تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی فیسیں
لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ستمبر میں اسکول کی فیسوں میں153 فیصد تک اضافہ ہو جانے کے بعد پاکستان میں تعلیم بہت مہنگی ہو جائے گی۔ اسٹیٹ بینک کے افراط زر کا جائزہ لینے والے نگران شعبے کے مطابق مکانوں کے کرایے میں اضافے کے بعد تعلیم کا شعبہ افراط زر میں سب سے زیادہ اضافے کا باعث بنے گا۔
ماہ اگست میں کراچی میں بچوں کے والدین نے فیسوں میں بہت زیادہ اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا حالانکہ سندھ ہائی کورٹ نے اعلان کر رکھا ہے کہ اسکول کی فیسوں میں سالانہ 5 فیصد سے زیادہ اضافہ ہر گز نہ کیا جائے۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔
لاکھوں بچے اسکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں سے باہر ہیں کیونکہ ان کے والدین بچوں کی فیسیں برداشت نہیں کر سکتے جب کہ سرکاری اسکولوں میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ وہ تمام بچوں کو داخلہ دے سکیں۔ پاکستان میں تعلیم کا حصول بہت مہنگا ہو چکا ہے اور والدین نجی شعبے کی فیسیں بمشکل پوری کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں تعلیم کے بارے میں 2015-16ء کے اعداد و شمار کے مطابق جو نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (این ای ایم آئی ایس) نے جاری کیے ہیں، بتایا گیا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ چالیس لاکھ بچوں سے کم ہو کر دو کروڑ چھبیس لاکھ رہ گئی ہے۔ لیکن یہ تو اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی کا احوال ہے جب کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ کسی گنتی میں ہی نہیں آتی۔
نجی شعبے کے اسکول جو زیادہ تر بچوں کے لیے تعلیمی خدمات انجام دیتے ہیں وہ ان خدمات کے لیے بہت بھاری قیمت وصول کرتے ہیں جب کہ والدین کو بھاری فیسوں کے علاوہ کتابوں کاپیوں' یونیفارم اور دیگر سامان کے لیے بھی ضرورت سے زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں کیونکہ کئی اسکولوں میں بچوں کو درآمد شدہ کتابیں اور نوٹ بکس دی جاتی ہیں جو کہ ظاہر ہے مقامی طور پر شایع ہونے والی کتب کی نسبت بہت مہنگی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے افراط زر میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تعلیمی افراط زر کی وجہ سے بہت سے والدین اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 5 سے 15 سال کی عمر کے 44 فیصد بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔
دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی حالت چونکہ ناگفتہ بہ ہے اس لیے ان سے بھی یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ ان بچوں کا تعلیمی بوجھ برداشت کر سکیں گے جو اسکول سے باہر ہیں جب کہ ان کے والدین انھیں نجی انتظام میں چلنے والے اسکولوں میں داخل کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ملک میں افراط زر میں اضافہ کرنے والا ایک بڑا شعبہ مکانات کا ہے جن کے کرایوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہ اگست میں کراچی میں بچوں کے والدین نے فیسوں میں بہت زیادہ اضافے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ بھی کیا حالانکہ سندھ ہائی کورٹ نے اعلان کر رکھا ہے کہ اسکول کی فیسوں میں سالانہ 5 فیصد سے زیادہ اضافہ ہر گز نہ کیا جائے۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔
لاکھوں بچے اسکولوں' کالجوں اور یونیورسٹیوں سے باہر ہیں کیونکہ ان کے والدین بچوں کی فیسیں برداشت نہیں کر سکتے جب کہ سرکاری اسکولوں میں اتنی گنجائش ہی نہیں کہ وہ تمام بچوں کو داخلہ دے سکیں۔ پاکستان میں تعلیم کا حصول بہت مہنگا ہو چکا ہے اور والدین نجی شعبے کی فیسیں بمشکل پوری کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں تعلیم کے بارے میں 2015-16ء کے اعداد و شمار کے مطابق جو نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (این ای ایم آئی ایس) نے جاری کیے ہیں، بتایا گیا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کی تعداد دو کروڑ چالیس لاکھ بچوں سے کم ہو کر دو کروڑ چھبیس لاکھ رہ گئی ہے۔ لیکن یہ تو اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی کا احوال ہے جب کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ کسی گنتی میں ہی نہیں آتی۔
نجی شعبے کے اسکول جو زیادہ تر بچوں کے لیے تعلیمی خدمات انجام دیتے ہیں وہ ان خدمات کے لیے بہت بھاری قیمت وصول کرتے ہیں جب کہ والدین کو بھاری فیسوں کے علاوہ کتابوں کاپیوں' یونیفارم اور دیگر سامان کے لیے بھی ضرورت سے زیادہ اخراجات کرنے پڑتے ہیں کیونکہ کئی اسکولوں میں بچوں کو درآمد شدہ کتابیں اور نوٹ بکس دی جاتی ہیں جو کہ ظاہر ہے مقامی طور پر شایع ہونے والی کتب کی نسبت بہت مہنگی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے افراط زر میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق تعلیمی افراط زر کی وجہ سے بہت سے والدین اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 5 سے 15 سال کی عمر کے 44 فیصد بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔
دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی حالت چونکہ ناگفتہ بہ ہے اس لیے ان سے بھی یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ ان بچوں کا تعلیمی بوجھ برداشت کر سکیں گے جو اسکول سے باہر ہیں جب کہ ان کے والدین انھیں نجی انتظام میں چلنے والے اسکولوں میں داخل کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ملک میں افراط زر میں اضافہ کرنے والا ایک بڑا شعبہ مکانات کا ہے جن کے کرایوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔