.6 فیصد ہے۔ ادھر 18 جنوری 2013 کو پاکستان سے مذاکرات کرنے والی آئی ایم ایف کی ٹیم کے سربراہ جیفر فرانکس نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کا قرضہ کسی صورت میں معاف نہیں کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اگر انھیں یہ قرضہ اتارنے کے لیے نیا قرضہ چاہیے تو انھیں ہماری پالیسیوں پر زیادہ سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ 10 روزہ مذاکرات کے اختتام پر جیفر فرانکس نے کہا کہ پاکستان کی کرنسی کی قدر اصل سے 5 فیصد زیادہ ہے اور اسے اس کی اصل قدر پر لانا ہوگا۔ جس سے ایک ڈالر 100 روپے سے کہیں زیادہ بڑھ جائے گا۔ اس نے مزید کہا کہ بجٹ خسارہ بھی پرانے تخمینے 6 فیصد کے بجائے 7.5 فیصد تک بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اس نے کہا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ازکم 12 سے 14 ارب ڈالر تک ہونے چاہئیں، لیکن اس وقت یہ 8 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جو لمحہ فکریہ ہے۔
امریکی فوجی امداد کے ساتھ بھی بہت زیادہ شرائط جڑی ہوتی ہیں جن میں گوادر کی بندرگاہ (جسے چین کے حوالے کردیا گیا ہے) ایران گیس پائپ لائن سمیت اہم آمدن کے ذرایع پر کنٹرول ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے ممکنہ انخلا کے بعد کی صورت حال میں بھی اتنی بڑی امریکی امداد کو جاری رکھنا مشکل ہوگا۔ یہ سب ملکی اور غیرملکی معاشی حالات بتاتے ہیں کہ آیندہ عوام کے مسائل مہنگائی، بے روزگاری، بھوک اور افلاس میں مزید اضافہ تو ہوسکتا ہے لیکن کمی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے گھن چکر کو چھوڑ کر محنت کشوں اور عام شہریوں کا ایک ایسا انقلاب برپا ہو جہاں ساری دولت سارے لوگوں کی ہو، کوئی دولت مند ہو اور نہ کوئی بھوکا۔