اذلان شاہ کپ ہاکی ٹورنامنٹ

نئے کھلاڑیوں کی شمولیت سے مستقبل کے راستوں کا تعین ہوگا

نئے کھلاڑیوں کی شمولیت سے مستقبل کے راستوں کا تعین ہوگا۔ فوٹو : فائل

قومی ہاکی کا معیار پستی کی گہرائیوں میں گر چکا تھا، ملک میں اسکول اور کلب سطح پر قومی کھیل نہ ہونے کے برابر تھا، اس صورتحال میں انٹرنیشنل مقابلوں کے لیے نئے باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھیپ کہاں سے میسر آتی۔

ہم گنے چنے چند پلیئرز پر انحصار کرتے، انھیں کو کبھی ٹیم کے اندر، کبھی باہر کرتے رہے، نتیجے میں فتح کی دیوی روٹھی رہی،لندن اولمپک میں ناکامی کی شرمندگی کے ساتھ ٹیم وطن واپس آئی تو سمجھا جانے لگا کہ شاید قومی کھیل کی موت ہو گئی،پی ایچ ایف کی نئی انتظامیہ نے اس مشکل وقت میںامید کا دامن نہ چھوڑا اور نئے عزم، نئے ارادے اور نئے حوصلوں کے ساتھ قومی کھیل کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کامشکل بیڑہ اٹھایا اور ابتداء میں انٹرنیشنل سطح پر ہونے والے ایونٹس میں کامیابیاں سمیٹ کر دنیائے ہاکی کو پیغام دیا کہ پاکستان میںہاکی کے کھیل میں ابھی دم خم موجود ہے۔

ایشین چیمئنز ٹرافی میں گولڈ اور ایچ آئی ایف چیمئنز ٹرافی میں برانز میڈل کو پاکستان ہاکی کیلیے تازہ ہوا کا جھونکا سمجھا جا رہا ہے لیکن کامیابی حاصل کرنے کے بعد تسلسل برقرار رکھنا بھی اہم ہوتا ہے، ایک سنگ میل حاصل کرنے کے بعد نئی منزلوںکے لیے تیار رہنے سے ہی عروج کی طرف سفر جاری رکھا جاسکتاہے، گرین شرٹس نے مسلسل محنت کے بعد کھیل میں بہتری کی منازل طے کرتے ہوئے عالمی رینکنگ میں پانچویں پوزیشن پر قبضہ جمایا ہے،تاہم سرفہرست ٹیموں میں جگہ بنانے کیلیے ابھی طویل سفر کرنا باقی ہے،سال کا پہلا ٹورنامنٹ اذلان شاہ کپ کھلاڑیوں کو صلاحیتیں آزمانے اور مستقبل کے لیے تیاریوں کا بہترین موقع فراہم کرے گا، ٹیم مینجمنٹ جو سلیکشن کے اختیارات بھی رکھتی ہے۔

اس بار جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے رضوان سینئر، راشد محمود، وسیم احمد اور شکیل عباسی کو آرام کی غرض سے ڈراپ کر کے تصورعباس، عمران جونیئر، عامر شہزاد اور عرفان سینئرکو پہلی بار اسکواڈ کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرچکی، نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں جاری کیمپ میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد حتمی اسکواڈکا اعلان کیا گیا، محمد عمران کو ٹیم کا کپتان برقرار رکھاگیا ہے، نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں کوچ حنیف خان اور اجمل خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہیڈ کوچ و منیجر اختر رسول نے کہا کہ سینئر کھلاڑی ٹیم کا مستقل حصہ ہیں اور بدستور پول میں شامل رہیں گے، اذلان شاہ کپ نئے پلیئرزکو موقع دینے کابہترموقع ہے، نو عمر کھلاڑی انٹرنیشنل ہاکی کے دباؤ میں کھیلنا سیکھیں گے۔ انھوں نے کہاکہ ایونٹ میں ٹیم سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہیں تاہم نئے کھلاڑیوں کے ساتھ بھی بہتر نتائج دینے کی کوشش کریں گے، انھوں نے کہا کہ دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں کو دیکھتے ہوئے 2گول کیپرز عمران بٹ اور عمران شاہ کو ملائشیا لے جانے پر اتفاق ہوا۔


کوچ حنیف خان کا کہنا تھا کہ تنقید سے نہیں گھبراتے، ہمارا مقصد مستقبل کے لیے بہترین ٹیم تیار کرنا ہے جس کے لیے اپنے ٹارگٹ پر کام کرتے رہیں گے۔ کپتان محمد عمران کا کہنا تھا کہ تمام لڑکوں میں جیت کا جذبہ موجوداور ٹیم میں مکمل ہم آہنگی ہے، انھوں نے کہا کہ ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا نیوزی لینڈ، بھارت، ملائیشیا کی ٹیموں کی موجودگی میں ایونٹ کو آسان نہیں لیا جا سکتا تاہم سینئرز اور جونیئرز کے ساتھ مل کر بہترین اور مضبوط ٹیم تیار ہوگئی ہے جو اچھے نتائج دے گی، دوسری طرف ایشین ایونٹ کے فائنل میںبھارت کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعدشائقین کی گرین شرٹس سے امیدیں بڑھ گئی ہیں، عوام سلطان اذلان شاہ ٹورنامنٹ میں بھی قومی ٹیم کو ٹاپ پر دیکھنا چاہتے ہیں، روایتی حریف ہمسایہ ملک سمیت آسٹریلوی اور یورپی سائیڈز کی موجودگی میں گولڈ میڈل کے حصول کا سفر کھلاڑیوں کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

انھیں اپنی منزل تک رسائی کے لیے اپنی خامیوں پر قابو پاتے ہوئے بلند عزائم اور حوصلے کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا، ٹیم مینجمنٹ کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے فتوحات کا سفر جاری رکھنے کا سامان کرے۔ اذلان شاہ ٹورنامنٹ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے توآغاز 1983 میں ہوا۔ ابتدا میں ایونٹ 2، 3 یا 4 سال کے وقفے کے بعد ہوتا رہا تاہم 1998 کے بعد سے ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہو رہا ہے، اب تک 8 ملکوں کی ٹیموں کوٹورنامنٹ کافائنل جیتنے کا اعزاز حاصل ہے،آسٹریلیا اور بھارت کی ٹیموں نے سب سے زیادہ 5 ،5 باریہ ٹائٹل اپنے نام کیا ہے، 1983 میں ہونے والا پہلا ٹورنامنٹ جیتنے کا اعزاز بھی عالمی چمپئن کوکا بوراز کے حصہ میں آیا،15 برس تک قسمت کی دیوی آسٹریلیا پر مہربان نہ ہوئی تاہم 1998 میںٹیم نے دوسری بارٹائٹل اپنے نام کیا، پھر 2004 ، 2005 اور 2007 میںبھی گولڈ میڈل جیتنے میں کامیاب رہی۔

بھارتی ٹیم نے 1985، 1991 ، 1995، 2009ء اور 2010ء میں فتح حاصل کی، گرین شرٹس نے تین بار1999 ، 2000 اور 2003 میں گولڈ میڈل حاصل کیا،جرمنی اور کوریا نے 2، 2جبکہ ہالینڈ 2006، جنوبی افریقہ 1996، نیوزی لینڈ2012اور انگلینڈ1994 میں ایک ایک باراعزاز جیتنے میں سرخرو ہوئے،2011کیایونٹ میں بھارت اور کوریا کی ٹیمیں مشترکہ طور پر فاتح قرار پائیں۔رواں سال کاایونٹ ایپوہ میں 9سے17 مارچ تک ہوگا،میزبان ملائیشیا سمیت پاکستان، بھارت،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کوریا کی ٹیمیں شرکت کریں گی،نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنے ٹائٹل کا دفاع کرے گی، قومی ٹیم ایونٹ میں شرکت کے لیے 5 مارچ کو روانہ ہوگی، ایونٹ کے ہر روز3 مقابلے شیڈول ہیں۔

افتتاحی میچ پاکستان اور نیوزی لینڈکی ٹیموں کے مابین ہوگا، آسٹریلیا کی ٹیم بھارت اور ملائیشین سائیڈکوریا کے مقابل ہوگی، 10 مارچ کو پاکستان ٹیم اپنا دوسرامیچ آسٹریلیا کیخلاف کھیلے گی،کوریااوربھارت جبکہ ملائشیا اورنیوزی لینڈ بھی ایکشن میں دکھائی دیں گے،11 مارچ کو آرام کا دن ہوگا جبکہ اگلے روز پاکستانی ٹیم بھارت کے خلاف ایکشن میں دکھائی دے گی، کوریا کا مقابلہ نیوزی لینڈ اور ملائشیا کا میچ آسٹریلیا سے ہوگا، 13 مارچ کو آرام کا دن ہونے کی وجہ سے کوئی مقابلہ شیڈول نہیں ہے، 14 مارچ کو آسٹریلیا کی ٹیم کوریا کے خلاف میدان میں اترے گی،نیوزی لینڈ کا مقابلہ بھارت سے ہوگا جبکہ پاکستان ٹیم ملائشیا سے ٹکرائے گی۔ ایک دن کیآرام کے بعد 16 مارچ کوقومی ٹیم کا مقابلہ کوریا سے شیڈول ہے، آسٹریلیا کانیوزی لینڈ اور ملائیشیا کا مقابلہ بھارت سے ہوگا، 17 مارچ کو فائنل میچ کھیلا جائیگا۔

پاکستان کے لیے ٹورنامنٹ اس نقطہ نظر سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کے بعد ٹیم کی کارکردگی مستقبل کی راہیں متعین کرے گی،ٹیم میں نئے خون کی شمولیت ناگزیر تھی،فیڈبیک میں باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھیپ تیار کئے بغیر حکمرانی کی تمنا کرنادیوانے کا خواب لگتا ہے،ایونٹ کو ایشیا کپ کی تیاری کے لیے ڈریس ریہرسل کے طور پر لیا جارہا ہے، ایشیائی مقابلوں میں سروخرو ہونے والی ٹیم کو ورلڈ کپ کھیلنے کا پروانہ مل جائے گا،امید ہے کہ نوجوان اور تجربہ کار پلیئرز کے امتزاج سے تشکیل پانے والا اسکواڈ مقابلوں میں شریک مضبوط ٹیموں کو ٹف ٹائم دیتے ہوئے عوام کی امنگوں پر پورا اترے گا۔
Load Next Story