قوم کو سچ سچ بتایا کیوں نہیں جاتا

ہمارے حکام اور ہمارے ادارے ہمیں یونہی بے خبر اورلاعلم ہی رکھیں گے

mnoorani08@gmail.com

پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ اُسے اپنے وطن عزیز میں ہونے والے کئی اہم واقعات اور حالات کے بارے میں درست اور صحیح معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ اُسے کبھی بھی مکمل اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ ملک کو درپیش بڑے بڑے سانحات اور حادثات سے متعلق بھی اُسے کبھی سچ بتایا نہیں جاتا۔ وہ بس قیاس آرائیاں اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرتے ہوئے اپنے طور پر خود ہی کوئی نہ کوئی نتیجہ اخذ کرکے اور صبر کرکے خاموش ہوجاتی ہے۔ قوم کو آج تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اُس کے وطن عزیز کو دولخت کیے جانے کے پس پردہ اصل عوامل اور محرکات کیا تھے۔

کوئی کہتا ہے کہ یہ مادر وطن کے خلاف ایک بہت ہی گہری ساز ش کا شاخسانہ تھا یا عالمی سطح پر کھیلے جانے والے ایک گھناؤنے کھیل کا حصہ۔بظاہر قوم اب تک یہ سمجھتی رہی ہے کہ 1970ء میں ملک کے اندر ہونے والے عام انتخابات کے نتائج پر عملدرآمد سے انکار پر مشرقی پاکستان کے باسیوں کی جانب سے کیے جانے والے ردعمل کا نتیجہ تھی جسے جنرل ٹکا خان کی سربراہی میں ملٹری آپریشن بھی روک نہیں پایا۔ بلکہ یہ کہاجائے تو غلط اور بے جا نہیں ہوگا کہ اُس فوجی آپریشن نے تو اُس جلتی آگ پر تیل کا کام کیااور پھر حالات حکمرانوں کے قابو سے باہر ہوگئے۔

اِس سانحے کی تحقیقات کے لیے جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں قائم کیے جانے والے کمیشن نے ایک رپورٹ ضرور ترتیب دی لیکن وہ رپورٹ آج تک عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔ یوں اِس عظیم سانحے کے ذمے داروں کا تعین توکیا ہوتا اُس کے اصل اسباب و محرکات سے ہمارے لوگ ابھی تک لاعلم ہیں۔

اِسی طرح 2 مئی2011ء کو ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو ڈرامائی انداز میں ہلاک کیے جانے کے بارے میں بھی ہمارے عوام کچھ نہیں جانتے۔کوئی ہمیں آج بھی یہ بتانے والا نہیں کہ دشمن ہماری سر زمین پر اتنا اندرکیسے گھس آیا اور چند گھنٹوں میں ساری کارروائی مکمل کرکے اُسامہ بن لادن کی لاش بھی اپنے ساتھ کیسے لے گیا اور پھر اُسامہ بن لادن کی اپنے ملک میں موجودگی کا ہمیں قبل از وقت کیوں پتہ نہ چل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے حکام ہمیں حقیقت حال بتانے سے انکاری ہوں تو پھر ایسے ماحول میں افواہیں اور قیاس آرائیاں ہی جنم لیاکرتی ہیں۔ پھر جس کی جو مرضی ہوتی ہے وہ اپنے اپنے انداز فکر اور عقل وشعور کے مطابق قصے کہانیاں سنانے لگتا ہے۔

ایسا ہی ایک تازہ واقعہ گزشتہ دنوں اُس وقت سامنے آیا جب ہمیں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے یہ خبر دی گئی کہ پاکستانی فورسز نے افغانستان کے علاقے سے پاکستان کی حدود میںداخل ہونے والے ایک غیر ملکی جوڑے کو اغواکاروں کے چنگل سے آزاد کرا لیاگیا ہے۔ہماری فورسزکی جانب سے یہ کارروائی ہمارے اپنے ذرایع کے مطابق امریکی خفیہ ادارے کی فراہم کردہ اطلاعات اور معلومات پر کی گئی۔ جب کہ غیر ملکی نشریاتی ادارے اور امریکن ایجنسیاںایسی کسی بھی خبرکی تصدیق اور تائید سے مسلسل انکاری ہیں۔

اُن کا تو اصرار اِس بات پر ہے کہ یہ غیر ملکی جوڑا پاکستان کی سرزمین پر نجانے کب سے حقانی گروپ کے قبضے میں تھا، لیکن ہاں وہ یہ تسلیم ضرور کرتے ہیں کہ پاکستانی فورسز نے اُن کی نشاندہی پر کارروائی کرکے انھیں دہشتگردوں سے بازیاب کروایا۔ انھوں نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا ہے کہ یہ واقعہ حال ہی میں دہشتگردوں کے پاک افغان سرحد عبور کرتے ہوئے رونما ہوا ہے۔


پاکستانی فورسزکی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ وہ اس حوالے سے اپنے اِس پرانے الزام کو بھی تقویت بخشنا چاہتے کہ پاکستان حقانی گروپ کے دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتا ہے اور انھیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ایسے کسی بھی مرحلے یا ایشو پر خاموش ہوجاتے ہیں۔کھل کر امریکا اور ساری دنیاکو یہ باور نہیں کراپاتے کہ یہ ساری کارروائی پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقے میں سر انجام پائی ہے۔ ہم اتنے بھولے اور معصوم بھی ہیں کہ پانچ سال سے افغان دہشتگردوں کی قید میں مقید اُس غیر ملکی جوڑے سے اِس ضمن میں کوئی تحقیق اور تفتیش بھی نہیں کرتے اور بلا تاخیر فوراً انھیں کسی دوسرے طیارے میں بٹھا کرکینیڈا روانہ بھی کردیتے ہیں۔

ہمارے لیے سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ2011ء میں رشتہ ازدواج میں بندھنے والے اِ س جوڑے نے ہنی مون کے لیے روس، و سط ایشیائی ریاستوں اور پھر افغانستان کا انتخاب کیا۔ دنیا کا ایسا کون سا دیوانہ جوڑا ہوگا جو اپنے ہنی مون کے لیے عرصے سے جاری لڑائی اور تباہی کے شکار ملک افغانستان کاانتخاب کرے گا۔ یہ جوڑا وہاں حقانی دہشتگردوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے جو انھیں پورے پانچ سال بڑے پیار ومحبت سے اغواء کیے رکھتے ہیںاور بدلے میںکوئی تاوان بھی طلب نہیں کرتے اور نہ افغان حکام کے سامنے کوئی مطالبہ رکھتے ہیں۔ طالبان کی قید میں انھیں اپنے ہنی مون کے لیے کسی فائیو اسٹار ہوٹل جیسی تمام سہولتیں اور آسائشیں بھی برابر ملتی رہتی ہیں اور بعد ازاں بچوں کی ولادت کے لیے تمام ضروری انتظام اور سازو سامان بھی فراہم کردیا جاتا ہے۔

اِس پانچ سالہ قید میں اُس جوڑے کے ہاں چار بچوں کی ولادت بھی ہوتی ہے۔جن میں سے ایک بچہ بقول جوشوا بوئلے(امریکی نیشنل خاوند) کے دہشتگردوں کی زیادتیوں کے سبب ہلاک ہوجاتا ہے جب کہ باقی تین بچے مکمل توانا اور صحت مند ہوکر تین چار سال کی عمر کو بھی پہنچ جاتے ہیں۔

یہ ساری کہانی اتنی مبہم اور مشکوک ہے کہ باوجود انتہائی کوششوں کے یقین کرنے کو ہمارا دل نہیں مانتا۔ اِس سارے واقعے کے پیچھے ہمیں کوئی گھناؤنی سازش معلوم ہوتی ہے جو بہر حال ہمارے سیکیورٹی اداروں کے بروقت کارروائی کی وجہ سے ناکام بنادی گئی۔ورنہ سازش کے تانے بانے جوڑنے والوں نے حقانی گروپ کو سپورٹ کرنے اور انھیں پناہ دینے کا الزام مع ثبوت و شواہد پاکستان کے سرتھوپ کر اُس پر چڑھائی کرنے کا پورا پورا انتظام کرلیا تھا۔اس سارے واقعے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اُس غیر ملکی جوڑے نے امریکا واپس جانے کی بجائے کینیڈا جانے کو ترجیح دی اور ایک اطلاع کے مطابق اُس نے امریکن طیارے میں بیٹھنے سے بھی انکارکردیا تھا۔

اُس کی وجہ غالبا یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ امریکا جاکرکسی تحقیقات اور جوابدہی کا متحمل نہیں ہوناچاہتا تھا، مگر ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ ہم نے بھی انھیں بغیرکسی تحقیقات یا سوال جواب کے فوراً اُن کی مرضی ومنشاء کے مطابق کینیڈا روانہ کردیا۔ ہم نے اِس طرح اِس گہری سازش کے بندھ کھولنے اور اُس کاسراغ لگانے کا ایک سنہری موقعہ خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا۔ ہم نے اُن سے یہ جاننے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی کہ پانچ برس وہ اگر طالبان کی قید میں تھے تو اُن کی حالت غیر ہونے کی بجائے اتنی اچھی اور صحت مند کیوں ہے۔اُن کے چار بچوں کی ولادت کس اسپتال یا میٹرنٹی ہوم میں ہوئی۔

طالبان اگر انھیں اپنے روایتی اور اسلامی رواج کا خیال رکھتے ہوئے انھیں تمام سہولتیں دینے پر مجبور تھے تو یقینا کسی لیڈی ڈاکٹر یا دائی کا بندوبست بھی کیا ہوگا۔ہم نے تو انھیں اتنی عجلت میں بغیرکسی تحقیقات کے فورا اپنے ملک سے ایسے روانہ کردیا جیسے ہمیں ہمارے سر سے کوئی بلا ٹلی ہو۔ بالکل اُسی طرح جس طرح اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں اُس کے گھر میں ہلاک کرنے کے بعد امریکی فورسز نے اُس کی لاش سمندر میں پھینک دی تھی اور ہم نے اِس بارے میں اُن سے کوئی سوال تک نہیں کیا۔

مذکورہ بالا سارے معاملات اتنے پیچیدہ اور مشکوک ہیں کہ جن کی صحت وصداقت کاپتہ ہمیں اگلی کئی دہائیوں تک شاید نہیں چل پائے گا ۔ہمارے حکام اور ہمارے ادارے ہمیں یونہی بے خبر اورلاعلم ہی رکھیں گے تاوقت کہ کوئی امریکی وزیر یا اہل کاربیس پچیس سال بعد اپنی تحریر کردہ سوانح حیات میں ازخود اُسے بیان نہ کردے۔جس طر ح ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش بن جانے کے کئی سال بعد اپنی کتاب میں پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی بین الاقوامی سازش سے پردہ اُٹھایا تھا۔ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ اُسے اب بھی ایسے کئی اہم واقعات اور سانحات کے پس پردہ عوامل سے مکمل لاعلم اور بے خبر رکھا جاتا ہے۔
Load Next Story