کیوں
یہ کیوں سب کو ملتا ہے۔ مجھے بھی ملا ہے، مقدور بھر جواب تلاش کر رہا ہوں، کرتا رہوں گا
WASHINGTON:
ایک انسان معذور، اتنا معذورکہ صرف پلکیں جھپکا سکتا ہے، اس نے پلکوں کے اشاروں سے دنیا کا ایک معرکۃالآرا ناول لکھ دیا، اب آپ اسے تخلیق کردیا کہہ لیں مگر خوبصورت تعریف یہی ہے کہ پلکوں سے لکھ دیا۔
اسی طرح دنیا بھر میں بہت سے معذوروں نے بہت سے کام انجام دے دیے جو مکمل لوگ نہ کرسکے اور اگر انھوں نے کیا بھی تو اپنا فائدہ ہی سوچا اور بظاہر فائدے میں ہی رہے بات یہ ہے کہ ایک ''کیوں'' قدرت نے ہر انسان میں رکھ دی ہے، اگر انسان ایک قدرتی کمپیوٹر ہے تو کیوں Key Word ہے۔
ہم ہدایت اپنی کتاب سے لیتے ہیں تو اس میں کہا گیا ہے کہ جاؤ تلاش کرو ہم نے جہاں تمہارے لیے مسخرکردیا ہے، اس کا مطلب بھی سمجھنا ضروری ہے اس سے پہلے کے شکار کا سامان لے کر جاہ و جلال اور عیش و عشرت کا سامان لینے نکل پڑو ۔ مجھے کیوں...؟ جانے دیجیے۔ عدالتی معاملہ ہے۔
تو کہا یہ گیا تھا کہ ہم نے اسے تمہارے لیے قابل تسخیرکردیا ہے ورنہ تم بھلا کیا تسخیر کرسکتے خدا کی کائنات کو، تمہاری حقیقت کیا ہے اس کے سامنے؟ تو جو لوگ اس زعم میں نہیں تھے کہ ہم وہ قوم ہیں کہ جس پر یہ کتاب اتاری گئی اور ہم تو جائیں گے ہی جنت میں اور جن کے مولویوں نے ان کو یقین نہیں دلایا کہ وہ جنت میں ہی جائیں گے بس ہمارا خیال رکھیں انھوں نے پلکوں سے کتاب لکھ دی۔
کیوں ''پاس ورڈ'' بھی ہے اس کائنات کے Game کا۔ اور اسے مسخر کرنے کی چابی بھی، مگر بات یہ ہے کہ کیوں کو استعمال کرنا آنا چاہیے، ترکیب استعمال انسانی ذات کے اوپری حصے میں محفوظ ہے۔ Game Rules بتا دیے ہیں جس طرح چاہو اپنی کتاب کو اس دنیا میں پرکھ لو، دنیا ''سانپ سیڑھی'' کا کھیل ہے بتا دیا گیا ہے، Zig Zag ہے بتا دیا گیا ہے۔
دنیا کے مختلف مذاہب میں برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی ہی کہا گیا ہے۔ یعنی دین حق کے علاوہ اور منسوخ شدہ شریعتوں اورکتابوں کے علاوہ جن پر ایمان لازم ہے کہ ایمان کا حصہ ہے وہ دین جو انسانوں نے تخلیق کیے خود اپنے لیے ان میں بھی ان دو اصولوں سے انحراف ہی نہیں کیا گیا بلکہ انھیں سرفہرست رکھا گیا کہ برائی اچھائی کا بدل نہیں ہے اور چاہے کتنا ہی خوبصورت بناکر پیش کیا جائے برائی، برائی ہی رہے گی۔
عبدالستار ایدھی مرحوم اس کیوں کا ایک خوبصورت استعارہ تھے، وہ میرے رشتے دار نہیں تھے اس طرح جس طرح لوگ ہوتے ہیں، کاش ہوتے، کاش میں ان کا بیٹا ہوتا، ایک کیوں ان کو والدہ سے ملا تھا اور انھوں نے اس کیوں کا جواب شاندار دے کر نہ جانے کیا کچھ مسخر کرلیا۔ خدا جانے وہ جانیں۔
یہ کیوں سب کو ملتا ہے۔ مجھے بھی ملا ہے، مقدور بھر جواب تلاش کر رہا ہوں، کرتا رہوں گا گنی چنی سانسوں تک تو یہ ہمارے کرکٹرز کو بھی ملا ہے، جواب تلاش کرنے کا ایک طرح کا دعویٰ انضمام الحق نے کیا تھا اور ''جماعت کھڑی'' کردی۔
مقتدی تو فلاح پاگئے، امام الحق کو جو بھیجتے ہیں موصوف کے دوسروں پر ترجیح دے کر۔
ہم اس طرح کے دینی خیالات نہ رکھتے ہیں نہ ان کے حامی ہیں ورنہ ایم کیو ایم، پی پی پی، پی ٹی آئی اور بہت سے دینی فرنچائز بھی ہیں وہاں ہوتے یہاں کیوں دماغ خراب کرتے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔
کبھی کبھی بہت مسکرانے کو جی چاہتا ہے تو وہ تصاویر نکال کر دیکھ لیتے ہیں جس میں ''سیاستدان عظیم'' جن کے سامنے شاید قائد اعظم بھی کچھ نہیں کہ وہ اتنے امیر نہ تھے۔ کی درگاہوں پر حاضری کی تصویر دیکھ لیتے ہیں اور ان اولیا اللہ کی قسمت پر رشک کرتے ہیں کہ ان شخصیات نے ان کے حضور مفت حاضری دی ہے۔ حالانکہ ان حاضر ہونے والوں کے حضور حاضر ہونے کی بہت بڑی قیمت ہوتی ہے۔
ہر ایک نے اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے Key Word کو اپنے اپنے لباس پہنا رکھے ہیں معنوں کے اور وہ ہر شخص مجاوروں سے لے کر صدر تک ہے جو نااہل کو اہل کرنے کے قانون پر رات کی تاریکی میں دستخط کردیتا ہے، کاش انکار کرکے خدا اور عوام کی حقیقی عدالت میں سرخرو ہوجاتے۔ ایسا عوام کا خیال ہے ۔ کیونکہ ویسے بھی اب چند ماہ کی حکومت اور صدارت رہ گئی ہے مگر صدر صاحب کا اپنا کیوں ہے۔
ایک کیوں کارگل کے شہیدوں کا ہے۔ ایک کیوں ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا ہے۔ ایک کیوں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا ہے۔ ایک کیوں سچے پاکستانیوں کا ہے اور یہ سارے ''کیوں'' حکومت کے گلے میں ہڈی بن کر پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت گم ہے پی آئی اے کے گمشدہ جہاز کی طرح جو اس کا CEO لے گیا Free میں۔
پاکستان کو اللہ اس کے مجبور عوام کی وجہ سے چلا رہا ہے، یہ دنیا کے اس کیوں کا جواب ہے کہ یہ ملک کیوں چل رہا ہے کہ اس کے سیاستدانوں نے اسے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے اور یہ کھڑا ہی نہیں ہے دن بہ دن مضبوط، بالغ نظر اور متحد پاکستان بنتا جا رہا ہے۔
یہ اب سیاسی گدھ بچوں کا شکار نہیں بنے گا۔ اب اسے سب کچرا صاف کرنا ہے اور شاید ایسا ہو جائے گا تاکہ قوم کو ان گدھوں اور ان کے بچوں سے نجات مل جائے۔ خاموش انقلاب کا تیزاب ان کی طرف بڑھ رہا ہے اور گلنے سڑنے کا عمل شروع ہونے والا ہے اس میں۔
جب قدرت کے ''مثبت کیوں'' لوگوں کو ''منفی کیوں'' میں تبدیل کرتے ہیں تو پھر گویا وہ اللہ سے جھگڑا شروع کرتے ہیں تو پھر کوئی نہیں بچتا نہ کوئی حضرت، نہ صاحب نہ مولانا۔ چاہے کتنی ہی بلند و بانگ تقریریں کرلیں، جی ٹی روڈ پر عمران کاپی، طاہر کاپی کرلیں، کچھ کرلیں کوئی مولانا کام آئے گا نہ کوئی بہانہ، یہ سب کی خود مانگی ہوئی موت ہے اس کا بندوبست خود کیا ہے۔ لہٰذا مل کر رہے گی ان کو بھی اور حمایتیوں کو بھی جن کے چہرے اب پیلے پڑنے شروع ہوگئے ہیں کہ خواہشات کا موسم بہار لد گیا اب اس کے چمن میں خزاں کا ڈیرہ ہونے والا ہے کیوں؟ یہ قدرت کا نظام ہے:
(ترجمہ): ''اعمال کا تعلق نیت سے ہے'' اور آپ کی نیت کبھی ٹھیک نہیں تھی۔کیونکہ
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
ایک انسان معذور، اتنا معذورکہ صرف پلکیں جھپکا سکتا ہے، اس نے پلکوں کے اشاروں سے دنیا کا ایک معرکۃالآرا ناول لکھ دیا، اب آپ اسے تخلیق کردیا کہہ لیں مگر خوبصورت تعریف یہی ہے کہ پلکوں سے لکھ دیا۔
اسی طرح دنیا بھر میں بہت سے معذوروں نے بہت سے کام انجام دے دیے جو مکمل لوگ نہ کرسکے اور اگر انھوں نے کیا بھی تو اپنا فائدہ ہی سوچا اور بظاہر فائدے میں ہی رہے بات یہ ہے کہ ایک ''کیوں'' قدرت نے ہر انسان میں رکھ دی ہے، اگر انسان ایک قدرتی کمپیوٹر ہے تو کیوں Key Word ہے۔
ہم ہدایت اپنی کتاب سے لیتے ہیں تو اس میں کہا گیا ہے کہ جاؤ تلاش کرو ہم نے جہاں تمہارے لیے مسخرکردیا ہے، اس کا مطلب بھی سمجھنا ضروری ہے اس سے پہلے کے شکار کا سامان لے کر جاہ و جلال اور عیش و عشرت کا سامان لینے نکل پڑو ۔ مجھے کیوں...؟ جانے دیجیے۔ عدالتی معاملہ ہے۔
تو کہا یہ گیا تھا کہ ہم نے اسے تمہارے لیے قابل تسخیرکردیا ہے ورنہ تم بھلا کیا تسخیر کرسکتے خدا کی کائنات کو، تمہاری حقیقت کیا ہے اس کے سامنے؟ تو جو لوگ اس زعم میں نہیں تھے کہ ہم وہ قوم ہیں کہ جس پر یہ کتاب اتاری گئی اور ہم تو جائیں گے ہی جنت میں اور جن کے مولویوں نے ان کو یقین نہیں دلایا کہ وہ جنت میں ہی جائیں گے بس ہمارا خیال رکھیں انھوں نے پلکوں سے کتاب لکھ دی۔
کیوں ''پاس ورڈ'' بھی ہے اس کائنات کے Game کا۔ اور اسے مسخر کرنے کی چابی بھی، مگر بات یہ ہے کہ کیوں کو استعمال کرنا آنا چاہیے، ترکیب استعمال انسانی ذات کے اوپری حصے میں محفوظ ہے۔ Game Rules بتا دیے ہیں جس طرح چاہو اپنی کتاب کو اس دنیا میں پرکھ لو، دنیا ''سانپ سیڑھی'' کا کھیل ہے بتا دیا گیا ہے، Zig Zag ہے بتا دیا گیا ہے۔
دنیا کے مختلف مذاہب میں برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھائی ہی کہا گیا ہے۔ یعنی دین حق کے علاوہ اور منسوخ شدہ شریعتوں اورکتابوں کے علاوہ جن پر ایمان لازم ہے کہ ایمان کا حصہ ہے وہ دین جو انسانوں نے تخلیق کیے خود اپنے لیے ان میں بھی ان دو اصولوں سے انحراف ہی نہیں کیا گیا بلکہ انھیں سرفہرست رکھا گیا کہ برائی اچھائی کا بدل نہیں ہے اور چاہے کتنا ہی خوبصورت بناکر پیش کیا جائے برائی، برائی ہی رہے گی۔
عبدالستار ایدھی مرحوم اس کیوں کا ایک خوبصورت استعارہ تھے، وہ میرے رشتے دار نہیں تھے اس طرح جس طرح لوگ ہوتے ہیں، کاش ہوتے، کاش میں ان کا بیٹا ہوتا، ایک کیوں ان کو والدہ سے ملا تھا اور انھوں نے اس کیوں کا جواب شاندار دے کر نہ جانے کیا کچھ مسخر کرلیا۔ خدا جانے وہ جانیں۔
یہ کیوں سب کو ملتا ہے۔ مجھے بھی ملا ہے، مقدور بھر جواب تلاش کر رہا ہوں، کرتا رہوں گا گنی چنی سانسوں تک تو یہ ہمارے کرکٹرز کو بھی ملا ہے، جواب تلاش کرنے کا ایک طرح کا دعویٰ انضمام الحق نے کیا تھا اور ''جماعت کھڑی'' کردی۔
مقتدی تو فلاح پاگئے، امام الحق کو جو بھیجتے ہیں موصوف کے دوسروں پر ترجیح دے کر۔
ہم اس طرح کے دینی خیالات نہ رکھتے ہیں نہ ان کے حامی ہیں ورنہ ایم کیو ایم، پی پی پی، پی ٹی آئی اور بہت سے دینی فرنچائز بھی ہیں وہاں ہوتے یہاں کیوں دماغ خراب کرتے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔
کبھی کبھی بہت مسکرانے کو جی چاہتا ہے تو وہ تصاویر نکال کر دیکھ لیتے ہیں جس میں ''سیاستدان عظیم'' جن کے سامنے شاید قائد اعظم بھی کچھ نہیں کہ وہ اتنے امیر نہ تھے۔ کی درگاہوں پر حاضری کی تصویر دیکھ لیتے ہیں اور ان اولیا اللہ کی قسمت پر رشک کرتے ہیں کہ ان شخصیات نے ان کے حضور مفت حاضری دی ہے۔ حالانکہ ان حاضر ہونے والوں کے حضور حاضر ہونے کی بہت بڑی قیمت ہوتی ہے۔
ہر ایک نے اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے Key Word کو اپنے اپنے لباس پہنا رکھے ہیں معنوں کے اور وہ ہر شخص مجاوروں سے لے کر صدر تک ہے جو نااہل کو اہل کرنے کے قانون پر رات کی تاریکی میں دستخط کردیتا ہے، کاش انکار کرکے خدا اور عوام کی حقیقی عدالت میں سرخرو ہوجاتے۔ ایسا عوام کا خیال ہے ۔ کیونکہ ویسے بھی اب چند ماہ کی حکومت اور صدارت رہ گئی ہے مگر صدر صاحب کا اپنا کیوں ہے۔
ایک کیوں کارگل کے شہیدوں کا ہے۔ ایک کیوں ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کا ہے۔ ایک کیوں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والوں کا ہے۔ ایک کیوں سچے پاکستانیوں کا ہے اور یہ سارے ''کیوں'' حکومت کے گلے میں ہڈی بن کر پھنسے ہوئے ہیں۔ حکومت گم ہے پی آئی اے کے گمشدہ جہاز کی طرح جو اس کا CEO لے گیا Free میں۔
پاکستان کو اللہ اس کے مجبور عوام کی وجہ سے چلا رہا ہے، یہ دنیا کے اس کیوں کا جواب ہے کہ یہ ملک کیوں چل رہا ہے کہ اس کے سیاستدانوں نے اسے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے اور یہ کھڑا ہی نہیں ہے دن بہ دن مضبوط، بالغ نظر اور متحد پاکستان بنتا جا رہا ہے۔
یہ اب سیاسی گدھ بچوں کا شکار نہیں بنے گا۔ اب اسے سب کچرا صاف کرنا ہے اور شاید ایسا ہو جائے گا تاکہ قوم کو ان گدھوں اور ان کے بچوں سے نجات مل جائے۔ خاموش انقلاب کا تیزاب ان کی طرف بڑھ رہا ہے اور گلنے سڑنے کا عمل شروع ہونے والا ہے اس میں۔
جب قدرت کے ''مثبت کیوں'' لوگوں کو ''منفی کیوں'' میں تبدیل کرتے ہیں تو پھر گویا وہ اللہ سے جھگڑا شروع کرتے ہیں تو پھر کوئی نہیں بچتا نہ کوئی حضرت، نہ صاحب نہ مولانا۔ چاہے کتنی ہی بلند و بانگ تقریریں کرلیں، جی ٹی روڈ پر عمران کاپی، طاہر کاپی کرلیں، کچھ کرلیں کوئی مولانا کام آئے گا نہ کوئی بہانہ، یہ سب کی خود مانگی ہوئی موت ہے اس کا بندوبست خود کیا ہے۔ لہٰذا مل کر رہے گی ان کو بھی اور حمایتیوں کو بھی جن کے چہرے اب پیلے پڑنے شروع ہوگئے ہیں کہ خواہشات کا موسم بہار لد گیا اب اس کے چمن میں خزاں کا ڈیرہ ہونے والا ہے کیوں؟ یہ قدرت کا نظام ہے:
(ترجمہ): ''اعمال کا تعلق نیت سے ہے'' اور آپ کی نیت کبھی ٹھیک نہیں تھی۔کیونکہ
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی