پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اور امریکا

ساڑھے سات ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے پر پاکستان کی جانب سے کام کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔

ساڑھے سات ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے پر پاکستان کی جانب سے کام کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جس کے باعث پاکستان کی معیشت بری طرح تباہ ہو رہی ہے، اس تناظر میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر مثبت پیشرفت نہایت امید افزا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے ایران میں پاکستانی سفارتخانے کے عہدیدار نے کہا ہے کہ پاکستانی اور ایرانی صدور 7.5 ارب ڈالر مالیت کی گیس پائپ لائن کا افتتاح 11 مارچ کو کریں گے۔ اس سلسلے میں گوادر میں آئل ریفائنری قائم کرنے کے لیے مزید دو سرحدی مقامات (گند اور پسنی) کو کھولنے کے لیے معاہدے پر دستخط ایک تقریب میں کیے جائیں گے، یہ تقریب گند زیرو پوائنٹ پر جہاں پاکستان کے سیکشن کی گیس پائپ لائن شروع ہوتی ہے، منعقد کی جائے گی۔

صدر آصف علی زرداری جمعرات کو ایران سے فنانسنگ اور تکنیکی امور حل کر کے دو روزہ دورے کے بعد وطن واپس لوٹے ہیں۔ حکام نے صدر کے دورے کے بعد بتایا کہ 'ہم نے تمام مذاکرات مکمل کر لیے ہیں، اس افتتاحی تقریب میں اسلام آباد میں تعینات غیر ملکی سفارت کاروں کو بھی مدعو کیا جا رہا ہے'۔ تہران میں صدر زرداری نے امریکی دباؤ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم باہمی تعلقات پر یقین رکھتے ہیں، بین الاقوامی اور خطے میں موجود ملکوں نے بہت چاہا کہ ایران پاکستان کے تعلقات کو نقصان پہنچایا جائے لیکن لوگوں کو اب پتہ ہے کہ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ کیسے نمٹا جا سکتا ہے۔' صدر زرداری کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے ملکی مفادات کی خاطر وہ کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کریں گے۔

یہ امر واضح ہے کہ پاکستان کو اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے اور عوام الناس کو سہولیات بہم پہنچانے کے لیے وقتی دباؤ اور مخالفت کا اثر نہیں لیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ایران پاکستان ہندوستان گیس پائپ لائن کی شروعات 1994ء میں ہوئی لیکن 2009ء میں ہندوستان اس منصوبے سے الگ ہو گیا تا کہ امریکا کے ساتھ سول جوہری معاہدہ کر سکے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ اگر معاملات ٹھیک طریقے سے چلتے رہے تو پاک ایران پائپ لائن کا یہ منصوبہ 15 مہینوں میں مکمل ہو جائے گا۔ ایران نے اپنے علاقے میں پائپ لائن بچھا لی ہے جب کہ 785 کلو میٹر لمبی پاکستان سیکشن کی پائپ لائن کی تنصیب کا کام اب شروع ہو گا۔ پاکستان کا ایران سے 21.5 ملین کیوبک میٹر گیس روزانہ درآمد کرنے کا منصوبہ ہے جب کہ پاکستان، مذکورہ گیس پائپ لائن پر کام آئندہ ہفتے شروع کردے گا۔

ساڑھے سات ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے پر پاکستان کی جانب سے کام کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ ایران کی جانب سے اس پائپ لائن کی تعمیر تقریباً مکمل ہو چکی ہے، تاہم پاکستان کی جانب سے یہ منصوبہ مختلف مسائل کا شکار رہا ہے، ان میں مالی مسائل کے ساتھ ساتھ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے تناظر میں امریکا کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کا خطرہ بھی شامل رہا ہے۔ ادھر امریکا نے بھارت کو یقین دلایا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اس گیس معاہدہ کو روک دیا جائے گا۔


گزشتہ دسمبر کے وسط میں پاکستانی حکام نے کہا تھا کہ ایران نے پانچ سو ملین ڈالر قرضہ دینے کا وعدہ کیا ہے جب کہ باقی اخراجات اسلام آباد حکومت خود برداشت کرے گی۔ گیس پائپ لائن منصوبہ دونوں ملکوں کے درمیان نئے تعلقات کا آغاز ہے، امید ہے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تعمیر سے دونوں برادر ممالک کے تعلقات میں استحکام اور یگانگت کو فروغ حاصل ہو گا۔ اس پائپ لائن کی تعمیر اور اس کے ذریعے ملنے والی توانائی کے بعد عالمی منڈی سے تیل کی خرید کے اخراجات میں نمایاں کمی متوقع ہے اور اس کے ساتھ ہی ایران نے بلوچستان کے کچھ علاقوں کو بجلی فراہم کرنے کی جو پیشکش کی ہے حکومت کو اس کے حصول کی کوششیں بھی ساتھ ساتھ شروع کر دینی چاہئیں تا کہ توانائی کے بحران کے باعث ہمارا جو نقصان ہو چکا ہے اس کی تلافی کا امکان روشن ہو سکے۔

ایران اور امریکا کے اختلافات شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے فوراً بعد پیدا ہوئے۔شاہ ایران کوعمومی طور پر خطے میں امریکی مفادات کا سب سے بڑا محافظ تصور کیا جاتا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایران میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کے پاسداران انقلاب نے ایرانی سفارت خانے کا گھیراؤ کر کے تمام امریکی سفارتکاروں کو یرغمال بنا لیا ۔ اس واقعے نے امریکا اور ایران کے درمیان اختلافات مزید گہرے کردیے۔پھر ایران کا اسلامی انقلاب مستحکم ہوتا گیا ۔

ایران نے ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کیا۔اس معاملے نے اختلافات کو اس حد تک بڑھا دیا کہ امریکا ایران کو باقاعدہ دھمکیاں دینے لگا۔اس وقت امریکا ایران کے خلاف اس کے جوہری پروگرام کے بہانے چڑھائی کیے ہوئے ہے جب کہ ایران کہتا ہے اس کا جوہری پروگرام قطعاً پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ وہ نہ تو ایٹمی ہتھیار تیار کر رہا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم تصور کرتا ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ امریکا ایرانی جوہری پروگرام کو پر امن تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور نہ صرف ایران پر پابندیاں عاید کر رہا ہے بلکہ ایران سے راہ و رسم رکھنے والے دیگر ممالک کو بھی دھمکا رہا ہے جن میں پاکستان سر فہرست ہے۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا پاکستان کا حق ہے۔امریکا کے اگر ایران کے ساتھ اختلافات ہیں تو انھیں اس گیس پائپ لائن منصوبے سے الگ رکھاجانا چاہیے۔ویسے بھی ایٹمی تنازعے کے حوالے سے ایران کے ساتھ بات چیت کا عمل ہو رہا ہے۔ امریکا کے محکمہ داخلہ کے ترجمان نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا امریکا جائزہ لے رہا ہے،پاکستان کے توانائی کے مسائل کا احساس ہے،تاہم ایران پر عالمی پابندیوں کے تحت کسی ممکنہ معاہدے کو نہ کرنا پاکستان کی بھی ذمے داری ہے لہذا ایران پر عالمی پابندیوں کی پاسداری پاکستان پر بھی لاگو ہوتی ہے۔اس سے امریکا کی پالیسی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اس پائپ لائن منصوبے کو رکوانے کے پوری کوشش کرے گا۔
Load Next Story