’’دل پرائے دیس میں‘‘
نئے فنکاروں کے ساتھ بنائی جانے والی اردو فلم
پاکستان فلم انڈسٹری جن حالات سے دوچار ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، جہاں کبھی سال میں درجنوں فلمیں بنا کرتی تھیں۔
عید سے لے کر ہر ویک اینڈ پر فلموں کی نمائش کرنے کے خواہشمندوں کی ایک لمبی قطار ہوتی جو سینما کے حصول کے لئے کوشاں دکھائی دیتے۔ وقت کے ساتھ یہ دور ایسا تبدیل ہوا کہ سینما نئی فلموں کی عدم دستیابی کا شکار ہونے کی وجہ سے شورومز ' ہوسٹلز' ہوٹلز ' شادی ہالز میں بدلنے لگے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے محدود پیمانے پر بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا جس سے دم توڑتی سینما انڈسٹری کو سہارا مل گیا۔ دوسری طرف پاکستان فلم انڈسٹری کی حالت نہ بدل سکی جس سے سینکڑوں ایکسٹرا فنکار اور تکنیک کار بیروزگار ہوگئے جنہوں نے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا فلم انڈسٹری کو ہی بنایا ہوا تھا۔
اسٹوڈیوز ویرانی کا منظرپیش کر رہے ہیں مگر ممتاز ملک جیسے چند ایک ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں ' جو نامساعد حالات کے باوجود فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ممتاز ملک جو بذات خود ایک طویل عرصہ تک فائٹر کی حیثیت سے فلموں کا حصہ رہے، فلم انڈسٹری کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بطور فلمساز فلم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ یہ قدم اس وقت اٹھا رہے تھے جب فلم انڈسٹری سے کروڑوں روپیہ کمانے والے فلم میں ایک پائی کی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ دوسرا بڑا فیصلہ نام نہاد سپراسٹار کے بغیر بنانے کا ارادہ کیا ' اس لئے انہوں نے مرکزی کردار کے لئے اداکار سمیع خان اور ہما علی کو کاسٹ کیا جبکہ دیگر فنکاروں میں راشد محمود ' خالد بٹ ' افتخار ٹھاکر کے علاوہ خرم ملک ' اسد ہاشمی جیسے نئے چہرے شامل کئے۔ فلم کی ڈائریکشن کی ذمہ داری حسن عسکری کے سپرد کردی 'جن کے کریڈٹ پر ماکئی یادگار فلمیں ہیں۔
یہ فلم ''لڑکی پاکستانی'' کے نام سے شروع ہوئی 'جو بعدازاں ''دل پرائے دیس میں'' کے ساتھ یکم مارچ کو میٹروپول سمیت دیگر سینماؤں میں ریلیز ہوگئی۔سمیع خان جن کا شمار ٹی وی کے معروف فنکاروں میں ہوتا ہے اور اس سے قبل بھی ''ربا عشق نہ ہووئے'' سمیت متعدد فلمیں کرچکے ہیں' مگر ان دنوں متعدد ٹی وی ڈرامہ سیریلز میں مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔ ان کے مقابل ہما علی کی بطور اداکارہ پہلی فلم ہے ان کے علاوہ خرم ملک ' اسد ہاشمی بھی اسی فلم کے ذریعے کیریئر کا آغاز کیا ہے۔ اسد ہاشمی نے ولن کا کردار کیا ہے۔ افتخار ٹھاکر سکھ کے رول میں اپنی برجستہ کردار نگاری کے ساتھ لوگوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ راشد محمود اور خالد بٹ جیسے سینئر فنکار بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔
ہدایتکار حسن عسکری نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ''دل پرائے دیس میں'' محدود بجٹ میںبنائی جانے والی ایک خوبصورت فلم ہے ' جس کی عکسبندی کے لئے زیادہ حقیقی لوکیشنز کو ہی استعمال کیا گیا ہے'کیونکہ میں ذاتی طور پر بھی حقیقی لوکیشنز کو شوٹ کرنے کا حامی ہوں۔ اسی لئے میری فلموں میں سیٹ کی بجائے حقیقی لوکیشنز ہی نظر آتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان حالات میں جب بڑے بڑے فلمساز سرمایہ کاری کرنے کوتیار نہیں وہاں پر نئے چہروں کے ساتھ اتنا بڑا رسک لینا واقعی ممتاز ملک کا بہت بڑا قدم ہے۔ اگر ہم فلم ٹریڈ کو بحران سے نکالنے کے لئے سنجیدہ ہیں تو ہمیں اسی طرح کے بولڈ فیصلہ کرنا ہونگے۔ ''دل پرائے دیس میں'' نئے کاسٹ کے ساتھ بنائی جانے والی ایک اچھی کاوش ہے اور نئے فنکاروں نے میری توقعات کے مطابق اچھا پرفارم کیا ہے' حالانکہ مجھے جب اس فلم کے لئے کہا گیا تو نئے فنکاروں کے ساتھ ایک بہتر فلم بنانا بہت بڑا چیلنج تھا۔
فلمساز ممتاز ملک نے کہا کہ زندگی کی ساری جمع پونجی فلم پر یہ سوچ کر لگائی کہ جس فلم ٹریڈ نے مجھے عزت ' شہرت اورمقام دیا ہے۔ اس کے لئے اگر ہم نے قدم نہ بڑھایا تو پھر اس کو کون بچائے گا۔ میں نے ایک مثبت سوچ کے ساتھ فلم بنائی 'مگر سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوا کہ سینما تک لانے کے لئے مجھے جن مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا ' اس نے میرے حوصلے پست کر دئیے تھے۔
ان حالات کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر سینما مالکان کا یہ رویہ اسی طرح رہا تو پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے کیسے آگے بڑھیں گے۔ ایک دور تھا جب یہی سینما مالکان فلم کو اپنے سینما میں لگانے کے لئے فلمسازوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے پیچھے ہوتے تھے 'مگر آج صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ میٹروپول سینما سمیت ان تمام سینما مالکان کا شکر گزار ہوں جنہوںنے میرے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نمائش کو ممکن بنایا۔ ممتاز ملک نے کہا کہ میری فلم بینوں سے اپیل ہے کہ وہ لوکل فلموں کی حوصلہ افزائی کے لئے سینماؤں میں آئیں۔
عید سے لے کر ہر ویک اینڈ پر فلموں کی نمائش کرنے کے خواہشمندوں کی ایک لمبی قطار ہوتی جو سینما کے حصول کے لئے کوشاں دکھائی دیتے۔ وقت کے ساتھ یہ دور ایسا تبدیل ہوا کہ سینما نئی فلموں کی عدم دستیابی کا شکار ہونے کی وجہ سے شورومز ' ہوسٹلز' ہوٹلز ' شادی ہالز میں بدلنے لگے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے محدود پیمانے پر بھارتی فلموں کی نمائش کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا گیا جس سے دم توڑتی سینما انڈسٹری کو سہارا مل گیا۔ دوسری طرف پاکستان فلم انڈسٹری کی حالت نہ بدل سکی جس سے سینکڑوں ایکسٹرا فنکار اور تکنیک کار بیروزگار ہوگئے جنہوں نے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا فلم انڈسٹری کو ہی بنایا ہوا تھا۔
اسٹوڈیوز ویرانی کا منظرپیش کر رہے ہیں مگر ممتاز ملک جیسے چند ایک ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں ' جو نامساعد حالات کے باوجود فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ممتاز ملک جو بذات خود ایک طویل عرصہ تک فائٹر کی حیثیت سے فلموں کا حصہ رہے، فلم انڈسٹری کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بطور فلمساز فلم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ یہ قدم اس وقت اٹھا رہے تھے جب فلم انڈسٹری سے کروڑوں روپیہ کمانے والے فلم میں ایک پائی کی بھی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ دوسرا بڑا فیصلہ نام نہاد سپراسٹار کے بغیر بنانے کا ارادہ کیا ' اس لئے انہوں نے مرکزی کردار کے لئے اداکار سمیع خان اور ہما علی کو کاسٹ کیا جبکہ دیگر فنکاروں میں راشد محمود ' خالد بٹ ' افتخار ٹھاکر کے علاوہ خرم ملک ' اسد ہاشمی جیسے نئے چہرے شامل کئے۔ فلم کی ڈائریکشن کی ذمہ داری حسن عسکری کے سپرد کردی 'جن کے کریڈٹ پر ماکئی یادگار فلمیں ہیں۔
یہ فلم ''لڑکی پاکستانی'' کے نام سے شروع ہوئی 'جو بعدازاں ''دل پرائے دیس میں'' کے ساتھ یکم مارچ کو میٹروپول سمیت دیگر سینماؤں میں ریلیز ہوگئی۔سمیع خان جن کا شمار ٹی وی کے معروف فنکاروں میں ہوتا ہے اور اس سے قبل بھی ''ربا عشق نہ ہووئے'' سمیت متعدد فلمیں کرچکے ہیں' مگر ان دنوں متعدد ٹی وی ڈرامہ سیریلز میں مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔ ان کے مقابل ہما علی کی بطور اداکارہ پہلی فلم ہے ان کے علاوہ خرم ملک ' اسد ہاشمی بھی اسی فلم کے ذریعے کیریئر کا آغاز کیا ہے۔ اسد ہاشمی نے ولن کا کردار کیا ہے۔ افتخار ٹھاکر سکھ کے رول میں اپنی برجستہ کردار نگاری کے ساتھ لوگوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ راشد محمود اور خالد بٹ جیسے سینئر فنکار بھی اس ٹیم کا حصہ ہیں۔
ہدایتکار حسن عسکری نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ''دل پرائے دیس میں'' محدود بجٹ میںبنائی جانے والی ایک خوبصورت فلم ہے ' جس کی عکسبندی کے لئے زیادہ حقیقی لوکیشنز کو ہی استعمال کیا گیا ہے'کیونکہ میں ذاتی طور پر بھی حقیقی لوکیشنز کو شوٹ کرنے کا حامی ہوں۔ اسی لئے میری فلموں میں سیٹ کی بجائے حقیقی لوکیشنز ہی نظر آتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان حالات میں جب بڑے بڑے فلمساز سرمایہ کاری کرنے کوتیار نہیں وہاں پر نئے چہروں کے ساتھ اتنا بڑا رسک لینا واقعی ممتاز ملک کا بہت بڑا قدم ہے۔ اگر ہم فلم ٹریڈ کو بحران سے نکالنے کے لئے سنجیدہ ہیں تو ہمیں اسی طرح کے بولڈ فیصلہ کرنا ہونگے۔ ''دل پرائے دیس میں'' نئے کاسٹ کے ساتھ بنائی جانے والی ایک اچھی کاوش ہے اور نئے فنکاروں نے میری توقعات کے مطابق اچھا پرفارم کیا ہے' حالانکہ مجھے جب اس فلم کے لئے کہا گیا تو نئے فنکاروں کے ساتھ ایک بہتر فلم بنانا بہت بڑا چیلنج تھا۔
فلمساز ممتاز ملک نے کہا کہ زندگی کی ساری جمع پونجی فلم پر یہ سوچ کر لگائی کہ جس فلم ٹریڈ نے مجھے عزت ' شہرت اورمقام دیا ہے۔ اس کے لئے اگر ہم نے قدم نہ بڑھایا تو پھر اس کو کون بچائے گا۔ میں نے ایک مثبت سوچ کے ساتھ فلم بنائی 'مگر سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوا کہ سینما تک لانے کے لئے مجھے جن مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا ' اس نے میرے حوصلے پست کر دئیے تھے۔
ان حالات کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر سینما مالکان کا یہ رویہ اسی طرح رہا تو پاکستان فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے کیسے آگے بڑھیں گے۔ ایک دور تھا جب یہی سینما مالکان فلم کو اپنے سینما میں لگانے کے لئے فلمسازوں اور ڈسٹری بیوٹرز کے پیچھے ہوتے تھے 'مگر آج صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ میٹروپول سینما سمیت ان تمام سینما مالکان کا شکر گزار ہوں جنہوںنے میرے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نمائش کو ممکن بنایا۔ ممتاز ملک نے کہا کہ میری فلم بینوں سے اپیل ہے کہ وہ لوکل فلموں کی حوصلہ افزائی کے لئے سینماؤں میں آئیں۔