گھرکی لڑائی گھر میں لڑیں
دنیا کے تمام بڑے شہر مختلف النسل افرادکی آبادی میں بٹے ہوتے ہیں
لندن کی ایک سرد رات تھی میں اپنے کام سے فارغ ہوکر سیدھا ایک دوست کے گھر پہنچا جو پچھلے تین چار سال سے میڈیا کے شعبے میں پی ایچ ڈی کے لیے سینٹرل لندن کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہونے کے ساتھ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، لبرٹی اور اینٹی سلویری انٹرنیشنل جیسے انسانی حقوق کے اداروں کے لیے بھی کام کرتا تھا۔ لندن جیسے مہنگے شہر میں کرائے پر مکان لینا ہرکسی کے بس کی بات نہیں، صرف وہی پاکستانی ایسا کر سکتے ہیں جو کسی سرکاری مہم پر تشریف لائیں، جاگیر داروں کے بیٹے جو تعلیم حاصل کررہے ہوں یا وہ سیاسی پناہ گزین جو اپنے ملک میں ہونے والے مظالم کو''بہترین ڈھنگ'' سے بیان کرنے کے بعد وہاں کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ غیر قانونی طریقے سے یہاں آنے والے محنت کش بھی کچھ عرصہ دھکے کھانے کے بعد لندن کو سمجھنے کے لگتے ہیں اور اتنے پیسے ضرور کما لیتے ہیں جن سے خود بھی آسانی سے زندگی گزار سکیں اور اپنے گھر والوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ بھیج سکیں۔
جس طرح دنیا کے تمام بڑے شہر مختلف النسل افرادکی آبادی میں بٹے ہوتے ہیں لندن بھی ایشیاء، افریقہ،چائنا اور دوسرے ممالک کے افرادکی رہائش کے لیے الگ الگ علاقوں اور ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ ان علاقوں میںاپنے دیس کے پھلوں، سبزیوں ،کپڑوں کی دکانوں اور عبادت گاہوں سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں کون سی برادری آباد ہے۔ ایسے علاقوں میںضروریات زندگی کی تمام چیزیں بھی با آسانی مل جاتی ہیںاورہائش کا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک سستے مکان میں میرا طالب علم دوست بھی رہائش پذیر تھا، جس کے کمرے میں اتوار بازار سے خریدی ہوئی مختلف موضوعات کی ہزاروں کتابیں بھری ہوئی تھیںاور یہی اس کا واحد شوق تھا۔ پاکستان سے آنے والی کوئی بھی ایسی سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافتی شخصیت نہیں تھی جو اس کی مہمان نہ بنتی ہو۔ وہ دنیا بھر کے انسانوں اور زبانوں کے ساتھ پاکستان کی تمام زبانوں، انسانوں اور ان کی تہذیب و ثقافت سے محبت کرتا تھا۔ جس دن اس کے گھر میں کسی نئے مہمان کی آمد ہو مجھے فون کر کے کہتا:
''سائیںتھوڑی مدد کی ضرورت ہے۔''
میں سمجھ جاتا کہ آج پھر کوئی مہمان آنے والا ہے جس کے لیے کمرے میں بھری کتابوں کو درست طریقے سے رکھنے کے لیے اسے اور مجھے دو گھنٹے لگیں گے تب کہیں جا کرآنے والے مہمان کے ٹھہرنے کی جگہ بن سکے گی۔ایک دن امریکا سے ایک نوجوان کی آمد آمد تھی جس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اپنے ملک یعنی پاکستان کے کچلے ہوئے کسانوں کی حالت بدلنے کے لیے کوئی تحریک چلا رہا ہے۔ مجھے یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی اور اس سے ملنے سے قبل ہی دل میں اس کے لیے محبت اور عقیدت کا جذبہ ٹھاٹیں مارنے لگا۔
شام کو حسب معمول دوست کے مکان پر پہنچا اور ہم دونوں مل کر کتابوں کے ڈھیر کو ترتیب سے سجانے لگے تاکہ آنے والے مہمان کو ٹھہرنے میں سہولت ہوجس کے بعد میں اپنے گھر واپس لوٹ آیا۔ دوسرے دن مجھے بتایا گیا کہ مہمان آج شام کو پہنچ جائے گا جس سے گفتگو کرنے کے لیے چار پانچ دوستوں کو دعوت دے دی گئی ہے آپ بھی یہیں آجائیے گا ہم سب کھانا مل کر کھائیں گے اور دیر تک یہ نشست جاری رہے گی۔ شام کو جب میں وہاں پہنچا تو ایک خوب صورت نوجوان جدید مغربی لباس زیب تن کیے موجود تھا۔ کھونٹی پر چمڑے کی ایک مہنگی جیکٹ لٹک رہی تھی اور کونے میں کئی ہزار کے مہنگے برانڈڈ شوز بھی رکھے ہوئے تھے۔گفتگو کا آغاز ہوا تو نوجوان نے ملک کے ان بچوں کی زبوں حالی پر بات شروع کی جن کے والدین صبح سے لے کر رات تک کام میں جتے رہتے ہیں مگر انھیں اتنی اجرت نہیں ملتی کہ اپنے خاندان کا پیٹ بھر سکیں۔ نوجوان ہمیں بتا رہا تھا کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کتنا مضبوط ہے اور کھیت مزدوروں کے بچوں کے جوتوں، کپڑوں اور کھانے پینے کے کیا مسائل ہیں۔وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں سیاسی اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی زندگی ہر وقت خطرے میں گھری رہتی ہے۔ گفتگو کے اختتام پر میں نے اپنے مہمان کی طرف کنکھیوں سے دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔
حکومت سے مختلف اختلافات رکھنے اور مختلف اداروں کے ڈر سے اپنا ملک چھوڑنے والے ایسے سیکڑوں نوجوان ہیں جنھیں اپنا ملک ، گھر بار، بہن بھائی اور بچپن کے دوست چھوڑ کر امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے ممالک میں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔اپنے وطن سے کوسوں دور رہنے والے اس نوجوان کی طرح وہ بھی انتہائی اچھے اور درمند انسان ہیں جو آرام دہ گھروںمیں رہنے، مہنگے مشروب پینے، بہترین سفری سہولتوں کا لطف اٹھانے اور قیمتی ملبوسات زیب تن کرنے کے باوجود اپنے ان ہم وطنوں کے دکھ درد اور تکلیفوں کو نہیں بھولتے جو گرمیوں میں دس دس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلتے ہیں، ٹوٹی پھوٹی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں، ایک وقت کا کھانا کھانے کے بعددو وقت تک بھوکے ہی رہتے ہیں،طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پاتے، سرکاری اسپتال میں زندہ مریضوں کو لے کر جاتے ہیں۔
مگر ادویات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی میت کو کاندھے پر اٹھائے واپس آتے ہیں، لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیااپنے ملک میں رہتے ہوئے، حکومت کے غلط کاموں پر تنقید نہیں کی جا سکتی؟ ملک کے مضبوط اداروں کوغلط فیصلوں پر نہیں للکارا جاسکتا؟ وڈیروں، جاگیر داروں کے ساتھ لڑنے کے لیے ان کا سامنا نہیں کیا جاسکتا؟ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے خلاف نہیں لکھا جاسکتا؟انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب نہیں کیا جاسکتا؟ ہمارے خیال میں بالکل کیا جا سکتا ہے اور ببانگ دہل کیا جا رہا ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔مجھے اپنے'' خود ساختہ جلا وطنوں'' کی حب الوطنی پر ذرا برابر شک نہیں، مگر وہ جو کام کر رہے ہیں وہ اسی ملک کے لیے کریں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں۔اس لیے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تو وہاں بھی ہیں، سیاسی اور سماجی مسائل بھی وہاں موجود ہیں بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے اور ساری دنیا کی معاشی صورت حال بھی خراب ہو رہی ہے۔اگر یہاں کے خرابیوں اور بے اعتدالیوں کو درست کرنا ہے تو واپس آجائیں اور ہمارے ساتھ مل کر زبانی کے بجائے حقیقی جنگ میں بالکل اسی طرح حصہ لیں جیسے لندن میں رہنے والا ہمارا دوست اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس آچکا ہے اور ایک یونیورسٹی میں پڑھانے کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
جس طرح دنیا کے تمام بڑے شہر مختلف النسل افرادکی آبادی میں بٹے ہوتے ہیں لندن بھی ایشیاء، افریقہ،چائنا اور دوسرے ممالک کے افرادکی رہائش کے لیے الگ الگ علاقوں اور ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ ان علاقوں میںاپنے دیس کے پھلوں، سبزیوں ،کپڑوں کی دکانوں اور عبادت گاہوں سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہاں کون سی برادری آباد ہے۔ ایسے علاقوں میںضروریات زندگی کی تمام چیزیں بھی با آسانی مل جاتی ہیںاورہائش کا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک سستے مکان میں میرا طالب علم دوست بھی رہائش پذیر تھا، جس کے کمرے میں اتوار بازار سے خریدی ہوئی مختلف موضوعات کی ہزاروں کتابیں بھری ہوئی تھیںاور یہی اس کا واحد شوق تھا۔ پاکستان سے آنے والی کوئی بھی ایسی سیاسی، سماجی، ادبی اور ثقافتی شخصیت نہیں تھی جو اس کی مہمان نہ بنتی ہو۔ وہ دنیا بھر کے انسانوں اور زبانوں کے ساتھ پاکستان کی تمام زبانوں، انسانوں اور ان کی تہذیب و ثقافت سے محبت کرتا تھا۔ جس دن اس کے گھر میں کسی نئے مہمان کی آمد ہو مجھے فون کر کے کہتا:
''سائیںتھوڑی مدد کی ضرورت ہے۔''
میں سمجھ جاتا کہ آج پھر کوئی مہمان آنے والا ہے جس کے لیے کمرے میں بھری کتابوں کو درست طریقے سے رکھنے کے لیے اسے اور مجھے دو گھنٹے لگیں گے تب کہیں جا کرآنے والے مہمان کے ٹھہرنے کی جگہ بن سکے گی۔ایک دن امریکا سے ایک نوجوان کی آمد آمد تھی جس کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اپنے ملک یعنی پاکستان کے کچلے ہوئے کسانوں کی حالت بدلنے کے لیے کوئی تحریک چلا رہا ہے۔ مجھے یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی اور اس سے ملنے سے قبل ہی دل میں اس کے لیے محبت اور عقیدت کا جذبہ ٹھاٹیں مارنے لگا۔
شام کو حسب معمول دوست کے مکان پر پہنچا اور ہم دونوں مل کر کتابوں کے ڈھیر کو ترتیب سے سجانے لگے تاکہ آنے والے مہمان کو ٹھہرنے میں سہولت ہوجس کے بعد میں اپنے گھر واپس لوٹ آیا۔ دوسرے دن مجھے بتایا گیا کہ مہمان آج شام کو پہنچ جائے گا جس سے گفتگو کرنے کے لیے چار پانچ دوستوں کو دعوت دے دی گئی ہے آپ بھی یہیں آجائیے گا ہم سب کھانا مل کر کھائیں گے اور دیر تک یہ نشست جاری رہے گی۔ شام کو جب میں وہاں پہنچا تو ایک خوب صورت نوجوان جدید مغربی لباس زیب تن کیے موجود تھا۔ کھونٹی پر چمڑے کی ایک مہنگی جیکٹ لٹک رہی تھی اور کونے میں کئی ہزار کے مہنگے برانڈڈ شوز بھی رکھے ہوئے تھے۔گفتگو کا آغاز ہوا تو نوجوان نے ملک کے ان بچوں کی زبوں حالی پر بات شروع کی جن کے والدین صبح سے لے کر رات تک کام میں جتے رہتے ہیں مگر انھیں اتنی اجرت نہیں ملتی کہ اپنے خاندان کا پیٹ بھر سکیں۔ نوجوان ہمیں بتا رہا تھا کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کتنا مضبوط ہے اور کھیت مزدوروں کے بچوں کے جوتوں، کپڑوں اور کھانے پینے کے کیا مسائل ہیں۔وہ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں سیاسی اور سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے زندگی گزارنا انتہائی مشکل ہے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی زندگی ہر وقت خطرے میں گھری رہتی ہے۔ گفتگو کے اختتام پر میں نے اپنے مہمان کی طرف کنکھیوں سے دیکھا تو اس نے نظریں جھکا لیں۔
حکومت سے مختلف اختلافات رکھنے اور مختلف اداروں کے ڈر سے اپنا ملک چھوڑنے والے ایسے سیکڑوں نوجوان ہیں جنھیں اپنا ملک ، گھر بار، بہن بھائی اور بچپن کے دوست چھوڑ کر امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دوسرے ممالک میں جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔اپنے وطن سے کوسوں دور رہنے والے اس نوجوان کی طرح وہ بھی انتہائی اچھے اور درمند انسان ہیں جو آرام دہ گھروںمیں رہنے، مہنگے مشروب پینے، بہترین سفری سہولتوں کا لطف اٹھانے اور قیمتی ملبوسات زیب تن کرنے کے باوجود اپنے ان ہم وطنوں کے دکھ درد اور تکلیفوں کو نہیں بھولتے جو گرمیوں میں دس دس گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلتے ہیں، ٹوٹی پھوٹی بسوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرتے ہیں، ایک وقت کا کھانا کھانے کے بعددو وقت تک بھوکے ہی رہتے ہیں،طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پاتے، سرکاری اسپتال میں زندہ مریضوں کو لے کر جاتے ہیں۔
مگر ادویات نہ ہونے کی وجہ سے ان کی میت کو کاندھے پر اٹھائے واپس آتے ہیں، لیکن یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیااپنے ملک میں رہتے ہوئے، حکومت کے غلط کاموں پر تنقید نہیں کی جا سکتی؟ ملک کے مضبوط اداروں کوغلط فیصلوں پر نہیں للکارا جاسکتا؟ وڈیروں، جاگیر داروں کے ساتھ لڑنے کے لیے ان کا سامنا نہیں کیا جاسکتا؟ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے خلاف نہیں لکھا جاسکتا؟انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب نہیں کیا جاسکتا؟ ہمارے خیال میں بالکل کیا جا سکتا ہے اور ببانگ دہل کیا جا رہا ہے اور اس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔مجھے اپنے'' خود ساختہ جلا وطنوں'' کی حب الوطنی پر ذرا برابر شک نہیں، مگر وہ جو کام کر رہے ہیں وہ اسی ملک کے لیے کریں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں۔اس لیے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں تو وہاں بھی ہیں، سیاسی اور سماجی مسائل بھی وہاں موجود ہیں بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے اور ساری دنیا کی معاشی صورت حال بھی خراب ہو رہی ہے۔اگر یہاں کے خرابیوں اور بے اعتدالیوں کو درست کرنا ہے تو واپس آجائیں اور ہمارے ساتھ مل کر زبانی کے بجائے حقیقی جنگ میں بالکل اسی طرح حصہ لیں جیسے لندن میں رہنے والا ہمارا دوست اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس آچکا ہے اور ایک یونیورسٹی میں پڑھانے کے ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔