سوتیلے بھائیوں نے جائیداد پر قبضہ کرکے گھر سے نکال دیا
انصاف کے حصول کیلئے چارسال سے خاندان سمیت احتجاجی کیمپ لگائے رجب حسین کی دکھ بیتی.
لاہور پریس کلب جب بھی جانا ہوتا تو فٹ پاتھ پر ایک خاندان احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے بیٹھا نظر آتا۔
کیونکہ یہاں پر آئے روز احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں اس لئے زیادہ غور نہ کیا۔ یوں مہینوں پر مہینے گزرتے چلے گئے اور یہ احتجاجی کیمپ گویا منظر کا مستقل حصہ بن گیا۔ گزشتہ دنوں بارش میں جب احتجاجی کیمپ کے قریب سے گزرا تو خیال آیا کہ آخر ان لوگوں کا کیا مسئلہ ہے جو اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود حل نہیں ہو سکا اور وہ موسم کی چیرہ دستیاں سہتے ہوئے فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
رجب حسین سے جب آپ بیتی سنانے کی بات کی تو لاہور پریس کلب شملہ پہاڑی کے سامنے فٹ پاتھ پر لگائے اس کے مختصر سے احتجاجی کیمپ میں افسردگی کے بادل چھا گئے ، رجب اور اس کے بیوی بچوں کے چہروں سے بیچارگی عیاں تھی جبکہ دوسال کی چھوٹی بچی زمانے کے گرم و سرد سے بے پرواہ کیمپ میں بچھائی گئی دوچھلنگا سی چارپائیوں پر کھیلے جارہی تھی ،رجب نے جب بولنا شروع کیا تو بولتا ہی چلا گیا جیسے بہت عرصے سے غبار اس کے اندر رکا ہوا تھا ، کہنے لگا ''میں اوچ شریف تحصیل احمد پو ر شرقیہ ضلع بہاولپور کا رہنے والا ہوں۔
میرا تعلق اچھے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے ۔ میرے والد عاشق حسین محکمہ صحت میں بطور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ؍انچارج ویکسی نیشن اوچ شریف ملازمت کرتے تھے، میری بدقسمتی یہ ہے کہ میرے والد کو میری پیدائش کے تھوڑے ہی عرصے بعد ایک خاتون شمیم اختر سے عشق ہو گیا۔ جب میری والدہ شرفو مائی کے علم میں یہ بات آئی تومیری والدہ نے انھیں دوسری شادی کی اجازت دیدی مگر شمیم اختر اس وقت تک راضی نہ تھی جب تک پہلی بیوی کو طلاق نہ دے دی جائے ، یوں میرے والد نے شمیم اختر کے عشق میں اندھا ہو کر میری والدہ کو طلاق دیدی، یوں میری تباہی و بربادی کی داستان کا آغاز ہوا ۔ میری والدہ کو طلاق دینے کے بعد والد نے شمیم اختر سے شادی کر لی۔ میری والدہ طلاق کے بعد مجھے ساتھ لے کر اپنے والدین کے پاس چلی گئی، مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد میرے والد مجھے واپس لے آئے۔
یوں میں سوتیلی والدہ کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پرمجبورتھا ، سب سے پہلا کام میر ی والدہ نے یہ کیا کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے نہ دی، صرف دس سال کی عمر میں ہی کریانہ کی دکان کھلوا دی ، میرا والد چونکہ میری سوتیلی والدہ کے عشق میں ڈوبا ہوا تھا اس لئے میری والدہ جو کہتی تھی وہ وہی کرتا تھا ، خوش قسمتی سے میری محنت رنگ لائی اور دکان چل نکلی ، میں جو کچھ کماتا اپنے والد کے ہاتھ پر لا دھرتا۔ مالی حالات تو ہمارے پہلے ہی بہتر تھے اوپر سے میری کمائی نے دولت کی فراوانی میں اضافہ کیا اور والد صاحب نے جائیداد خریدنا شروع کر دی، میں بھی بہت خوش تھا کہ ہمارا خاندان امیر ہوتا جارہا ہے۔ والد صاحب نے اس عرصے میں 14دکانیں اور 12پلاٹ خریدے جو خالصتاً میری دکان کی کمائی سے خریدے گئے تھے۔ اس کے بعد میری شادی کر دی گئی، اس میں بھی والد نے میری سوتیلی والدہ کی خوشنودی مد نظر رکھی اور میری شادی سوتیلی والدہ کی بھانجی سے کی ، شائد ان کا یہ مقصد تھا کہ کہ گھر میں صورتحال بہتر رہے، اس کے بعد میرے والد نے کریانہ اسٹور ختم کر کے ڈیپارٹمنٹل اسٹور بنانے کی تجویز دی جو میں نے قبول کر لی، پھر اس کے ساتھ ہی میڈیکل سٹو ر بھی بنا دیا گیا ، میرے سوتیلے بھائی چونکہ تعلیم سے فارغ ہو چکے تھے اس لئے انھیں بھی ڈیپارٹمنٹل اور میڈیکل اسٹور پر بٹھا دیا گیا''۔
اپنی دکھ بھری داستان سناتے سناتے رجب تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوا اور اس کا سوچتا ہوا غمناک چہرہ بتا رہا تھا کہ اس پر ڈھائے گئے مظالم کے بارے میں یادیں تازہ کرتے ہوئے اسے کس کرب سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طویل سانس لے کر اس نے بتایا '' جب سے میری شاد ی ہوئی تھی میری والدہ کا رویہ کافی زیادہ تبدیل ہونا شروع ہو گیا تھا۔ شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ اب اس کے بچے یعنی میرے سوتیلے بھائی اپنی تعلیم مکمل کر چکے تھے اور کاروبار کے قابل ہو چکے تھے،اس وقت ہی ایک اور اہم واقعہ یہ ہوا کہ میرے والد نے اپنے والد یعنی میرے داد کی طرف سے وراثت میں ملنے والی تین مربع اراضی فروخت کر کے یزمان میں پانچ مربع اراضی خرید لی ،اس دوران ہمارا خاندان دو عدد کاروں، تین موٹر سائیکلوں،دو ٹریکٹر ٹرالیوں اور ایک قیمتی کوٹھی کا بھی مالک بن چکا تھا ۔
اس کے بعد میری سوتیلی والدہ نے ہمارے ساتھ شدید جھگڑا کیا ، میں روز روز کی چخ چخ سے تنگ آ چکا تھا اس لئے میں نے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لیا اور کراچی چلا گیا ، میرے پاس جو تھوڑی بہت رقم تھی اس سے چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیا،میں وہاں پانچ سال رہا، جب میرے والد اور میری والدہ حج کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب گئے تو واپسی پر میرے پاس آئے،والد نے مجھے بتایا کہ انھیں پتہ چل چکا ہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، اس لئے میں واپس ان کے پاس آئوں اور ان کے پاس گھر کی بیسمنٹ میں 16کروڑ روپے چھپائے ہوئے رکھے ہیں جو وہ مجھے دینا چاہتے ہیں تاکہ میں وہاں اپنا کاروبار شروع کر سکوں ، میری سوتیلی والدہ بھی اس وقت پاس ہی بیٹھی ہماری باتیں سن رہی تھی ۔
اوچ شریف واپس گھر پہنچ کر میری سوتیلی والدہ اور بھائیوں نے والد صاحب کو ذہنی اور جسمانی طور پر اذیت دینا شروع کر دی اور ان کا میرے ساتھ رابطہ ختم کر دیا ۔ مگر جب اپریل 2009ء میں والد صاحب نے فون پر اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے بارے میں بتایا تو مجھے بہت غصہ آیا ۔ انھوں نے مجھے واپس گائوں آنے کا کہا۔ مگر قسمت کو منظور نہ تھا کہ میں اپنے والد کو زندہ حالت میں دیکھ سکوں ،میں جب واپس گائوں پہنچا تو گھر میں ان کی لاش پڑی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ بیمار تھے جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی ، مگر مجھے اس بات کا یقین ہے کہ انھیں قتل کیا گیا ہے کیونکہ انھیں بیماری میں جو انجکشن لگایا گیا اس میں کوئی گڑ بڑ تھی اور اسی سے ان کی موت واقع ہوئی ۔ چند روز بعد میں نے سوتیلے بھائیوں سے اس رقم کا مطالبہ کیا جس کا ذکر والد نے سوتیلی والدہ کے سامنے کیا تھا تو کہنے لگے کہ چالیسویں کے بعد اس بارے میں بات کریں گے۔
اس دوران مجھے رجسٹری برانچ کے ایک اہلکار سے پتہ چلا کہ میرے سوتیلے بھائیوں نے ساری جائیداد اپنے نام کر وا لی ہے۔ چالیسویں کے بعد جب میںنے جائیداد اور رقم میں اپنا حصہ مانگا تو انھوں نے میرے اوپر پستول تان لیا اور جان سے مارنے کی دھمکی دے کر علاقہ چھوڑ جانے کا کہا ۔ میں نے اس وقوعہ اور والد کے پوسٹ مارٹم کی تھانے میں درخواست دی، مگر پولیس والوں نے بھی میری ایک نہ سنی اور دھمکی دے کر تھانے سے نکال دیا ۔ ان لوگوں نے اسی پر بس نہ کی بلکہ رات کے وقت میرے رشتہ دار کے گھر دھاوا بول دیا جہاں میں ٹھہرا ہو ا تھا ، اور ہم لوگوں پر تشدد کی انتہا کر دی،جس میں میری بیوی کے دانت ٹوٹ گئے اور مجھ سے سادہ کاغذ اور اشٹام پیپروں پر زبردستی دستخط اورانگھوٹھے لگوا لئے اور دھمکاتے ہوئے کہا کہ خبردارآئندہ اپنی شکل دکھائی تو جان سے مار دیں گے ''۔
اپنی دکھ بھری داستان سناتے سناتے رجب کے لہجے میں غصہ اور بے بسی بھی در آئی تھی اور اس مفلوک الحال احتجاجی کیمپ میں موجود اس کے بیوی بچے بے چارگی کی تصویر بنے ساری کہانی سن رہے تھے جو وہ پہلے بھی درجنوں مرتبہ سن چکے تھے کیونکہ اس درناک داستان کو رجب پہلے بھی کئی مرتبہ اعلیٰ حکام کے سامنے دھرا چکا تھا ۔جب اس سے پوچھا کہ جان سے مارنے کی دھمکی ملنے کے بعد اس نے کیا کیا تو کہنے لگا ''میں نے کیا کرنا تھا اپنی جان بچانے کے لئے بیوی بچوں کو لے کر نکل آیا۔
وزیر اعلیٰ صاحب کو درخواست دی جس پر انھوں نے ڈی پی او بہاولپور کو ہدایت کی کہ فوری تحقیقات کر کے داد رسی کی جائے،مگر اس پر بھی عمل در آمد نہ ہو سکا،جولائی 2009ء کو جب وزیر اعلیٰ شہباز شریف بہاولپور آئے تو میں نے پھر ملاقا ت کی اور انھیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو انھوں نے پھر تحقیقات کے احکامات دئیے۔اس کے بعد میرے سوتیلے بھائیوں نے مجھے پھر گن پوائنٹ پر رکھ لیااور کہا کہ اب تم بہاولپور میں نظر آئے تو جان سے جائو گے ، یوں میں بیوی بچوں کو لے لاہور چلا آیا اور ناصر باغ میں احتجاجی کیمپ لگا دیا تا کہ وزیر اعلیٰ سے مل سکوں، مگر کامیا ب نہ ہو سکا، اس پر مستزاد یہ کہ ستمبر میں امریکی وزیر خارجہ آئی تو اسلام پورہ تھانہ نے مجھے میری فیملی سمیت گرفتار کر کے تین دن تک حوالات میں بند رکھا۔
اس کے بعد جنوری 2010میں ہم وزیر اعلیٰ صاحب سے ملنے مال روڈ ان کے دفتر گئے تو وہاں پر بھی پولیس نے ہماری داد رسی کرنے کی بجائے تھانے میں بند کر دیا اور تین دن بعد جان سے مارنے کی دھمکی دے کر چھوڑا۔اس کے بعد ہم نے لاہور پریس کلب شملہ پہاڑی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا دیایعنی 2010ء سے ہم اسی فٹ پاتھ پر احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں ۔ ان ظالموں نے ہمیں یہاں بھی نہیں بخشا اور ایک گاڑی ہم پر چڑھا دی جس سے میرے بیوی بچے زخمی ہو گئے،انھوں نے تو مارنے کی کوشش کی تھی مگر اللہ نے بچا لیا، میرے سوتیلے بھائی اس قدر گر چکے ہیں کہ انھوں نے اپنے ہی ایک سگے بھائی شاہد حسین کو بھی جائیداد کے جھگڑے اور میری طرف داری کرنے پر دوبچوں سمیت نہر میں گاڑی گرا کر ہلاک کر دیا اور اسے اپنے اثر و رسوخ سے حادثہ قرار دلوا دیا ، اگر یہ حادثہ ہی ہے تو اس گاڑی میں سوار ان کا بہنوئی نیاز حسین اور ڈرائیور کیسے بچ نکلے ، میں نے اس قتل کی تحقیقات کے لئے بھی آئی جی صاحب کو درخواست دی ، مگر کچھ نہ ہو سکا ۔
ہم چیف جسٹس صاحب سے بھی ملے تھے، انھوں نے بھی داد رسی کی یقین دہانی کرائی تھی ، اب احتجاجی کیمپ لگائے چار سال ہو چکے ہیں مگر مجھے اور میرے بیوی بچوں کو انصاف نہیں مل سکا ۔ جب اس سے پوچھا کہ یہاں رہ کر کھانے پینے اور دیگر ضروریا ت کیسے پوری کرتے ہو تو اس نے بتایا '' کھانے کا بندوبست بی بی پاکدامن کے مزارشریف سے ملنے والے لنگر اور لکشمی چوک کے قریب جاری بحریہ دسترخوان سے کرتا ہوں، دو بڑے بیٹے سو ، ڈیرھ سو روپے کما لاتے ہیں اور میں سارا دن فائلیں اٹھائے انصاف کیلئے دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا ہوں،سردی ہو یا گرمی ہمیں سب اسی فٹ پاتھ پر جھیلنا پڑتا ہے ۔ ہماری تمام اعلیٰ حکام سے درخواست ہے کہ خدا کے لئے ہمیں انصاف دلایا جائے''۔