مودی سرکار تباہی کی راہ پر
لگتا ہے کہ بھارت میں مودی سرکار کا زوال بھی شروع ہوگیا ہے اور اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔
لاہور:
وہ منظر ہماری آنکھوں میں آج تک محفوظ ہے جب بھارت کے ایک جانے مانے بزرگ سیاستدان آنجہانی سی۔ راج گوپال آچاریہ نے جو عرف عام میں ''راجہ جی'' کہلاتے تھے، دہلی کے مشہورکمپنی باغ میں شام کے وقت غروب ہوتے سورج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کانگریس کے بارے میں اس کے زوال کی پیش گوئی کی تھی۔ بے شک ہر کمال کو زوال درپیش ہوتا ہے۔کسی شاعر نے اس حقیقت کو کس خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقت شام دیکھ
لگتا ہے کہ بھارت میں مودی سرکار کا زوال بھی شروع ہوگیا ہے اور اس کے دن گنے جا چکے ہیں۔ گزشتہ دنوںکانپور میں پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کرلیا اور 22 دیگر افراد کے خلاف پرچہ کاٹ دیا۔ ان پر الزام ہے کہ یہ لوگ پردھان منتری مودی کے خلاف شہر میں اشتہار لگا رہے تھے جس میں مودی کو شمالی کوریا کے رہنما کم آل سنگ کا مماثل ظاہر کیا گیا تھا۔ ان اشتہاروں کا عنوان تھا ''کم نے دنیا کو تباہ کرنے کا اور مودی نے کاروبار تباہ وبرباد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔''
بھارت کے معاشی ماہرین اور تجارتی ادارے بلکہ بی جے پی کے بعض بزرگ رہنما بھی بھارت کی تیزی سے گرتی ہوئی اقتصادی حالت پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن مودی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بجائے اسے اپنے مخالفین کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت 2015 کی ترقی کے نکتہ عروج سے پھسل کر روز بروز تیزی کے ساتھ زوال کی طرف جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہی نہیں خود ریزرو بینک آف انڈیا کے اعداد وشمار اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ گزشتہ نومبر میں مودی سرکار نے اپنے مشیروں کے بہکاوے میں آکر اسقاط زرکی جو پالیسی اختیارکی تھی، اس کے نتیجے میں اصلاح احوال کے بجائے معاشی ہلچل پیدا ہوگئی تھی جس سے بھارت کی معاشی جڑیں ہل گئی تھیں۔ اس کے علاوہ مودی سرکارکا نو ساختہ ٹیکس نظام بھی بری طرح ناکام ہوچکا ہے جس کے تباہ کن مضمرات اور منفی اثرات رفتہ رفتہ کھل کر سامنے آرہے ہیں مگر مودی جی جو دراصل ''موذی'' واقع ہوئے ہیں ''میں نہ مانوں'' کی رَٹ لگا کر اپنی فطری ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اور تو اور خود مودی کے اپنے صوبے گجرات کے کاروباری مرکز سورت میں صنعت کار اور تاجر برادری ناسازگار کاروباری حالات سے تنگ آکر اپنا روپیہ سٹے جیسے دھندوں میں لگا رہی ہے جس کے نتیجے میں صنعتوں میں تالا بندی ہو رہی ہے۔ مودی سرکار جی ایس ٹی کے مسائل حل کرنے میں گم ہے اور بزنس کا بھٹہ بیٹھتا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے ایک سابق وزیر خزانہ یش ونت سنہا کا کہنا ہے کہ مودی سرکار غلط طریقوں سے GDP کا حساب لگا رہی ہے جب کہ گزشتہ سہ ماہی میں اس کی اصل شرح 5.7 فیصد نہیں بلکہ صرف 3.7 فیصد تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ نجی سرمایہ کاری میں جتنی شدید کمی آج دیکھی جا رہی ہے وہ پچھلے دو عشروں کے دوران کبھی بھی نہیں دیکھی گئی۔ بھارت کی زبوں حالی آج اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔ صنعت کے شعبے کی طرح زراعت کے شعبے کا بھی برا حال ہے۔ یہی حال تعمیرات کے شعبے کا بھی ہے۔ ایکسپورٹ میں بھی روز بروز گراوٹ آ رہی ہے جس کے نتیجے میں بے روزگاری میں نہایت تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بس صرف مودی سرکارکے چیلے اور چمچے عیش کررہے ہیں اور جنتا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
سب سے زیادہ برا حال نوجوان نسل کا ہے جسے مودی نے اپنی 2014 کی الیکشن مہم کے دوران ہر سال روزگار کے 10 ملین مواقعے فراہم کرنے کا یقین دلایا تھا۔ چنانچہ بھارت کا نوجوان طبقہ مودی کی وعدہ خلافی سے سخت نالاں اور بیزار ہے ۔ مودی کے راج میں اب ہر سال 12 ملین نوجوان بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں اس گمبھیر صورتحال میں اصلاح اور بہتری کی دور پرے تک کوئی امید دکھائی نہیں دے رہی۔ بزبان غالب:
کوئی امید بَر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اسٹاف کی خدمات مہیا کرنے والی سرکردہ فرم CIEL. HR کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کی حکمرانی کے دور میں بے روزگاری کی جو کیفیت ہوئی ہے، خصوصاً White Collar Jobs میں اس کی گزشتہ برسوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بھارت میں کارکن بھرتی کرانے والی سب سے بڑی کمپنی ٹیم لیز (Team Lease) نے خبردار کیا ہے کہ اس خوفناک بے روزگاری کے مستقبل قریب میں ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک بھیانک پیش گوئی یہ ہے کہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 30 فیصد سے 40 فیصد تک بے روزگاری بڑھے گی۔
زراعت کے شعبے کے بارے میں بھی ایسی ہی قیامت خیز پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ بھارت میں کسانوں کے آئے دن کے مظاہروں اور خودکشیوں کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ اس حقیقت کا کھلا ثبوت ہے۔ حکومت کی بے حسی اور کسان مخالف پالیسیوں سے عاجز آکر بھارتی کسان اب پرتشدد احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یعنی تنگ آمد بہ جنگ آمد۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مودی سرکار کی پولیس ان پر ڈنڈے برساتی ہے اور گولیاں چلاتی ہے، مگر احتجاجی کسانوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مزید بلند ہو رہے ہیں کیونکہ مودی سرکارکی زیادتیوں کے خلاف ان کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوکر چھلک چکا ہے اور سرکار کا کوئی حربہ اب کامیاب ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ بھارت کے کسان اب مودی سرکار کے خلاف کمربستہ ہوچلے ہیں اور ان کا اب ایک ہی نعرہ ہے کہ ''لاٹھی گولی کی سرکار اب نہیں چلے گی، نہیں چلے گی۔''
آپ کو یاد ہوگا کہ بھارت کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بی جے پی کے غنڈے اور ہندوتوا کے متوالے ان کی وزارت عظمیٰ کے بیشتر دور میں اپنی دشنام طرازی کا نشانہ بناتے رہے اور ان کی بدزبانی اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے منموہن سنگھ کو چور اور سیاسی مخنث تک کہہ ڈالا تھا، مگر اس شریف آدمی نے یہ سب کچھ انتہائی ضبط و تحمل سے برداشت کیا، لیکن بی جے پی نے جو کل بویا تھا آج اسے ہی کاٹنا پڑ رہا ہے۔ بقول شاعر:
تیرے کاموں کے ملیں گے تجھ کو پھل
آج جوکچھ بوئے گا کاٹے گا کل
بی جے پی کا آسمان پر تھوکا ہوا اب خود اسی کے منہ پر آکر گر رہا ہے۔
آج بی جے پی کے راج میں بھارتی سماج کا دامن تار تار ہو رہا ہے۔ بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے بھارتی نوجوان سڑکوں پر من مانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بلاتکار (خواتین کی آبرو ریزی) کے واقعات اور چوری ڈاکوں کی وارداتوں میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مودی سرکار عوام کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کو کچلنے کے لیے ہر طرح کے حربے آزما رہی ہے۔
سرکار نے میڈیا کا تو گلا گھوٹ رکھا ہے لیکن سوشل میڈیا اس کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے۔ مودی سرکار کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی عورت اس کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو بی جے پی کے غنڈے اسے ریپ کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور اگر کوئی مرد صدائے احتجاج بلند کرنے کی جرأت کرتا ہے تو اس کی ماں، بہن یا بیٹی کی عصمت لوٹنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ دونوں صورتوں میں بے چاری بھارتی ناری ہی بی جے پی کی غنڈہ گردی کا نشانہ بنتی ہے۔ دوسری جانب بے چارے بھارتی مسلمان اور نیچی ذات کے ہندو (دلت) مودی سرکار کی چیرہ دستیوں اور ظلم و ستم کا مسلسل نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔
مودی سرکار کے راج میں لوگوں کی نیند حرام ہے، لیکن سرکار لمبی تان کر سو رہی ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہیں کہ وہ بھارت کی تباہی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کرکے وہ اپنی جنتا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ یاد رہے:
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ کاغذ کی سدا چلتی نہیں