اک نظرِکرم ادھر بھی
آج جمہوریت کے اس دور میں حکومتی رویوں کے سبب ماہر ڈاکٹر اس ملک سے باہر جارہے ہیں
پاکستان میں صحت عامہ کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے ایک نظر کھربوں روپے کے اضافی ٹیکس دینے والے پاکستانیوں پر ڈالتے ہیں جن کی ''صحت ''پر خرچ ہونے والا بجٹ دنیا کا کم ترین بجٹ ہے یعنی 190ممالک میں سے پاکستان صحت پر سب سے کم بجٹ استعمال کرتا ہے۔(البتہ روانڈا، کیمرون، زمبابوے، مالی، ملاوی، چاڈ، ٹوگو، جنوبی سوڈان، نائیجروغیرہ جیسے ممالک پاکستان سے پیچھے ہیں مگر اُن ملکوں میں خانہ جنگی جیسی صورتحال ہے، اس لیے ان ممالک کو نہیں گنا جا سکتا) جو گزشتہ 30سالوں میں آبادی میں 500فیصد اضافے کے بعد بھی 2فیصد پر موجود ہے، 2017-18 کے 47 کھرب 57 ارب کے بجٹ میں صحت کے لیے محض 12 ارب روپے مختص کیے گئے۔
آپ پاکستان میں صحت کی مجموعی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ امریکا کل بجٹ کا 17فیصد سے زائد صحت عامہ کے لیے استعمال کرتا ہے یعنی امریکا کی حکومت اپنے ہر شہری پر روزانہ اوسطاََ 3ہزار روپے خرچ کر رہی ہے جب کہ پاکستان میں یہی تناسب محض 30روپے بنتا ہے۔ اور ان 30 روپوں میں سے بھی 15روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ الغرض حکومت کی ترجیحات میں تعلیم اور صحت سرے سے ہی موجود نہ ہونے کے باعث حکومت سے یہ سوال پوچھنا کہ ہماری آنے والی نسلیں سڑکوں، چوراہوں، اسپتال کے دروازوں، کینٹینوں، رکشوں، بسوں، انڈر پاسوں، ایمبولینسوںوغیرہ میں کیوں جنم لے رہی ہیں؟ میرے خیال میں یہ زیادتی ہوگی۔ کیوں کہ سمجھی ہوئی بات کو دہرانا بے وقوفی کی علامت ہوتی ہے اور عوام تو پہلے ہی ان حکمرانوں کی غلط کاریوں کے باعث بے وقوف بنتے جا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں پنجاب میں جب یکے بعد دیگرے شاہراہوں پر یا اسپتالوں کے باہر زچگی کے واقعات ہوئے تو یہ سب اعداد و شمار ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہوگئے۔ اور ویسے بھی پنجاب پاکستان کا وہ صوبہ ہے جہاں دوسرے صوبوں کی نسبت عوام کی حالت قدرے بہتر ہے اور شہباز شریف کی کارکردگی اس وقت عصر حاضر کے تمام سیاستدانوں میں سب سے نمایاں ہے ۔ ان کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کہتی ہے کہ ''لاہور میں خوبصورتی اور ہریالی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ یہاں مصنوعی بارش کراتے ہیں'' لیکن چند شعبوں پر اُن کی صلاحیتوں کو لے کر اُس وقت بے تحاشہ سوال اُٹھتے ہیں۔
جب رائے ونڈ کے ایک سرکاری اسپتال کے باہر سڑک پر ایک خاتون بچے کو جنم دیتی ہے۔ جب گنگا رام اسپتال کی کنیٹین میں قوم کی بیٹی چار گھنٹے تک دھکے کھانے کے بعد بچے کو جنم دے کر گڈگورننس کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ جب فیصل آباد میں ڈاکٹر کی لاپرواہی کے باعث ایک خاتون ایمبولینس میں ہی بچے کو جنم دے دیتی ہے۔ اور جب پروٹوکول کی وجہ سے رکی ہوئی ٹریفک میں ایک خاتون رکشہ میں بچے کو جنم دے دیتی ہے۔
یہ تو تھے پنجاب کے بڑے شہروں کے واقعات لیکن دور دراز کے علاقوں میں ہزاروں ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کو کوئی رپورٹ کرنے والا نہیں ہے ۔ آج حالات یہ ہیں کہ اس قوم کی مائیں سڑکوں پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں اور حکمران سڑکیں بناتے جا رہے ہیں۔ پھر مخالفین ٹھیک ہی توکہتے ہیں کہ شریف بردران کا فوکس صرف بڑے پروجیکٹ تک محدود ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان حکمرانوں، بیوروکریسی اور ملک کے وڈیروں و لٹیروں کو اگر چھینک بھی آجاتے فوراََ بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں۔پاکستان کے بیشتر بیوروکریٹس، سیاستدان بشمول حکمران خاندان اوربڑ ے بڑے عہدیدار آج بھی بیرون ملک علاج کی غرض سے موجود ہیں یعنی ان ''نوابزادوں '' کو اگر دانت میں بھی درد ہوتو فورا علاج کے لیے باہر تشریف لے جاتے ہیں۔
اور اگر ینگ ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے لیے میدان میں آئیں تو انھیں کبھی میڈیا کے ذریعے ذلیل کیا جاتا ہے تو کبھی پولیس کے ذریعے سوال یہ ہے کہ کیا شعبہ صحت میں تبدیلی ڈاکٹرزکے بغیر لائی جا سکتی ہے؟۔ اگر نہیں تو پھر ڈاکٹرز تو گزشتہ 9 سالوں سے سڑکوں پر ہیں اور شاید یہ دُنیا کا سب سے طویل تصادم ہے جو ''ینگ ڈاکٹرز'' اور شعبہ صحت کے بیوروکریٹس کے مابین جاری ہے۔اِس تصادم میں کئی مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔مسائل کا حل وسائل سے تلاش کیا جاتا ہے اور بِلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے۔ اگر اربوں کھربوں روپے صَرف کرکے اوورہیڈز اوراَنڈر پاسز بنائے جا سکتے ہیں، سڑکوں کا جال بچھایا جا سکتا ہے، میٹروبَس اور اَورنج لائن منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے جا سکتے ہیں تو کیا پاکستان میں بین الاقوامی معیار کاصرف ایک اسپتال بھی نہیں بنایا جا سکتا۔
آج موٹر سائیکل ایمبولینس سروس، ڈولفن پولیس اور اورنج لائن جیسے ''کاسمیٹکس'' منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں ، جن کی ظاہری خوبصورتی تو بہت ہوتی ہے مگر وہ عوام کے کسی کام نہیں آتے۔اور میاں صاحب اپنی ہر تقریر میں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ شعبہ صحت سے کھلواڑ کرنے والوں کو نہیں بخشیں گے ۔ عوام اُن سے ضرور بدلہ لے گی وغیرہ وغیرہ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اسپتالوں کی حالتِ زار دیکھ کر سَرپیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔
جس کی جیب میں چار پیسے ہیں ،وہ سرکاری اسپتالوں کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے لگتا ہے، جہاں عالم یہ ہے کہ جابجا گندگی کے ڈھیر، ادویات کی عدم دستیابی ،مشینری ناقص وناکارہ اور طِبی عملے کی شدید کمی۔ خادمِ اعلیٰ کے دعوے تو بہت بڑے بڑے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اسپتالوں میں تو مریضوں کے لیے ''بیڈز'' تک دستیاب نہیں۔ ایک ایک بیڈ پر دو، دو اور بعض اوقات تین،تین بے یارومددگار مریض اپنے مقدر پر نوحہ خواں دکھائی دیتے ہیں اور جب کوئی مریض دارِفانی سے کوچ کر جاتا ہے تو غفلت کی'' بَرق'' بیچارے ڈاکٹروں پر گرتی ہے جن کا قصور صرف اتنا کہ انھوں نے ایم بی بی ایس کرنے میں اپنی زندگی کا سنہری حصہ صَرف کر دیا ۔
آج پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ عرصہ دراز سے شفاخانے نہیں' عقوبت کدے بن چکے ہیں۔ عمارت ہے تو ڈاکٹر نہیں' ڈاکٹر ہے تو ڈیوٹی سے غیر حاضر اور نجی کلینک میں سرگرم عمل' دوائی کسی کو ملتی نہیں' لیبارٹری ہے تو مشینیں خراب ہیں اور ایمرجنسیوں کا تو حال ہی نہ پوچھیں۔ سرکاری ادویات' سرنجیں اور دیگر چیزیں بازار میں بکتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی یہ حالت زار اس بنا پر ہے کہ ہماری بیورو کریسی اور حکمران اشرافیہ کا کوئی مفاد ان اداروں سے وابستہ نہیں۔
آج جمہوریت کے اس دور میں حکومتی رویوں کے سبب ماہر ڈاکٹر اس ملک سے باہر جارہے ہیں وہ ذلت و رسوائی کے باعث مایوسی کے عالم میں پاکستان چھوڑ رہے ہیں جب کہ حکومت آج بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ کیوں کہ یہاں سرتاپا جھوٹ کاکاروبار ہے جس میں بھیڑئیے کمال ڈھٹائی سے بھیڑوں کے ساتھ اظہاریکجہتی اورہمدردی کے ایسے ایسے بل ڈاگ قسم کے ڈائیلاگ بولتے ہیں کہ آغا حشرکاشمیری بھی قبر میں کراہتے ہوں گے۔ چور...چوروں کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں، ڈکیت ڈکیتوں سے ریکوری کی بات کرتے ہیں، چھاج اور چھلنیاں آپس میں الجھی ہوئی ہیں... ملک اور عوام چھیدو چھید ہو رہے ہیں اور خادم اعلیٰ کی نظرِ کرم کاسمیٹکس پراجیکٹ پر نظریں جمائے ٹھہری ہوئی ہے۔