چین کی ایک بچہ پالیسی
33 برس عمل درآمد کے بعد زیادہ گمبھیر مسائل سر اُٹھانے لگے.
عصر حاضر میں دنیا کی آبادی اس قدر تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے کہ اس کو دھماکہ خیز اضافہ آبادی (Population Explosion) کا نام دیا جا رہا ہے، اور ترقی پذیر ممالک میں تو یہ مسئلہ انتہائی سنگین ہو چکا ہے۔
آبادی کے مسئلہ کو سماجی علوم بالخصوص سماجیات اور معاشیات میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے تھامس مالتھس نے 1978ء میں ایک مضمون شائع کیا، جو اپنی نوعیت کا پہلا تجرباتی اور تحقیقی مطالعہ تھا، جس نے آگے چل کر علم آبادیات کی بنیاد ڈالی۔ مالتھس کا کہنا ہے کہ انسانی آبادی میں 25 سال میں دوگناہ ہو جانے کا رجحان پایا جاتا ہے جب کہ زرعی پیدوار میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوتا، اس لئے اگر آبادی کے اضافہ کی رفتار پر کنٹرول نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بالآخر سخت بحرانی حالات سے سماج کو دوچار ہونا پڑے گا۔
چنانچہ اگر مصنوعی اور سائنسی طریقہ سے آبادی پر قابو نہ پایا جائے تو ایک طرف غربت اور افلاس کی وجہ سے بیماریاں پھیلیں گی تو دوسری جانب جنگیں شروع ہو جائیں گی۔ مالتھس کے نظریہ آبادی پر بہت اعتراضات کیے گئے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آبادی اور پیدائش دولت کے مابین مسابقت کی جانب مالتھس نے جو اشارہ کیا تھا وہ بہرحال قابل توجہ ہے اور خصوصاً موجودہ صدی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس مسئلہ کی اہمیت پر ازسرنو توجہ دی جانے لگی ہے۔ خوشحال اور مضبوط قوم کیلئے کم آبادی کا نعرہ لگانے والوں میں خصوصاً چین، چاپان اور روس جیسے ممالک شامل ہیں۔
60ء کی دہائی تک چین میں سرکاری سطح پر افرادی قوت کے لئے زیادہ بچوں کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ آج بھی چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جو دنیا کی کُل آبادی کا 19.16فیصد بنتی ہے۔ ستر کی دہائی میں چینی حکام نے اپنے تمام تر سماجی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل کا ذمے دار زیادہ آبادی کو ٹھہرا کر اس سلسلہ میں ایک بچہ پالیسی متعارف کروا دی۔
یہ پالیسی 1978ء میں متعارف کروائی گئی اور 1979ء کے اوائل میں اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔ پالیسی پر عمل نہ کرنے والوں کو جرمانہ (جو خاندان کی آمدن کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کیا جاتا) اور عمل کرنے والوں کو مفت تعلیم، صحت کے ساتھ حکومت کی طرف سے دیگر مراعات بھی دی گئیں۔ صوبائی سطح پر پالیسی کا نفاذ شروع کیا گیا تو اس کے لئے باقاعدہ مہم بھی چلائی گئی۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ 1979ء سے 2011ء تک 4 سو ملین (40کروڑ) بچوں کی پیدائش کو روکا گیا، لیکن آزاد اسکالرز کے مطابق یہ اعداد و شمار درست نہیں کیوں کہ اس عرصہ میں4نہیں بلکہ ایک سو ملین پیدائش رک سکیں۔ اس پالیسی کے نفاذ کے باوجود چین کے کروڑوں شہری ایک سے زائد بچے رکھتے ہیں۔ 2007ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ملک بھر میں 35.9 فیصد افراد نے سختی سے ایک بچہ پالیسی پر عمل کیا ( جن کی کُل تعداد 48 کروڑ کے لگ بھگ ہے) 52.9 فیصد افراد ایک سے زائد بچے رکھتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پہلی اولاد بیٹی تھی یا پھر ان میں کوئی ذہنی یا جسمانی خامی تھی۔ 9.6فیصد افراد کو 2 بچوں کی باقاعدہ اجازت دی گئی۔ اور آخر میں 1.6فیصد وہ لوگ ہیں، جو بچوں کی تعداد کے معاملہ میں کسی قسم کی پابندی کے زیر اثر نہیں اور یہ تبت کے باشندے ہیں۔ اس حکمت عملی کے باعث چین میں شرح پیدائش جو 50ء یا 60ء کی دہائی میں 1.9فیصد تھی، کم ہو کر اب 0.7 پر آ گئی۔
چینی حکام اور ماہر اقتصادیات کے مطابق ایک بچہ فی گھرانہ جیسی پالیسیوں کی بدولت ہی آج چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپوٹر اور دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اور اگر شہریوں کی قوت خرید میں اضافے کی رفتار کا جائزہ لیا جائے، تو ممکن ہے کہ 2030ء تک چینی معیشت کا حجم امریکی معیشت کے حجم سے دوگنا ہو جائے، جس سے چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔۔۔لیکن۔۔۔! یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ایک خلافِ فطرت کام کو مستقل استحکام مل سکتا ہے؟ نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایک بچہ پالیسی کے مضمرات تو اس کے نفاذ سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے مگر انھیں اہمیت نہیں دی گئی، لیکن آج یہ مضمرات کسی نوخیز پہاڑ کی طرح ایسے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں کہ چینی حکام اور ماہرین خود ایک بچہ پالیسی کو ختم کرنے کے اشارے دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایک بچہ پالیسی نے سب سے پہلے سماج میں منفی رجحانات کو فروغ دیا۔ جب یہ پالیسی نافذ کی گئی تو وہ خواتین جو ایک بچے کی ماں ہونے کے بعد دوبارہ حاملہ تھیں، ان کو اسقاط حمل اور کنواری خواتین کو تاخیر سے شادی کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ شادی میں تاخیر نے معاشرہ میں بے راہ روی کو فروغ دیا۔ صرف ایک بچے کی شرط نے شادی شدہ جوڑوں میں بیٹے کی خواہش کو بڑھا دیا۔
جوڑے الٹراسائونڈ کے ذریعے بیٹی کا پتہ چلنے پر اسقاط حمل کروا دیتے( یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین میں الٹراسائونڈ ٹیکنالوجی کو بھی 1978ء کے بعد ہی فروغ ملا) ایک رپورٹ کے مطابق چین میں اسقاط حمل کے 90 فیصد کیسز صرف بیٹی کی وجہ سے کرائے گئے۔ اس کے علاوہ بیٹیوں کو یتیم خانے بھجوانا یا غائب کر دینے کے واقعات میں تیزی آگئی۔ یہاں تک کہ کچھ واقعات تو ایسے بھی پیش آئے جس میں لڑکیوں کو باقاعدہ قتل بھی کیا گیا۔ سالانہ 39 ہزار بچیاں صرف بیٹے کی خواہش کے باعث دیکھ بھال نہ ہونے سے اپنی عمر کے پہلے سال ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
ان اقدامات کے نتیجے میں معاشرہ میں صنفی عدم توازن خطرناک صورتحال اختیار کر گیا اور اس وقت چین لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعداد 6 کروڑ زیادہ ہے۔ ایسے افراد کی تعداد 10کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جن کا دنیا میں کوئی بہن یا بھائی نہیں ہے۔ 1982ء میں چینی خاندان اوسطاً4.4 افراد پر مشتمل تھا تاہم اب یہ شرح کم ہو کر 3.1 فرد سے بھی نیچے آرہی ہے۔ زیادہ بچوں پر حکومت کی طرف سے پابندیوں کے باعث چین میں بچوں کی خرید و فروخت کا دھندہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔
فی گھرانہ ایک بچہ پالیسی کے باعث زیرِ کفالت لوگوں کے تناسب میں کمی آئی اور برسرِ روزگار افراد کے دست نگر کم ہو گئے جس سے ملکی ترقی کو عروج ضرور ملنے لگا ہے، لیکن! افرادی قوت کی کمی نے چین کو دیگر مسائل میں الجھا دیا ہے۔ بڑی دیہی آبادی کی وجہ سے چین کو محنت کش کارکنوں کی فوری کمی نہیں ہو گی' لیکن کارکنوں کی یہ فراہمی ہمیشہ جاری رہنے والی نہیں۔ لیبر فورس میں شامل نوجوان تارکینِ وطن بھی آہستہ آہستہ کم ہوتے جائیں گے اور روزگار بھی وہاں منتقل ہو گا جہاں سستی لیبر دستیاب ہو کیوں کہ دنیا کا یہی اصول ہے۔ افرادی قوت کم ہوگی تو لیبر سستی نہیں بلکہ مہنگی ہو گی۔
آبادی میں کمی کی پالیسی کے باعث آج دنیا بھر میںسب سے زیادہ 21.4 فیصد بوڑھے چین ہی میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ہر سال ان کی تعداد میں 3.2 فیصد کے حساب سے برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2020ء میں چین میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد 248 ملین جبکہ 2030ء میں بوڑھوں کی آبادی 34 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ جائے گی یعنی پنشنروں کی آبادی امریکا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہو گی۔ حکومت کو ہر سال پنشن کی مد میں اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں، جس سے ایک طرف تو معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف قلیل پنشن سے پنشنرز کا گزر اوقات بھی بہت مشکل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں چینی حکومت کو عمر رسیدہ افراد کی پنشن کی مد میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، حکومت کے لئے روز بروز بڑھتے ہوئے ان بے سہارا افراد کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔ اپنی واحد اولاد سے محروم والدین کے لئے چین میں ''شیدوزہے'' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ افراد معاشی کے ساتھ سماجی تحفظ میں بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں، کیوں کہ عمر کے آخری حصہ میں ان بے سہاروں کو کوئی سنبھالنے والا نہیں اور حکومت وقت سے یہ اپنی نگہداشت کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو کلی طور پر ریاست کے بس میں نہیں۔
فی گھرانہ ایک بچہ پالیسی کے نقصانات کی وجہ سے آج چین بھر میں عوامی اور سرکاری سطح پر اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک بار نیشنل فیملی پلاننگ کمیشن کے نائب وزیر جیانگ فین نے بھی کہہ دیا کہ ہماری تحقیق کے مطابق 70.07 فیصد خواتین دو یا زائد بچے چاہتی ہیں۔ جبکہ غیر سرکاری اداروں کی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق 83 فیصد مائیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی چاہتی ہیں۔ ماضی میں ملکی ترقی کے لئے چین کا آبادی پر کنٹرول کا نعرہ اپنے تئیں درست ضرور ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آبادی یا معاشی وسائل کا توازن بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ عین ممکن ہے کہ کسی خاص وقت پر کسی خطے کی آبادی اس ملک کی معیشت کے لئے بوجھ ہو اور اسے کثرت آبادی کا نام دیا جائے۔ لیکن چند معدنی وسائل کی دریافت کی وجہ سے یا صنعتی ترقی کے نتیجہ کے طور پر اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہی آبادی جس پر کثرت کا گمان تھا، بدلے ہوئے حالات میں معاشی پیدوار کے لئے ناکافی سمجھی جانے لگی۔
آبادی کے مسئلہ کو سماجی علوم بالخصوص سماجیات اور معاشیات میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے تھامس مالتھس نے 1978ء میں ایک مضمون شائع کیا، جو اپنی نوعیت کا پہلا تجرباتی اور تحقیقی مطالعہ تھا، جس نے آگے چل کر علم آبادیات کی بنیاد ڈالی۔ مالتھس کا کہنا ہے کہ انسانی آبادی میں 25 سال میں دوگناہ ہو جانے کا رجحان پایا جاتا ہے جب کہ زرعی پیدوار میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوتا، اس لئے اگر آبادی کے اضافہ کی رفتار پر کنٹرول نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بالآخر سخت بحرانی حالات سے سماج کو دوچار ہونا پڑے گا۔
چنانچہ اگر مصنوعی اور سائنسی طریقہ سے آبادی پر قابو نہ پایا جائے تو ایک طرف غربت اور افلاس کی وجہ سے بیماریاں پھیلیں گی تو دوسری جانب جنگیں شروع ہو جائیں گی۔ مالتھس کے نظریہ آبادی پر بہت اعتراضات کیے گئے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آبادی اور پیدائش دولت کے مابین مسابقت کی جانب مالتھس نے جو اشارہ کیا تھا وہ بہرحال قابل توجہ ہے اور خصوصاً موجودہ صدی میں دوسری جنگ عظیم کے بعد اس مسئلہ کی اہمیت پر ازسرنو توجہ دی جانے لگی ہے۔ خوشحال اور مضبوط قوم کیلئے کم آبادی کا نعرہ لگانے والوں میں خصوصاً چین، چاپان اور روس جیسے ممالک شامل ہیں۔
60ء کی دہائی تک چین میں سرکاری سطح پر افرادی قوت کے لئے زیادہ بچوں کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ آج بھی چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جو دنیا کی کُل آبادی کا 19.16فیصد بنتی ہے۔ ستر کی دہائی میں چینی حکام نے اپنے تمام تر سماجی، معاشی اور ماحولیاتی مسائل کا ذمے دار زیادہ آبادی کو ٹھہرا کر اس سلسلہ میں ایک بچہ پالیسی متعارف کروا دی۔
یہ پالیسی 1978ء میں متعارف کروائی گئی اور 1979ء کے اوائل میں اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔ پالیسی پر عمل نہ کرنے والوں کو جرمانہ (جو خاندان کی آمدن کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کیا جاتا) اور عمل کرنے والوں کو مفت تعلیم، صحت کے ساتھ حکومت کی طرف سے دیگر مراعات بھی دی گئیں۔ صوبائی سطح پر پالیسی کا نفاذ شروع کیا گیا تو اس کے لئے باقاعدہ مہم بھی چلائی گئی۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ 1979ء سے 2011ء تک 4 سو ملین (40کروڑ) بچوں کی پیدائش کو روکا گیا، لیکن آزاد اسکالرز کے مطابق یہ اعداد و شمار درست نہیں کیوں کہ اس عرصہ میں4نہیں بلکہ ایک سو ملین پیدائش رک سکیں۔ اس پالیسی کے نفاذ کے باوجود چین کے کروڑوں شہری ایک سے زائد بچے رکھتے ہیں۔ 2007ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق ملک بھر میں 35.9 فیصد افراد نے سختی سے ایک بچہ پالیسی پر عمل کیا ( جن کی کُل تعداد 48 کروڑ کے لگ بھگ ہے) 52.9 فیصد افراد ایک سے زائد بچے رکھتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی پہلی اولاد بیٹی تھی یا پھر ان میں کوئی ذہنی یا جسمانی خامی تھی۔ 9.6فیصد افراد کو 2 بچوں کی باقاعدہ اجازت دی گئی۔ اور آخر میں 1.6فیصد وہ لوگ ہیں، جو بچوں کی تعداد کے معاملہ میں کسی قسم کی پابندی کے زیر اثر نہیں اور یہ تبت کے باشندے ہیں۔ اس حکمت عملی کے باعث چین میں شرح پیدائش جو 50ء یا 60ء کی دہائی میں 1.9فیصد تھی، کم ہو کر اب 0.7 پر آ گئی۔
چینی حکام اور ماہر اقتصادیات کے مطابق ایک بچہ فی گھرانہ جیسی پالیسیوں کی بدولت ہی آج چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپوٹر اور دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اور اگر شہریوں کی قوت خرید میں اضافے کی رفتار کا جائزہ لیا جائے، تو ممکن ہے کہ 2030ء تک چینی معیشت کا حجم امریکی معیشت کے حجم سے دوگنا ہو جائے، جس سے چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔۔۔لیکن۔۔۔! یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ایک خلافِ فطرت کام کو مستقل استحکام مل سکتا ہے؟ نہیں، ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایک بچہ پالیسی کے مضمرات تو اس کے نفاذ سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے مگر انھیں اہمیت نہیں دی گئی، لیکن آج یہ مضمرات کسی نوخیز پہاڑ کی طرح ایسے ابھر کر سامنے آ رہے ہیں کہ چینی حکام اور ماہرین خود ایک بچہ پالیسی کو ختم کرنے کے اشارے دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایک بچہ پالیسی نے سب سے پہلے سماج میں منفی رجحانات کو فروغ دیا۔ جب یہ پالیسی نافذ کی گئی تو وہ خواتین جو ایک بچے کی ماں ہونے کے بعد دوبارہ حاملہ تھیں، ان کو اسقاط حمل اور کنواری خواتین کو تاخیر سے شادی کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ شادی میں تاخیر نے معاشرہ میں بے راہ روی کو فروغ دیا۔ صرف ایک بچے کی شرط نے شادی شدہ جوڑوں میں بیٹے کی خواہش کو بڑھا دیا۔
جوڑے الٹراسائونڈ کے ذریعے بیٹی کا پتہ چلنے پر اسقاط حمل کروا دیتے( یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین میں الٹراسائونڈ ٹیکنالوجی کو بھی 1978ء کے بعد ہی فروغ ملا) ایک رپورٹ کے مطابق چین میں اسقاط حمل کے 90 فیصد کیسز صرف بیٹی کی وجہ سے کرائے گئے۔ اس کے علاوہ بیٹیوں کو یتیم خانے بھجوانا یا غائب کر دینے کے واقعات میں تیزی آگئی۔ یہاں تک کہ کچھ واقعات تو ایسے بھی پیش آئے جس میں لڑکیوں کو باقاعدہ قتل بھی کیا گیا۔ سالانہ 39 ہزار بچیاں صرف بیٹے کی خواہش کے باعث دیکھ بھال نہ ہونے سے اپنی عمر کے پہلے سال ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
ان اقدامات کے نتیجے میں معاشرہ میں صنفی عدم توازن خطرناک صورتحال اختیار کر گیا اور اس وقت چین لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعداد 6 کروڑ زیادہ ہے۔ ایسے افراد کی تعداد 10کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جن کا دنیا میں کوئی بہن یا بھائی نہیں ہے۔ 1982ء میں چینی خاندان اوسطاً4.4 افراد پر مشتمل تھا تاہم اب یہ شرح کم ہو کر 3.1 فرد سے بھی نیچے آرہی ہے۔ زیادہ بچوں پر حکومت کی طرف سے پابندیوں کے باعث چین میں بچوں کی خرید و فروخت کا دھندہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔
فی گھرانہ ایک بچہ پالیسی کے باعث زیرِ کفالت لوگوں کے تناسب میں کمی آئی اور برسرِ روزگار افراد کے دست نگر کم ہو گئے جس سے ملکی ترقی کو عروج ضرور ملنے لگا ہے، لیکن! افرادی قوت کی کمی نے چین کو دیگر مسائل میں الجھا دیا ہے۔ بڑی دیہی آبادی کی وجہ سے چین کو محنت کش کارکنوں کی فوری کمی نہیں ہو گی' لیکن کارکنوں کی یہ فراہمی ہمیشہ جاری رہنے والی نہیں۔ لیبر فورس میں شامل نوجوان تارکینِ وطن بھی آہستہ آہستہ کم ہوتے جائیں گے اور روزگار بھی وہاں منتقل ہو گا جہاں سستی لیبر دستیاب ہو کیوں کہ دنیا کا یہی اصول ہے۔ افرادی قوت کم ہوگی تو لیبر سستی نہیں بلکہ مہنگی ہو گی۔
آبادی میں کمی کی پالیسی کے باعث آج دنیا بھر میںسب سے زیادہ 21.4 فیصد بوڑھے چین ہی میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ہر سال ان کی تعداد میں 3.2 فیصد کے حساب سے برابر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2020ء میں چین میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد 248 ملین جبکہ 2030ء میں بوڑھوں کی آبادی 34 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ جائے گی یعنی پنشنروں کی آبادی امریکا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہو گی۔ حکومت کو ہر سال پنشن کی مد میں اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں، جس سے ایک طرف تو معیشت پر بوجھ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف قلیل پنشن سے پنشنرز کا گزر اوقات بھی بہت مشکل ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں چینی حکومت کو عمر رسیدہ افراد کی پنشن کی مد میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، حکومت کے لئے روز بروز بڑھتے ہوئے ان بے سہارا افراد کو سنبھالنا ناممکن ہو جائے گا۔ اپنی واحد اولاد سے محروم والدین کے لئے چین میں ''شیدوزہے'' کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ افراد معاشی کے ساتھ سماجی تحفظ میں بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں، کیوں کہ عمر کے آخری حصہ میں ان بے سہاروں کو کوئی سنبھالنے والا نہیں اور حکومت وقت سے یہ اپنی نگہداشت کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو کلی طور پر ریاست کے بس میں نہیں۔
فی گھرانہ ایک بچہ پالیسی کے نقصانات کی وجہ سے آج چین بھر میں عوامی اور سرکاری سطح پر اس کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ایک بار نیشنل فیملی پلاننگ کمیشن کے نائب وزیر جیانگ فین نے بھی کہہ دیا کہ ہماری تحقیق کے مطابق 70.07 فیصد خواتین دو یا زائد بچے چاہتی ہیں۔ جبکہ غیر سرکاری اداروں کی تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق 83 فیصد مائیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی چاہتی ہیں۔ ماضی میں ملکی ترقی کے لئے چین کا آبادی پر کنٹرول کا نعرہ اپنے تئیں درست ضرور ہوگا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آبادی یا معاشی وسائل کا توازن بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔
مثال کے طور پر یہ عین ممکن ہے کہ کسی خاص وقت پر کسی خطے کی آبادی اس ملک کی معیشت کے لئے بوجھ ہو اور اسے کثرت آبادی کا نام دیا جائے۔ لیکن چند معدنی وسائل کی دریافت کی وجہ سے یا صنعتی ترقی کے نتیجہ کے طور پر اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ وہی آبادی جس پر کثرت کا گمان تھا، بدلے ہوئے حالات میں معاشی پیدوار کے لئے ناکافی سمجھی جانے لگی۔