سندھ میں بلدیاتی نظام اختیارات کے لیے جاری کشمکش کیا رنگ لائے گی

صورت حال سے متعلق حقائق اور فریقین کا موقف بیان کرتی رپورٹ.


Abdul Latif Abu Shamil March 03, 2013
فوٹو: فائل

آخر وہی ہوا، جو ہماری ملکی تاریخ ہے۔ ہم اپنی پوری تاریخ میں یہ بات اب تک طے نہیں کرسکے کہ آخر ہمارا نظام حکومت کیا ہوگا ۔

کہنے کو تو ہم اسلامی ''جمہوریہ'' پاکستان کے باشندے ہیں، لیکن کیا وطن عزیز میں واقعی جمہوریت ہے؟ اس کا جواب اب ایک کمسن بچہ بھی جانتا ہے۔ جمہوریت کے پردے میں بدترین آمریت اور آمریت کو مشرف بہ جمہوریت کرنے والے آمر، بس ایک آنکھ مچولی جاری ہے۔ جمہوریت کی بساط ہر آمر نے یہ کہہ کر الٹ دی کہ ملک و قوم کو اس کی ضرورت ہے۔ پھر تحریکیں رونما ہوئیں اور جمہوریت تشریف لے آئی، لیکن کیا یہ واقعی جمہوریت تھی؟ سیاسی راہ نماؤں کے عاقبت نااندیش اقدامات، ذاتی سرمائے میں اضافہ اور باہم دست بہ گریباں ہونے کا تماشہ جاری رہا، ہمارے نام نہاد راہ نما بس زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔

حال ہی میں آنے والا پیپلز بلدیاتی آرڈی نینس پھر زیر بحث ہے۔ ہر فوجی حکومت نے عوامی پذیرائی کے لیے بلدیاتی حکومتوں کو اہمیت دی، اس لیے آمریت میں انتخابات نہیں ہوتے اور قومی و صوبائی اسمبلیاں وجود نہیں رکھتیں، لیکن آمریت کو عوامی تائید کی ضرورت بہرحال ضرور پیش آتی ہے۔ اس لیے بلدیاتی اداروں کی ضرورت اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ جیسے ہی جمہوریت بحال ہوتی ہے انتخابات کے نتیجے میں قومی وصوبائی اسمبلیاں وجود میں آجاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں بلدیاتی ادارے اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ اختیارات کی جنگ ہے۔ عوامی نمائندے بلدیاتی اداروں کو اس لیے نظرانداز کردیتے ہیں کہ ان سے اختیارات تقسیم ہوجاتے ہیں۔ مقامی سطح پر اختیارات تقسیم ہونے سے مقامی سیاست پر ان کا کنٹرول کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہ سیاسی مفادات کا ٹکراؤ بن جاتا ہے۔

بلدیاتی حکومتوں کا نظام پہلی بار ملک کے پہلے آمر جنرل ایوب خان کے دور میں 1954 میں ''ویلیج ایڈ'' کے نام سے شروع کیا گیا۔ آپ اسے پاکستان میں بلدیاتی اداروں کی اول شکل کہہ سکتے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد دیہات میں زراعت و صنعت کا فروغ تھا۔ اکتوبر 1959 میں جنرل ایوب خان نے کونسلروں کے انتخابات کے لیے ایک حکم جاری کیا، جس کے تحت پورے پاکستان میں ایک لاکھ بیس ہزار کونسلر منتخب ہوئے۔ جنرل ایوب خان نے ان کونسلروں کو یہ اختیار بھی دیا کہ وہ اپنا ووٹ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کا صدر منتخب کرسکتے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑا اور انہی کونسلروں کو استعمال کرتے ہوئے صدارتی انتخاب جیت لیا۔ 1971 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے جنرل ایوب خان کے بنیادی جمہوری نظام کو ختم کردیا۔

1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس جاری کیا، لیکن اس آرڈی نینس کے تحت کوئی انتخاب نہیں کرائے گئے۔ یہ صرف کاغذوں پر لکھا ہوا ایک بے جان آرڈی نینس رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 1979 میں ایک آرڈی نینس جاری کردیا۔ اس آرڈی نینس کے تحت 1979 اور 1983 میں ضلع، تحصیل اور یونین کونسل کی سطح کے انتخابات کرائے گئے جو جنرل ضیاء الحق کی عوامی تائید حاصل کرنے کی ضرورت بھی تھی۔ بے نظیربھٹو اور بعدازاں میاں نواز شریف نے جنرل ضیاء الحق کے لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس کو جاری رکھا، لیکن انہوں نے بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے۔ اس کے بعد پیپلز ورکس پروگرام اور تعمیر وطن پروگرام کے نام سے منصوبے پیش کیے گئے۔

پاکستان کے تمام سیاست داں بظاہر تو اس بات پر مکمل اتفاق رکھتے ہیںکہ پاکستان میں اختیارات کی تقسیم ہونی چاہیے، مگر جب بھی بلدیاتی انتخاب کا مرحلہ آجاتا ہے تب سیاست داں تقسیمِ اختیارات کے اس تصور کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کرتے ہیں، جب کہ آئین کے آرٹیکل 32 میں کہا گیا ہے کہ مملکت متعلقہ علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل بلدیاتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرے گی اور ایسے اداروں میں کسانوں، عورتوں اور مزدوروں کو خصوصی نمائندگی دی جائے گی۔ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے سیاست داں لوکل گورنمنٹ کے نظام پر متفق نہ ہوسکے اور اس نافع نظام کو اپنے سیاسی، گروہی اور مالی مفادات کے تحت تبدیل کیا جاتا رہا۔

حالاںکہ پاکستان جس نازک صورت حال سے گزر رہا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ایک مستقل بلدیاتی نظام وضع کیا جائے، جو عوامی خواہشات کے مطابق ہو اور جس کے ذریعے عوام مقتدر ہوسکیں۔ اس بلدیاتی نظام کے سامنے ایک رکاوٹ بیوروکریسی بھی رہی ہے۔ منتخب نمائندے بیوروکریسی کی راہ کی رکاوٹ بنتے ہیں، دوسری طرف سیاست داں بیوروکریسی کو اپنے مقاصد میں استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ بیوروکریسی حکم رانوںکے تابع ہوتی ہے، جو سرکاری افسران کو برطرف، تبدیل یا معطل کرسکتے ہیں، جب کہ ضلعی نظام میں ضلعی ناظم ضلعی کونسل کو جواب دہ ہوتا ہے اور حکم راں آسانی سے اسے برطرف نہیں کرسکتے۔ وطن عزیز کی سیاست پر سرمایہ دار اور جاگیردار قابض ہیں۔

وہ جب انتخابات جیت کر آتے ہیں تو اپنے اختیارات کی تقسیم کو برداشت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاتے۔ 21 فروری 2012 کو پھر یہ تاریخ دہرائی گئی۔ سندھ اسمبلی نے اچانک سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 منسوخ کردیا اور جنرل ضیاء الحق کا سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس 1979 بحال کردیا، سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 وہی ایکٹ ہے، جس پر پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے شادیانے بجائے تھے اور سندھ کی قوم پرستوں نے بھرپور احتجاج کیا تھا۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اسے سندھ کی تقسیم قرار دیتی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے چھے روز بعد ہی یہ ایکٹ منسوخ کردینا مزید تلخیوں کا باعث بنا۔ یہ منسوخ شدہ ایکٹ آخر کیا تھا؟ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اسے آخر کیوں سندھ کی تقسیم قرار دے رہی تھیں، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 پر سندھ کے قوم پرستوں کے اعتراضات

منسوخ کردہ ''سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012'' کے بارے میں سندھ کے قوم پرستوں کا موقف ہے:

بلدیاتی اداروں کے نظام سے متعلق دستاویز صفحہ نمبر 6پر باب دوئم کی شق نمبر 8سے دہرے نظام کا آغاز ہوتا ہے۔ اس شق کے عنوان Creation of Metropoliton Corporation میں کہا گیا ہے کہ حکومت سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور میرپور خاص کے ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کو ایک ضلع پر مشتمل میٹروپولیٹن قرار دے گی۔ اس کے بعد آنے والے پیرا گراف کا عنوان ہے ''وضاحت''، اس وضاحتی نوٹ میں کہا گیا ہے، ''یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اس آرڈیننس کے لیے ضلع کراچی آرڈیننس کے اجراء سے قبل کہ پانچوں اضلاع پر محیط ہوگا۔'' یہ وضاحتی نوٹ اس نظام میں کراچی کو باقی میٹروپولیٹس کارپوریشنز سے الگ تھلگ کردیتا ہے یعنی لاڑکانہ، سکھر، میرپور خاص اور حیدرآباد تو ایک ضلع پر مشتمل میٹروپولیٹن ہوں گے، تاہم کراچی میں پانچ اضلاع کو ملا کر ایک ضلع بنانے کے بعد میٹروپولیٹن بنایا جائے گا۔''

1998ء کی مردم شماری کے مطابق حکومت کی اتحادی جماعت (جو اب حکومت سے الگ ہوچکی ہے) اور اس کے اتحادیوں کو کراچی کے 5میں سے صرف 2اضلاع میں عددی اکثریت حاصل ہے۔ اگر کراچی میٹروپولیٹن کو پانچ ڈسٹرکٹ کونسلز بناکر ایک میٹروپولیٹن قائم کی جاتی تو انھیں پانچ میں سے صرف دو اضلاع کی حکومت ملتی، اگر ان پانچ ضلعی حکومتوں کے نمائندوں پر مشتمل میٹروپولیٹن حکومت کی کونسل تشکیل دی جاتی تو حکومتی اتحادیوں کے میئر کا انتخاب بھی مشکل ہوتا، اس لیے اس آرڈیننس کے ذریعے کراچی کو پانچ اضلاع کے بجائے 18ٹاؤنز کی کارپوریشن بنا دیا گیا۔ اس طرح کراچی میٹروپولیٹن کو دیگر میٹروپولیٹنز سے علیحدہ کیا گیا۔ اس لیے یہ نظام بلاشبہہ دہرا نظام ہے۔ بلدیاتی اداروں سے متعلق 2012ء کے نظام کے لیے جاری کیے گئے دستاویز میں مندرجہ ذیل نکات غور طلب ہیں:

دستاویز کے باب دوئم کی شق 6بی میں لکھا گیا ہے کہ یونین کونسل کی حدود کسی میٹروپولیٹن کے اندر کسی تحصیل یا ٹاؤن کی حدود سے باہر نہیں نکلیں گی، کیوںکہ ایسا کرنے سے ریونیو کی اکائی اور انتظامی اکائی یکساں رہے گی۔ تاہم یہ شرط کسی ٹاؤن کی حدود پر لاگو نہیں کی گئی کہ وہ کسی ضلعی کی جغرافیائی حدود سے باہر نہیں نکلے گا۔ اگر یہی شرط ٹاؤن پر لاگو کی جائے تو اس سے کراچی کا محل وقوع ایک دم بدل جائے گا۔ اس وقت کراچی میں پانچ اضلاع اور اٹھارہ ٹاؤن ہیں، اس میں ٹاؤن کی حدود ضلع کی ریونیو حدود کی پابند نہیں، بعض ٹاؤن ایک سے زاید اضلاع میں پھیلے ہوئے ہیں، یعنی ان کا کچھ حصہ ایک ضلع میں تو کچھ حصہ دوسرے ضلع میں ہے۔ یہ مشرف دور میں اس لیے کروایا گیا کہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس وقت کے چار اضلاع میں حکومت کی اتحادی جماعت کی اکثریت محض سینٹرل اور مشرقی اضلاع میں تھی اور باقی تین اضلاع میں ان کی حکومت بننے کا کوئی امکان نہ تھا۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع شرقی میں اردو بولنے والوں کی آبادی 40فی صد' جنوبی میں 26فی صد اور ملیر میں صرف 16فی صد تھی، اس لیے ان علاقوں میں ایم کیو ایم کی ضلعی حکومت بننا ممکن نہ تھی۔ مشرف دور میں ٹاؤن اس طرح تشکیل دیے گئے کہ ان میں آبادی کا توازن ایم کیوایم کے حق میں چلا گیا اور وہ ٹاؤنز کی اکثریت کے مالک بن گئی۔ اصولی طور پر اگر یہ نظام یونین کونسل کے ایک تحصیل کے اندر ہونے کی شرط عاید کرتا ہے، تو اسے ٹاؤن کی حدود کے لیے بھی وہی شرائط عاید کرنی چاہییں۔

اگر کراچی کو میٹروپولیٹن شہر قرار دے کر اس کے ٹاؤن اضلاع کے حدود کے اندر رکھے جائیں تو ٹاؤن کی حکومتیں اس طرح اتحادی جماعت کے پاس نہیں رہیں گی۔ جب اکثریتی ٹاونز کی حکومتیں ان کے پاس نہیں ہوں گے تو وہ اپنا میئر بھی نہیں چنوا سکیں گے۔ یہ نکتہ بھی کراچی کو باقی سندھ سے الگ کرتا ہے۔ مشرف دور میں ناظمین کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ضلعی حکومتوں کے پاس شہری امور کے میونسپل نوعیت کے انتظامی اختیار ہونا تو ٹھیک، تاہم انہیں مجسٹریٹ کے اختیارات دینے کے نتائج سنگین نکل سکتے ہیں۔ خاص طور پر کراچی، جہاں لسانی بنیادوں پر تقسیم اور مختلف آبادیوں میں تصادم کی تاریخ سالوں نہیں بلکہ عشروں پر محیط ہے۔ وہاں کسی ایک فریق کو شہر میں پولیس سے متعلق اہم اختیارات دینا کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

آرڈیننس کے پہلے شیڈول میں ضلع اور میٹروپولیٹن حکومتوں کو منتقل کیے گئے اختیارات کی فہرست موجود ہے۔ 22ویں نمبر پر اختیارات کے تحت میئر اور ضلع چیئرمین کو اپنے حدود میں ناجائز تجاوزات ہٹانے اور امن و امان قائم کرنے کے لیے ضابطہ فوجداری کے تحت سیکشن 144,143,133,109اور 145کے اختیارات اور پولیس ایکٹ 1861ء کے تحت سیکشن اے 30سے بی 34کے اختیار تفویض کیے گئے ہیں۔ یہ اختیارات ضلع اور میٹروپولیٹن حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کر سکتی ہیں۔ پولیس کے سیاسی استعمال کی تاریخ اس ملک میں بہت قدیم ہے۔ جب دفعہ 144جیسے اختیارات میئر یا چیئرمین کے حوالے ہوں گے تو وہ مقامی سیاست کو بزور بازو اپنے تابع بنانے کی کوشش کریں گے۔

کراچی میں جہاں مختلف آبادیوں میں شدید کشمکش ہے، وہاں شہری حکومت حاصل کرنے والی جماعت باقی فریقین کے خلاف ان اختیارات کا کھل کر استعمال کرے گی۔ وہ مخالفین کو شہر میں کوئی جلسہ نہیں کرنے دیں گے، تجاوزات ہٹانے کا قانون کراچی سے باہر تو سبزی اور فروٹ کے ریڑھے ہٹانے کے کام آئے گا، جب کہ کراچی میں یہ اختیار سندھیوں اور بلوچوں کی بستیوں کو مسمار کرنے کے کام آئے گا۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں سامنے آئیں، جب سندھیوں اور بلوچوں کی صدیوں پرانی بستیوں پر بلڈوزر چلا دیے گئے۔ وہ فریق جو اسلحے کے زور پر سیاست کرتے ہیں، ان کو سرکاری مشینری پر اس طرح کے اختیارات دینے کا مقصد بلاواسطہ طور پر انہیں کراچی سے سندھیوں اور بلوچوں کو بے دخل کرنے کے اختیار دینا ہے۔

ضلع اور میٹروپولیٹن کارپوریشنز کو اختیارات کی منتقلی کے حوالے سے ایک اور شق بھی نہایت اہم ہے۔ باب دوئم کی شق نمبر 5میں کہا گیا ہے کہ، کونسلیں اپنے وسائل سے کوئی بھی محکمہ قائم کرنے یا کوئی اور سرگرمی کرنے کے لیے بااختیار ہوں گی۔ اس اختیار کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جب اپنے وسائل سے محکمہ قائم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ سندھ میں اضافی وسائل تو صرف کراچی یا حیدرآباد کے شہروں ہی میں پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ ڈیڑھ کروڑ آبادی والے شہر کراچی میں اگر دو چار چھوٹی رقم کے محاصل بھی متعارف کروائے جاتے ہیں تو ان کی سالانہ آمدن کروڑوں میں ہوگی۔

سکھر، میرپورخاص اور لاڑکانہ میں نہ تو صنعت ہے اور نہ شہری املاک کہ اربوں روپے کے سودے ہوتے ہیں، نہ بیرونی کمپنیوں یا کارپوریشنوں کے دفاتر ہیں، نہ ٹریفک خلاف ورزیوں کے چالانوں سے بڑی آمدنی اور نہ ہی آمدنی کے دیگر ذرائع ہیں۔ اس لیے ان کے پاس مرضی سے نئے محکمے قائم کرنے کے لیے اپنے وسائل تو کبھی جمع نہیں ہوں گے ، تاہم کل اگر کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن اپنے وسائل جمع کرکے یہ کہے کہ وہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے مقامی فورس تشکیل دینا چاہتی ہے اور اس میں حکم راں جماعت اپنی تنظیم کے ہزاروں لوگ بھرتی کر دے تو پھر انہیں سرکاری تن خواہ پر سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاسکے گا۔ بلاواسطہ طور پر یہ مراعات بھی کراچی کو دے کر نظام کو دہرا بنایا گیا۔

اس بلدیاتی نظام میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو عملی طور پر ناکارہ بناتے ہوئے اس کا کوآرڈینیشن کا کردار بھی ختم کیا گیا ہے۔ پی پی پی کے 2008ء کے انتخابی منشور میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کوآرڈینیشن کا کردار ڈی سی او کے پاس ہوگا۔ تاہم اس آرڈیننس کے تحت چیف آفیسر کا عہدہ تخلیق کرکے یہ اختیارات اسے تفویض کیے گئے ہیں۔ چیف آفیسر براہ راست ضلعی یا میٹروپولیٹن حکومت کو جواب دہ ہوگا۔ اس لیے بلدیاتی حکومتیں عملی طور پر صوبائی کنٹرول سے مکمل آزاد ہوں گی اور آزادی سے اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کر سکیں گی۔ مثلاً کراچی میں کس بستی کو منہدم کرنا ہے یا کس متاثرِسیلاب کو کیمپ لگانے دیا جائے یا نہ دیا جائے، جیسے فیصلے چیف آفیسر کے ذریعے ہوں گے اور صوبائی حکومت آبادی کے کسی بھی حصے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو روکنے کے قابل نہیں رہے گی۔ ڈپٹی کمشنر کے پاس صرف ریونیو کے امور رہ جائیں گے۔ تاہم اس معاملے میں بھی کراچی کی صورت حال مختلف ہوگی۔

یہ اور اس طرح کے دیگر اعتراضات کی بنا پر قوم پرستوں نے اس آرڈیننس کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ دوسری طرف اس آرڈیننس کی حامی ایم کیو ایم اس حوالے سے سندھ اسمبلی میں منظور ہونے والے نئے قانون کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کا موقف

متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی پاکستان اور لندن نے اپنے مشترکہ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ اسمبلی میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ 2012 کا قانون ختم کرکے 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کرنے کے اقدام کی شدید مذمت کی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کئی دنوں کی طویل مشاورت اور بحث و مباحثے کے بعد سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ 2012 کا قانون منظور کیا تھا، جسے خود پیپلزپارٹی کے راہ نماؤں نے سندھ کے عظیم تر مفاد میں قرار دیا تھا اور اب جیسے ہی ایم کیو ایم نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا پیپلز پارٹی نے خود اپنا ہی بنایا ہوا لوکل گورنمنٹ 2012 کا قانون ختم کرکے 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کردیا ہے۔ رابطہ کمیٹی نے کہا کہ ایم کیو ایم برسوں سے کوشش کرتی رہی کہ سندھ کے تمام مستقل باشندوں کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے لیکن پیپلز پارٹی نے آج سندھ میں لوکل گورنمنٹ کا قانون ختم کرکے ایک مرتبہ پھر سندھیوں اور مہاجروں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی ہے پیپلز پارٹی کا یہ اقدام سندھ میں محبتوں کو نہیں بلکہ نفرتوں اور دوریوں کو جنم دے گا، لہٰذا اس کا یہ اقدام سندھ دوستی نہیں بلکہ سندھ دشمنی کے مترادف ہے۔

رابطہ کمیٹی نے کہا کہ ایم کیو ایم لوکل گورنمنٹ کے نظام کو ختم کرنے کے حکومتی اقدام کے خلاف آئینی، قانونی اور ہر سطح پر جمہوری جدوجہد کرے گی اور سندھ کے عوام کو نچلی سطح پر اختیارات دلانے کیلئے ہر جمہوری طریقہ اختیار کرے گی۔ رابطہ کمیٹی نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کا بنایا ہوا 1979ء کا بلدیاتی نظام آئین کے آرٹیکل 140-A کے خلاف ہے اور پیپلز پارٹی نے اس نظام کو بحال کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعض راہ نما خود بھی 1979ء کے بلدیاتی نظام کو ایک ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا کالا قانون قرار دیتے تھے، لیکن آج انہوں نے بھٹو کو پھانسی دینے والے اسی جنرل ضیاء الحق کا کالا قانون بحال کرکے ملک خصوصاً سندھ کے عوام کو واضح طور پر پیغام دے دیا ہے کہ وہ آمریت کے دور کے اقدامات کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ رابطہ کمیٹی نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ کا نظام جمہوریت کی نرسری ہوتا ہے اور لوکل گورنمنٹ کے نظام کا نفاذ خود پیپلز پارٹی کے منشور کا بھی حصہ ہے، جسے محترمہ بینظیر بھٹو نے تشکیل دیا تھا لیکن آج پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت جو خود کو جمہوریت کا چیمپئن قرار دیتی ہے، اس نے نہ صرف جمہوریت کی بنیادی نرسری کو پیروں تلے کچلا ہے بلکہ اپنی ہی قائد کے بنائے ہوئے منشور سے بھی انحراف کیا ہے۔

رابطہ کمیٹی نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے لوکل گورنمنٹ کا قانون ختم کرکے سندھ کے غریب عوام کو نچلی سطح پر ان کے حقِ حکم رانی سے محروم کردیا ہے اور فرسودہ جاگیردارانہ نظام کو تقویت دی ہے اور اب سندھ کے غریب ہاری، کسان جاگیرداروں، وڈیروں اور ان کی بیوروکریسی کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ رابطہ کمیٹی نے کہا کہ ایم کیو ایم نے ماضی میں بھی ظالم حکمرانوں کے ایسے آمرانہ اقدامات کا سامنا کیا ہے اور آج بھی ہر قسم کے ظلم و جبر کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایسے ظالمانہ اقدامات سے ہمارے حوصلے پست نہیں کیے جاسکتے اور ہم حکومت کے غیرجمہوری اور غیرآئینی اقدامات کے خاتمہ اور عوام کو ان کا حق حکم رانی اور بنیادی حقوق دلانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ رابطہ کمیٹی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ہرگز مایوس نہ ہوں اور اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔

گذشتہ ''سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 '' جسے اب منسوخ کردیا گیا ہے، سندھ میں سیاسی انتشار، شہری و دیہی علاقوں کے باشندوں کی باہمی چپقلش، لسانی اکائیوں کے باہم تصادم کا سبب بن گیا تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ اور خاص کر سندھی قوم پرست جماعتیں اسے سندھ کی شہری و دیہی تقسیم کی بنیاد قرار دے رہے تھیں۔ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ اس ایکٹ کے خلاف ردعمل کے طور پر اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی، مشیر اور بعض وزراء کے گھروں پر حملے بھی ہوئے۔

پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 جس عجلت میں اسمبلی سے منظور کرایا گیا تھا یہ عمل حیرت انگیز ہی نہیں غیر جمہوری بھی تھا، جس میں پیپلز پارٹی نے اپنی دیگر اتحادی جماعتوں کو یکسر نظرانداز کردیا تھا، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا اور جمہوریت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام، مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ فنکشنل کو اعتماد میں لیتے ہوئے یہ اقدامات کرتی، لیکن پیپلز پارٹی نے اپنی سب سے بڑی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ مل کر یہ ایکٹ منظور کیا، جس سے اندرون سندھ ردعمل کی سیاست نے جنم لیا اور دیگر اتحادی جماعتیں پیپلز پارٹی سے الگ ہوگئیں۔

21 فروری 2012 کو سندھ اسمبلی نے اچانک اپنی سب سے بڑی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کی حکومت سے علیحدگی کے چھے روز بعد ہی یہ متنازعہ ایکٹ منسوخ کرکے جنرل ضیاء الحق کے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس 1979 بحال کردیا۔ آنے والا وقت بتائیے گا کہ آخر اس سارے قضیے کے پس پردہ پیپلزپارٹی کی سوچ کیا تھی۔

کراچی کے میئر اور ناظمین

کراچی سٹی میونسپل ایکٹ1933 میں نافذالعمل ہوا، اسی ایکٹ کے تحت کراچی سٹی میونسپل کارپوریشن کا سربراہ میئر تھا۔ 1976 میں اس میں 57 کونسلرز کو شامل کیا گیا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن جنوری 2000 میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بنادیا گیا اور اس کا سربراہ سٹی ناظم کہلایا۔

کراچی کے میئر اور سٹی ناظم

1۔ جمشید نسروانجی مہتا۔

2۔ ٹیکم داس ودھومل

3۔ قاضی خدا بخش

4۔ کے بی اردشیر ایچ ماما

5۔ درگا داس بی ایڈوانی

6۔ حاکم علوی

7۔ پی کے سدھوا

8۔ لال جی مہوترا

9۔ محمد ہاشم گزدر

10۔ سہراب کے ایچ کڑک

11۔ شمبو ناتھ مولراج

12۔ یوسف عبداﷲ ہارون

13۔ منول سیکٹوٹا

14۔ وشرام داس دیوان داس

15۔ حکیم محمد احسن

16۔ عبداﷲ بخش گبول

17۔ محمود اے ہارون

18۔ الحاج ملک باغ علی

19۔ صدیقی وہاب

20۔ ایس ایم توفیق

21۔ اﷲ بخش گبول

22۔ عبدالستار افغانی

23۔ فاروق ستار

کراچی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ناظمین

نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ 14 اگست 2011 تافروری2005

سید مصطفی کمال 17 اکتوبر 2005 تا فروری2010

6 نومبر 2011 کو 1975 کا بلدیاتی نظام ازخود بحال ہوگیا، جو تقریباً 11 ماہ تک بحال رہا۔ حکومت اور اتحادی جماعتوں کے مذاکرات کے نتیجے میں یکم اکتوبر 2012 کو پیپلز لوکل گورنمنٹ بل 2012 کے تحت نیا بلدیاتی نظام دیا گیا، جس پر اندرون سندھ شدید احتجاج ہوا۔ ہڑتالیں کی گئیں، حکومتی اتحاد میں شامل مسلم لیگ فنکشنل، نیشنل پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے صوبے کی دیگر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ چل کر احتجاجی تحریک چلائی، لیکن پیپلز پارٹی نے اس سیاسی دباؤ کا مقابلہ کیا۔ 16 فروری 2013 کو متحدہ قومی موومنٹ نے حکومتی اتحادی سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور 21 فروری 2013 کو پیپلز پارٹی نے چھٹی مرتبہ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ2012 منسوخ کرکے ضیاء الحق کا سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈی نینس 1997 بحال کردیا۔

پاکستان میں مقامی حکومتیں

پاکستان میں مقامی حکومتیں 2001 میں جاری ہونے والے ''مقامی حکومتوں کے آرڈیننس'' کے تحت ضلعی سطح پر فرمان کے تحت تشکیل پائیں۔ پاکستان میں ضلع حکومت کا تیسرا درجہ رہا ہے جوکہ صوبے کے زیرانتظام قائم رہا۔ ہمارے ہاں رائج رہنے والے اس نظام کے تحت ضلعی حکومت کا سربراہ ضلعی ناظم جب کہ انتظامی امور کا سربراہ ضلعی رابطہ افسر ہوتا ہے، جوکہ ضلعی ناظم کے ماتحت کام کرتا ہے۔ ضلعی ناظم ضلع کا انتظامی اور آئینی سربراہ ہوتا ہے، جسے عوامی رائے شماری سے منتخب کیا جاتا ہے۔ ضلعی ناظم ضلعی انتظامیہ اور آئینی اسمبلی کا سربراہ ہوتا ہے۔ ضلعی ناظم کے پاس وسیع تر انتظامی اور آئینی اختیارات ہوتے ہیں، جن کے تحت وہ ضلع میں حکومت کی عمل داری اور ترقیاتی منصوبہ جات کی تیاری اور تکمیل کو یقینی بناتا ہے۔ ضلعی ناظم کے پاس امن وامان کی صورت حال و معاملات کی دیکھ بھال بھی شامل ہے۔

سندھ میں بلدیاتی نظام پر حکم راں اتحاد کی آنکھ مچولی

سندھ میں پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے پانچ سال تک بلدیاتی نظام پر زبانی جمع خرچ ہی نہیں کیا، بلکہ اس مسئلے پر 12 سے زیادہ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، جن کے 50 سے زاید اجلاس منعقد ہوئے، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2 سال میں 6 بار بلدیاتی نظام کو تبدیل کرکے قومی خزانے کو زبردست نقصان پہنچایا گیا۔ پیپلز پارٹی نے 2001 کے بلدیاتی نظام کے خلاف ہوتے ہوئے بھی جولائی 2002 اور اکتوبر 2005 کے بلدیاتی انتخاب میں حصہ لیا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی مرکز اور صوبے میں حکومت قائم ہونے کے بعد بلدیاتی نظام پر بات چیت جاری رہی۔ 2009میں سندھ کے نئے بلدیاتی نظام پر پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے مابین باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے، لیکن متعدد اجلاسوں اور کمیٹیوں کے قیام کے باوجود دسمبر 2010 تک یہ قضیہ طے نہ ہوسکا۔

جون 2011 میں ایم کیو ایم کے حکومتی اتحادی اتحاد سے الگ ہونے اور گورنر سندھ کے استعفے کے اعلان کے بعد 9 جولائی 2011 کو قائم مقام گورنر سندھ نثار احمد کھوڑو نے 3 آرڈی نینس جاری کرکے 2001 کے بلدیاتی نظام کی جگہ 1979 کے بلدیاتی اور کمشنری نظام کا بل منظور کیا۔ لیکن پس پردہ اتحادی جماعتوں کے اجلاس جاری رہے۔ 6 اگست 2011 کو سابق وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے دستخطوں سے سندھ کے لیے بلدیاتی نظاموں کے آرڈی نینس جاری کرادیے۔ جس میں کراچی اور حیدر آباد کے لیے 2001 اور دیگر اضلاع کے لیے 1979 کا بلدیاتی نظام دیا گیا، جس پر شدید احتجاج ہوا۔ 6 اگست 2011 کے دہرے بلدیاتی نظام پر شدید احتجاج کے سامنے پیپلز پارٹی نے ہتھیار ڈالتے ہوئے 7 اگست 2011 کو نئے آرڈی نینس کے ذریعے 2001 کا نظام بحال کردیا۔ اس نظام کی بحالی کے ساتھ حکومت نے اعلان کیا کہ 3 ماہ میں نیا نظام لایا جائے گا۔ 5 نومبر 2011 تک حکومت قانون سازی نہیں کرسکی اور اس طرح 5 نومبر 2011 کو مذکورہ آرڈیننس خود منسوخ ہوگیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کا موقف

پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ2012 سندھ کی تقسیم کی بنیاد تھی' شاہی سید

عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر شاہی سید نے کہا ہے کہ بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری اور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی پہلی سیڑھی ہے، ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ بلدیاتی نظام کو آمروں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا، تنقید برائے تنقید کے بجائے عوامی مسائل کے حل اور شہر میں قیام امن ہماری اولین ترجیح ہے۔ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 کی واپسی اور 1979 کے بلدیاتی نظام کی بحالی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2012 کے نفاذ کے خلاف سب سے پہلے حکومت سے علیحدہ ہوئے۔ سندھ کی عوام کے جذبات سے نہ کھیلا جائے، سندھ میں دہرا بلدیاتی نظام ہو یا پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012 اور سندھ کی تقسیم کی مخالفت سمیت ہم ہمیشہ سندھ کی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی وقت نے ایک مرتبہ پھر ہمارا موقف سچ ثابت کردیا۔

پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ2012 کی واپسی سندھ کے عوام کی دل کی آواز تھی۔ آرڈیننس کی عوامی نیشنل پارٹی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے علیحدہ ہوئی تھی۔ آنے والے انتخابات میں سندھ کے عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ کس سیاسی جماعت نے ان کے دل کی آواز کی ترجمانی کی، غیرفطری اقدامات کا انجام صرف اور صرف پچھتاوا ہوتا ہے، جسے واپس ہی لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا بلدیاتی نظام نافذ کیا جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو، یہ فیصلہ پہلے کردیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012سندھ کی تقسیم کی بنیاد تھی جسے واپس ہونا ہی تھا۔ شاہی سید نے کہا کہ تمام سیاسی قوتوں کو اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے سندھ کے عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہوگا۔ آرڈیننس آرڈیننس کھیلنے کے بجائے ایسا بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں