جارج میرینوس کا دورہ پاکستان
جارج میرینوس نے کہا کہ اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔
عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کا صد سالہ جشن دنیا بھر میں منائے جانے کے سلسلے میں کمیونسٹ پارٹی آف یونان کے نظریاتی شعبہ کے انچارج اور مرکزی کمیٹی کے رکن کامریڈ جارج میرینوس اور ان کے ساتھی ویسیلیس سیموز نے گزشتہ دنوں پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔ ویسے تو انھیں پشاور، کوئٹہ، لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد اور چنیوٹ میں بھی خطاب کرنے جانا تھا مگر وقت کی کمی اور روس کے دورے کے باعث صرف کراچی اور حیدرآباد تک ہی محدود رہنا پڑا۔
17 اکتوبر سے19 اکتوبر تک حیدرآباد اور کراچی کا دورہ کیا۔ سب سے پہلے انھوں نے 17 اکتوبر کو szabist کراچی میں طلبا سے خطاب کیا، ان سے قبل پاکستان کے معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے بھی خطاب کیا۔ بعد ازاں وہ حیدرآباد کے لیے روانہ ہوگئے۔ دوسرے دن 18 اکتوبر کو حیدرآباد میں صبح 11 بجے ریلوے اسٹیشن سے پریس کلب تک مزدوروں کا جلوس نکلا اور یہ جلوس حیدرآباد پریس کلب پر اختتام پذیر ہوا۔ جہاں مزدور رہنماؤں اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے خطاب کیا۔
بعد ازاں دن 2 بجے ممتاز مرزا آڈیٹوریم حیدرآباد میں کسان کنونشن سے خطاب کیا اور پھر اسی آڈیٹوریم میں شام 4 بجے اکتوبر سوشلسٹ انقلاب پر سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار میں بھی جارج میرینوس مہمان خصوصی تھے۔ ان کی یونانی زبان کی تقریر کو کامریڈ ویسیلیس سیموز انگریزی زبان میں فی البدیہہ ترجمہ کرتے رہے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جارج میرینوس نے کہا کہ اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کے بعد دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں نے نوآبادیاتی غلامی سے آزادی حاصل کی۔ جرمنی اور امریکا جیسے ملکوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ تقریباً 80 ملکوں میں کمیونسٹ پارٹیاں تشکیل پائیں۔
دنیا بھر میں انقلابی ثقافت اور ادب پروان چڑھا۔ سوویت یونین میں تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، رہائش، بجلی، پانی، گیس اور ادویات تقریباً مفت تھے۔ چالیس چالیس سال تک روزمرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ چند سال میں بھوک، بے روزگاری، افلاس، بے گھری، لاعلاجی، منشیات نوشی، قتل و غارت گری، چوری چکاری، اغوا، عصمت فروشی اور مہنگائی کا خاتمہ کردیا گیا۔
شام سات بجے اسی آڈیٹوریم میں انقلابی ثقافتی و موسیقی کا پروگرام منعقد ہوا۔ دوسرے روز 19 اکتوبر کو پی ایم اے ہاؤس کراچی میں پاک کوریا سالیڈریٹی کمیٹی کے زیر اہتمام راقم کی صدارت میں سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما ڈاکٹر مرزا علی اظہر، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امداد قاضی اور مہمان خصوصی یونانی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما جارج میرینوس نے خطاب کیا اور سوالوں کے جواب دیے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی سامراج دنیا بھر میں تیل، گیس، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ہر ملک پر چڑھ دوڑتا ہے۔ اس نے عراق، شام، لیبیا، افغانستان پر حملہ کیا۔ اب اس نے شمالی کوریا کو اپنے نرغے میں لے رکھا ہے، اس کی ناکہ بندی کی گئی ہے، تجارت پر قدغن لگائی ہے۔ انھوں نے دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے اور پرامن دنیا کی تعمیر کا مطالبہ کیا۔ جارج میرینوس نے کہا کہ دنیا بھر کے عوام امریکی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں اور ہماری پارٹی بھی کوریائی عوام کے ساتھ اور ہم بھی امریکی سامراجی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
امداد قاضی نے کہا کہ شمالی کوریا کے ساحل پر امریکی بحری بیڑا لنگر انداز ہے، جو بظاہر جاپانی ساحل پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکا نے برما میں چینی سامراج کو بے دخل کرنے کے لیے ''روہنگیا سالویشن آرمی'' تشکیل دی ہے، جس کے صدر عطااللہ ہیں ۔ چونکہ برما کے گیس، تیل اور قیمتی پتھروں کا ٹھیکا چینی کمپنیوں کے پاس ہے اور امریکا چین کو وہاں سے بھگانا چاہتا ہے، اس لیے اس نے ''روہنگیا سالویشن آرمی'' تشکیل کروائی ہے۔
انھوں نے کہا کہ شمالی کوریا پر اقتصادی پابندی لگائی گئی، جب کہ شمالی کوریا کسی بھی ملک پر حملہ آور نہیں ہوا، اس کے مقابلے میں امریکا نے درجنوں ملکوں پر حملہ کیا اور کروڑوں انسانوں کا قتل کیا اور وہی امریکا کہتا ہے کہ سوشلسٹ کوریا سے ہمیں خطرہ ہے۔ مقررین نے کہا کہ 1948 میں کوریا میں سوشلسٹ انقلاب آیا، اس کے بعد امریکا نے اپنی فوج کوریا کے جنوب میں اتاری۔
کوریائی عوام اور حکومت نے امریکی فوج کے خلاف جنگ شروع کی۔ جب یہ جنگ بڑھی تو دنیا بھر سے کمیونسٹ گوریلا کوریا آئے اور امریکی سامراج کو کوریا سے نکالنے کے لیے اپنا فریضہ ادا کرنے لگے۔ یہ جنگ 1950 سے 1953 تک جاری رہی۔ بعد ازاں اقوام متحدہ نے یہ صلح کروائی کہ امریکی فوج کوریا سے چلی جائے گی اور غیر ملکی کمیونسٹ گوریلا بھی کوریا سے چلے جائیں گے۔ کمیونسٹ گوریلا تو چلے گئے لیکن امریکی فوج اب بھی مقبوضہ جنوبی کوریا میں موجود ہے۔
امریکی بحری بیڑا اور جنوبی کوریا سے امریکی فوج اگر آج چلی جائے تو مسئلہ فوری ختم ہوسکتا ہے۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا میں جاگیرداری ہے اور نہ سرمایہ داری، جس کی وجہ سے وہاں طبقات نہ ہونے کے برابر ہیں اور مہنگائی و بے روزگاری بھی بہت کم ہے۔ جب کہ ہمارے ملک میں ستر فیصد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہر سال چھ ہزار خواتین اور لڑکیاں قتل ہوتی ہیں، حادثات میں سات ہزار لوگ مارے جاتے ہیں۔
نوے فیصد مزدوروں، کھیت مزدوروں، اور غریب ملازموں کو چھ ہزار سے بارہ ہزار روپے تنخواہیں ملتی ہیں، یعنی کہ ملک کی بیشتر آبادی نیم فاقہ کشی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔ ایک ایک جاگیردار کے پاس ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمین ہے جب کہ ساڑھے چار کروڑ کسان بے زمین ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ پاکستان میں سوویت یونین اور شمالی کوریا جیسا نظام ہو، جہاں کم سے کم لوگ لاعلاجی اور بھوک سے نہ مریں۔