شیخ ایاز مسلک روحانیت کا قلندر
شیخ ایاز کا اسلوب کلاسیکی اردو غزل سے مختلف ضرور ہے لیکن اس میں غنائیت رچی بسی ہے
مسلکِ روحانیت کے قلندر کی دھمال اور شاہ و سچل کے میٹھے سُروں کی لے سے معطر سرزمین سندھ کے شہر رانی پور کے بزرگ سخی صالح شاہ جیلانی کے مرید اور خلیفہ خاص غلام حسین مقیم شکارپور کے یہاں، جو تین شادیاں کرنے کے باوجود ابھی تک بے اولاد تھا، مالک سائیں کے کرم خاص اور مرشد کامل کی دعائے قبول کے طفیل 2 مارچ 1923 بمطابق 12 رجب المرجب 1341ھ بروز جمعۃ المبارک دادان (جو نو مسلم اور غلام حسین کی تیسری زوجہ تھیں) کے بطن سے اولاد نرینہ ہوئی جس کا نام مبارک علی رکھا گیا۔ مبارک علی نسلاً بلرانی جب کہ جدامجد درگاہی شیخ تھے۔ مبارک علی جس نے شاعری میں اصلاح کھیلداس ثانی سے سندھ کے دبستان شاعری میں شیخ ایاز کے نام سے لازوال ٹھہرا۔
شیخ ایاز کی شہرت کے یوں تو کئی حوالے ہیں لیکن ان میں سب سے معتبر شناخت شاعری ہی ٹھہرتی ہے۔ سندھی شعر و ادب جدید دور میں، اس کے ذکر کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ زبان و بیان، تخیل، استعارے، تلمیحات و تشبیہات اس کے حکم کے غلام محسوس ہوتے ہیں، شخصی کمزوریوں کو فن کی نقد میں حاوی کرنے والے شیخ ایاز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سندھ کی شعری دنیا کے باسیوں اور شیدائیوں کے لیے بھی وجہ ملال ہیں۔
شیخ ایاز کی 90 ویں سالگرہ (2 مارچ، 2013) پر حلقہ یاران چمن پر سکوت کے بادل ادبی دنیا کے بھی طبقاتی ولسانی دائروں میں قید ہونے کی دلیل روشن ہے۔ عجب تضاد ہے کہ ہم ادباء و دانشور استحصالی نظام کے خلاف پرچار کرتے ہیں اور لاشعوری طور پر خود اس کی گرفت میں ہونے کے باوجود انسانی مساوات کے علمبردار ہونے کے دعویدار...! خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔
ایازؔ شناسی کا تقاضا ہے کہ ہم تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر، اس کی ذولسانی شعری و نثری جہتوں پر جمی گرد کو فنکارانہ نقد و ستائش سے ہٹائیں تاکہ ادبی منظر نامہ عصر حاضر کے ان رویوں کو کماحقہ ہو سمجھ سکے جس سے آج سماج دوچار ہے۔ دانشور نے دانشوری سے کنارہ کرتے ہوئے تقلید ارباب حکمران میں پناہ لے رکھی ہے، رہنمائی کے بجائے اہل اقتدار کے لیے راہ بنانے میں قوتوں کو صرف کر رہے ہیں کہ اب ان میں آبلہ پائی کا حوصلہ نہیں، شیخ ایاز نے کتنا خوبصورت کہا ہے کہ
میرے دیدہ ورو
میرے دانش ورو
پاؤں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
میرے دیدہ ورو
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر کو
نقش کرتے چلو
تھام لو ایک دم
یہ عصائے قلم
ایک فرعون کیا لاکھ فرعون ہوں
شیخ ایاز کی سندھی شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا اور اب بھی کبھی کبھار کوئی عاشق چنیسر و ماروی یا فقیر شاہ لطیف ایازؔ کے آدرشوں میں، سکونِ پہلوئے محبوب کی گدازی پا ہی لیتا ہے۔ میں نے انیسویں صدی کے نصف کے بھی ایک عشرہ عرصہ گزارنے کے بعد اس خاکی سیارہ پر جنم لیا اور جب شعوری سن کچھ پختہ ہوا اور مطالعہ ادب کی جانب مائل ہوا تو سب سے پہلے شاہ عبداللطیف بھٹائی کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے دل مضطرب تھا، سندھی زبان سے شناسائی تو تھی، شاہ صاحب کے مفاہیم کو جاننے کے لیے اس پر کامل قدرت نہ ہونے کا احساس تلاطم کا باعث، ایسے میں رسالہ ''شاہ بھٹائی'' کا اردو منظوم ترجمہ نعمت غیر مترقبہ جو شیخ ایاز کا کردہ، میرا رفیق ہوا، شاہ صاحب کے کلام کو جس تخلیق و جمالیاتی حسن کے ساتھ شیخ ایاز نے پروفیسر آفاق صدیقی کے تعاون سے اردو میں سمویا ہے اس سے میرے اندر شیخ ایاز کے فکروفن کو مزید کریدنے کی خواہش نے کروٹ لی، اس کو حسن اتفاق کہیے یا قدرت کا کوئی بھید کہ پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع جو نگراں نے میرے لیے تجویز فرمایا وہ ''شیخ ایاز کی اردو شاعری، سندھی سے تراجم کے تناظر میں'' تھا۔ اس تحقیقی کام کی تکمیل میں مجھے اندازہ ہوا کہ سندھ میں اردو شاعری کی روایت قدیم اور اپنی تمام تر تہذیبی و تاریخی تسلسل کے ساتھ وارد ہوئی تھی اور یہاں کے باسی اس کی چاشنی اور دل گدازی کو اپنی روح میں اتارے بغیر نہ رہ سکے، حتیٰ کہ اردو شعروسخن سے عمداً گریز کرنے والے بھی لاشعوری طور پر اردو کے گرویدہ ہوئے۔
شیخ ایاز جو نظریاتی طور پر ترقی پسند اور قوم پرستی کا پیروکار تھا، جب کہ اس کا شعری وجدان، اردو شاعری کی روایت، جدت اور عالمی ادب کے فلسفے کا حسین امتزاج ہے۔
ابتدا شیخ ایاز نے بھی ایک افسانہ نگار کے کی۔ 1954 تک سندھی میں تین افسانوی مجموعے زیور طباعت آراستہ ہوکر بحق سرکار ضبط ہوئے۔ ایاز تحریک آزادی ہند کے آخری دور میں کراچی آ بسا اور یہاں اس نے اردو میں شعرگوئی 1955 تک تواتر کے ساتھ رکھی، اس کی انقلابی نظمیں ''باغی'' اور ''ملاح کا گیت'' اسی دور کی کلاسیکل تخلیقات ہیں۔
''بوئے گل نالہ دل'' شیخ ایاز کا پہلا اردو مجموعہ کلام، پروفیسر آفاق صدیقی نے سندھی کے منتخب شعری سرمایہ کا ترجمہ کرکے سندھ ادبی سرکل سکھر، 54ء میں شایع کیا جب کہ ''حلقہ میری زنجیر کا'' مرتب و مترجمہ فہمیدہ ریاض، ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے'' اور ''میری شاعری میری صلیب'' مرتب تاج جویو، ایاز کے اردو کلام ہیں۔
شیخ ایاز کا اسلوب کلاسیکی اردو غزل سے مختلف ضرور ہے لیکن اس میں غنائیت رچی بسی ہے جو غزل کو وائی اور بیت کی ہم رشتہ بناکر اردو/ سندھی ادبی مفاہمت اور وسعت فکر و نظر کا سنگ راہ منزل نصب کرتا ہے۔ ملکی سیاست کی سپاہ گری نے اگر سندھی اردو تنازعہ نہ بھڑکایا ہوتا تو آج شیخ ایاؔز مشترکہ اور ذولسانی شعری کا نمایندہ شاعر بلااختلاف ہوتا۔ شیخ ایاز کو 21 ویں صدی میں بھی صرف سندھی شاعر کے طور پر پیش کرنا خلاف حقیقت اور سوئے ادب ہوگا۔ سندھی اردو کا یہ عظیم ذولسانی شاعر 28 دسمبر 1992 اپنی حقیقی منزل کی جانب عازم سفر ہوا۔
شیخ ایاز کی شہرت کے یوں تو کئی حوالے ہیں لیکن ان میں سب سے معتبر شناخت شاعری ہی ٹھہرتی ہے۔ سندھی شعر و ادب جدید دور میں، اس کے ذکر کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ زبان و بیان، تخیل، استعارے، تلمیحات و تشبیہات اس کے حکم کے غلام محسوس ہوتے ہیں، شخصی کمزوریوں کو فن کی نقد میں حاوی کرنے والے شیخ ایاز کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سندھ کی شعری دنیا کے باسیوں اور شیدائیوں کے لیے بھی وجہ ملال ہیں۔
شیخ ایاز کی 90 ویں سالگرہ (2 مارچ، 2013) پر حلقہ یاران چمن پر سکوت کے بادل ادبی دنیا کے بھی طبقاتی ولسانی دائروں میں قید ہونے کی دلیل روشن ہے۔ عجب تضاد ہے کہ ہم ادباء و دانشور استحصالی نظام کے خلاف پرچار کرتے ہیں اور لاشعوری طور پر خود اس کی گرفت میں ہونے کے باوجود انسانی مساوات کے علمبردار ہونے کے دعویدار...! خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔
ایازؔ شناسی کا تقاضا ہے کہ ہم تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر، اس کی ذولسانی شعری و نثری جہتوں پر جمی گرد کو فنکارانہ نقد و ستائش سے ہٹائیں تاکہ ادبی منظر نامہ عصر حاضر کے ان رویوں کو کماحقہ ہو سمجھ سکے جس سے آج سماج دوچار ہے۔ دانشور نے دانشوری سے کنارہ کرتے ہوئے تقلید ارباب حکمران میں پناہ لے رکھی ہے، رہنمائی کے بجائے اہل اقتدار کے لیے راہ بنانے میں قوتوں کو صرف کر رہے ہیں کہ اب ان میں آبلہ پائی کا حوصلہ نہیں، شیخ ایاز نے کتنا خوبصورت کہا ہے کہ
میرے دیدہ ورو
میرے دانش ورو
پاؤں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
میرے دیدہ ورو
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر کو
نقش کرتے چلو
تھام لو ایک دم
یہ عصائے قلم
ایک فرعون کیا لاکھ فرعون ہوں
شیخ ایاز کی سندھی شاعری پر بہت کچھ لکھا گیا اور اب بھی کبھی کبھار کوئی عاشق چنیسر و ماروی یا فقیر شاہ لطیف ایازؔ کے آدرشوں میں، سکونِ پہلوئے محبوب کی گدازی پا ہی لیتا ہے۔ میں نے انیسویں صدی کے نصف کے بھی ایک عشرہ عرصہ گزارنے کے بعد اس خاکی سیارہ پر جنم لیا اور جب شعوری سن کچھ پختہ ہوا اور مطالعہ ادب کی جانب مائل ہوا تو سب سے پہلے شاہ عبداللطیف بھٹائی کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے دل مضطرب تھا، سندھی زبان سے شناسائی تو تھی، شاہ صاحب کے مفاہیم کو جاننے کے لیے اس پر کامل قدرت نہ ہونے کا احساس تلاطم کا باعث، ایسے میں رسالہ ''شاہ بھٹائی'' کا اردو منظوم ترجمہ نعمت غیر مترقبہ جو شیخ ایاز کا کردہ، میرا رفیق ہوا، شاہ صاحب کے کلام کو جس تخلیق و جمالیاتی حسن کے ساتھ شیخ ایاز نے پروفیسر آفاق صدیقی کے تعاون سے اردو میں سمویا ہے اس سے میرے اندر شیخ ایاز کے فکروفن کو مزید کریدنے کی خواہش نے کروٹ لی، اس کو حسن اتفاق کہیے یا قدرت کا کوئی بھید کہ پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع جو نگراں نے میرے لیے تجویز فرمایا وہ ''شیخ ایاز کی اردو شاعری، سندھی سے تراجم کے تناظر میں'' تھا۔ اس تحقیقی کام کی تکمیل میں مجھے اندازہ ہوا کہ سندھ میں اردو شاعری کی روایت قدیم اور اپنی تمام تر تہذیبی و تاریخی تسلسل کے ساتھ وارد ہوئی تھی اور یہاں کے باسی اس کی چاشنی اور دل گدازی کو اپنی روح میں اتارے بغیر نہ رہ سکے، حتیٰ کہ اردو شعروسخن سے عمداً گریز کرنے والے بھی لاشعوری طور پر اردو کے گرویدہ ہوئے۔
شیخ ایاز جو نظریاتی طور پر ترقی پسند اور قوم پرستی کا پیروکار تھا، جب کہ اس کا شعری وجدان، اردو شاعری کی روایت، جدت اور عالمی ادب کے فلسفے کا حسین امتزاج ہے۔
ابتدا شیخ ایاز نے بھی ایک افسانہ نگار کے کی۔ 1954 تک سندھی میں تین افسانوی مجموعے زیور طباعت آراستہ ہوکر بحق سرکار ضبط ہوئے۔ ایاز تحریک آزادی ہند کے آخری دور میں کراچی آ بسا اور یہاں اس نے اردو میں شعرگوئی 1955 تک تواتر کے ساتھ رکھی، اس کی انقلابی نظمیں ''باغی'' اور ''ملاح کا گیت'' اسی دور کی کلاسیکل تخلیقات ہیں۔
''بوئے گل نالہ دل'' شیخ ایاز کا پہلا اردو مجموعہ کلام، پروفیسر آفاق صدیقی نے سندھی کے منتخب شعری سرمایہ کا ترجمہ کرکے سندھ ادبی سرکل سکھر، 54ء میں شایع کیا جب کہ ''حلقہ میری زنجیر کا'' مرتب و مترجمہ فہمیدہ ریاض، ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے'' اور ''میری شاعری میری صلیب'' مرتب تاج جویو، ایاز کے اردو کلام ہیں۔
شیخ ایاز کا اسلوب کلاسیکی اردو غزل سے مختلف ضرور ہے لیکن اس میں غنائیت رچی بسی ہے جو غزل کو وائی اور بیت کی ہم رشتہ بناکر اردو/ سندھی ادبی مفاہمت اور وسعت فکر و نظر کا سنگ راہ منزل نصب کرتا ہے۔ ملکی سیاست کی سپاہ گری نے اگر سندھی اردو تنازعہ نہ بھڑکایا ہوتا تو آج شیخ ایاؔز مشترکہ اور ذولسانی شعری کا نمایندہ شاعر بلااختلاف ہوتا۔ شیخ ایاز کو 21 ویں صدی میں بھی صرف سندھی شاعر کے طور پر پیش کرنا خلاف حقیقت اور سوئے ادب ہوگا۔ سندھی اردو کا یہ عظیم ذولسانی شاعر 28 دسمبر 1992 اپنی حقیقی منزل کی جانب عازم سفر ہوا۔