بُک شیلف

ڈاکٹر محمد آصف نے قرآن عظیم سے فیض حال کیا ہے اور پھر عوام الناس کے لیے ایک شاندار اور عظیم خدمت سرانجام دی ہے۔

فوٹو: فائل

NIDERRAU, GERMANY:
خیر کثیر

مولف: پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف

مدیر:عرفان شاہ

قیمت:250 روپے

صفحات:536

ناشر:مکتبہ خیرکثیر، 1320 ، بلاک 15 ، دستگیر کالونی، فیڈرل بی ایریا، کراچی

پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف نے میرین بیالوجی (بحری حیاتیات) میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند رکھتے ہیں۔ درس وتدریس کے عظیم کام سے وابستہ ہونے کے ساتھ وہ حکومت کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز بھی رہے ہیں۔ اﷲ ربّ العزت نے ہادی برحق، حتمی مرتبت حضرت محمدؐ کو معلم بناکر بھیجا۔ معلم ہونا ہی بڑے اعزاز کی بات ہے، اس لیے کہ یہ کار پیغمبری ہے۔ قرآن عظیم راہ ہدایت و راہ نجات ہی نہیں انسانی زندگی کی دنیاوی فلاح و سرخ روئی کا ذریعہ بھی ہے۔ بہ شرط اس پر غوروفکر کیا جائے اور پھر اسے زندگی کے ہر شعبے میں بروئے کار لایا جائے۔ قرآن عظیم ایک ایسا شاہ کار ہے کہ جس پر جتنی عرق ریزی کی جائے وہ اپنا اتنا ہی گوہر عطا کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا خزینہ ہے جس سے ہر ایک فیض یاب ہوتا رہا ہے اور تا ا بد ہوتا رہے گا۔

ڈاکٹر محمد آصف نے قرآن عظیم سے فیض حال کیا ہے اور پھر عوام الناس کے لیے ایک شاندار اور عظیم خدمت سرانجام دی ہے۔ انہوں نے قرآن عظیم کی 23 سورتوں کے مفہوم و مطالب اور ان کے زندگی پر اثرات کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اردو ترجمہ و تفسیر کے چھے نامور شارحین و مفسرین کی کتب سے ان سورتوں کے مطالب و معانی کو یک جا کردیا ہے۔ خیر کثیر کی خوبی یہ بھی ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کا آپ ایک ساتھ مطالعہ کرسکتے ہیں، جن میں مولانا محمد جونا گڑھی کا ترجمہ، مولانا صلاح الدین یوسف کی تفسیر، مولانا احمد رضا خان بریلوی کے ترجمہ اور مولانا سید نعیم الدین کی تفسیر، مولانامحمود الحسن کا ترجمہ اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی تفسیر اور آخر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن سے مدد لی ہے۔ بلاشبہہ مولف نے انتہائی عرق ریزی اور جان فشانی کے ساتھ عقیدت و محبت سے عوام الناس کے لیے ایک نافع مجموعہ ترتیب دیا ہے، جس کا مطالعہ انشاء اللہ دنیاوی و اخروی فلاح کا ضامن بن سکتا ہے۔

جوامع الحکایات، لوامع الروایات

مترجم :اختر شیرانی

قیمت:400 روپے،صفحات: 288

ناشر: انجمن ترقی اردو

اردو کے عظیم شاعر، ڈراما نویس اور رومانی شاعر اختر شیرانی کے نام سے کون واقف نہیں۔ اختر شیرانی نے تراجم بھی کیے، جن میں عربی ادب کی شہرۂ آفاق کتاب جوامع الحکایات اور لوامع الروایات کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے، جو 1943ء میں شایع ہوا۔ اس کی دوسری اشاعت 1922ء میں اور 2012ء میں ہوئی۔ یہ ترجمہ انجمن ترقی اردو نے شایع کیا ہے۔ انجمن ترقی اردو نے اپنے وسائل کے باوجود انتہائی اہم کام سرانجام دیے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے نئی نسل نہ صرف اپنے اسلاف کے خیال ونظریات سے واقف ہوگی وہیں جیون گزارنے کی نئی راہیں اس کے سامنے آئیں گی اور شعور و آگاہی میں اضافہ ہوگا۔ نفیس کاغذ پر طبع کی گئی کتاب سادگی و پُرکاری کا اچھا نمونہ ہے۔

دلّی کی چند عجیب ہستیاں

اشرف صبوحی دہلوی

صفحات:206

قیمت:350 روپے

ناشر:انجمن ترقی اردو پاکستان

دلّی ، شہر آسودہ و خوش حال، مرکز علم و ادب ، تہذیب و تمدن، شہر بے مثال و جمال، ایک ایسی عظیم الشان تہذیب کا مرکز، جس پر تاریخ انسانی ناز کرتی رہے گی۔ دلّی مسلمانوں کی شان و شوکت کا ایک درخشاں باب تھا، جسے غیروں کے ساتھ اپنوں نے بھی تاراج کیا۔ دلّی کے اُجڑنے کا نوحہ کس نے نہیں پڑھا۔ کون ہے ایسا جس نے اس کے اجڑنے پر ماتم نہیں کیا۔ ہر حساس دل نے دلی کو اپنے آنسوؤں کے نذرانے پیش کیے۔ مرزا فرحت اﷲ بیگ، خواجہ حسن نظامی، ڈپٹی نذیر احمد، شاہد احمد دہلوی اور نجانے کتنی ہی نادر و نابغہ روزگار ہستیاں ہیں، جو دلّی کے ماتمی جلوس میں گریا کناں ہیں۔ میر تقی میر، خواجہ میر درد اور غالب کس کس کو یاد کیا جائے۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔ اشرف صبوحی دہلوی کی ''دلّی کی چند عجیب ہستیاں'' جسے انجمن ترقی اردو نے شائع کرکے ہم اور ہماری نئی نسل پر احسان کیا ہے۔ یوں تو سب بڑے نام ور لوگوں کے خاکے تحریر کرتے ہیں، لیکن اشرف صبوحی دہلوی نے بہت عام سے لوگوں کے خاکے تحریر کیے ہیں۔ خاکے ہی نہیں ان کی حالت زار اور اتنے دل چسپ پیرائے کہ آپ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑجائیں اور روتے روتے ہنسنے لگیں۔ خواجہ انیس کو دیکھیے،''میر صاحب کیا پوچھتے ہو، دلّی کو دیکھو گے تو پہچاننا مشکل ہوجائے گا، وہاں سے تو صرف نوابی رخصت ہوئی، بہار گئی، چمن تو سلامت ہے، یہاں تو ایسے اولے پڑے کہ پنپنے کی امید نہیں، جتنے آبرودار تھے ایک ایک کو چن چن کر پھانسی پر چڑھادیا۔'' اور اسے دیکھیے:

''لکھنؤ کا ماتم تو وہاں کر آئے، دلّی کا مرثیہ یہاں کے درودیوار سے سننا۔''

میر باقر علی داستاں گو، مٹھو بٹھیارا، گھمی کبابی، ملن نائی اور نجانے کتنے ہی ایسے اجڑے ہوئے مجسمے، ماتم کناں زندہ لاشیں۔ ہماری نئی نسل کو ایسی کتابیں ضرور پڑھنی چاہییں۔ اس سے نہ صرف انہیں تاریخ سے آگہی ہوگی ، وہیں وہ اردو کی چاشنی کا مزا بھی پائیں گے، جو اب نا یاب ہو تا جا رہا ہے۔

سوغات

شاعر:پروفیسر ہارون الرشید

ناشر:میڈیا گرافکس۔99L-21 سیکٹر 11۔اے ، نارتھ کراچی

صفحات:48

قیمت:100 روپے

ہمارے ہاں بچوں کے لیے بڑوں نے بہت کم لکھا ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں خصوصی توجہ کی ضرورت تھی، مگر بڑے ادیبوں اور شاعروں نے ماضی کی طرح حال میں بھی زیادہ دل چسپی نہیں لی۔ پروفیسر ہارون الرشید جوکہ متعدد ادبی تنقیدی و تاریخی کتابوں کے مصنف ہیں، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے چھوٹی سی کوشش کی ہے۔

''سوغات'' ان کی تازہ ترین کتاب ہے، جو بچوں کی نظموں پر مشتمل ہے۔ ساری نظمیں انتہائی سادہ اور آسان زبان میں کہی گئی ہیں اور سبق آموز ہیں۔ یہ نظمیں چھوٹے بچے آسانی سے پڑھ اور یاد کرسکتے ہیں۔ یہ مجموعی طور پر 27 نظمیں ہیں، جو زیادہ تر چھوٹی اور رواں بحروں پر مشتمل ہیں، جب کہ چھوٹی عمر کے بچوں کی فہم کے مطابق دل چسپ موضوعات پر لکھی گئی ہیں۔ مثلاً چھوٹی چڑیا، موٹر کار، بلی، مرغی کے بچے، اکڑبکڑ لکڑ، گرپڑی طوبیٰ اور اسامہ کے کھلونے وغیرہ۔

آرٹ پیپر پر بے حد صاف ستھرے انداز میں شائع کرکے اسے ننھے منے بچوں کے لیے واقعی ایک خوبصورت سوغات بنادیا گیا ہے۔

اسالیب (ادبی رسالہ، جلد اول و دوم)

سرپرست:پروفیسر سحر انصاری،ترتیب: عنبرین حسیب عنبر


صفحات:جلد اول۔۔۔۔672 ،جلد دوم۔۔۔۔ 638،قیمت مکمل سیٹ: 2000 روپے

رابطہ:C-147 ، بلاک جے، نارتھ ناظم آباد، کراچی،فون:0333-2140977

''اس قول کا دہرانا یقیناً تحصیل حاصل ہے کہ ادب اپنے گردوپیش کی دنیا سے لاتعلق رہ کر تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ اس تجربے سے اس وقت ساری دنیا گزر رہی ہے۔ ایک آشوب ناک صورت مقامی اور عالمی سطح پر دل و دماغ کو آسیب کی طرح کھائے جارہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے پہلے بھی دنیا نے متعدد حشر خیز اور عبرت ناک تجربے اپنی زندگی میں دیکھے اور برتے ہیں اور پھر یہ بھی ہوا کہ آتش نمرود کو گل زار بنادیا گیا، لیکن اس طرح کے معجزے جلد جلد رونما نہیں ہوا کرتے۔''

اسالیب کے اداریے ''پیش آہنگ''، جسے پروفیسر سحر انصاری نے تحریر کیا ہے، کی یہ ابتدائی سطور ، کس قدر سچی، معنی آفرین، اثر انگیز اور فکر مہمیز ہیں۔ معجزے واقعی جلد جلد رونما نہیں ہوا کرتے۔

''پاکستان اقوام عالم میں کوئی جزیرہ نہیں ہے، عالمی سطح پر جو تحریکیں، فیصلے، فلسفے اور آئین جہاں بانی کے زاویے وضع کیے جاتے ہیں ان سے پاکستان بھی براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہماری ذہنی اور مادی ضرورتوں کو اس طرح دوسروں کا دست نگر بنادیا گیا ہے کہ ہم عقل و عمل دونوں شعبوں میں صرف صارفین بنتے جارہے ہیں۔ ہماری اپنی ایجاد و اختراع کی مثالیں ابھی طلوع آفتاب سے نہیں بلکہ اندھیری رات میں چمکنے والے چند جگنوؤں سے مماثلت رکھتی ہیں، لیکن یہ روشنی کی چنگاریاں بھی ایک نہ ایک دن شعلہ جوالہ بن سکیں گی کیوںکہ:

کم سے کم انسان نے خواب سحر دیکھا تو ہے

جس طرف دیکھا نہ تھا اب تک، ادھر دیکھا تو ہے

جب کبھی مایوسی کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو یہی احساس روشنی کی کرن بن جاتا ہے کہ ہمیں بھی آگ کو گل زار بناکر ایک مثال قائم کرنی چاہیے۔ پاکستان کی اس سماجی، سیاسی اور تہذیبی دھوپ چھاؤں میں زندگی بسر کرتے ہوئے یہی خیالات حقائق کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ ہم شعروادب اور فنون لطیفہ کے تمام شعبوں سے اس لیے اپنا اور آپ کا رشتہ استوار رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر اس وقت زندگی زہر ہے تو اس کا تریاق بھی ہمیں کو تیار کرنا ہوگا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم بے حسی، لاتعلقی اور بے عملی کی زندگی کو ترک کرکے اس مثالی جدوجہد میں شامل ہوجائیں جس کا ابھی کوئی نام، کوئی مقام، کوئی پرچم اور کوئی نشان نہیں اور جسے ہم صداقت اصل تک پہنچنے کی ایک خواہش ہی کا نام دے سکتے ہیں۔''

اسالیب کی دوسری جلد پر پیش آہنگ کے عنوان سے لکھے گئے اداریے کی مندرجہ بالا سطور پروفیسر سحر انصاری کی لائق فائق صاحب زادی عنبرین حسیب عنبر کی ہیں۔ بڑا خواب ہمیشہ بڑی تعبیر لاتا ہے اور یہی خواب اسالیب کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ادب کے رنگا رنگ پرچوں کی سپرمارکیٹ میں بھرمار ہے، جن کا کام معیار نہیں صرف اشتہارات جمع کرنا ہے، اور یوں لگتا ہے کہ یہ پرچے ادب کی اشاعت نہیں بلکہ اشتہارات کے حصول کے لیے ادب کو زینہ بنائے ہوئے بس مالی منفعت کا خواب شرمندۂ تعبیر کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اسالیب جیسے پرچے کی اشاعت دیوانگی ہے، وارفتگی ہے ، عاشقی ہے اور یہ دیوانگی، وارفتگی اور عاشقی جیسا کارِجنوں ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں۔ یہ ایک مسلسل رت جگا ہے،خود سوزی ہے، جنون ہے۔ صلہ و ستائش سے بے گانہ ہوجانے والے ہی یہ کار جنون اختیار کرتے ہیں۔ یہ نار نمرود میں بے خطر کودنا ہر ایک کا نصیبا نہیں ہوتا۔ ہمارے اس مادہ پرست سماج میں اندھیرا اور گہرا ہوجائے اگر اس طرح کے دیوانے خودسوزی کرکے چراغ نہ جلائیں۔

پروفیسر سحر انصاری اور ان کی صاحب زادی عنبرین حسیب عنبر نے یہ کار جنون اختیار کیا۔ یہ رقص بسمل کی ابتدا ہے، آگے آگے دیکھیے کیا کیا معجزے رونما ہوتے ہیں۔ اسالیب ایک خزینہ ہے، ایسا خزینہ جسے دریافت کرنا اور پھر سب کو اس میں شریک کرنا سخاوت نہیں تو اور کیا ہے۔

اسالیب کی گیلری میں آویزاں تصویروں میں سے کچھ یہ ہیں:

میر کی شاعری کلاسیکیت کا معجزہ : ڈاکٹر اسلم انصاری، میر کا تصور عشق: پروفیسر سحر انصاری، فیض بنام غالب: سید مظہر جمیل، رسالے کی زینت بڑھاتے دیگر نثرپاروں میں رضا علی عابدی، رضی مجتبیٰ سلیم یزدانی، محمد سہیل عمر، محمد حمید شاہد کی تحریریں، گفتگو کے عنوان سے انتظار حسین اور شمیم حنفی سے عنبرین کی ہمہ جہت گفتگو۔ فن، فن کار و نگارشات کے عنوان سے پروفیسر گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر معین الدین عقیل اور ڈاکٹر ممتاز احمد خان کے مضامین، طنز و مزاح میں سعید آغا، انجم انصار اور عمر واحد کے نثرپارے شامل ہیں، خصوصی گوشے میں مبین مرزا، ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر ضیاء الحسن، امجد طفیل اور مشرف عالم ذوقی کے مضامین شامل ہیں۔ اسالیب کی دوسری جلد شبنم شکیل، ماجد خلیل، سلیم کوثر، شہاب صفدر کی نعتیہ سوغات، اقبال ضمیر، رشید امجد، یونس جاوید، اخلاق احمد، محمد ضمیر شاہد، نیلم احمد بشیر، سفرنامہ سلمیٰ اعوان ، شاعری میں اے چغتائی، سرشار صدیقی، ساقی فاروقی، افتخار عارف، اسلم انصاری، سحر انصاری، زبیر رضوی، کشور ناہید، محمود شام، انور سدید، انور شعور، امجد اسلام امجد، سلیم کوثر اور دیگر شعراء ، تراجم میں اسد عمر خاں، یاثر نقوی، نعیم صبا، حارث خلیق، کرن سنگھ۔

پروفیسر سحر انصاری ، امراؤ بندو خان اور جگجیت سنگھ پر پروفیسر سحر انصاری کے مضامین، کمار پرساد مکھرجی اور سلیم صدیقی کے استاد فیاض خان اور آگرہ گھرانے پر مضمون کے ساتھ دیگر خوب صورت تحریریں اس جلد کا حصہ ہیں۔

خصوصی مطالعے میں پروفیسر سحر انصاری نے ممتازصحافی، دانش ور اور شاعر احفاظ الرحمن کی نئی نظموں اور صابر وسیم کی تازہ غزلوں پر پر اظہار خیال کیا ہے۔

اسالیب یقینا حبس زدہ ماحول میں نسیم سحر اور تاریکی، عدم برداشت ، تشدد و قتل و غارت سے مجروح انسانیت کے لیے ندیم باوصفا ثابت ہوگا۔

جاذب قریشی کی 2کتابیں

شاعری (شعری مجموعہ)

زیرِاہتمام: سرزمین پبلی کیشنز، کراچی

صفحات:272،قیمت:400روپے

سینیر اور معتبر شاعر جاذب قریشی کی سخن وری پچاس دہائیاں مہکاتی ہوئی وقت کی ہم سفر ہے۔ اس مسافرت میں انھوں نے ماضی سے بھی رشتہ برقرار برقرار رکھتے ہوئے عصری تقاضوں کو بھی بہ خوبی نبھایا ہے۔ انھوں نے مختلف شعری اصناف کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور منوایا ہے۔ جاذب قریشی کا تازہ شعری مجموعہ ''شاعری'' ان کی تمام شعری جہتوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس مجموعے میں غزلوں اور نظموں کے ساتھ نثری نظمیں، ہائیکو، ثلاثی، حمد، نعتیں اور منقبتیں شامل ہیں، جنھیں صنف کے اعتبار سے الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ''شاعری'' میں شامل اپنے مضمون میں شاہد حمید لکھتے ہیں،''زیرِنظر کتاب 'شاعری' جاذب قریشی کی تخلیقی وشعری مسافرت کا وہ نیا نقشِ تابندہ ہے، جو جاذب قریشی کی مجموعی شعری وتخلیقی فضائے دل پذیر سے ہم کنار ہی نہیں کرتا، رفتہ رفتہ حال ومستقبل کے زمانوں تک ہمارے لیے تفہیمی رسائی کے مرحلے ہم وار کرتا جاتا ہے۔ روایت سے جدید عہد تک تخلیقی فرد کی مکالماتی سحرکاری اپنا چہرہ آپ دکھاتی ہے۔ ''شاعری'' اس کا بَیّن ثبوت ہے۔''

تخلیقی آواز (مضامین کا مجموعہ)

زیرِاہتمام: بھوپال انٹرنیشنل فورم، کراچی۔صفحات:264،قیمت:300روپے

تخلیق کاری اپنے ارد گرد برستے گزرتے لمحوں کو خود میں نہ سموئے تو بے جان ہوجاتی ہے، چناں چہ ہر اچھا شاعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے، جس کے شعروں میں اس کے دور کے عکس بکھرے ہوتے ہیں۔ یہی عصری جہت کسی شاعر یا ادیب کو کچھ امتیازی اوصاف عطا کرتی ہے۔ جاذب قریشی صاحب نے اسی جہت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو تنقیدی مضامین لکھے انھیں کتاب کی صورت سامنے لائے ہیں۔ یہ مضامین مختلف شعرا کے فن کا احاطہ کرتے اور پاکستان بننے کے بعد اس خطۂ زمین پر نمو پانے والی فکری وتخلیقی رجحانات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ابتدائیہ کے زیرِعنوان جاذب قریشی لکھتے ہیں،''گذشتہ کئی برسوں سے میرے پیشِ نظر زیادہ تر وہ شاعر رہے ہیں جو پاکستان بننے کے بعد پیدا ہونے والے فکری وتخلیقی رجحانات کے نمائندہ ٹھہرتے ہیں۔ جدید تر شاعری کی تفہیم ان شاعروں کے سمجھے بغیر ممجن نیں ہے کہ ان کے نئے اسالیب اور ان کی جدید معنویت نے ملی آزادی کے ساتھ ہی اپنے دریچے کھولے ہیں۔'' اس کتاب میں جن شعراء کے فکروفن کا احاطہ کیا گیا ہے ان میں (کتاب کی فہرست کی ترتیب کے مطابق) عزیزحامد مدنی، منیرنیازی، قمرجمیل، ظفراقبال، جمیل الدین عالی، محشر بدایونی، سلیم احمد، رئیس امروہوی، صبا اکبرآبادی، شان الحق حقی اور حنیف اسعدی سمیت بعض دیگر شعرا شامل ہیں۔ ان کے علاوہ غالب، علامہ اقبال، ناسخ لکھنوی اور حسرت موہانی پر مضامین بھی شامل ِ کتاب ہیں۔

مائی جوری اور عوامی سیاست

تحریر وترتیب: محمد رمضان

ناشر: بھنڈار سنگت، c-8فیز 2، قاسم آباد، حیدرآباد

صفحات:192،قیمت: 200روپے

کتابوں میں درج جمہوریت کے فیوض وبرکات اپنی جگہ، مگر پاکستان جیسے ملک میں، جہاں جاگیردار محنت سے پتھر ہوچکے اور مٹی میں اٹے ہاتھوں کی لکیریں بدل دینے پر قادر ہوں، سردار کا فیصلہ قبیلے کے لیے صحیفۂ آسمانی کا درجہ رکھے، پیروں کی عقیدت کی زنجیروں میں روحیں جکڑی رہیں، سیاسی گروہ مافیا اور گینگ کا روپ دھار لیں، رسوم ورواج انسان کو اﷲ کی طرف سے دی گئی آزادی پر بھی پہرے بٹھادیں۔۔۔۔۔۔۔وہاں جمہوریت کی رحمتیں اور برکتیں صرف زورآوروں کا دسترخوان سجاتی ہیں ( مگر آمریت کے مقابلے میں یہ خستہ حال جمہوریت بھی غنیمت ہے، کہ آمر عام آدمی کو دیتا کچھ نہیں، اس کے ناتواں ہاتھوں سے ووٹ کی طاقت بھی چھین لیتا ہے) اس صورت حال میں ہمارے ہاں انتخابات کی حیثیت ایک ملک گیر میلے سے زیادہ کیا رہ جاتی ہے؟ درحقیقت انتخاب کے نام پر ہمارے ملک میں ایک ایسا بازار لگتا ہے جس میں غلام اپنے لیے اپنی اپنی پسند کے آقا خریدتے ہیں۔

ایسے میں پچھڑے اور کچلے ہوئے طبقات کے کسی فرد کا انتخابی معرکے میں پورے قد سے کھڑا ہونا ''اسپارٹیکس'' کی تاریخ دہرانے کے سنہرے عمل سے کم نہیں۔ اور یہ تاریخ حوا کی ایک بیٹی ''مائی جوری'' نے دہرائی ہے۔ یہ کتاب اسی انتخابی معرکے کی کہانی ہے، جس میں کسان عورت مائی جوری نے قبائلی سرداروں کا مقابلہ کرکے نئی تاریخ رقم کی۔ یہ معرکہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے حلقہ 25 (جعفرآباد نمبر 1) میں پیش آیا۔ یہ نشست صوبائی وزیر رستم خان جمالی کے قتل کے بعد خالی ہوئی تھی، جس پر ضمنی انتخاب ہونا تھے۔ یہ حلقہ جس علاقے پر مشتمل ہے، وہ پوری طرح سرداروں کے زیرتسلط ہے، جن کا اشارۂ ابرو ہی یہاں کا قانون ہے۔ ان حالات میں طبقاتی نظام کے خلاف مصروفِ جہد کچھ افراد نے ٹھانی کہ اس ضمنی انتخاب کو مقامی پسے ہوئے طبقے میں زر اور زور کے مقابلے کی ہمت جگانے کا ذریعہ بنایا جائے۔

چناں چہ سرداروں کے نام زد کردہ امیدواروں کے سامنے کسی کو لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور اس خواب کو تعبیر مائی جوری کی ہمت نے عطا کی۔ گردنوں سے طوق اتارنے اور جھکے سروں کو اُٹھانے کے لیے کوشاں ان ترقی پسندوں کی اس انتخابی مہم کا مقصد اسمبلی کی نشست کا حصول نہیں تھا، بلکہ وہ سرداروں کے تسلط کو للکارا اور ان کی بیڑیوں میں جکڑے افراد کو مقابلے کا عزم دینے اٹھے تھے۔ اس کوشش میں زیرتبصرہ کتاب کے مصنف محمد رمضان پیش پیش تھے۔ یہ کتاب نہ صرف اپنے اچھوتے موضوع کے باعث دل چسپی کا سامان لیے ہوئے ہے، بلکہ ہمارے ہاں جمہوریت کی حالت اور انتخابی نظام کی کم زوریاں بھی سامنے لاتی ہے۔ اس منفرد انتخابی معرکے کی کہانی ڈرائنگ روم اور مخصوص حلقوں میں بیٹھ کر جاگیرداروں اور سرداروں کے خلاف الفاظ کی گولا باری کرتے دانش وروں اور سیاسی کارکنوں کو یہ سبق سنا رہی ہے کہ اگر استحصالی نظام کو بدلنا ہے تو اس استحصال کا براہ راست شکار لوگوں میں رہ کر کام کرنا ہوگا، ان کی بجھی آنکھوں میں امید جگانا ہوگی، انھیں اجالے کی سمت دکھانا ہوگی۔

اس کتاب میں تعارفی مضمون کے طور پر معروف دانش ور ڈاکٹر سید جعفر احمد کی تحریر شامل ہے، جب کہ بھنڈار سنگت کی صدر شاہینہ رمضان کے ''اظہار تشکر'' کے زیرعنوان کلمات اس کتاب کی تیاری کے مختلف مراحل سے آگاہ کرتے ہیں۔ ''مائی جوری اور عوامی سیاست'' اپنے منفرد موضوع اور افادیت کے ساتھ ہر کتاب دوست کو مطالعے کی دعوت دے رہی ہے۔
Load Next Story