الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمتی عمل
الفتح اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے جب کہ حماس اسرائیل کا نام و نشان مٹا دینے کی خواہاں۔
مصر کی ثالثی میں ایک بار پھر حماس اور الفتح کے درمیان مصالحت کا واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے، جس کے نتیجے میں فریقین کے درمیان دس سال سے جاری اختلافات دور ہوئے ہیں۔ معاہدے کے تحت اسی سال دسمبر کے آخر تک غزہ کی پٹی کا تمام انتظامی کنٹرول فلسطین کی قومی حکومت کے حوالے کردیا جائے گا۔
غزہ اور مصر کی درمیانی سرحد رفح کا کنٹرول بھی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہوگا۔ نیز دونوں گروہ متحدہ حکومت کے قیام کے لیے مذاکراتی عمل کا حصہ ہوں گے۔ تاریخ کے صفحوں پر کئی بار حماس اور الفتح کے تعلقات جڑ کر ٹوٹے اور بکھرے ہیں، جس کی وجہ سے ارضِ فلسطین اسرائیلی جارحیت کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کا بھی شکار رہی ہے۔ الفتح اور حماس کے باہمی اختلافات دور کروانے کی بہت بار کوششیں کی گئی ہیں، لہٰذا اس بار بھی دونوں کا مصالحت کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانا کوئی انہونا واقعہ نہیں۔
اس نئے معاہدے کی رو سے اب الفتح اور حماس کی متحدہ حکومت تشکیل پائے گی، جس میں دونوں پارٹیوں کے نمایندے شامل ہوں گے۔ واضح رہے کہ موجودہ فلسطینی حکومت میں حماس کا کوئی بھی نمایندہ موجود نہیں ہے۔ بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت اس بات سے واقف ہے کہ الفتح اور حماس کے درمیان مختلف امور پر گہرے اختلافات موجود ہیں۔ دونوں نے فلسطینیوں کو دنیا میں باعزت مقام دلوانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس کے باوجود وہ شدید اختلافات جو ان دونوں کے ساتھ چلنے میں مانع ہیں ان میں پہلا فلسطین میں اسرائیل کی موجودہ حیثیت پر ہے۔
الفتح اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے جب کہ حماس اسرائیل کا نام و نشان مٹا دینے کی خواہاں۔ الفتح اسرائیل کو تسلیم کرتی ہے، جب کہ حماس کے نزدیک اسرائیل کے فلسطین میں قدم جمانے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ الفتح اسرائیل کے ساتھ سیاسی مسائل کے حل میں غیر مزاحمتی عمل کی حامی ہے جب کہ حماس اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔
ان کا دوسرا بڑا اختلاف مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملیوں کا ہے، جس کی وجہ سے دونوں پہلے دن سے ہی ایک دوسرے کے رفیق کے بجائے حریف کا کردار نبھا رہے ہیں۔ پھر 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے کی حماس نے پہلے دن سے ہی حمایت نہیں کی۔ یہ معاہدہ بھی حماس اور الفتح کے درمیان وجہ تنازعہ رہا۔ حماس نے اوسلو معاہدے کا حصہ بننے والی عرفات حکومت کو آزاد فلسطینی ریاست کی کوششوں کو برباد کرنے کا ذمے دار قرار دیا۔
فلسطینی عوام ہمیشہ ان سیاسی مخالفین کے مابین اتحاد کے خواہاں رہے ہیں۔ لیکن 2007 میں بھی الفتح اور حماس کی مشترکہ حکومت بنانے کی کاوش رائیگاں گئی جب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکا اور اسرائیل کی شہ پاکر وہ جمہوری حکومت ختم کردی جس میں حماس نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، ساتھ ہی محمودعباس نے خودساختہ کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان بھی کردیا۔ یوں حماس اور الفتح کے درمیان تعلقات میں مزید دراڑ پڑگئی۔
دونوں کے درمیان تنازعات کے حل کی خواہش لے کر 2011 میں مصر نے مذاکراتی میز بچھا کر دونوں کو لا بٹھایا، لیکن یہ مصالحتی منصوبہ بھی اس وقت سرد پڑگیا جب عبوری وزیراعظم کے نام پر دونوں پارٹیوں میں پھر پھوٹ پڑگئی۔ اسی طرح کی ایک کوشش 2013 میں بھی کی گئی، مگر وہ مصالحتی معاہدہ بھی آگے کا سفر طے نہ کرسکا اور مخالفین کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی حکمت عملی پر ہونے والے اختلافات کی نذر ہوگیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کے تعلقات اور زیادہ سردمہری کا شکار ہوگئے۔
اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے نتیجے میں دو ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت کے ردعمل میں 2014 میں قطر نے دونوں تنظیموں کے درمیان ثالثی کی کوشش کی۔ موسم گرما میں مشترکہ حکومت کے معاہدے پر اتفاق ہوجانے کے باوجود دونوں فریق ساتھ ساتھ نہ چل سکے، جس کا ذمے دار حماس نے امریکا اور اسرائیل کو قرار دیا۔ وجہ خواہ کوئی بھی رہی لیکن دنیا نے دیکھا کہ حماس اور الفتح میں دوریاں بڑھتی ہی گئیں، یہاں تک کہ رواں سال کے آغاز تک بھی حماس اور الفتح کے درمیان مصالحت کا کوئی امکان نہیں تھا، بلکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے حامیوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کیا جارہا تھا۔
فلسطینی گروہوں کو باہم جوڑنے کے لیے اب مصر نے ایک بار پھر جو بے مثال کردار ادا کیا ہے اس پر وہ بجا طور پر داد کا مستحق ہے۔ مصر کی کوششوں سے ہونے والے اس مفاہمتی عمل کو مشرق وسطیٰ میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے وہیں امریکا اور اسرائیل شدید برہم ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کے نتیجے میں حماس کو نہ صرف ہتھیار پھینکنا ہوں گے بلکہ اسرائیل کو بھی بطور ریاست تسلیم کرنا ہوگا۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ الفتح یا تو حماس کے ساتھ اتحاد کا رشتہ قائم کرلے یا پھر اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات آگے بڑھالے، دونوں کام ایک ساتھ نہیں کیے جاسکتے۔ الفتح اور حماس کے درمیان ہونے والے اس اتحاد پر امریکا اور اسرائیل کا عناد چھپائے نہیں چھپ رہا۔ حماس کو خونی اور قاتل تنظیم قرار دینے کی آوازیں اور تیز ہوگئی ہیں اور الفتح کو حماس سے ہاتھ ملانے پر بے وقوف بھی قرار دیا جارہا ہے۔
اسرائیل کے ردعمل پر تو خود اسرائیلی میڈیا کھلی تنقید کر رہا ہے اور اس مصالحت کو فلسطین کا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے۔ یہ تنقید بجا بھی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے حماس کے ساتھ مذاکرات کی اہمیت پر آوازیں اسرائیل کے اندر سے بھی بلند ہورہی تھیں۔ فلسطینی دھڑوں کے اتحاد پر کافی بحثیں گرم تھیں۔
موساد کے سابق چیف افرایم ہیلوی نے تو یہ تک کہا تھا کہ مذاکرات کے لیے حماس ایک جائز امیدوار ہے، جس کی مذاکرات کے عمل میں شمولیت کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اسرائیل کا رونا بھی تو بجا ہے۔ بھلا اب اس کے پاس حماس کی سرگرمیوں کو جواز بناکر لشکر کشی کا کیا جواز رہ جائے گا؟ لہٰذا اسرائیل ایک بار پھر اس مصالحت کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا، کیوں کہ اگر فلسطینی گروہوں کی مشترکہ سیاست کوئی نیا موڑ لیتی ہے تو اس کی اگلی توجہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے پر ہوگی۔
مفاہمت کا عمل ابھی اپنے آغاز پر ہے۔ طویل سفر طے کرنا ابھی باقی ہے۔ فلسطینی اپنے رہنماؤں کے درمیان صلح چاہتے ہیں اور اس کے بغیر فلسطین کے مسئلے کا پائیدار حل نکالنا ممکن بھی نہیں۔ الفتح اور حماس شاید اب عرب دنیا کے بدلتے ہوئے منظرنامے اور فلسطینی نوجوانوں کی امنگوں کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ لہٰذا دونوں کو اب اپنے اپنے اختلافات کا بہترین سدباب کرنا چاہیے، تاکہ فلسطینی سیاست کا نیا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ اور اس سفر کی لازمی شرط کے طور پر اسرائیلی قبضے کا خاتمہ بھی یقینی بنایا جاسکے۔
حماس اور الفتح کی اگر کوئی مشترکہ حکومت تشکیل پا تی ہے تو بین الاقوامی برادری کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے لیے بھی اس کو تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہوگا، کیوں کہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے اسرائیل کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ یہ تمام فلسطینیوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ حماس اتنے واضح طور پر اپنی انتظامی کمیٹی تحلیل کرنے کے لیے تیار ہوئی ہے۔ حماس اور الفتح کا مذاکرات کے ذریعے مصالحت کی طرف آنا اگرچہ خوش آیند قدم ہے لیکن ان کے رہنماؤں کو مسکراتے، ہاتھ ملاتے اور ساتھ تصاویر کھنچواتے دیکھ کر بھی یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں کے درمیان برسوں سے موجود اسٹرٹیجک اختلافات ختم ہوئے بھی ہیں یا ہنوز برقرار ہیں۔
بہرحال فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں جو خود ہی واضح کرے گا کہ یہ مصالحت قومی منصوبوں کی تکمیل میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے نجات اور مکمل آزادی کے حصول کی منزل تک ساتھ پہنچنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے گا؟ فلسطین کے داخلی مسائل اور بحران کا کیا حل تلاش کیا جائے گا؟ کیا اب یہ اتحاد مصائب میں گھری امت مسلمہ کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا یا یہ خواب ایک بار پھر چکناچور ہوگا؟ حماس اور الفتح کی ذمے داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ مل کر ان راستوں کو بند کریں جہاں سے غاصب ہمیشہ گھسے چلے آئے ہیں۔
غزہ اور مصر کی درمیانی سرحد رفح کا کنٹرول بھی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہوگا۔ نیز دونوں گروہ متحدہ حکومت کے قیام کے لیے مذاکراتی عمل کا حصہ ہوں گے۔ تاریخ کے صفحوں پر کئی بار حماس اور الفتح کے تعلقات جڑ کر ٹوٹے اور بکھرے ہیں، جس کی وجہ سے ارضِ فلسطین اسرائیلی جارحیت کے ساتھ ساتھ خانہ جنگی کا بھی شکار رہی ہے۔ الفتح اور حماس کے باہمی اختلافات دور کروانے کی بہت بار کوششیں کی گئی ہیں، لہٰذا اس بار بھی دونوں کا مصالحت کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جانا کوئی انہونا واقعہ نہیں۔
اس نئے معاہدے کی رو سے اب الفتح اور حماس کی متحدہ حکومت تشکیل پائے گی، جس میں دونوں پارٹیوں کے نمایندے شامل ہوں گے۔ واضح رہے کہ موجودہ فلسطینی حکومت میں حماس کا کوئی بھی نمایندہ موجود نہیں ہے۔ بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت اس بات سے واقف ہے کہ الفتح اور حماس کے درمیان مختلف امور پر گہرے اختلافات موجود ہیں۔ دونوں نے فلسطینیوں کو دنیا میں باعزت مقام دلوانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس کے باوجود وہ شدید اختلافات جو ان دونوں کے ساتھ چلنے میں مانع ہیں ان میں پہلا فلسطین میں اسرائیل کی موجودہ حیثیت پر ہے۔
الفتح اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے جب کہ حماس اسرائیل کا نام و نشان مٹا دینے کی خواہاں۔ الفتح اسرائیل کو تسلیم کرتی ہے، جب کہ حماس کے نزدیک اسرائیل کے فلسطین میں قدم جمانے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ الفتح اسرائیل کے ساتھ سیاسی مسائل کے حل میں غیر مزاحمتی عمل کی حامی ہے جب کہ حماس اسرائیل کے ساتھ حالت جنگ میں ہے۔
ان کا دوسرا بڑا اختلاف مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملیوں کا ہے، جس کی وجہ سے دونوں پہلے دن سے ہی ایک دوسرے کے رفیق کے بجائے حریف کا کردار نبھا رہے ہیں۔ پھر 1993 میں ہونے والے اوسلو معاہدے کی حماس نے پہلے دن سے ہی حمایت نہیں کی۔ یہ معاہدہ بھی حماس اور الفتح کے درمیان وجہ تنازعہ رہا۔ حماس نے اوسلو معاہدے کا حصہ بننے والی عرفات حکومت کو آزاد فلسطینی ریاست کی کوششوں کو برباد کرنے کا ذمے دار قرار دیا۔
فلسطینی عوام ہمیشہ ان سیاسی مخالفین کے مابین اتحاد کے خواہاں رہے ہیں۔ لیکن 2007 میں بھی الفتح اور حماس کی مشترکہ حکومت بنانے کی کاوش رائیگاں گئی جب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکا اور اسرائیل کی شہ پاکر وہ جمہوری حکومت ختم کردی جس میں حماس نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، ساتھ ہی محمودعباس نے خودساختہ کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان بھی کردیا۔ یوں حماس اور الفتح کے درمیان تعلقات میں مزید دراڑ پڑگئی۔
دونوں کے درمیان تنازعات کے حل کی خواہش لے کر 2011 میں مصر نے مذاکراتی میز بچھا کر دونوں کو لا بٹھایا، لیکن یہ مصالحتی منصوبہ بھی اس وقت سرد پڑگیا جب عبوری وزیراعظم کے نام پر دونوں پارٹیوں میں پھر پھوٹ پڑگئی۔ اسی طرح کی ایک کوشش 2013 میں بھی کی گئی، مگر وہ مصالحتی معاہدہ بھی آگے کا سفر طے نہ کرسکا اور مخالفین کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی حکمت عملی پر ہونے والے اختلافات کی نذر ہوگیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں کے تعلقات اور زیادہ سردمہری کا شکار ہوگئے۔
اسرائیل کے وحشیانہ حملے کے نتیجے میں دو ہزار فلسطینیوں کی ہلاکت کے ردعمل میں 2014 میں قطر نے دونوں تنظیموں کے درمیان ثالثی کی کوشش کی۔ موسم گرما میں مشترکہ حکومت کے معاہدے پر اتفاق ہوجانے کے باوجود دونوں فریق ساتھ ساتھ نہ چل سکے، جس کا ذمے دار حماس نے امریکا اور اسرائیل کو قرار دیا۔ وجہ خواہ کوئی بھی رہی لیکن دنیا نے دیکھا کہ حماس اور الفتح میں دوریاں بڑھتی ہی گئیں، یہاں تک کہ رواں سال کے آغاز تک بھی حماس اور الفتح کے درمیان مصالحت کا کوئی امکان نہیں تھا، بلکہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے حامیوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کیا جارہا تھا۔
فلسطینی گروہوں کو باہم جوڑنے کے لیے اب مصر نے ایک بار پھر جو بے مثال کردار ادا کیا ہے اس پر وہ بجا طور پر داد کا مستحق ہے۔ مصر کی کوششوں سے ہونے والے اس مفاہمتی عمل کو مشرق وسطیٰ میں جہاں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے وہیں امریکا اور اسرائیل شدید برہم ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کے نتیجے میں حماس کو نہ صرف ہتھیار پھینکنا ہوں گے بلکہ اسرائیل کو بھی بطور ریاست تسلیم کرنا ہوگا۔
نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ الفتح یا تو حماس کے ساتھ اتحاد کا رشتہ قائم کرلے یا پھر اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات آگے بڑھالے، دونوں کام ایک ساتھ نہیں کیے جاسکتے۔ الفتح اور حماس کے درمیان ہونے والے اس اتحاد پر امریکا اور اسرائیل کا عناد چھپائے نہیں چھپ رہا۔ حماس کو خونی اور قاتل تنظیم قرار دینے کی آوازیں اور تیز ہوگئی ہیں اور الفتح کو حماس سے ہاتھ ملانے پر بے وقوف بھی قرار دیا جارہا ہے۔
اسرائیل کے ردعمل پر تو خود اسرائیلی میڈیا کھلی تنقید کر رہا ہے اور اس مصالحت کو فلسطین کا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے۔ یہ تنقید بجا بھی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے حماس کے ساتھ مذاکرات کی اہمیت پر آوازیں اسرائیل کے اندر سے بھی بلند ہورہی تھیں۔ فلسطینی دھڑوں کے اتحاد پر کافی بحثیں گرم تھیں۔
موساد کے سابق چیف افرایم ہیلوی نے تو یہ تک کہا تھا کہ مذاکرات کے لیے حماس ایک جائز امیدوار ہے، جس کی مذاکرات کے عمل میں شمولیت کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اسرائیل کا رونا بھی تو بجا ہے۔ بھلا اب اس کے پاس حماس کی سرگرمیوں کو جواز بناکر لشکر کشی کا کیا جواز رہ جائے گا؟ لہٰذا اسرائیل ایک بار پھر اس مصالحت کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گا، کیوں کہ اگر فلسطینی گروہوں کی مشترکہ سیاست کوئی نیا موڑ لیتی ہے تو اس کی اگلی توجہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے پر ہوگی۔
مفاہمت کا عمل ابھی اپنے آغاز پر ہے۔ طویل سفر طے کرنا ابھی باقی ہے۔ فلسطینی اپنے رہنماؤں کے درمیان صلح چاہتے ہیں اور اس کے بغیر فلسطین کے مسئلے کا پائیدار حل نکالنا ممکن بھی نہیں۔ الفتح اور حماس شاید اب عرب دنیا کے بدلتے ہوئے منظرنامے اور فلسطینی نوجوانوں کی امنگوں کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ لہٰذا دونوں کو اب اپنے اپنے اختلافات کا بہترین سدباب کرنا چاہیے، تاکہ فلسطینی سیاست کا نیا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ اور اس سفر کی لازمی شرط کے طور پر اسرائیلی قبضے کا خاتمہ بھی یقینی بنایا جاسکے۔
حماس اور الفتح کی اگر کوئی مشترکہ حکومت تشکیل پا تی ہے تو بین الاقوامی برادری کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے لیے بھی اس کو تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں ہوگا، کیوں کہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے اسرائیل کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ یہ تمام فلسطینیوں کی نمایندہ جماعت نہیں ہے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ حماس اتنے واضح طور پر اپنی انتظامی کمیٹی تحلیل کرنے کے لیے تیار ہوئی ہے۔ حماس اور الفتح کا مذاکرات کے ذریعے مصالحت کی طرف آنا اگرچہ خوش آیند قدم ہے لیکن ان کے رہنماؤں کو مسکراتے، ہاتھ ملاتے اور ساتھ تصاویر کھنچواتے دیکھ کر بھی یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ دونوں کے درمیان برسوں سے موجود اسٹرٹیجک اختلافات ختم ہوئے بھی ہیں یا ہنوز برقرار ہیں۔
بہرحال فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑتے ہیں جو خود ہی واضح کرے گا کہ یہ مصالحت قومی منصوبوں کی تکمیل میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے نجات اور مکمل آزادی کے حصول کی منزل تک ساتھ پہنچنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے گا؟ فلسطین کے داخلی مسائل اور بحران کا کیا حل تلاش کیا جائے گا؟ کیا اب یہ اتحاد مصائب میں گھری امت مسلمہ کے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا یا یہ خواب ایک بار پھر چکناچور ہوگا؟ حماس اور الفتح کی ذمے داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ وہ مل کر ان راستوں کو بند کریں جہاں سے غاصب ہمیشہ گھسے چلے آئے ہیں۔