’’دہشتگردوں نے خود کو بچانے کیلیے اپنی شناخت نمبرزمیں رکھ لی‘‘

شاہ فیصل تھانے پردھماکے میں زخمی ملزم کانمبر18،فرارہونیوالے کا44تھا،فیاض خان

شاہ فیصل تھانے پردھماکے میں زخمی ملزم کانمبر18،فرارہونیوالے کا44تھا،فیاض خان ، فوٹو: فائل

شاہ فیصل کالونی پولیس اسٹیشن پر حملے کے الزام میں گرفتار زخمی ملزم کاتعلق پنجابی طالبان سے ہے جس نے دوران تفتیش انکشاف کیاہے کہ اس کے متعددساتھی کراچی میں موجودہیں اور ہم نے اپنی شناخت کے لیے نام نہیں بلکہ نمبرزرکھے ہوئے ہیں۔

کوئی بھی کسی کا نام نہیں جانتاصرف نمبر سے ہی ایک دوسرے سے رابطہ ہوتاہے اورنہ ہی کسی کوایک دوسرے کے ٹھکانے معلوم ہوتے ہیں،گرفتار ملزم کا نمبر 18 ہے اور فرار ہونے والے ساتھی کا نمبر44ہے جس نے اپنانام سجادبتایاتھا۔یہ بات ایس ایس پی سی آئی ڈی آپریشن فیاض خان نے ؎ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے بتائی ، انھوں نے بتایاکہ ملزم نے دوران تفتیش سنسی خیزانکشافات کیے ہیں ،ملزمنے جعلی شناختی کارڈ پر اپنا نام صابر لکھا ہواتھا دراصل اس کا اصلی نام سلمان ہے جس نے تفتیش کے دوران مزید بتایاکہ نمبر الاٹ ہونے کے بعداگر کوئی نمبر سے ہٹ کرکسی کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے تو اسے نقصان اٹھانا پڑتاہے جبکہ دہشتگردی کی کاروائیوں اورگرفتاری سے بچنے کیلیے کوڈ سسٹم کانظام بنایا گیاہے تاکہ ناموں کے بجائے سب کونمبرزسے شناخت کیا جائے اور اس میں آسانی بھی رہتی ہے۔


فیاض خان نے بتایا کہ ملزم لانڈھی میں پیداہوا اور نوعمری میں ہی وزیرستان چلا گیاتھا جہاں اس نے دہشت گردی کی تربیت حاصل کی،گرفتار ملزم نے 22 مئی 2011 کو پاک بحریہ کے ایئربیس پی این ایس مہران حملے میں بھی اہم کردار ادا کیاتھا جبکہ وہ پنجابی طالبان کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے دہشتگردی کی کارروائیاں کررہاتھا،ملزم نے کالعدم تنظیم کے قاری شاہدکے ساتھ مل کر پی این ایس مہران پرحملے کی نہ صرف منصوبہ بندی کی تھی بلکہ 2 ماہ سے زائدعرصہ تک وہاں کی ریکی بھی کی تھی جبکہ وہاں کی اندرونی معلومات بھی اسی کے ذریعے قاری شاہدتک پہنچتی تھی۔



گرفتار ملزم سلمان نے جوائنٹ انٹروگیشن کے دوران بتایاکہ شاہ فیصل کالونی تھانے پرحملے کے وقت اس کے ہمراہ سجاد نامی شخص تھاجوایک سال سے اس کے ساتھ کام کر رہا ہے،قائد آبادمیں بم دھماکے بھی اسی کی کارروائی تھی جس میں ڈی ایس پی قائد آبادکمال منگن اور ایک سب انسپکٹر جاں بحق جبکہ ایس ایچ اوقائد آباد امان اﷲ مروت سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے ،ملزم نے مزید انکشاف کیاکہ بلوچ کالونی تھانے پر حملہ بھی پنجابی طالبان کی کارروائی تھی تاہم وہاں حملے کاٹاسک انہی کے دوسرے گروپ کودیاگیا تھا،پنجابی طالبان کے متعدد افراد کراچی میں مقیم ہیں تاہم کوئی بھی کسی کاٹھکانہ نہیں جانتا،صرف موبائل فون پررابطہ کر کے بتائے ہوئے مقام پرپہنچاجاتاہے اورجس مقصد(بم نصب کرنے یادستی بم حملے)کے لیے جانا ہوتاہے تو اس کی مکمل تیاری کے ساتھ جایاجاتاہے مقررہ مقام بتادیاجاتاہے۔
Load Next Story