نہری پانی میں بھی انسانی فضلہ و دیگر گندگی شامل ہونے کا انکشاف

اسپتالوں میں70فیصد مریض آلودہ پانی کے باعث داخل ہورہے ہیں، تحقیقی رپورٹ

صاف پانی کی فراہمی کیلیے اربوں روپے مختص کیے جانے کے باوجود حکومتیں عوام کو صاف پانی کی فراہمی میں ناکام۔ فوٹو: فائل

زیر زمین پانی کے بعد اب نہری پانی میں بھی انسانی فضلے میں پایا جانے والا جرثومہ اور دیگر آلودگی کے شامل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

آلودہ پانی پینے سے ملک کے 25 بڑے شہروں کے کروڑوں افراد خطرناک بیماریوں کاشکارہورہے ہیں، وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتیں عوام کو صاف پانی کی فراہمی میں ناکام ہیں جبکہ عوام کے اربوں روپے چند افرادکی جیب اور مافیاز کے نذرہورہے ہیں۔

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورس منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے زیر زمین پانی کے بعد نہری پانی کے حوالے سے بھی رپورٹ مرتب کرکے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرا دی۔ رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ کے نہری پانی میں میں11فیصد، مردان13، سرگودھا 21، لاہور 25 ، شیخوپورہ 27 ، گجرات 40 ، قصور 40 ، پشاور 40 ، مظفر آباد40، ایبٹ آباد 43، مینگورہ 44 ، راولپنڈی 46 ، فیصل آباد 50، بدین 55، اسلام آباد68، لورالائی 71، ملتان 75، گوجرانوالا79، کوئٹہ81، کراچی 86، بہاولپور92، حیدرآباد 93، سکھر100، گلگت میں 100 فیصد انسانی فضلے میںپایا جانے والا جرثومہ اور دیگر آلودگی شامل ہے۔

پی سی آر ڈبلیو آرکی تازہ رپورٹ کے مطابق تمام بڑے شہروں میں آلودہ پانی کی فراہمی جاری ہے اور عوام صاف پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ زیرزمین پانی کی رپورٹ کے بعد دل دہلانے والی تازہ رپورٹ میں واضح کردیا گیاہے کہ نہری پانی بھی انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہوگیا ہے۔




ذرائع کے مطابق صاف پانی کے فراہمی کے لیے پنجاب میں140ارب روپے جبکہ سندھ میں25 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی 100 ارب روپے سے زائد کا بجٹ صرف صاف پانی کی فراہمی کے لیے مختص ہے لیکن بدنصیبی سے اس جانب وفاقی اور صوبائی حکومت نے توجہ دینا گوارا نہیںکی جس کی وجہ سے دل، کینسر، ہیپاٹائٹس سی اور بی سمیت دیگر خطرناک بیماریوں کا لاکھوں افراد شکار ہوچکے ہیں۔

بعض ذرائع نے دعویٰ کیاہے کہ حکومتیں جان بوجھ کر پانی کے مسئلے پر توجہ نہیں دے رہیں، پانی کو کرپشن کی زبان میں وائٹ گولڈ کہا جاتاہے اور اس وائٹ گولڈ کے ذریعے چند افرادپر مشتمل مافیا اربوں روپے ہڑپ کررہی ہے۔ اسپتالوں میں 70 فیصد مریض آلودہ پانی پینے کے باعث داخل ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ 4 ماہ قبل پی سی آر ڈبلیو آر نے زیر زمین پانی کی رپورٹ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک بھر کے5کروڑ افراد زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ تاہم نہری پانی کی تازہ رپورٹ کے بعد صورت حال مزید سنگین ہوگئی ہے۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو صاف اور میٹھا پانی فراہم کریں۔ پانی سے متعلق کام کرنے والے اداروں کی بنیادی ذمے داری ہے کہ انسانی فضلے میں پایا جانے والا جرثومہ اور دیگر آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔

رپورٹ میں مزید کہاگیاہے کہ جن علاقوں میں آلودہ پانی ہے وہاں پانی کے متبادل منصوبوں کی نشاندہی ہونا چاہیے ، سادہ ٹیکنالوجی اور کم قیمت واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کیے جائیں جبکہ گندے پانی کو دوبارہ قابل استعمال بناکر زراعت اور صنعتوں کے لیے استعمال میں لایا جائے۔

 
Load Next Story