محکمہ ماحولیات بلند وبالا عمارت کی غیرقانونی منظوری دینے کا انکشاف
منظوری انوائرنمنٹ ٹریبونل کورٹ نے مسترد کر دی،کراچی کا انفرااسٹرکچر مزید تباہ ہونے کا خدشہ
محکمہ ماحولیات میں مبینہ طور پر کرپشن کی وجہ سے بلند وبالا ایک عمارت کوغیر قانونی طور پرمنظوری دینے کا انکشاف ہوا ہے،جس کی منظوری انوائرنمنٹ ٹریبونل کورٹ نے مستردکردی،اگر بلند وبالا عمارات کو غیرقانونی منظوری دینے کا سلسلہ جاری رہا تو مسائل کی آماجگاہ شہر کراچی کا انفرااسٹرکچر مزید تباہی کے دہانے پرپہنچنے کا خدشہ ہے۔
ایکسپریس کو موصول دستاویزات کے مطابق محکمہ ماحولیات نے طارق روڈ میں ''دلکشاں ہائیٹس'' نامی 16سے زائد منزلہ عمارت کی عوامی سماعت کے بغیر 15جولائی 2015 میں انیشیل انوائرنمنٹل ایگزامینیشن''(آئی ای ای) میں منظوری دی جبکہ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن 2014ایکٹ کے مطابق 15سے زائد منزلہ عمارتوں کی عوامی سماعت ہونا لازمی ہے، طارق روڈکے مقامی رہائشیوں نے مذکورہ پروجیکٹ کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میںپٹیشن دائرکی تھی، دوران سماعت انکشاف ہوا کہ عوامی سماعت کے بغیر منظوری دی گئی جس پر عدالت نے بلڈنگ کی منظوری منسوخ کردی اور پروجیکٹ کی عوامی سماعت میں ماحولیاتی تجزیہ کرانے کی ہدایت کی ،محکمہ ماحولیات نے عوامی سماعت میںدوبارہ قانونی تقاضوں کی پاسداری نہیں کی ،عوامی سماعت میں ای آئی اے رپورٹ میںانکشاف ہوا تھا کہ عمارت میں صرف 84 پارکنگ کی سہولت دستیاب تھی جبکہ قانونی لحاظ سے 130 گاڑیوں کی پارکنگ سہولت کاہونا لازمی ہے۔ پانی،بجلی اور نکاسی آب کے حوالے سے بھی کوئی میکینزم موجود نہیں تھا ،اس کے علاوہ کے الیکٹرک،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سوئی سدرن گیس سیاین او سی نہیں لیا گیا، سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بلڈنگ کی اونچائی کے جس پیمانے کی منظوری دی۔
اس میں ردوبدل کیے جانے کا بھی انکشاف ہوا۔عوامی سماعت میں ماہر ین ماحولیات ودیگرشرکا نے اس پروجیکٹ کی کھل کرمخالفت کی، اس کے باوجود پروجیکٹ کی منظوری دے دی ،اس عوامی سماعت کوطارق روڈ کے رہاشیوں نے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل سندھ میں دوبارہ چیلینج کردیا جس کی وجہ سے پروجیکٹ کی منظوری 13 ستمبر 2017 کو منسوخ کردی گئی۔ اس حوالے سے محکمہ ماحولیات کے سیکریٹری و ڈائریکٹر جنرل بقا اللہ انڑ سے رابطہ کیا گیا توانھوں نے بتایا کہ محکمہ ماحولیاتمیں کرپشن اور بااثرشخصیات کی جانب سے دبائو پروجیکٹس کی غیرقانونی منظوری کا شاخسانہ ہوسکتی ہے، پروجیکٹ کوسندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے، محکمہ ماحولیات عدالتی فیصلے کے تناظرمیں ہی اقدامات کرے گا اور تمام قانونی تقاضوں کی تکمیل کرے گا، ماحولیات کے ماہر قانون زبیر ابڑو نے ایکسپریس کو بتایا کہ محکمہ ماحولیات میں مختلف پروجیکٹس کا ریکارڈ نامکمل ہے، کراچی سمیت سندھ بھر میں ہزاروں پروجیکٹس پر کام جاری ہے لیکن اس حوالے سے ریکارڈ کی عدم موجودگی قابل تشویش ہے۔ سماجی کارکن ڈاکٹر رضاگردیزی نے کہا کہ شہر کی ترقی بلند وبالا عمارت سے ممکن ہے تو ہمیں اعتراض نہیں لیکن کراچی کے انفرااسٹرکچر کے تناظر میں تمام پروجیکٹس تشکیل دیے جائیں۔
ایکسپریس کو موصول دستاویزات کے مطابق محکمہ ماحولیات نے طارق روڈ میں ''دلکشاں ہائیٹس'' نامی 16سے زائد منزلہ عمارت کی عوامی سماعت کے بغیر 15جولائی 2015 میں انیشیل انوائرنمنٹل ایگزامینیشن''(آئی ای ای) میں منظوری دی جبکہ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن 2014ایکٹ کے مطابق 15سے زائد منزلہ عمارتوں کی عوامی سماعت ہونا لازمی ہے، طارق روڈکے مقامی رہائشیوں نے مذکورہ پروجیکٹ کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میںپٹیشن دائرکی تھی، دوران سماعت انکشاف ہوا کہ عوامی سماعت کے بغیر منظوری دی گئی جس پر عدالت نے بلڈنگ کی منظوری منسوخ کردی اور پروجیکٹ کی عوامی سماعت میں ماحولیاتی تجزیہ کرانے کی ہدایت کی ،محکمہ ماحولیات نے عوامی سماعت میںدوبارہ قانونی تقاضوں کی پاسداری نہیں کی ،عوامی سماعت میں ای آئی اے رپورٹ میںانکشاف ہوا تھا کہ عمارت میں صرف 84 پارکنگ کی سہولت دستیاب تھی جبکہ قانونی لحاظ سے 130 گاڑیوں کی پارکنگ سہولت کاہونا لازمی ہے۔ پانی،بجلی اور نکاسی آب کے حوالے سے بھی کوئی میکینزم موجود نہیں تھا ،اس کے علاوہ کے الیکٹرک،واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سوئی سدرن گیس سیاین او سی نہیں لیا گیا، سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بلڈنگ کی اونچائی کے جس پیمانے کی منظوری دی۔
اس میں ردوبدل کیے جانے کا بھی انکشاف ہوا۔عوامی سماعت میں ماہر ین ماحولیات ودیگرشرکا نے اس پروجیکٹ کی کھل کرمخالفت کی، اس کے باوجود پروجیکٹ کی منظوری دے دی ،اس عوامی سماعت کوطارق روڈ کے رہاشیوں نے انوائرنمنٹل پروٹیکشن ٹریبونل سندھ میں دوبارہ چیلینج کردیا جس کی وجہ سے پروجیکٹ کی منظوری 13 ستمبر 2017 کو منسوخ کردی گئی۔ اس حوالے سے محکمہ ماحولیات کے سیکریٹری و ڈائریکٹر جنرل بقا اللہ انڑ سے رابطہ کیا گیا توانھوں نے بتایا کہ محکمہ ماحولیاتمیں کرپشن اور بااثرشخصیات کی جانب سے دبائو پروجیکٹس کی غیرقانونی منظوری کا شاخسانہ ہوسکتی ہے، پروجیکٹ کوسندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے، محکمہ ماحولیات عدالتی فیصلے کے تناظرمیں ہی اقدامات کرے گا اور تمام قانونی تقاضوں کی تکمیل کرے گا، ماحولیات کے ماہر قانون زبیر ابڑو نے ایکسپریس کو بتایا کہ محکمہ ماحولیات میں مختلف پروجیکٹس کا ریکارڈ نامکمل ہے، کراچی سمیت سندھ بھر میں ہزاروں پروجیکٹس پر کام جاری ہے لیکن اس حوالے سے ریکارڈ کی عدم موجودگی قابل تشویش ہے۔ سماجی کارکن ڈاکٹر رضاگردیزی نے کہا کہ شہر کی ترقی بلند وبالا عمارت سے ممکن ہے تو ہمیں اعتراض نہیں لیکن کراچی کے انفرااسٹرکچر کے تناظر میں تمام پروجیکٹس تشکیل دیے جائیں۔