ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ

اپنے چھوٹے قد، بیماری کے باوجود اُس نے سب کو حیران کر دیا


انیس منصوری October 26, 2017
[email protected]

FAISALABAD: ''تم نہیں نکل سکتے، ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ'' فضا ان نعروں سے گونج رہی تھی۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پچاس ہزار سے زیادہ لوگ سڑکوں پر موجود تھے ۔ انھیں کسی نے باہر آنے کا نہیں کہا تھا، لیکن جیسے ہی چند نوجوانوں نے یہ نعرہ لگایا کہ کہ تمھیں کوئی نہیں نکال سکتا، تو چندگھنٹوں میں ہزاروں مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے اپنا سارا کام چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ اس ملک کے صدر کو فوری خطاب کرنا پڑا اور اُس نے کہا کہ یہ شخص خدا کی طرف سے ہمیں تحفہ ہے۔ اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ یہ ہمیں چھوڑ کرکہیں نہیں جا سکتا۔ اسے آنا ہوگا اورضرورآنا ہو گا۔ اسے ہمارا سر فخر سے بلند کرتے رہنا ہو گا۔کیا جادو ہے؟ اس شخص میں جو سربراہی نہیں چاہتا، لیکن ہزاروں لوگ اس کے لیے سڑکوں پر نکل کر کہہ رہے ہیں کہ وہ دنیا میں ہر جگہ جا کر ہماری نمایندگی کرے ...؟کون ہے یہ نوجوان ...؟ یہ کون سی زمین ہے جہاں پاکستان سے بالکل الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ایک جگہ ''ٹرینڈ'' ہے کہ مجھے کیوں نکالا۔اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ۔ لوگوں کے دلوں میں حکومت کرنے والا یہ شخص کون ہے؟ آیئے دیکھتے۔

وہ 24 جون 1987ء کے دن ارجنٹائن کے ایک متوسط گھر میں پیدا ہوا۔ جہاں بچوں کی پرورش کے لیے ماں اور باپ دونوں کو ملازمت کرنا پڑتی تھی۔ باپ ایک لوہے کی فیکٹری میں ملازم تھا۔ ماں اپنے گھر اور بچوں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ باہر بھی کام کرتی تھی تاکہ چار بچوں کا خرچہ اُٹھایا جاسکے ۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے بہت فکر تھی۔ وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانا چاہتے تھے۔اس لیے دن رات مزدوری کرکے وہ لوگ اپنے گھر کے بجٹ کی گاڑی کو دھکا دے رہے تھے ۔ ایسے میں ان کے بیٹے کو فٹ بال کھیلنے کا شوق ہوگیا۔ وہ پانچ سال کی عمر میں پورے علاقے میں مشہور ہوگیا۔ ارجنٹائن میں لوگوں کو فٹ بال کھیلنے کا جنون ہے۔ ماں تعلیم حاصل کروانا چاہتی تھی، لیکن بچے کے شوق کے سامنے انھوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ باپ نے جب بچے کا جنون دیکھا تو کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح وہ بچوں کی ٹیم میں شامل ہو جائے ۔

ابھی وہ چھ سال کا تھا کہ اُس نے بچوں کی ٹیم میں رہتے ہوئے بڑوں بڑوں کو حیران کردیا۔ اُس نے صرف چھ سال کی عمر میں ایک سال کے اندر500 گول کیے۔ پورے ارجنٹائن میں اُسے گول کرنے کی مشین کہا جانے لگا۔ کچھ لوگ اُسے اپنے سال پیدائش کے حوالے سے ''مشین آف 87'' کہتے تھے۔ وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ لیکن قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔ اُسے ہڈیوں کی ایک بیماری ہو گئی۔

ڈاکٹر نے کہا کہ یہ زیادہ بھاگ نہیں سکتا اور اس کا قد اپنے ہم عمر بچوں کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔ اس لیے یہ مزید فٹ بال نہیں کھیل سکتا، لیکن بچہ جنون کی حد تک فٹ بال سے محبت کرتا تھا۔ وہ کسی صورت میں میدان اور بال سے اپنا رشتہ ختم نہیں کتنا چاہتا تھا۔ ماں نے روتے ہوئے اُسے سمجھایا کہ بیٹا ضروری نہیں کہ ہر خواب پورا ہو۔ باپ کا لہجہ چڑ چڑا ہوگیا، مگر بیٹا نہیں سمجھ رہا تھا۔ باپ نے ہر جگہ سے معلومات لینا شروع کردی کہ آخر اس مرض کا علاج کیا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اس کے لیے ایک مہنگا انجکشن ہر دوسرے دن لگانا ہوگا۔ ماں اور باپ دونوں پریشان ہو گئے۔ وہ اتنے پیسے کہاں سے لائیں گے۔ وہ لوگ بڑی مشکل سے تو اپنا گھر چلاتے ہیں ۔ ایک طرف بیٹے کا خواب تھا اور دوسری طرف غربت۔ لیکن ایک عظیم ماں باپ کی طرح انھوں نے بھی فیصلہ کیا کہ وہ لوگ زیادہ کام کریں گے۔ وہ کم کھائیں گے۔ اپنی ضرورت کو کم کرلیں گے، لیکن اپنے بیٹے کا خواب ضرور پورا کریں گے۔انھوں نے مہینے بھرکے انجکشن خریدنا شروع کیے۔ جس کی مالیت پاکستانی ایک لاکھ روپے مہینہ تھی۔وہ اپنے آنسووں میں اپنے بچے کا مستقبل دیکھ رہے تھے ۔

اُسے 8 سال کی عمر میں ارجنٹائن کے ایک کلب میں جگہ مل گئی۔اپنے چھوٹے قد، بیماری کے باوجود اُس نے سب کو حیران کر دیا۔گھرکے حالات دن بابدن خراب ہوتے جا رہے تھے۔ کیونکہ ماں باپ جتنا کماتے تھے اُس کا ایک بڑا حصہ علاج پر خرچ ہو رہا تھا۔ ہر کلب اُس بچے کو اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہ رہا تھا ، لیکن کوئی بھی اُسے وہ رقم دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ جس سے وہ اپنے انجکشن خرید سکے۔ ابھی وہ 12 سال کا تھا کہ اُس پر ایک ایسے شخص کی نگاہ پڑی جو ہیروں کی پہچان رکھتا تھا۔ وہ اُس بچے کے باپ سے ملا اورکہا کہ کیا آپ اپنے بچے کو فٹ بال کھیلنے کے لیے اسپین بھیج سکتے ہیں۔ باپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بچے کی ماں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا کہ کہ ہمارا بچہ ایک بیماری میں مبتلا ہے اور ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہم انجکشن خرید سکیں۔اگر یہ اسپین جائے گا تو کیا آپ اس کے علاج کا خرچہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ شخص دورکی نظر رکھتا تھا۔ اُس نے کہا کہ میں نہ صرف بچے کا علاج کراؤں گا۔ بلکہ میں آپ کے پورے خاندان کی بھی کفالت کروں گا۔ آپ سب لوگ میرے ساتھ اسپین چلیں۔ میں آپ سب کے لیے اچھا سا گھر دیکھ چکا ہوں۔آپ سب وہاں رہیں۔ ماں کی آنکھ میں آنسو آگئے، ان کی محنت رنگ لا رہی تھی۔

ہر جگہ ہیرے بکھرے ہوئے ہیں۔ بس ان ہیروں کو پہچان کر تراشنے کے لیے ایک جوہری کی ضروت ہوتی ہے۔ وہ بچہ 12 سال کی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ اُٹھ کر اسپین آگیا۔ جو جوہری اُسے ڈھونڈھ کر لایا تھا وہ دنیا کے سب سے بڑے فٹ بال کلب ''بارسلونا'' کا نمایندہ تھا۔کلب نے اُس بچے کے علاج اور ماں باپ کا خرچہ اٹھانے کی ذمے داری قبول کی ۔انھیں معلوم تھا کہ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے اور پھر ایسے ہی ہوا۔ پہلے وہ بچہ بارسلونا کے جونئیر ٹیم میں کھیلتا رہا۔ اُس کے کھیل کو دیکھ کر بارسلونا والے بھی انتظار نہیں کرسکے اور اُس بچے کو صرف 16 سال کی عمر میں بڑے میدان میں اُتار دیا۔ اُس نے پہلا گول کیا،دنیا دیکھ رہی تھی کہ ایک چھوٹے سے قد کا 16 سال کا لڑکا اپنے پیروں سے بال کو گھما کر دنیا کو چکر میں ڈال رہا ہے۔ اگلے کچھ سالوں میں اس بچے نے بارسلونا کو ایک کے بعد ایک ٹورنامنٹ جتوانا شروع کر دیا۔ پیسے کی ہر جگہ برسات ہونے لگی۔

وہ بچہ جس کا علاج کرانا ماں باپ کے لیے مشکل تھا ، مگر خود کو بھٹی میں ایندھن کے طور پر جلا کر جس بچے کو انھوں نے سونا بنایا تھا اُس کا نام انھوں نے ''لیونل میسی'' رکھا تھا۔ آج وہ دنیا کے امیر ترین کھلاڑیوں میں شامل ہے۔ آج وہ دنیا کے بڑے بڑے ''برانڈ'' کا نمایندہ ہے۔ جب وہ 20 سال کا تھا۔ اور پیسہ آنے لگا تو اُس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی کمائی کا ایک بہت بڑا حصہ ان بچوں کے لیے وقف کر دیا جن میں ہڈیوں کی بیماری ہوتی ہے۔ اُسے اقوام متحدہ نے اپنا خصوصی نمایندہ مقرر کیا۔ ہر جگہ دھوم ہے ''میسی'' کی۔ وہ اپنے کیرئیرکے عروج پر ہے۔

وہ صرف ارجنٹائن کا نہیں دنیا کا بہترین کھلاڑی ہے ۔ لیکن اُس نے ایک سال پہلے یہ فیصلہ کیا کہ اُسے اب کھیل سے رخصت ہو جانا چاہیے۔ وہ کھلاڑی جس کے بارے میں میرا ڈونا جیسا عظیم کھلاڑی یہ کہتا ہوکہ میسی کے پاس جادو ہے۔ وہ کھیل سے رخصتی لے رہا ہو۔ یہ خبر آتے ہی چند نوجوانوں نے مظاہرہ شروع کیا جس کا نعرہ تھا کہ تم ہمیں چھوڑکر نہیں جاسکتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے 50 ہزار لوگ جمع ہوگئے۔ارجنٹائن نے صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ میسی ہمارے لیے خدا کا تحفہ ہے۔ ہم اُسے کبھی نہیں چھوڑ سکتے اور پھر عوام کے شدید دباؤ پر میسی واپس آگیا۔ اُسے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔

کھیل،کھیل ہوتا ہے۔ چاہے وہ سیاست کا ہو، فٹ بال ہو یا پھر کرکٹ۔ جب تک آپ لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں آپ کو کوئی نہیں نکال سکتا۔ لیکن جب آپ کو یہ پوچھنا پڑے کہ مجھے کیوں نکالا۔ تو پھر کوئی لاکھ نعرے لگائے کہ روک سکو تو روک لو۔ روکنا تو پڑے گا، روکنا تو پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں