سمجھوتہ غموں سے کرلو
کیا ہمارے دیگر ادارے بے بس ہوچکے ہیں یا ان کے پاس ان سے نمٹنے کی صلاحیت و طاقت نہیں؟
ہٹ جاؤ بھئی ہٹ جاؤ، دیکھو کلن خان آگئے، راستہ چھوڑو کہیں گر نہ جائیں۔ مجھے بڑے غور سے دیکھا ایسا لگا کہیں ناراض تو نہیں، بولے خان صاحب یہ آپ کی محبت ہے جس انداز سے استقبال کرتے ہیں۔ ہر شخص علیحدہ سوچ رکھتا ہے لیکن کہیں ایسا بھی ہوتا ہے چند یا ایک بات پر اتفاق ہو۔ کلن خان واحد شخص ہیں جو ہر کسی بات پر اتفاق کرلیتے ہیں، لیکن ضروری نہیں وہ کسی کی بات پر عمل کریں یہ کرتے وہی ہیں جو ان کا دل کرتا ہے، کہتے ہیں سنو سب کی کرو اپنے من کی۔ عموماً لوگ ان پر حیرت زدہ صرف اس بات پر ہیں کہ جو خبریں یہ لے کر آتے ہیں وہ اس قدر اہم خاص ہوتی ہیں جن پر یقین نہیں ہوتا۔ لیکن بعد میں وہ بالکل صحیح ثابت ہوتی ہیں۔
کلن خان! مزیدار آدمی ہیں میں ان کو ''انٹرپریٹر'' کہا کرتا تھا، اب تو شاید اخبارات کے آفس میں انٹرپریٹر مشینیں نہ ہوں، اگر ہوں گی بھی تو کسی ایک میں، پہلے تو ہر اخبار میں کم ازکم دو مشینیں لگی ہوتی تھیں۔ بڑے بڑے اخباروں میں چار یا پانچ مشینیں نصب کی جاتی تھیں، ہر وقت ان پر کاغذ کا رول چلتا رہتا، انگلش میں خبریں آتی رہتیں، ان کو اردو اخبار میں ترجمہ کرکے جو لگانی ہے وہ خبر لگا دیتے، جو نہیں لگانی اس کو چھوڑ دیتے۔ میں ان کو انٹرپریٹر اس لیے کہتا تھا کہ جب بھی آتے ان کے پاس خاص خبریں ہوتیں۔ اگر ایک دوست کو دے دی تو دوسرے کو وہ خبر نہیں دیتے۔ بلکہ دوسری خبر دیتے یہ ان کی آج بھی خوبی ہے۔ انھوں نے کچھ کرنا تھا، نہ کیا، شاید اب بھی کچھ نہ کریں۔ جب کسی کام کے لیے کہو تو کہنے لگتے ہیں چھوڑو میاں کام تو سب ہی کرتے ہیں کیا مزہ ہے کام نہ کرنے میں۔ دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے۔ سارا دن روڈ ماسٹری ادھر ادھر ملنا جلنا بس اسی میں شام ہوجاتی ہے شام کے بعد رات، بس یہ ہے میری زندگی۔
میرے دوست کہنے لگے خان صاحب! کلن خان بتائیں گے جن باتوں میں ہم لوگ آپس میں تبصرے کر رہے ہیں۔ میں نے کہا ہاں ان کی بات ایسی ہے سو سنار کی ایک لوہار کی۔ ہماری سو باتیں ان کی ایک بات یوں سمجھیں کافی ہے۔ میں مخاطب ہوا۔ ہاں بھئی سناؤ کلن میاں کیا خبریں ہیں، ہم لوگ سب یہاں بیٹھے کھچڑی پکا رہے ہیں کچھڑی پکنے کا نام نہیں لے رہی۔ بہت اچھا ہے آپ آگئے بس اب سمجھو یہ کھچڑی پک جائے گی۔ انھوں نے اپنے کندھے ادھر ادھر اچکا کر ذرا شان دکھائی بولے یاد رکھو جو ہوتا ہے وہ ضروری نہیں ہے وہی ہو، یوں سمجھو جو دکھائی دیتا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا اور جو نظر نہیں آتا وہ کچھ اور ہوتا ہے۔ دانائی ہے آدمی عقل پر زور دے اور ستر سال پر غور کرے اس ملک میں آزادی کے بعد کیا کچھ ہوتا رہا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جس طرح آزادی دلائی یہ بڑا کارنامہ ہے۔
خان لیاقت علی خان وزیر اعظم پاکستان لیاقت باغ میں شہید ہوئے وہ بھی بڑی افسوسناک بات ہے۔ یہ دونوں اہم انسان، قائد اعظم محمد علی جناح، خان لیاقت علی خان زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی سامنے ہے اور اب جو ہو رہا ہے وہ بھی سامنے ہے۔ آیندہ جو کچھ ہوگا اس کا اندازہ ہے۔ میں بول اٹھا۔ میاں کلن خان! جو ہو رہا ہے وہ تو ہم سب لوگ دیکھ رہے ہیں لیکن آیندہ کیا کچھ ہونے والا ہے۔ وہ آپ سے جاننا چاہتے ہیں اسی بات پر کھچڑی چڑھی ہے جو ابھی تک تیار نہ ہوسکی۔ اب کچھ عرصہ یہ کھچڑی اور پکے گی اس کو کچا نہیں اتارنا، پکنے دینا، جلد پکنے والی ہے پھر آپ دیکھنا ''دھڑن تختہ'' کس کا اور کیسے ہوتا ہے۔ ''عقل مند را اشارہ کافی است'' شیخ سعدیؒ کا یہ جملہ کہہ کر ہنسنے لگے۔
میں نے کہا آپ نے جو کہا ہم سارے سمجھ گئے۔ ''عقل مند را اشارہ کافی است'' لیکن جس طرح ملک غیر مستحکم ہو رہا ہے، معیشت تہہ و بالا ہوچکی ہے، کرپٹ لوگوں کو پوری آزادی ہے، بلکہ چالیس چالیس گاڑیوں سے ان کو عدالتوں میں لے کر جایا جاتا ہے۔ کسی مجرم کو اس طرح کون لے جائے گا اب وہ ملزم نہیں مجرم ہیں، اس لیے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو تو ملزم کہلاتا ہے اور جب کوئی بھی جرم ثابت ہوجائے تو مجرم کہلاتا ہے، اس کے ساتھ مجرموں والا کام کیا جاتا ہے۔ یہاں تو مجرموں کے ساتھ بادشاہوں والا کام ہو رہا ہے ایسا لگتا ہے ہم ابھی بھی ایسے راشی، چور، ڈاکو، کمیشن خور، منی لانڈر، بداعمال لوگوں کے ماتحت ہیں ساری حکمرانی ان کی ہے یہ اپنے آپ کو بادشاہ وقت سمجھ رہے ہیں۔
کیا ہمارے دیگر ادارے بے بس ہوچکے ہیں یا ان کے پاس ان سے نمٹنے کی صلاحیت و طاقت نہیں؟ کلن خان بولے، خان صاحب ایسی بات نہیں اب جو کچھ آپ نے کہا غلط نہیں کہا یہ عام لوگ کہہ رہے ہیں ایک چھابڑی لگانے والا یہی بات کہہ رہا ہے۔ ہاں اتنا ضرور کہوں گا ''سمجھوتا غموں سے کرلو'' میں بول اٹھا، یار کلن خان ایسی جلی کٹی باتیں کرتے ہو، کیا کریں کبھی سوچا بھی نہ تھا، ہم لوگ اس قدر بے بس ہو جائیں گے کہ ظلم کرنے والے عیش کریں گے اور مظلوم بے چارہ ناکردہ گناہ بھگتے گا۔ مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے جب ایسے حالات ہوں مظلوم کی داد رسی نہ ہو بلکہ اس کو ملزم پھر مجرم بنا دیا جائے تو یہی بہتر ہے ''سمجھوتہ غموں سے کرلو''۔
میرے دوست کہنے لگے خان صاحب! آپ تو ہم سے سینئر ہیں بہت کچھ دیکھا اور سنا۔ لیکن ایسا نہ دیکھا اور نہ سنا ہوگا جو اس ماحول میں ہو رہا ہے۔ بات تم لوگ صحیح کہہ رہے ہو کیا کریں کڑھ کر رہ جاتے ہیں اب تم لوگ روز مرہ ایسی باتیں دیکھتے ہوگے جن میں غریب پستا نظر آئے گا۔ ایسا لگتا ہے غریب چکی کے دو پاٹ بن گیا ہے اگر پسے گا نہیں تو گندم کون پیسے گا، آٹا ملک میں ختم ہوجائے گا۔ پرانے زمانے میں گھروں میں چکیاں ہوتی تھیں خود گندم پیسے لیتے تھے۔
اب یہ ذمے داری بھی غریب پر عائد ہے شاید آیندہ بھی عاید رہے اور ہم اسی طرح بیٹھے دکھ بھری کہانیاں ایک دوسرے کو سناتے رہیں گے۔ کلن خان بول اٹھے۔ آپ لوگ سب پڑھے لکھے عاقل و بالغ ہیں سب جانتے ہیں، ایسا نہیں کہ ناواقف ہوں۔ جب کبھی الیکشن کا وقت آتا ہے تو جلسے جلوس میں کوئی صاحب حیثیت مالدار نظر نہیں آئے گا، اگر اس کو کہا جائے تو وہ کسی بیماری کا بہانہ کرے گا کوئی کہے گا میری کمر میں درد ہے کوئی بولے گا گھٹنوں میں درد ہے کھڑا ہونا چلنا مشکل ہے، کوئی بولے گا ایسی تکالیف میں ہوں کہ زیادہ دیر بیٹھ سکتا ہوں، کھڑا ہوسکتا ہوں نہ چل سکتا ہوں۔ مختلف حیلے بہانے جلسے میں نہ آنے کے۔ رہ گیا پھر وہی غریب جو چکی کے دو پاٹ بنا ہوا ہے۔ نعرہ بھی وہی لگائے گا اچھل کود بھی کرے گا چاہے گر جائے، ہڈی ٹوٹے یا چوٹ لگے، یہ بعد کی بات ہے لیکن وہ اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ اور دعا کرتا ہے یہ امیدوار جیت جائے۔ جب وہ امیدوار جیت کر آتا ہے تو شاید وہ راستہ بھول جاتا ہے، جہاں وہ غریبوں کے علاقے میں گیا اور جو عہد و پیماں اور وعدے کیے۔
سب بھول کر صرف اپنے اغراض و مقاصد یاد رہتے ہیں اور ان کو پورا کرتے ہیں۔ غریب بے چارہ سب دیکھتا رہتا ہے۔ اگر کوئی آنسو بہائے تو اس کے اشک صاف کرنے والا بھی کوئی نہیں اشک بار آنکھوں سے صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اسے معلوم ہے اب اللہ کے علاوہ میری بات کوئی سننے والا نہیں۔ جن کے لیے محنت کی، چھٹیاں کیں، بھوکے رہے دعائیں کیں انھوں نے نہ سنی اپنے کسی وعدے کو پورا نہ کیا تو اب کون ایسا ہے جو غریب کی بات سنے اس کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔ صحیح کہا ہے ''سمجھوتہ غموں سے کرلو''۔