دِکھائی جانوروں نے ’’انسانیت‘‘

جب حیوانوں نے کی انسانوں کے بچوں کی حفاظت اور پرورش، کچھ انوکھی کہانیاں.


Zuber Niazi March 03, 2013
فوٹو: فائل

KARACHI: انسان اور جانور ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

اگر انسان کے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف پہنچے تو عموماً اُسے جانور سے تشبیہہ دی جاتی ہے، لیکن اگر کوئی جانور، کسی جنگل، بیابان یا پھر ٹوٹی پھوٹی عمارت میں کسی بے آسرا انسانی بچے کو دیکھے اور پھر نہ صرف اُس کی حفاظت کرے بلکہ ایک ماں کی طرح اُس کی پرورش کا فریضہ بھی انجام دے، تو عقل اِسے تسلیم نہیں کر تی، کیوں کہ اس طرح کے کردار ٹارزن اور کنگ کانگ کی فلموں کی حد تک تو قابل فہم ہیں، مگر اِن پر یقین بڑی مشکل سے آتا ہے۔

لیکن گذشتہ کچھ برسوں میں بالخصوص اور ماضی بعید میں بالعموم، کچھ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ کسی بچے یا بچی کو کُتے، بلیوں، بندروں یا پھر بھیڑیوں نے نہ صرف تحفظ فراہم کیا، بلکہ اُن میں سے کئی بچوں نے جانوروں کے ماحول میں زندگی کے چند سال بھی گزارے ہیں۔ ان واقعات کو نہ صرف دنیا بھر کے نام ور اخباروں نے جگہ دی بلکہ کچھ واقعات پر دستاویزی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ہم نے ایسے ہی چند واقعات کا انتخاب کیا ہے جو قارئین کے لیے یقیناً دل چسپی کا باعث ہوں گے۔

1۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں گذشتہ برس 28 اکتوبر کو ایک کتاب کے حوالے سے خبر شائع ہو ئی۔ یہ کتاب ''ماریانا چیپمین'' نامی خاتون کی زندگی پر لکھی گئی ہے، جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اُسے اپنی زندگی کے ابتدائی چند سال، مجبوراً جنگل میں بندروں کے ساتھ گزارنا پڑے تھے۔ کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ماریانا جب تین یا چار برس کی تھی تو اُسے اغواء کر لیا گیا تھا۔ اغواء کار ا غلطی سے اُٹھا لائے تھے یا پھر کوئی وجہ ہوئی ہوگی، بہرحال اغوا کاروں نے اُسے راستے ہی میں چھوڑ دیا۔ یہ کولمبیا کا ایک گھنا جنگل تھا، جس میں بندروں کا بسیرا تھا۔

یہ بچی ڈیڑھ سے دو برس تک اس جنگل میں رہی اور اس دوران اُس نے بندروں سے خوراک حاصل کرنے، درختوں پر چڑھنے کے طریقے سیکھے۔ ایک درخت کے تنے میں بنے سوراخ کو وہ اپنے گھر کے طور پر استعمال کر تی تھی۔ اُس کے بال، ناخن جانوروں کی طرح بڑھ گئے تھے، یہاں تک کہ پورا حُلیہ بندروں کی طرح کا بن چکا تھا۔

ایک دن چند شکاریوں کا اس جنگل سے گزر ہوا۔ بچی اُن کے پاس گئی اور ٹوٹی پھوٹی زبان میں اور اشاروں کی مدد سے درخواست کی کہ وہ اُسے جنگل سے باہر نکالیں۔ شکاریوں نے بچی کو ٹرک میں ڈالا اور شہر کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن ٹرک جب شہر کے قریب پہنچا تو وہ خوف زدہ ہو گئی اور چھلانگ لگا کر بھاگ گئی۔ بعد ازاں وہ چند اوباش افراد کے ہتھے چڑھی، جنہوں نے اُسے اپنے ناپاک مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا۔ وہ وہاں سے بھی بھاگ گئی اور کئی برسوں تک دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بالآخر وہ بریڈ فورڈ پہنچی، جہاں اُس کی ملاقات جون چیپمین نامی ایک شخص سے ہوئی، جس سے 1977ء میں اس کی شادی ہوگئی۔

ماریانا کی دو بیٹیاں ہیں۔ اس کی کہانی کو کتابی شکل دی گئی ہے۔ کتاب کا نام ''دی گرل ودھ نو نیم'' ہے۔ ماریانا اور اس کا خاندان اس کتاب کے ذریعے دنیا کو جنوبی امریکا میں انسانی اسمگلنگ کی ہول ناکیوں سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کتاب کو پہلے ہی دنیا کے سات ممالک میں شائع کیا جاچکا ہے اور برطانیہ میں اسے رواں برس اپریل میں شائع کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اس ماریانا کی کہانی پر دستاویزی فلم بھی بنائی جارہی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بندروں میں معصوم بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی صفت پائی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس سے قبل بھی پیش آچکا ہے، جس میں یوگنڈا کا ایک چار سالہ بچہ، جو ایک جنگل میں بچھڑ گیا تھا اور اُسے تقریباً 6 ماہ بندروں کے ساتھ گزارنا پڑے تھے، لیکن جب ریسکیو حکام نے اُسے تلاش کیا تو وہ بالکل خیریت سے تھا۔

2۔ جانوروں کے ساتھ کسی بچے کے رہنے اور اُس ماحول میں پرورش پانے کا ایک اور واقعہ گذشتہ برس روس کے علاقے 'روسٹو' میں پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک دو سالہ بچے کو جبراً گھر والوں نے بکریوں کے کمرے میں بند کر رکھا تھا۔ اس واقعے کو برطانوی اخبار ڈیلی میل سمیت متعدد اخبارات نے کوریج دی۔ یہ بچہ جس کا نام 'ساشاٹی' بتایا گیا ہے، کو نہ تو بولنا سکھایا گیا تھا اور نہ ہی کھانا پینا۔ ریسکیو حکام کا کہنا تھا کہ جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو بچے کی ماں وہاں موجود نہیں تھی اور بچہ بغیر لباس کے سرد کمرے میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ کمرے میں ٹھنڈ اتنی شدید تھی کہ کوئی بھی لمحہ بچے کی زندگی کو موت میں بدل سکتا تھا۔

اس کے علاوہ کمرا انتہائی گدلا اور بدبو دار بھی تھا۔ ریسکیو حکام نے بچے کو کپڑے میں لپیٹا اور اسپتال پہنچا دیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بچے کے دماغ نے ٹھیک طرح سے نشوونما نہیں پائی ہے۔ اس کا وزن ایک نارمل بچے کے مقابلے میں کئی گُنا کم تھا۔ ایک ڈاکٹر کے مطابق ساشاٹی نے بستر پر سونے سے انکار کر دیا۔ اسے بستر پر لٹایا جاتا مگر وہ اتر کر بستر کے نیچے گھس جاتا۔ بچہ بہت خوف زدہ تھا اور وحشت کا مظاہرہ کررہا تھا۔ وہ ہر چیز توڑنے کی کوشش کر تا۔ بعد ازاں حکام نے بچے کے والدین سے حق وراثت چھیننے کے لیے اقدامات شروع کردیے، جنہوں نے اُسی یتیمی کی بلکہ جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔

3 ۔ 27 مئی 2009ء کو برطانوی اخبار ٹیلی گراف میں ایک پانچ سالہ بچی کے حوالے سے خبر شائع ہو ئی، جس کے بارے میں خیال تھا کہ اس کی پرورش کتوں اور بلیوں میں رہ کر ہوئی ہے۔ سائبریا کے علاقے ٹرانس بیکل میں پیش آنے والے اس افسوس ناک واقعے کے حوالے سے پولیس کا کہنا تھا اُنہیں ایک نامعلوم ٹیلی فون کال کے ذریعے بتایا گیا کہ سوویت دور کی ایک پرانی عمارت میں ایک معصوم بچی جانوروں کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ پولیس کے مطابق اس عمارت میں بچی کے والد اور دیگر رشتے دار بھی رہتے تھے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ بچی روسی زبان سمجھتی ہے، لیکن اُسے بولنا نہیں آتا۔ بچی کو جس ادارے میں رکھا گیا وہاں کی سربراہ نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ بچی کے اندر جانوروں والی خصلتیں پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا،''میں جب دروازے سے نکلنے لگی تو بچی نے دروازے کی طرف چھلانگ لگائی اور بھونکنا شروع کر دیا۔ اُسے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ٹیبل پر کیسے بیٹھنا ہے اور کھانا کیسے کھانا ہے۔''

اسی حلقے میں بچوں کے امور کی ایک ماہر، لاریسا پوپووا نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ بچی نے بہت ہی غلیظ ماحول میں زندگی گزاری ہے۔ جس جگہ وہ رہ رہی تھی وہاں ناقابل برداشت بدبو تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ وہاں بہت سے جانور تھے، جن میں کتے اور بلیاں بھی شامل تھیں، لیکن بچی نے تمام تر صورت حال کے باوجود وہاں پرورش پائی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ عمارت میں پانی، بجلی اور گیس کافی عرصے سے ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے بند تھی۔ ایک خبر ایجنسی نے بچی کی والدہ کے حوالے سے بتایا کہ بچی جب ڈھائی برس کی تھی تو اس کا باپ اُسے بتائے بغیر بچی کو لے کر چلا گیا تھا، جب کہ بچی کے والد کا کہنا ہے کہ اس کی ساس نے اُس سے کہا تھا کہ وہ بچی کو یہاں سے لے جائے، کیوں کہ اس کی والدہ بچی کی مناسب دیکھ بھال نہیں کرتی۔ حکام کا کہنا ہے کہ بچی کے والد کو پرورش میں غفلت برتنے کے جرم میں3 برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

4۔ جانوروں کی طرف سے انسان دوستی کا ایک اور غیرمعمولی واقعہ 20 دسمبر2008ء کو ارجنٹائن کے علاقے مسی یونز میں پیش آیا اور اس خبر کو بھی برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے شائع کیا۔ ایک خاتون پولیس آفیسر کو راہ چلتے بِلّیوں کا ایک گروہ نظر آیا۔ یہ بلیاں ایک دوسرے سے جُڑ کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ خاتون نے جب غور سے دیکھا تو اُسے ان بلیوں کے درمیان، ایک شیر خوار بچہ دکھائی دیا، جو نہایت اطمینان سے سو رہا تھا۔ خاتون پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ جب میں ان کے قریب گئی تو بلیاں محتاط ہو گئیں اور میری طرف دیکھ کر غُرّانے لگیں۔ پولیس آفیسر کی نظر بلیوں کے قریب بچی کچی خوراک پر پڑی، جس کے بارے میں خیال تھا کہ یہی خوراک بچے کو دی جاتی رہی ہوگی۔ اُنہوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ''بلیوں کو پتا تھا کہ یہ بچہ لاوارث ہے اور اسے تحفظ کی ضرورت ہے۔'' ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ یہ بلیاں بچے کو سرد رات میں گرمی پہنچا رہی تھیں اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو بچے کی جان جا سکتی تھی۔ پولیس نے بچے کے والد کا سراغ لگایا تو پتا چلا کہ وہ بے گھر ہے اور کئی دنوں سے اُس کا بچہ لاپتا ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ بلیاں ہمیشہ ہی سے اُس کے بچے کی محافظ رہی ہیں۔''

یہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ بچہ کتنے دنوں سے خوراک کے اُن ٹکڑوں پر پل رہا تھا جو بلیاں اُس کے لیے لائی تھیں اور وہ بچہ کب سے جما دینے والی سردی میں ان بلیوں کے درمیان سو رہا تھا، لیکن جس طرح سے اُس کے والد نے اعتراف کیا کہ اُس کا بچہ کئی دنوں سے اُس سے لاپتا ہے اور بلیاں اُس کے بچے کی ہمیشہ حفاظت کر تی رہی ہیں، اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ اس کے والد نے عادتاً اپنی مرضی سے کئی مرتبہ بچے کو اسی طرح بے آسرا چھوڑا ہوگا۔

5۔ جون سیبونیا کا تعلق یوگنڈا سے ہے۔ اس کی پیدائش 1980ء کے وسط میں ہوئی۔ جب وہ تین برس کا تھا تو اپنے باپ کے ہاتھوں ماں کا قتل دیکھ کر خوف کے باعث گھر سے سے نکل گیا تھا اور قریب ہی واقع جنگل جاپہنچا تھا۔ سیبونیا کے بارے میں خیال ہے کہ جنگل میں اس کی پرورش افریقی خون خوار بندروں نے کی تھی۔ سیبونیا1991ء میں میلی نامی ایک قبائلی خاتون کو اُس وقت ملا جب وہ جھاڑیوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ میلی اسے 'مین فوک' لے آئی، لیکن پھر جیسا کے کنگ کانگ والی فلموں میں دیکھتے ہیں کہ، نہ صرف جون نے مزاحمت کی بلکہ اس کو پالنے والے خاندان، یعنی بندر بھی اس کے دفاع کے لیے آگئے اور انہوں نے گائوں والوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ میلی نے اسے ایک یتیم خانے کے سپر د کر دیا۔ ابتداً تو وہ بات نہیں کرسکتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اس نے بولنا سیکھ لیا۔ جون اب صرف باتیں ہی نہیں کرتا بلکہ گانا بھی گاتا ہے۔ بی بی سی نے جون کی زندگی پر ''لیونگ پروف'' کے نام سے ایک دستاویز ی فلم بھی بنائی ہے، جو 13 اکتوبر 1999ء کو ریلیز ہوئی تھی۔

6۔ ٹرین کالڈارار نامی اس بچے کا تعلق رومانیہ سے ہے، جو1999ء میں چار سال کی عمر میں، اپنے گھر والوں سے بچھڑ گیا تھا۔ خیال ہے کہ اس کے گھر والوں نے بعض گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے اسے گھر سے نکال دیا تھا۔ ٹرین کالڈارا کا جب سُراغ ملا تو اُس کی عمر سات برس تھی، لیکن وہ بمشکل تین سال کا لگ رہا تھا۔ وہ نہ بولنا جانتا تھا اور نہ ہی اُس نے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ وہ ایک گتے کے ڈبے کو گھر کے طور پر استعمال کر تا تھا۔ اس کی جسمانی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق، ممکن ہے کہ اس نے خود سے زندہ رہنے کی کوشش کی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیہات کے آوارہ کتوں نے زندہ رہنے میں اس کی مدد کی ہو۔ یہ بچہ شیفرڈ نامی ایک شخص کو اُس وقت ملا جب وہ اپنی زمینوں کی طرف جارہا تھا اور اُس کی کار خراب ہو گئی تھی۔ اس نے پولیس کو اطلاع دی جس نے بچے کو پکڑ لیا۔ ٹرین کتوں کی طرح چلتا تھا اور بستر کے بجائے اس کے نیچے سونا پسند کرتا تھا۔ جب اسے خوراک نہیں ملتی تو وہ بہت غصے میں آجاتا۔ اُسے ہر وقت کھانے کے لیے کسی شے کی تلاش رہتی تھی۔

7۔ مندرجہ بالا واقعات ایسے ہیں جو گذشتہ چند برسوں میں پیش آئے، لیکن بھارت میں برسوں قبل اس طرح کی ایک کہانی بڑی مشہور ہوئی۔ اس کہانی کی مرکزی کردار ڈیڑھ سالہ کمالا اور آٹھ سالہ امالا بھارتی ریاست مغربی بنگال کے علاقے ''مدناپور'' کے ایک جنگل میں بھیڑیے کے بھٹ سے ملی تھیں۔ یہ کہانی ابتدا ہی سے تنازعات میں جکڑی رہی، کیوں کہ دونوں بچیوں کے درمیان عمروں کا فرق بہت زیادہ تھا۔ ماہرین نہیں سمجھتے تھے کہ دونوں بچیاں آپس میں بہنیں ہوں گی۔ اُن کا خیال تھا کہ ان بچیوں کو بھیڑیے مختلف اوقات میں وہاں لائے ہوں گے۔ جس شخص کے پاس ان بچیوں کو لایا گیا تھا، اُس کا نام ''جے اے ایل سنگھ'' بتایا جاتا ہے، جو ایک مقامی یتیم خانے کا نگراں تھا۔ اُس نے ان بچیوں کو یتیم خانے پہنچایا۔ اگرچہ چند برسوں تک ان بچیوں کی پرورش ہو تی رہی لیکن حیرت انگیز طور پر انہیں کچھ بیماریوں نے جکڑ لیا۔ جے اے ایل سنگھ کا کہنا تھا کہ ''اگر ہم ان بچوں کے ساتھ مخلص ہیں تو بہتر یہی ہو گا کہ انہیں دوبارہ اُنہیں جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے۔'' جس کے بعد ان بچیوں کو جنگل میں چھوڑ دیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں