امریکا نے 75 ناموں کی فہرست دی ہے جس میں حافظ سعید کا نام نہیں خواجہ آصف
خطے کو غیر مستحکم کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہندوستان کا ہے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ امریکا نے 75 ناموں کی لسٹ دی تھی جس میں سرفہرست حقانی نیٹ ورک ہے لیکن حافظ سعید کا نام نہیں۔
سینیٹ میں پاک امریکا تعلقات پر پالیسی بیان دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات 70 سال پرانے ہیں، ہمارا اقتدار امریکا کی نہیں 20 کروڑ عوام کی مرہون منت ہے اور اس اقتدار کو بچانے کے لئے امریکی رضا نہیں صرف اللہ کی رضا چاہئے، وہ وائسرائے نہیں ہیں،ہم امریکا سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں، نائن الیون کے بعد امریکا سے بڑا سمجھوتا کیا گیا اور اس کا نتیجہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے، وہ ہمیں فہرست دیتے تھے اور ہم بندے پکڑ کر انہیں بیچتے تھے، ماضی میں بندے بیچنے کے بدلے میں کیا کیا وصول کیا گیا، مناسب ہوگا اس معاملے پر ایوان میں بحث ہو، اس سے ہمیں رہنمائی ہوگی۔ پاکستان کی حکومت اور ہمارے ادارے پاکستان کے مفاد کو آخری دم تک تحفظ دیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ٹرمپ کی تقریر کے جواب میں ہم نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، گزشتہ روز ایک ہی میز پر بیٹھ کر سویلین اور فوجی قیادت نے مل کر امریکا سے بات کی۔ ہم کسی بھی مرحلے پرامریکا کے دباؤ میں نہیں آئے۔ امریکا سے مذاکرات میں کسی کا لہجہ نا تو معذرت خواہانہ تھا اور نا ہی کوئی ہچکچاہٹ تھی۔ جو باتیں ہم نے بند کمرے میں بیٹھ کر کیں وہ سب کے سامنے کہہ رہے ہیں۔ ہم نے امریکا کو واضح طور پر کہا کہ ہمیں کوئی امداد نہیں چاہئے ہمیں اپنا وقار چاہئے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہندوستان کا ہے، افغانستان بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے، افغانستان سے یہاں آ کر ہمارے امن کو تباہ کیا جاتا ہے، افغانستان کے 45 فیصد حصے پر وہاں کی حکومت کی عمل داری ہی نہیں، امریکا کو بتادیا کہ طالبان ہمارے کفیل نہیں، ماضی میں پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ تھا لیکن اب یہ کم ہوچکا ہے۔ طالبان کی کفالت اب کوئی اور کر رہا ہے انہوں نے اپنے لئے کوئی اور ذریعہ ڈھونڈ لیا ہے، افغانستان کی پناہ گاہیں ان دہشت گردوں کے لئے کافی ہیں انھیں ہماری پناہ گاہیں نہیں چاہئیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا کی ہمارے پڑوس میں کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں، ان کے سامنے 16 برسوں کی ناکامیاں ہیں، وہ جرنیل جنہوں نے جنگ ہاری ہے وہ کبھی ایسی پالیسی تشکیل نہیں ہونے دیں گے جس میں انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑے، افغانستان میں امن ہمارے اور خطے کے مفاد میں ہے کیونکہ پاکستان میں امن اسی وقت ہوگا جب افغانستان میں امن ہوگا، ہم نے ان کو واضح کیا ہے کہ اس مسئلے کا حل ملٹری سلوشن سے نہیں مذاکرات سے اس مسئلے کا حل نکلے گا، امریکا ہمارے ہمسائے افغانستان میں بیٹھا ہے، ہم مدد ضرور کریں گے، ہم امن کے لیے ان کی مدد ضرور کریں گے لیکن ہم کسی کی پراکسی نہیں بنیں گے۔ ہمیں قابل عمل خفیہ معلومات دی گئیں تو عمل کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری کامیابیاں سب کے سامنے ہیں، چار سال سے پہلے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ دندناتی پھرتی تھی لیکن آج حالات ویسے نہیں رہے، گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں ڈرون حملے کم ہوئے ہیں کیونکہ ہم نے ان علاقوں کو صاف کیا ہے جو ان ڈرون حملوں اور ہماری سالمیت کے لئے خطرہ کا سبب بن رہے تھے،ہم نے ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جنہیں یہ ڈرون مارتے تھے۔جب تک افغان مہاجرین ہمارے ملک میں ہیں دہشت گردوں کا آنا جانا لگا رہے گا، ہم نے امریکا سے کہا کہ پاک افغان بارڈر پر جو باڑ لگارہے ہیں اس کی تعمیر اپنے خرچے پر کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا جن لوگوں کے ساتھ لڑرہاہے وہ ان میں تھوڑی تفریق کر رہے ہیں،امریکی سمجھتے ہیں کہ طالبان سے بات ہوسکتی ہے لیکن حقانی نیٹ ورک سے نہیں۔ انہوں نے 75 ناموں کی لسٹ تھی جس میں سر فہرست حقانی گروپ کا نام ہے، انھوں نے حافظ سعید کا نام نہیں لیا۔ نا تو اس فہرست میں پاکستان کا کوئی پتہ ہے اور نا ہی کوئی ایسا نام ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہو، طالبان کے بہت سے ناموں میں لوگ افغانستان کے شیڈو گورنر ہیں اور کچھ دنیا میں ہی نہیں رہے۔
سینیٹ میں پاک امریکا تعلقات پر پالیسی بیان دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات 70 سال پرانے ہیں، ہمارا اقتدار امریکا کی نہیں 20 کروڑ عوام کی مرہون منت ہے اور اس اقتدار کو بچانے کے لئے امریکی رضا نہیں صرف اللہ کی رضا چاہئے، وہ وائسرائے نہیں ہیں،ہم امریکا سے برابری کی سطح پر تعلقات چاہتے ہیں، نائن الیون کے بعد امریکا سے بڑا سمجھوتا کیا گیا اور اس کا نتیجہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے، وہ ہمیں فہرست دیتے تھے اور ہم بندے پکڑ کر انہیں بیچتے تھے، ماضی میں بندے بیچنے کے بدلے میں کیا کیا وصول کیا گیا، مناسب ہوگا اس معاملے پر ایوان میں بحث ہو، اس سے ہمیں رہنمائی ہوگی۔ پاکستان کی حکومت اور ہمارے ادارے پاکستان کے مفاد کو آخری دم تک تحفظ دیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ٹرمپ کی تقریر کے جواب میں ہم نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، گزشتہ روز ایک ہی میز پر بیٹھ کر سویلین اور فوجی قیادت نے مل کر امریکا سے بات کی۔ ہم کسی بھی مرحلے پرامریکا کے دباؤ میں نہیں آئے۔ امریکا سے مذاکرات میں کسی کا لہجہ نا تو معذرت خواہانہ تھا اور نا ہی کوئی ہچکچاہٹ تھی۔ جو باتیں ہم نے بند کمرے میں بیٹھ کر کیں وہ سب کے سامنے کہہ رہے ہیں۔ ہم نے امریکا کو واضح طور پر کہا کہ ہمیں کوئی امداد نہیں چاہئے ہمیں اپنا وقار چاہئے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کو غیر مستحکم کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ ہندوستان کا ہے، افغانستان بھارت کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے، افغانستان سے یہاں آ کر ہمارے امن کو تباہ کیا جاتا ہے، افغانستان کے 45 فیصد حصے پر وہاں کی حکومت کی عمل داری ہی نہیں، امریکا کو بتادیا کہ طالبان ہمارے کفیل نہیں، ماضی میں پاکستان کا افغان طالبان پر اثر و رسوخ تھا لیکن اب یہ کم ہوچکا ہے۔ طالبان کی کفالت اب کوئی اور کر رہا ہے انہوں نے اپنے لئے کوئی اور ذریعہ ڈھونڈ لیا ہے، افغانستان کی پناہ گاہیں ان دہشت گردوں کے لئے کافی ہیں انھیں ہماری پناہ گاہیں نہیں چاہئیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکا کی ہمارے پڑوس میں کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں، ان کے سامنے 16 برسوں کی ناکامیاں ہیں، وہ جرنیل جنہوں نے جنگ ہاری ہے وہ کبھی ایسی پالیسی تشکیل نہیں ہونے دیں گے جس میں انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑے، افغانستان میں امن ہمارے اور خطے کے مفاد میں ہے کیونکہ پاکستان میں امن اسی وقت ہوگا جب افغانستان میں امن ہوگا، ہم نے ان کو واضح کیا ہے کہ اس مسئلے کا حل ملٹری سلوشن سے نہیں مذاکرات سے اس مسئلے کا حل نکلے گا، امریکا ہمارے ہمسائے افغانستان میں بیٹھا ہے، ہم مدد ضرور کریں گے، ہم امن کے لیے ان کی مدد ضرور کریں گے لیکن ہم کسی کی پراکسی نہیں بنیں گے۔ ہمیں قابل عمل خفیہ معلومات دی گئیں تو عمل کریں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری کامیابیاں سب کے سامنے ہیں، چار سال سے پہلے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ دندناتی پھرتی تھی لیکن آج حالات ویسے نہیں رہے، گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں ڈرون حملے کم ہوئے ہیں کیونکہ ہم نے ان علاقوں کو صاف کیا ہے جو ان ڈرون حملوں اور ہماری سالمیت کے لئے خطرہ کا سبب بن رہے تھے،ہم نے ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جنہیں یہ ڈرون مارتے تھے۔جب تک افغان مہاجرین ہمارے ملک میں ہیں دہشت گردوں کا آنا جانا لگا رہے گا، ہم نے امریکا سے کہا کہ پاک افغان بارڈر پر جو باڑ لگارہے ہیں اس کی تعمیر اپنے خرچے پر کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا جن لوگوں کے ساتھ لڑرہاہے وہ ان میں تھوڑی تفریق کر رہے ہیں،امریکی سمجھتے ہیں کہ طالبان سے بات ہوسکتی ہے لیکن حقانی نیٹ ورک سے نہیں۔ انہوں نے 75 ناموں کی لسٹ تھی جس میں سر فہرست حقانی گروپ کا نام ہے، انھوں نے حافظ سعید کا نام نہیں لیا۔ نا تو اس فہرست میں پاکستان کا کوئی پتہ ہے اور نا ہی کوئی ایسا نام ہے جس کا تعلق پاکستان سے ہو، طالبان کے بہت سے ناموں میں لوگ افغانستان کے شیڈو گورنر ہیں اور کچھ دنیا میں ہی نہیں رہے۔