سیاسی جدوجہد کا ایک گمنام سپاہی
صوبوں کی بحیثیت وفاقی یونٹ بحالی میں بھی طلبہ تنظیموں نے کلیدی کردار ادا کیا
KARACHI:
کسی معاشرے میں سیاسی عمل کو فروغ دینے میں مرکزی قیادت یعنیThe Leaderکے علاوہ دوسرے ، تیسرے اور مقامی سطح کی قیادتوں کے علاوہ سیاسی کارکن کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی سیاسی جماعت کی کامیابی کا انحصار مرکزی سطح پر ایک کرشماتی شخصیت (صرف تیسری دنیا میں)،عوام کو اپنی جانب متوجہ کرتے سیاسی نظریات اور منشور کے علاوہ یونین کونسل کی سطح تک جماعت کی مضبوط تنظیم پر ہوتا ہے۔
برصغیر میں سیاسی جماعتوں کی تشکیل کا رجحان برطانوی اہل دانش نے متعارف کرایا ۔ جس کے نتیجے میں بیسویں صدی کی آمد تک چھوٹی بڑی ان گنت جماعتیں ظہور پذیر ہوئیں جو قومی، قومیتی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم کی گئی تھیں، لیکن ملک گیر قبولیت تین جماعتوں کو حاصل ہو سکی۔ جن میں انڈین نیشنل کانگریس، آل انڈیا مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا شامل تھیں۔اول الذکر دونوں جماعتیں عوامی تھیں، جب کہ کمیونسٹ پارٹی کیڈر جماعت تھی۔ تقسیم ہند کے بعد سیاسی جماعتوں کا یہ تنظیمی ڈھانچہ اور سیاسی کلچر برٹش انڈیا کے دونوں ملکوں میں بھی منتقل ہوگیا۔
قیام پاکستان کے بعد سیاسی جماعتوں کو نوآبادیاتی دور سے بھی زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔کیونکہ پاکستان کا مذہبی تشخص سیاسی جماعتوں بالخصوص ترقی پسند جماعتوں کے لیے کھل کر کام کرنے میں رکاوٹ بن گیا۔ چنانچہ 1954میں کمیونسٹ پارٹی اوراس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی، یہ نام نہاد سویلین حکمرانی کا دور تھا۔ اس کے بعد حالات مزید دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ ایوب خان نے نہ صرف بائیں بازو کی سیاست پر قدغن عائد کیے بلکہ دیگر جماعتوں کو بھی مختلف حیلوں بہانوں سے پابند کیا ۔پابندی کے بعد کمیونسٹ پارٹی زیر زمین چلی گئی اور دیگر ترقی پسند جماعتوں کے پلیٹ فارم سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔اس دوران بڑے پیمانے پر سیاسی مدوجذر بھی آئے، مگر کمیونسٹ پارٹی میں کارکنوں کی فکری تربیت کا ایک مربوط نظام موجود تھا،اس لیے وہ مضبوط فکری وابستگی کے ساتھ مختلف سیاسی پلیٹ فارموں سے1990کے عشرے تک فعال رہے ۔ اس کے بعد مسلسل ریاستی دباؤکے باعث بکھرتے چلے گئے۔
قیام پاکستان کے وقت سے 1980کے عشرے تک پاکستان کی سیاست میں تعلیمی اداروں سے تسلسل کے ساتھ نیا کیڈر آیا کرتا تھا۔ جس کا تعلق عمومی طور پر مڈل کلاس سے ہوا کرتا تھا۔ جو سیاسی اصول و ضوابط کے ساتھ عوامی مسائل کی بھی واضح جانکاری رکھتا تھا ۔ یہی سبب ہے کہ نوجوانوں کے مسائل کے حل کی جدوجہد کے ساتھ طلبہ قومی معاملات میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ ایوبی آمریت کو کراچی سے خیبر تک اگرمنظم انداز میں چیلنج کیا گیا تو یہ طلبہ تنظیمیں تھیں۔ اسی طرح قومی سوال کو اٹھانے اور صوبوں کی بحیثیت وفاقی یونٹ بحالی میں بھی طلبہ تنظیموں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ1965کی جنگ کے بعد جب ایوب خان کمزور پڑنے لگے اور سیاسی حبس میں اضافہ ہونے لگا تو طلبہ نے جمہوریت کی بحالی، ون یونٹ کے خاتمے اور سول حقوق کی بحالی کے لیے ایوبی آمریت کو چیلنج کیا۔ 1967سے1968کے دوران ایک سال کا عرصہ سیاسی طور پر خاصا ہیجان انگیز تھا۔ان دنوں قومی سوال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ ون یونٹ نے وفاقی یونٹوں کے قومی تشخص کو ملیامیٹ کر دیا تھا۔
اس دوران چار طلبہ تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ان میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (BSO)، سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن(SNSF)، نیشنل اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(NSO)اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF)شامل تھیں۔ چونکہ ون یونٹ کا سب سے زیادہ نقصان سندھ کو ہوا تھا،اس لیے سندھ میں اس انتظامی بندوبست کے خلاف خاصے وسیع پیمانے پر تحفظات تھے۔ SNSF نے ون یونٹ کے خاتمے اور سندھی طلبہ کو درپیش مسائل کو نہایت فعالیت کے ساتھ اپنی جدوجہد کا حصہ بنایا۔ یہ طلبہ تنظیموں کا دباؤ ہی تھا کہ جس کے نتیجے میں قومی سیاسی جماعتیں بھی ون یونٹ کے توڑے جانے کی مہم کا حصہ بنیں اور فروری 1970 میں بالآخر ون یونٹ توڑ دیا گیا۔
سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، جس کے سر ون یونٹ کے خاتمے کا سہرا بندھتا ہے، کی تشکیل میں جن طالب علم رہنماؤں نے حصہ لیا، وہ ایک سے بڑھ کر ایک گوہر نایاب تھا۔ جام ساقی ہوں کہ میر تھیبو، مہر حسین شاہ ہوں یا شاہ محمد شاہ۔ لیکن ایک طالب علم رہنما اپنی ذہانت، فکری بالیدگی اور دور بینی کے باعث اس طلبہ تنظیم کا دماغ تصورکیا جاتا تھا۔ وہ طالب علم رہنما عبدالمقتدر بالمعروف ندیم اختر ہے۔ ندیم اختر جو کبھی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں شامل ہوا کرتے تھے، چالیس برس قبل عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے بقول شخصے گوشہ نشینی اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن ان کے عملی سیاست سے کنارہ کشی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انھوں نے سیاست سے مایوس ہوکر اس میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے۔ بلکہ وہ آج نجی محفلوں اور دوستانہ نشستوں میں اپنی مدبرانہ رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
ندیم اختر وہ سیاسی دانشور ہیں، جن کی سیاسی بصیرت کے آگے ملک کے کئی بڑے اور مقبول سیاسی رہنماؤں کی اہلیت ہیچ ہے۔ وہ عالمی، علاقائی اور قومی سیاست کی باریکیوں اور نزاکتوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ نجی محفلوں اور احباب کے ساتھ بیٹھکوں میں جو باریک بین نکات بیان کرتے ہیں، کئی رہنماؤں کی سوچ سے کوسوں آگے ہوتے ہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت اور فکری بالیدگی کا یہ عالم ہے کہ ان کے زمانہ طالب علمی کے وہ دوست ، جنہوں نے ان کے ساتھSNSF میں کام کیا ہے، ان ''استاد ندیم'' کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کے رہنما شاہ محمد شاہ تو انھیں اسی القاب سے پکارتے ہیں۔ اس میں شک بھی نہیں کہ وہ واقعی سیاسیات کا ایک ایسا دبستان ہیں، جن کی صلاحیتوں سے پاکستانی عوام جمہوری سیاست کی بے توقیری کے سبب استفادہ نہیں کر پا رہے۔
ندیم اخترنے عرصہ ہوا اظہاریہ نویسی بھی ترک کردی۔ ٹیلی ویژن پروگراموں سے دور بھاگتے ہیں۔ البتہ مختلف رسائل اور جرائدکی ادارت سے بہرحال منسلک ہیں۔ وہ جمہوریت عام انسانوں کی توقیرکا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اس لیے جمہوریت کے فروغ اور اس کی ترویج کے لیے اپنے دفتر میں بیٹھ کر بھی سرگرم رہتے ہیں، لیکن عملی سیاست میں آنے سے گریزاں ہیں۔ جس کی وجوہات بتانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔
میرا ان کے ساتھ گزشتہ تین دہائیوں سے برادرانہ تعلق ہے۔ مجھے اظہاریہ نویسی کی جانب راغب کرنے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ میرے پہلی کتاب سندھ کا سماجی بحران( مطبوعہ1998) انھی کے اکسانے پر لکھی گئی تھی اور انھی کے نام منسوب ہے۔ کئی بارکوشش کی کہ میرے ٹیلی ویژن پروگرام میں شریک ہوکر نوجوانوں کو 1967سے1970کے دوران چلنے والی سیاسی تحریک کے بارے میں آگہی دیں، مگر ہر بار ٹال جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے سینے میں معلومات کا جو خزینہ دفن ہے، وہ اس ملک کے نوجوانوں کی رہبری کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔
یہ کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ اس ملک میں سیاست کو اس قدر بد نام و رسوا کردیا گیا ہے کہ سنجیدہ، باوقار اور مخلص رہنما اور کارکن گوشہ نشینی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ تعلیم یافتہ نوجوان اس جانب آنے کو وقت کا زیاں سمجھ رہے ہیں۔ نتیجتاً سیاست مخصوص گھرانوں کے گھروں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے1980کے عشرے تک تمامتر نامساعد حالات کے باوجود نوجوان سیاست کی طرف راغب ہوا کرتے تھے، مگر جب سے طلبہ یونینوں پر پابندی لگی ہے، ٹریڈیونینیں غیر فعال ہوئی ہیں اورکافی ہاؤس کلچر ختم ہوا ہے، سیاست میں نئے تعلیم یافتہ کیڈر کی آمد کا سلسلہ بھی رک گیا ہے، جب کہ ندیم اختر جیسے ان گنت مخلص، دیانتدار اور راست باز سیاستدان جو ملک کی ترقی میں اپنی بصیرت، تجربہ اور دوراندیشی سے چار چاند لگا سکتے ہیں، ایک کونے میں بیٹھے تماشائے اہل کرم دیکھ رہے ہیں۔