حکومت کی معاشی کارکردگی

موجودہ حکومت نے اکثر ایسے فیصلے کیے ہیں جنھیں عوام یا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے بعد واپس لینا پڑا۔


Editorial March 02, 2013
موجودہ حکومت نے اکثر ایسے فیصلے کیے ہیں جنھیں عوام یا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے بعد واپس لینا پڑا۔ فوٹو : فائل

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ کے احتجاج کے بعد ہفتے کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔حکومت کے اس فیصلے کے بارے میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ اگرپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے پہلے ہی سوچ لیا جاتا توحکومت کو فیصلہ واپس لینے کی شرمندگی نہ اٹھانا پڑتی۔ عجیب بات یہ ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی تھیں، مارکیٹ اکانومی کے اصول کے مطابق حکومت کو اندرون ملک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا کرنے کے بجائے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔

موجودہ حکومت نے اکثر ایسے فیصلے کیے ہیں جنھیں عوام یا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے بعد واپس لینا پڑا۔ کئی بار حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی احتجاج میں شریک رہی ہیں۔ حکومت کی سبکدوشی میں محض چند دن رہ گئے ہیں'اس موقع پر عمومی طور پر حکومتیں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرتیں جن کی وجہ سے عوام میں بے چینی پھیلے۔ بہرحال اب حکومت نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا ہے تو اسے خوش آئند ہی قرار دیا جائے گا۔ اب یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

حکومت نے تیل کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا تھا، اگر وہ برقرار رہتا تو عوام کی مشکلات میں اضافہ ہونا یقینی تھا، اب صورتحال جوں کی توں رہے گی۔ ادھر میڈیا کی اطلاعات کے مطابق وفاقی بجٹ بنانے کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں اور مجوزہ بجٹ کے اہم پہلوؤں پر غور و فکر کیا جا رہا ہے۔موجودہ حکومت کے پانچ برسوں میں ملک میں اقتصادی سطح پر کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا گیا۔ ان پانچ برسوں میں مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ غیرملکی اور ملکی قرضوں کے حجم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کے حوالے سے بھی کوئی اچھی خبریں سامنے نہیں آ ر ہیں۔

اس عرصے میں توانائی کا بحران بھی پوری شدت سے جاری وساری رہا۔ توانائی کے بحران پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ حکومت اپنی آئینی مدت کے دوران توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کر سکی۔ رینٹل پاور منصوبہ بھی کارگر نہ ہو سکا۔ اس حوالے سے معاملات عدالت میں موجود ہیں۔ ٹیکسیشن کا نظام بھی ایسا ہے کہ امراء اس سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ حکومت نے اس حوالے سے بھی کوئی ایسی قانون سازی نہیں کی جس کے نتیجے میں قبائلی سردار یا جاگیردار ٹیکس نیٹ میں آ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت مستحکم نہیں رہی۔

کم آمدنی والے طبقات کو مہنگائی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔تازہ ترین سرکاری اعداد وشمار میں ملک بھر میں گزشتہ ہفتے کے دوران قیمتوں کے حساس اعشاریے کے لحاظ سے افراطِ زر (یا مہنگائی) کی شرح میں 0.17 فیصد کمی واقع ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس قسم کے اعداد وشمار مہنگائی کی شرح ماپنے کادرست پیمانہ نہیں ہے۔ افراط زر کے حوالے سے بھی اسے مصدقہ تسلیم کرنا مشکل ہے۔ بازار کی صورت حال یہ ہے کہ عام استعمال کی اشیاء کی قیمتیں برق رفتاری سے بڑھی ہیں۔ ایک ہفتے یا ایک ماہ کے بجائے اگر سالانہ بنیادوں پر قیمتوں کے حساس عشاریے دیکھے جائیں تو صورت حال خاصی تشویش ناک نظر آئے گی۔ ایک سال قبل ایک صارف جتنی قیمت میں فی لیٹر پٹرول خریدتا تھا، آج اس سے خاصی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

اسی طرح ادویات کی قیمتیں، خصوصاً زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ بازاروں میں پیکٹوں میں بند جو اشیاء فروخت ہو رہی ہیں ان کی قیمتیں بھی بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔ امراء کو تو شاید مہنگائی کا احساس زیادہ نہ ہو لیکن محدود آمدنی والے طبقات کے لیے کچن چلانا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ کنسٹرکشن کے شعبے کی طرف دیکھیں تو وہاں بھی مہنگائی کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ سریا، اینٹ، سیمنٹ، بجری اور لوہا وغیرہ بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔

اس وجہ سے کنسٹرکشن کے شعبے میں بھی سست روی دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ شعبہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس میں سست روی کا مطلب مزدور کی بے روزگاری ہے۔ یوں دیکھا جائے تو پانچ برسوں کے دوران پاکستانی معیشت روبہ زوال رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں