سیاہ وسفید کے مالک
پاکستان میں کبھی کسی سب رجسٹرار کے خلاف کوئی قانونی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔
روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق محکمہ ریونیو نے سب رجسٹرار پراپرٹی کی بھرتی کا عمل روک دیا ہے۔ تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ محکمہ 34 سب رجسٹرار کی تعیناتی کے لیے بھرتی کے لیے امتحانات کروارہا تھا، قواعد کے تحت ان آسامیوں کے لیے نصف تعداد محکمہ جاتی پروموشن اور نصف تعداد براہ راست بھرتی کرنے کی اجازت و اختیار ہے، جن کے لیے 2 سال کی تربیت حاصل کرنا بھی لازمی ہوتی ہے لیکن حکومت کی مدت مکمل ہوجانے پر سیاسی وجوہات کی بنا پر من پسند افراد کو بغیر کسی تربیت کے بھرتی کرنے کے لیے سینئر اور اہل امیدواروں کو نظرانداز کرکے امتحانات کا سلسلہ کیا جارہا تھا جس پر متاثرہ فریق نے عدالت عالیہ سندھ میں درخواست داخل کی کہ محکمے کے اس اقدام سے نہ صرف اس کا استحصال ہوگا بلکہ محکمے کے لاتعداد سینئر اور اہل، حقدار ملازمین ترقی کے قانونی و بنیادی حق سے محروم ہوجائیں گے۔
متاثرہ فریق کی درخواست پر عدالت نے بھرتی کا عمل فوری طور پر رکوادیا ہے۔ محکمہ ریونیو میں سب رجسٹرار کی آسامیاں جو گریڈ 11 یا 12 کی ہوتی ہیں کرپٹ وبدعنوان اور اثرورسوخ کے حامل افراد کے لیے انتہائی پرکشش اور مرغوب ترین ہوتی ہیں، ان کے لیے کوئی اعلیٰ تعلیمی پس منظر بھی ضروری نہیں ہوتا بس بڑی بڑی سفارشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس چھوٹے سے عہدے پر بڑے بڑے سرداروں، بیوروکریٹس، وزرا کے بھائی بھتیجے اور دیگر اہل خانہ فائز ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور براجمان بھی ہیں۔
کراچی کے مختلف محل وقوع پر دو درجن سے زیادہ سب رجسٹرار آفس موجود ہیں جہاں روزانہ ہزاروں شہریوں کا ان سے واسطہ پڑتا ہے اور بڑی تعداد میں دستاویزات کی رجسٹریشن ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ماہانہ 10 ہزار سے 12 ہزار تک دستاویزات رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ ایک ایک سب رجسٹرار یومیہ لاکھ سے زیادہ اوپر کی آمدنی حاصل کرتا ہے جو بڑے سے بڑے وزیر، بیوروکریٹ یا جج کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بعض اوقات اتنی رجسٹریشن فیس حکومت کے کھاتے میں نہیں جاتی جتنی ان کرپٹ سب رجسٹرارز کی جیبوں میں جاتی ہے۔ گریڈ 12 کے ان سب رجسٹرارز کا لائف اسٹائل اور اثاثہ جات کا ان کی آمدنی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔
ان کے دفاتر میں کھلی رشوتیں چلتی ہیں، وکلا کے بجائے دلالوں اور ٹائوٹ ازم، بروکرز کا راج ہوتا ہے۔ اثرورسوخ، سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے ان رجسٹرار کے دفاتر میں ہونے والا تمام سیاہ و سفید متعلقہ کنٹرولنگ ایجنسیوں اور کیمرے کی آنکھ سے بھی چھپا رہتا ہے۔ ان رجسٹرار کی آمدنی اوپر سے نیچے تک تمام متعلقین میں حسب مراتب تقسیم ہوتی ہے۔ روزانہ ہزاروں شہری جن میں مرد، عورتیں، بچے، ضعیف، عزت دار، منصب دار اور وکلا بھی ان 12 گریڈ کے ملازم رجسٹرار کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور جائز کاموں کے لیے بھی ان کی ہر قسم کی ڈیمانڈ بجا لانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حکام بالا کی تمام تر توجہ صرف اور صرف اپنے مفادات پر مرکوز رہتی ہے۔ انھیں نہ محکمے کی کارکردگی کی پرواہ ہے نہ کسی جوابدہی کی فکر ہے۔
زیادہ تر رجسٹرار آفس عارضی جگہوں، ٹاؤن کی عمارتوں میں اور کرایہ پر ہیں، جن پر کرائے کی مد میں اچھے خاصے اخراجات آتے ہیں اور ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی ہوتی رہتی ہے۔ ان کے دائرہ اختیار بھی غیر حقیقی ہیں، قریب کے رجسٹرار آفس کو چھوڑ کر شہریوں کو دور دراز واقع رجسٹرار آفس میں جانا پڑتا ہے۔ عمومی طور پر ان دفاتر کا ریکارڈ اور یہاں آنے والے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا، سارا کام نقد ہوتا ہے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ پیشکار یا ماتحت عملہ ادارے کا کیش لے کر غائب ہوگیا۔
جھنگ کے ایک سابقہ ڈی او آر نے سسٹم کو صحیح کرنے، عوام کو لوٹ مار اور رشوت سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کیے تھے، رجسٹریشن سے متعلق فیس بینکوں میں جمع کرانے اور رشوت کی بیخ کنی کے لیے انقلابی قسم کے انتظامات کیے تھے جس پر تمام سب رجسٹرار، پٹواری اور تحصیلدار جو بدعنوانیوں میں ملوث تھے اس ایماندار افسر کے خلاف ہوگئے، اس کے خلاف ہڑتال کی گئی اور اس کے ٹرانسفر کا مطالبہ کیا گیا۔ اس افسر نے الزام عائد کیا تھا کہ ان عناصر کو بااثر افراد اور علاقے کے ارکان اسمبلی کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔
پاکستان میں کبھی کسی سب رجسٹرار کے خلاف کوئی قانونی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ باوجود کہ یہ لوگ روزانہ شہریوں سے رشوت خوری کے بازار سجاتے ہیں اور شکایات کے باوجود بھی ان کے خلاف کسی شکایت پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی، ماسوائے چند عدالتی احکامات کے۔ پڑوسی ملک بھارت میں ایک لیڈی رجسٹرار ہنومان رانی کو محض 20 ہزار روپے رشوت لینے کی شکایت پر معطل کردیا گیا، ایک اور شکایت پر متعلقہ سب رجسٹرار کے آفس پر پولیس نے چھاپہ مارا اور 60,000 /= (Un Accounted) روپے کی رقم سے متعلق تسلی بخش جواب نہ دینے پر متعلقہ اہلکار کو جیل بھیج دیا گیا۔ حالانکہ ہمارے ہاں بھی اس قسم کے لوگوں کی سرکوبی کے لیے قوانین موجود ہیں۔
ڈسٹرکٹ رجسٹرار اور انسپکٹر جنرل پراپرٹی رجسٹریشن کو ڈاکومنٹس رولز اور رجسٹریشن ایکٹ کے تحت نگرانی اور تادیبی کارروائی کرنے اور رولز بنانے کے اختیارات حاصل ہیں مگر ان اختیارات کے استعمال سے شہریوں کو پریشان تو ضرور کیا جاتا ہے مگر ان کی تکالیف و شکایات کو دور کرنے کی کوششیں نہیں کی جاتیں۔ حکومت نے جائیداد کی خریدوفروخت پر رجسٹریشن اسٹامپ فیس کے علاوہ کیپٹل ویلیو ٹیکس، گین ٹیکس اور ٹاؤن ٹیکس جیسے ظالمانہ ٹیکس عائد کیے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پہلے سے معاشی بدحالی کے شکار کراچی میں جائیداد کے کاروبار پر بڑے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ٹاؤن اور سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس ختم کرنے کے باوجود بھی ٹاؤن ٹیکس وصول کیا جارہا ہے جب کہ شہر میں کنٹونمنٹ کے پوش اور قیمتی علاقوں میں اس قسم کا کوئی ٹیکس عائد نہیں ہے۔
اگر کوئی شہری اپنی جائیداد کی مالیت 30 ہزار ظاہر کرتا ہے تو اس کو 30 ہزار روپے کی رجسٹریشن فیس کے علاوہ ان ٹیکسز و دیگر اخراجات اور رشوت کی مد میں مزید دو لاکھ کے قریب اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ جائیداد کی خریدوفروخت کے لیے کبھی واٹربورڈ، کبھی HBFC اور کبھی ڈی سی کی NOC کی شرط عائد کردی جاتی ہے۔ کبھی پاور آف اٹارنی کے ذریعے خرید وفروخت پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس سے ایک طرف عوام پریشان ہوتے ہیں، دوسرے رشوت کا ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح سی بی آر، ایف بی آر اور ٹاؤنز کو جو ٹیکسز ادا کیے جاتے ہیں ان کے لیے شہریوں کو ان تمام اداروں اور بینکوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ حالانکہ متعلقہ ارباب اختیار اگر تھوڑی دلچسپی لے لیںاور عوام الناس کی پریشانیوں کا احساس کریں تو باہمی اشتراک سے یہ تمام رقم ایک جگہ اور یکمشت جمع کرکے متعلقہ ڈپارٹمنٹس کو منتقل کی جاسکتی ہے۔ کاش! ہمارے ارباب اختیار عوام کی ان تکلیفوں کا احساس کرسکیں۔