کلین سویپ۔۔۔۔۔غلط فیصلوں اور ناقص حکمت عملی کا نتیجہ

کرکٹ کے ان نادانوں کی نادانیوں اورمن مانیوں کی وجہ سے ایسے واقعات اورسانحات رونما ہوئے اور ہورہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔


Mian Asghar Saleemi March 02, 2013
کرکٹ کے ان نادانوں کی نادانیوں اورمن مانیوں کی وجہ سے ایسے ایسے واقعات اورسانحات رونما ہوئے اور ہورہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ فوٹو : فائل

کہتے ہیں کہ جب بھیڑیں سفر پر نکلتی ہیں تو سب سے کمزوراور بیماربھیڑ ریوڑ کے آخر میں سر جھکائے۔

زبان باہر نکالے آہستہ آہستہ لنگڑاتی ہوئی چلا کرتی ہے اور اگر سفر کے دوران خدانخواستہ سامنے سے کوئی آفت، مصیب یا عذاب آ جائے، راستہ بند ہو جائے، ناقابل عبور چڑھائی سامنے ہو یا کوئی جنگلی جانور حملہ آور ہو جائے تو سارا ریوڑ ایک دم پلٹ جاتا ہے اور اس کے بعد آخر میں چلنے والی وہی کمزورلاغر بھیڑ اچانک میرکارواں بن جاتی ہے اور پھر ساری بھیڑیں خاموشی سے سر جھکا کر اسے اپنا راہنما مان کر آہستہ آہستہ، خراماں خراماں اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتی ہیں اوریہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی اور آفت پھر انھیں پلٹنے پر مجبور نہ کرے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال ہماری ملکی کرکٹ کے ساتھ بھی ہے، چند برسوں سے بے رحم وقت نے کرکٹ کی باگ دوڑ ایسے ہاتھوں میں تھما رکھی ہے جنہیں شرفاء کے کھیل کی تو کوئی خاص سوجھ بوجھ نہیں لیکن قسمت کی دیوی ان پر مہربان ضرور رہی ہے، کرکٹ کے ان نادانوں کی نادانیوں اور من مانیوں کی وجہ سے ایسے ایسے واقعات اور سانحات رونما ہوئے اور ہو رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ کھلاڑی قوموں میں محبت بانٹتے اور روٹھے دلوں کو آپس میں ملاتے ہیں، لیکن پاکستان میں وہ کون سا کھیل ہے جس کے میچز پوری قوم سارے کام کاج چھوڑ کر دیکھتی اور رو رو کر ٹیم کی فتح وکامرانی کے لئے دعائیں کرتی ہوئی نظر آتی ہے، وہ کون سا کھیل ہے کہ جس کے جیتنے کی خوشی میں فائرنگ کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر رقص و بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں، وہ کون سا کھیل ہے جس میں فتح کی خوشی میں شکرانے کے نوافل ادا کئے جاتے ہیں اور دیگوں کے منہ کھول دیئے جاتے ہیں، کس کھیل میں جیت کر پورے ملک کے طول وعرض میں سیکڑوں من مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں اور شکست کی صورت میں شائقین غم زدہ ہو کرکھانا پینا چھوڑ جاتے ہیں اورکئی کمزور حضرات زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، اس پس منظر میں وہ کھیل کرکٹ ہی ہے جس کے مقابلوں کے دوران عوام کی نبضیں اور سانسیں قابو میں نہیں رہتیں، وقت تھم جاتا ہے اور ٹریفک کے اژدہام کو کرکٹ کا دیوہیکل اژدھا نگل جاتا ہے۔

مشہور کہاوت ہے کہ جس طرح خیالی پلاؤ سے ناقابل تسخیر قلعے تعمیر نہیں کئے جا سکتے، بڑے بڑے معرکے سر نہیں کئے جا سکتے،انہونی کو ہونی اور ناممکن کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح من پسندکھلاڑیوں سے بنائی ہوئی ٹیمیں محض حب الوطن پاکستانیوں کے بھنگڑوں، نعروں، بڑھکوں سے میچز نہیں جیت سکتیں۔قوم تو ہمیشہ ہی اپنے پلیئرز کی کامیابیوں کے لئے دعا گو رہتی ہے، کیا یہ سچے پاکستانیوں کی سچی اور کھری دعائیں نہیں تھیں کہ ورلڈ کپ1992ء کے دوران پاکستان کا 74 رنز بنانے کے باوجود بارش کی وجہ سے انگلینڈ کے خلاف میچ کا ٹائی ہو جانا اور آسٹریلیا سے ویسٹ انڈیز کی جیت کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کو سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہوئی اورتمام تر نامساعد اور مشکل حالات کے باوجود گرین شرٹس میگا ایونٹ کا ٹائٹل پہلی بار لے اڑی۔

ہم تو لاچار، بے کس، مجبور اور غریب عوام ہیں، ہمیں تو روزی روٹی ہی سے فرصت نہیں ملتی، ہمیں کیا سوجھ بوجھ کہ پی سی بی کے ہیڈ کوارٹر قذافی اسٹیڈیم کے وی آئی پی کمروں میں بیٹھ کر ارباب اختیار کیسے کیسے عجیب وغریب فیصلے کرتے ہیں۔ میرٹ کے نام لیوا کس طرح خود ہی اس کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کس کس کا کیریئر گول کر کے کس کس کو نوازتے ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے اور جب نیتوں میں کھوٹ اور ملاوٹ ہو تو اللہ تبارک تعالی بھی اس قوم سے منہ موڑ لیتا ہے اور تباہی و بربادی کی داستان بننے کے لئے انھیں ان کے حال پرچھوڑ دیتا ہے۔

یہی حال ہمارا ٹیم کا انتخاب کرتے وقت بھی تھا، مس پلاننگ اور سفارشی ٹیم ہونے کی وجہ سے غیب کا مالک تو راضی تھا نہیں پھر خوشبوؤں بھرے مہکتے پھول پی سی بی کے کرتا دھرتاؤں کے گلوں کی زینت کیوں کر بنتے اور وہ مبارکبادیں کیونکر وصول کرتے پھرتے۔ جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ اسکواڈزکا انتخاب کرتے وقت جو ہم نے بویا تھا وہ کاٹ لیا۔ اب افسوس، گریہ زاری، آہ وبکاء کیوں، کس لئے ٹیم کا پوسٹ مارٹم کرنے اور کھلاڑیوں کو بڑھکوں اور طعنوں کی سولی پر چڑھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، کیا پی سی بی کے لگژیری کمروں میں بیٹھ کر ٹیم کا انتخاب کرنے والے بھول گئے تھے کہ پاکستانی ٹیم کا مقابلہ کسی ایری غیری یا نتھو خیری ٹیم سے نہیں بلکہ دنیا کی نمبر ون ٹیم کے ساتھ ہے۔

وہ ٹیم جو اپنے ہوم گراؤنڈ اورکراؤڈ میں بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیتی ہے اور آپ نے ایسے کھلاڑیوں کو جنوبی افریقہ کا پروانہ تھما دیا جن کی فٹنس ہی مشکوک تھیں یا جن کا قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے یا پروٹیز کی سرزمین پر کھیلنے کا پہلا پہلا تجربہ تھا۔ اقبال قاسم صاحب آپ نے تو زندگی کا بڑا حصہ کھیلوں کے میدانوں میں گزارا ہے اور قوم آپ کی بھارت کے خلاف بنگلور ٹیسٹ1987ء کی شاندار کارکردگی کونہیں بھلا پائی ہے جس میں آپ نے ہاری ہوئی بازی جیت کی صورت میں پاکستانی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی تھی، کیا آپ نہیں جانتے کہ قومی اسکواڈز وی آئی پی کمروں میں بیٹھ کر تشکیل نہیں دیئے جاتے بلکہ اس کے لئے کشٹ کرنا پڑتا ہے، دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔

آپ یہ سبق کیوں بھول گئے کہ جب بارشیں ہوتی ہے تو للہاتی فصلیں انھیں سرزمینوںکی زینت بنتی ہیں جہاں لوگوں نے محنت کی ہوتی ہے باقی جگہ جنگلی جھاڑیاں ہی اگتی ہیں۔ آپ پہلے چیف سلیکٹر بنے تو آپ کی بنائی ہوئی ٹیموں نے شکستوں اور ناکامیوں کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ جس کی بازگشت متحدہ عرب امارات سے شروع ہو کر آسٹریلیا تک سنائی دیتی رہی، یہ سلسلہ نہ جانے کہاں جا کر تھمتا اور کہاں جا کر رکتا کہ آپ نے شرمناک ناکامیوں کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے چیف سلیکٹر کے عہدے سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

اب نہ جانے کیا سوجھی کہ آپ نے چیئرمین سلیکشن کمیٹی کا کانٹوں بھرا تاج دوبارہ سر پر سجا لیا۔ جناب چیف سلیکٹر اگر ایک قومی بینک کی اہم ذمے داری آپ کے کندھوں پر ہے اور آپ سلیکشن کمیٹی کے سربراہ کے فرائض بہتر طور پر انجام نہیں دے سکتے تو کیا اس منصب پر آپکے فائز رہنے کا جواز ختم نہیں ہوجاتا ہے۔ شائقین کرکٹ پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے پی سی بی کا وہ میڈیکل بورڈ جسے ان فٹ کھلاڑی ہی نظر نہیں آتے، کیا ممبران کو بورڈ سے لاکھوں روپے تنخواہیں، وی آئی پی دفتر، بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے اور دنیا بھر کے سیر اسپاٹوں کے مواقع اس لئے دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برتیں اور اپنی آنکھوں پر مصلحت کوشی کی سیاہ پٹی باندھ کر ''سب اچھا ہے'' کی رپورٹس جاری کرتے رہیں۔ مصباح الحق صاحب آپ تو عمر عزیز کی 38 بہاریں دیکھ چکے، بطور کپتان گرین شرٹس کو متعدد سیریز بھی جتوا چکے لیکن پروٹیز کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں آپ نے وقت سے پہلے ہی کیوں ہتھیار ڈال دیئے، مسٹر ڈیو واٹمور آپ کی کامیاب کوچنگ کی مثالیں تو پوری دنیا دیتی ہے تو پھر جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے دوران آپ کی حکمت عملی اور پلانننگ کہاں گئی۔

غربت، بے روزگاری، بھوک،ننگ افلاس کے مارے ہوئے ملک نے تو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر دولت کے خزانے آپ پر لٹا دیئے لیکن بدلے میں آپ نے ہمیں کیا دیا، ذلت، رسوائی اور شرمندگی۔ کرکٹ کے آقاؤں ، اگر سن سکتے ہیں تو سنیں کہ جس طرح چپوؤں کے بغیر کشتی نہیں چلائی جا سکتی، بالکل اسی طرح ہمت، جرات اور بہتر فیصلوں کے بغیرعالمی سطح پر کامیابیوں کے جھنڈے نہیں گاڑھے جا سکتے لیکن افسوس، ہم لوگ برف کو آگ کہہ کر پہاڑوں میں گرمی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہم ہاتھی کو مرغی کا نام دے کر حلال بنانا چاہتے ہیں۔

نہ جانے کیوں ، ہماری حکومتیں شروع سے انفرادی سطح پر کھیلے جانے والے اسکواش، کشتی، پہلوانی، جوڈو، کشتی رانی ، کراٹے، اسنوکر، سوئمنگ، رائفل شوٹنگ اور اتھلیٹکس و دیگر لا تعداد کھیلوں کو چھوڑ کر کرکٹ کے پیچھے کیوں لگی ہوئی ہے، کیوں کرکٹرز کو ہی سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے، صدقے واری جایا جا رہا ہے، ان کے ناز نخرے اٹھائے جا رہے ہیں، دولت کے خزانے لٹائے جا رہے ہیں۔ جب یہ سوال اٹھتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ کرکٹ ہی نہیں، پاکستان کی سرزمین پر سب کھیل ہوتے ہیں، چلو مان لیتے ہیں کہ یہاں سب کھیل ہوتے ہیں لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان گیمز کا کیا حشر ہوتا ہے، قومی کھیل کو ہی لے لیں، ہاکی نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک اتنے میڈلز قوم کی جھولی میں ڈالے ہیں کہ سب کھیل مل کر بھی اس ہدف کو عبور نہیں کر سکے لیکن ہاکی کے کھلاڑیوں کا یہ حال ہے کہ گزشتہ 8 ماہ سے سینٹرل کنٹریکٹ ہی حاصل نہیں کرسکے۔

کیا ماضی قریب میں آیف آئی ایچ چیمئنز ٹرافی میں بھارتی ہاکی ٹیم کو چاروں شانے چت کرنے اور ایشین گیمز میں روایتی حریف کو ہی دن کو تارے دکھانے والے ہاکی کھلاڑی ہمارے قومی ہیروز نہیں ہے، 19 کروڑ عوام کی طرح ہاکی کھلاڑیوں کو بھی کیوں بھوکے مارا جا رہا ہے۔کیا ہم شہرہ آفاق اسکواش کھلاڑیوں جہانگیر خان اور جان شیر خان کی ملک وقوم کے لئے دی جانے والی خدمات کو فراموش کر سکتے ہیں، اگر نہیں تو پھر انٹرنیشنل ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں کیوں پردے اسکرین سے غائب کر دیا گیا۔

ورلڈ اسنوکر چیمپئن محمد یوسف کو چند روز تک کندھوں پر بٹھائے رکھنے کے بعد سالہا سال سے بے یارومددگار کیوں چھوڑ رکھا ہے، ایک اور فاتح عالم محمد آصف کے ٹیلنٹ کو کیوں نہیں بھانپ سکے کہ اسے مانگ تانگ کر میگا ایونٹ میں شرکت کے لئے سفر کا سامان کرنا پڑا۔ دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچا دینے والے جاوید میانداد، وسیم اکرم، ثقلین مشتاق، انضمام الحق، عبدالقادر، ظہیر عباس، سرفراز نواز جو زندہ و تابندہ ہیں، انھیں کسی قابل نہ سمجھ کر امپورٹڈ کوچز کو بھرتی کیوں کر لیا گیا، ڈیو واٹمور اور جولین فاؤنیٹن پر لاکھوں روپے ماہانہ کیوں لٹائے جا رہے ہیں، کیا ہمیں اپنے کوچز پراعتماد نہیں رہا یا ہم دیگر شبعوں کی طرح کھیلوں میں بھی گوری چمڑے سے مرعوب ہو چکے ہیں۔

جدید چین کے بانی ماؤزے تنگ نے کہا تھا کہ ''سو طرح کے پھولوں کو اپنی بہار دو، سو طرح کے افکار کو مقابلہ کرنے دو، خوشبو وہی حاوی ہو گی جو بہتر ہے، رنگ وہی غالب آئے جو حقیقی ہے''۔ اس بات کو یاد رکھیں کہ ہم سب عام سے لوگوں نے اپنا مقدر خود بنانا ہے، کسی گوری، کالی چمڑی سے مرعوب ہوئے بغیر اپنی بازی خود لگانا ہو گی، اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے، ورنہ تاریخ اپنے آپ کو بار بار دھراتی رہے گی اور کوئی ہم کو بچانے والا نہیں ہوگا سوائے اس مالک ذوالجلال کے جس کا فرمان ہے کہ میں اس کی مدد کرتا ہوں جو اپنی مدد آپ کرتا ہے۔آئیے اپنی مدد آپ کریں، ہم بھی کمر کس لیں، اس چیونٹی کی طرح جو برسات کے آنے سے پہلے ہی اپنا بندوبست خودکر لیتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں