کراچی سرکلر ریلوے بحالی کی داستان
کراچی میں ایک متروک ریلوے ہے جس کی بحالی کے لیے 1999ء سے لے کر اب تک بے شمار نیم دلانا منصوبے بنائے گئے
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سرکلر ریلوے کے مجوزہ روٹ سے تجاوزات کا خاتمہ کرلیا گیا ہے، اس منصوبے کے لیے حکومت سندھ نے پاکستان ریلوے کے ساتھ مل کر رائٹ آف وے کے تحت 360 ایکڑ زمین حاصل کرلی ہے۔ وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے ذریعے پہلے ہی چینی وزارت ٹرانسپورٹ کوکراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ فراہم کردی ہے جب کہ ٹینڈر دستاویزات تیارکیے جارہے ہیں ۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے تک منصوبے کا ٹھیکہ دیدیا جائے گا منصوبے کا سنگ بنیاد 25دسمبر 2017 کو وزیر مینشن میں رکھا جائے گا ۔
اس طرح کراچی سرکلر ریلوے کے نئے دور کا آغاز ہوگا،کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو سی پیک فریم ورک کے تحت منظوری دی گئی، کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ عمل درآمد کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے ۔کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی وتعمیرکے لیے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اہم اجلاس چین میں ماہ دسمبرکو منعقد ہوگا۔
اجلاس میں پاکستانی وفد چینی ماہرین سے منصوبے کے تکنیکی ومعاشی امور پر بات چیت کرے گا تاکہ اس منصوبے کو سی پیک فریم ورک میں حتمی طور پر منظورکیا جاسکے، منصوبہ 36ماہ میں مکمل کیا جائے گا، منصوبے پر 1,97ارب ڈالر لاگت آئے گی جس کے لیے چین آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرے گا ۔اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان نے وزارت ریلوے کو بھی کراچی سرکلر ریلوے کے رائٹ آف وے اورکراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو حکومت سندھ کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی درخواست پر سابق وزیر اعظم پاکستان نوازشریف نے گزشتہ سال چینی حکومت سے بات چیت کرکے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے کو سی پیک سے منسلک کیا اور اس منصوبے کو حکومت سندھ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اس منصوبے میں خصوصی دلچپسی لے رہے ہیں۔
سرکلر ریلوے کا منصوبہ 43.13کلومیٹر طویل ہے جس میں 14.95کلومیٹر زمینی ، 28.18کلومیٹر بالائی ٹریک اور 34اسٹیشن تعمیرکیے جائیں گے ،ماحولیاتی آلودگی کو دورکرنے کے لیے سرکلر ریلوے کو برقی نظام سے آپریٹ کیا جائے گا جس پر 162ٹرینیں 100کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی ۔ اس منصوبے کی تعمیر سے 5لاکھ 55 ہزار مسافروں کو روزانہ سفری سہولیات میسر آئیں گی،کراچی کے لاکھوں مزدوروں کو روزگار میسرآئے گا اور شہریوں کو بھی سستی اور تیزرفتار ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب ہوگی۔
اس سے پیشتر بھی کئی بار سرکلر ریلوے کو فعال کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں، لیکن منصوبے پر آسان اقساط پر فنڈز فراہم کرنے والے جاپانی ادارے جائیکا کے تجاوزات کے خاتمے کے سب سے اہم مطالبے پر عمل نہیں کیا جاسکا جب کہ قبل ازیں کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر فزیبلٹی بنانے ،اجلاس اور دوروں پرکروڑوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، وفاقی اور سندھ حکومت کے اس رویے کے باعث جائیکا نے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو اپنی اولین ترجیحات سے نکال کر آخری ترجیح میں شامل کردیا تھا۔ منصوبے پرکام کرنے والے کراچی اربن ٹرانسپورٹ اتھارٹی منصوبے پر صرف کاغذی کام کرتا رہا ''جائیکا'' کو حکومت پاکستان کی گارنٹی درکار تھی جوگزشتہ 11سالوں میں نہیں دی گئی۔
سرکلر ریلوے کی دستاویز کے مطابق منصوبے کے روٹ پر ساڑھے چار ہزار تجاویزات تھے جس کے لیے جمعہ گوٹھ پر متبادل زمین حاصل کی گئی تاہم اس کی دستاویز ٹرانسفر نہیں کی گئی ، کہا جاتا رہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے 432 کلومیٹر ٹریک کے دونوں اطراف پاکستان ریلوے کی زمین پر 4ہزار 653 مکین آباد ہیں۔ جمعہ گوٹھ پر ریلوے کی 283 ایکڑ زمین پر تجاویزات کا خاتمہ کردیا گیا ہے جہاں متاثرین کی آبادکاری ہوگی۔
کراچی سرکلر ریلوے ،کراچی میں ایک متروک ریلوے ہے جس کی بحالی کے لیے 1999ء سے لے کر اب تک بے شمار نیم دلانا منصوبے بنائے گئے جو آج بھی پایہ تکمیل کے منتظر ہیں ۔ 2005 میں جاپان انٹر نیشنل کارپوریشن ایجنسی ،کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے نرم شرائط پر قرض دینے کے لیے رضا مند ہوگئی تھی ۔ تاہم منصوبے پر پھر بھی کام کا آغاز نہ ہوا اور منصوبہ التوا کا شکار ہوتا رہا ۔
بعد ازاں 7جون 2013ء کو سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کے بحالی کے لیے 26ملین امریکی ڈالرکے منصوبے کی منظوری دی ۔ پاکستان ریلوے نے کراچی میں آمد ورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا ۔کراچی سرکلر ریلوے لائن کی اسٹیشنوں کی تعداد 29 تھی جب کہ یہ منصوبہ 2 لائنوں پر مشتمل تھا ۔
پہلی لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی ۔ دوسرا پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی، لانڈھی اور کراچی سٹی تک لوکل ٹرینیں چلتی تھیں ۔ کراچی سرکلر ریلوے اسٹیشن درج ذیل تھے ۔ ایک روٹ کراچی شہر ( سٹی اسٹیشن ) ، وزیر مینشن ، لیاری ، بلدیہ، سائٹ ، منگھو پیر ،اورنگی ، نارتھ ناظم آباد ،لیاقت آباد،گیلانی ، اردوسائنس کالج،کراچی یونیورسٹی، ڈرگ روڈ تک ۔ دوسرا روٹ کراچی سٹی سے لانڈھی تک کا تھا۔
جس میں لانڈھی،ملیر ،ائیر پورٹ، ڈرگ کالونی ، ڈرگ روڈ ، چنیسر ہالٹ سے کینٹ اور سٹی اسٹیشنز شامل تھے۔ کراچی کے شہریوں نے اس سروس کو بے حد پسند کیا تھا اور پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو 5 لاکھ روپے کا منافع ہوا تھا ۔ اس لوکل ٹرین میں یومیہ 7لاکھ مسافر سفرکیا کرتے تھے ۔ یہ ایک تیز رفتار سواری تھی ۔ اوسط رفتار 44کلومیٹر فی گھنٹہ حد رفتار 100کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ نظام کی لمبائی (KM(31.07MI50)پٹری وسعت (MM(4FTساڑھے8in1,435تھا ۔ بگھی جسے ریل کا ڈبہ اور ویگن بھی کہتے تھے سبز رنگ کا ہوا کرتا تھا جس کا اوپری حصہ پیلا رنگ کا تھا جس کے اوپر پاکستان ریلوے لکھا ہوتا تھا ۔
ہرایک ڈبہ لمبا اورکشادہ ہوا کرتا تھا۔ ڈبے کے اندر دونوں جانب یکسر سیدھا بینچ نما لکڑی کی سیٹ ہوا کرتی تھیں ۔ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہوئے مسافروں کے سرکی طرف لمبا سا پائپ نصب تھا جس پر جگہ جگہ پکڑنے کے لیے بلیٹ لٹکتے تھے ڈبے میں باتھ روم ہوا کرتے تھے ۔ باقی وہی صورت تھی جو عام ٹرینوں کی ہے ۔بڑا مزا آتا تھا اس کی سواری کرتے ہوئے ۔ یہ قومی اور ثقافتی یکجہتی کا مظہر بھی تھا ، لوگ جڑے رہتے تھے، یگانگت اور شیرازہ بندی سرکلر ریلوے کا ایک اہم عنصر تھا ، سستی سواری تھی ۔
1970ء اور1980ء کی دہائی میں جب کراچی سرکلر ریلوے عروج پرتھی روزانہ 104لوپ لائن پر چلتی تھیں ، لیکن کراچی کے ٹرانسپورٹر وں کوکراچی سرکلر ریلوے کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی اور انھوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ریلوے ملازمین سے مل کر سازشیں شروع کردیں ۔ 1999ء کی دہائی کی شروع سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا ، ٹرینوں کی آمد ورفت میں تاخیرکی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفرکرنا چھوڑ دیا ۔ آخر کار 1994ء میں کراچی سرکلر کی زیادہ تر ٹرینیں خسارے کی وجہ سے بند کردی گئیں۔
1994ء سے 1999ء تک لوپ لائن پر صرف ایک ٹرین چلتی تھی ۔ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بندکردیا گیا ، اس سے آگے کی داستان آپ ملاحظہ کرچکے ہیں۔ اس لیے لوکل ٹرین کی بحالی کے لیے ہم اور آپ یہ دعا کریں کہ اب کی بار کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تاکہ شہر کراچی کے لوگ اعصاب شکن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم سے نجات حاصل کرسکیں ۔ (آمین )
اس طرح کراچی سرکلر ریلوے کے نئے دور کا آغاز ہوگا،کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کو سی پیک فریم ورک کے تحت منظوری دی گئی، کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ عمل درآمد کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے ۔کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی وتعمیرکے لیے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اہم اجلاس چین میں ماہ دسمبرکو منعقد ہوگا۔
اجلاس میں پاکستانی وفد چینی ماہرین سے منصوبے کے تکنیکی ومعاشی امور پر بات چیت کرے گا تاکہ اس منصوبے کو سی پیک فریم ورک میں حتمی طور پر منظورکیا جاسکے، منصوبہ 36ماہ میں مکمل کیا جائے گا، منصوبے پر 1,97ارب ڈالر لاگت آئے گی جس کے لیے چین آسان شرائط پر قرضہ فراہم کرے گا ۔اطلاعات کے مطابق وزیراعظم پاکستان نے وزارت ریلوے کو بھی کراچی سرکلر ریلوے کے رائٹ آف وے اورکراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو حکومت سندھ کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی درخواست پر سابق وزیر اعظم پاکستان نوازشریف نے گزشتہ سال چینی حکومت سے بات چیت کرکے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے منصوبے کو سی پیک سے منسلک کیا اور اس منصوبے کو حکومت سندھ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اس منصوبے میں خصوصی دلچپسی لے رہے ہیں۔
سرکلر ریلوے کا منصوبہ 43.13کلومیٹر طویل ہے جس میں 14.95کلومیٹر زمینی ، 28.18کلومیٹر بالائی ٹریک اور 34اسٹیشن تعمیرکیے جائیں گے ،ماحولیاتی آلودگی کو دورکرنے کے لیے سرکلر ریلوے کو برقی نظام سے آپریٹ کیا جائے گا جس پر 162ٹرینیں 100کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی ۔ اس منصوبے کی تعمیر سے 5لاکھ 55 ہزار مسافروں کو روزانہ سفری سہولیات میسر آئیں گی،کراچی کے لاکھوں مزدوروں کو روزگار میسرآئے گا اور شہریوں کو بھی سستی اور تیزرفتار ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب ہوگی۔
اس سے پیشتر بھی کئی بار سرکلر ریلوے کو فعال کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں، لیکن منصوبے پر آسان اقساط پر فنڈز فراہم کرنے والے جاپانی ادارے جائیکا کے تجاوزات کے خاتمے کے سب سے اہم مطالبے پر عمل نہیں کیا جاسکا جب کہ قبل ازیں کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر فزیبلٹی بنانے ،اجلاس اور دوروں پرکروڑوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، وفاقی اور سندھ حکومت کے اس رویے کے باعث جائیکا نے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو اپنی اولین ترجیحات سے نکال کر آخری ترجیح میں شامل کردیا تھا۔ منصوبے پرکام کرنے والے کراچی اربن ٹرانسپورٹ اتھارٹی منصوبے پر صرف کاغذی کام کرتا رہا ''جائیکا'' کو حکومت پاکستان کی گارنٹی درکار تھی جوگزشتہ 11سالوں میں نہیں دی گئی۔
سرکلر ریلوے کی دستاویز کے مطابق منصوبے کے روٹ پر ساڑھے چار ہزار تجاویزات تھے جس کے لیے جمعہ گوٹھ پر متبادل زمین حاصل کی گئی تاہم اس کی دستاویز ٹرانسفر نہیں کی گئی ، کہا جاتا رہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کے 432 کلومیٹر ٹریک کے دونوں اطراف پاکستان ریلوے کی زمین پر 4ہزار 653 مکین آباد ہیں۔ جمعہ گوٹھ پر ریلوے کی 283 ایکڑ زمین پر تجاویزات کا خاتمہ کردیا گیا ہے جہاں متاثرین کی آبادکاری ہوگی۔
کراچی سرکلر ریلوے ،کراچی میں ایک متروک ریلوے ہے جس کی بحالی کے لیے 1999ء سے لے کر اب تک بے شمار نیم دلانا منصوبے بنائے گئے جو آج بھی پایہ تکمیل کے منتظر ہیں ۔ 2005 میں جاپان انٹر نیشنل کارپوریشن ایجنسی ،کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے نرم شرائط پر قرض دینے کے لیے رضا مند ہوگئی تھی ۔ تاہم منصوبے پر پھر بھی کام کا آغاز نہ ہوا اور منصوبہ التوا کا شکار ہوتا رہا ۔
بعد ازاں 7جون 2013ء کو سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کے بحالی کے لیے 26ملین امریکی ڈالرکے منصوبے کی منظوری دی ۔ پاکستان ریلوے نے کراچی میں آمد ورفت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے 1969ء میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا ۔کراچی سرکلر ریلوے لائن کی اسٹیشنوں کی تعداد 29 تھی جب کہ یہ منصوبہ 2 لائنوں پر مشتمل تھا ۔
پہلی لائن ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے ہوتی ہوئی کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی تھی ۔ دوسرا پاکستان ریلوے کی مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی، لانڈھی اور کراچی سٹی تک لوکل ٹرینیں چلتی تھیں ۔ کراچی سرکلر ریلوے اسٹیشن درج ذیل تھے ۔ ایک روٹ کراچی شہر ( سٹی اسٹیشن ) ، وزیر مینشن ، لیاری ، بلدیہ، سائٹ ، منگھو پیر ،اورنگی ، نارتھ ناظم آباد ،لیاقت آباد،گیلانی ، اردوسائنس کالج،کراچی یونیورسٹی، ڈرگ روڈ تک ۔ دوسرا روٹ کراچی سٹی سے لانڈھی تک کا تھا۔
جس میں لانڈھی،ملیر ،ائیر پورٹ، ڈرگ کالونی ، ڈرگ روڈ ، چنیسر ہالٹ سے کینٹ اور سٹی اسٹیشنز شامل تھے۔ کراچی کے شہریوں نے اس سروس کو بے حد پسند کیا تھا اور پہلے ہی سال کراچی سرکلر ریلوے کو 5 لاکھ روپے کا منافع ہوا تھا ۔ اس لوکل ٹرین میں یومیہ 7لاکھ مسافر سفرکیا کرتے تھے ۔ یہ ایک تیز رفتار سواری تھی ۔ اوسط رفتار 44کلومیٹر فی گھنٹہ حد رفتار 100کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ نظام کی لمبائی (KM(31.07MI50)پٹری وسعت (MM(4FTساڑھے8in1,435تھا ۔ بگھی جسے ریل کا ڈبہ اور ویگن بھی کہتے تھے سبز رنگ کا ہوا کرتا تھا جس کا اوپری حصہ پیلا رنگ کا تھا جس کے اوپر پاکستان ریلوے لکھا ہوتا تھا ۔
ہرایک ڈبہ لمبا اورکشادہ ہوا کرتا تھا۔ ڈبے کے اندر دونوں جانب یکسر سیدھا بینچ نما لکڑی کی سیٹ ہوا کرتی تھیں ۔ جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کھڑے ہوئے مسافروں کے سرکی طرف لمبا سا پائپ نصب تھا جس پر جگہ جگہ پکڑنے کے لیے بلیٹ لٹکتے تھے ڈبے میں باتھ روم ہوا کرتے تھے ۔ باقی وہی صورت تھی جو عام ٹرینوں کی ہے ۔بڑا مزا آتا تھا اس کی سواری کرتے ہوئے ۔ یہ قومی اور ثقافتی یکجہتی کا مظہر بھی تھا ، لوگ جڑے رہتے تھے، یگانگت اور شیرازہ بندی سرکلر ریلوے کا ایک اہم عنصر تھا ، سستی سواری تھی ۔
1970ء اور1980ء کی دہائی میں جب کراچی سرکلر ریلوے عروج پرتھی روزانہ 104لوپ لائن پر چلتی تھیں ، لیکن کراچی کے ٹرانسپورٹر وں کوکراچی سرکلر ریلوے کی ترقی ایک آنکھ نہ بھائی اور انھوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ریلوے ملازمین سے مل کر سازشیں شروع کردیں ۔ 1999ء کی دہائی کی شروع سے کراچی سرکلر ریلوے کی تباہی کا آغاز ہوا ، ٹرینوں کی آمد ورفت میں تاخیرکی وجہ سے لوگوں نے کراچی سرکلر ریلوے سے سفرکرنا چھوڑ دیا ۔ آخر کار 1994ء میں کراچی سرکلر کی زیادہ تر ٹرینیں خسارے کی وجہ سے بند کردی گئیں۔
1994ء سے 1999ء تک لوپ لائن پر صرف ایک ٹرین چلتی تھی ۔ 1999ء میں کراچی سرکلر ریلوے کو مکمل طور پر بندکردیا گیا ، اس سے آگے کی داستان آپ ملاحظہ کرچکے ہیں۔ اس لیے لوکل ٹرین کی بحالی کے لیے ہم اور آپ یہ دعا کریں کہ اب کی بار کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تاکہ شہر کراچی کے لوگ اعصاب شکن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم سے نجات حاصل کرسکیں ۔ (آمین )