
سیب کو کاٹنے، دانت وغیرہ گاڑنے پر اس کے خلیات ٹوٹ جاتے ہیں۔ خلیوں کی شکست و ریخت کے بعد پولی فنول اوکسیڈاس ( پی پی او) نامی خامرہ ان میں ایک کیمیائی عمل کا آغاز کرتا ہے جس کے نتیجے میں سیب کا گودا داغ دار ہونے لگتا ہے۔ سیب کی کچھ اقسام میں یہ عمل دوسری قسموں کی نسبت تیزی سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس کا انحصار سیب میں موجود پی پی او کی مقدار پر ہوتا ہے۔ زیادہ مقدار کی حامل قسم میں یہ عمل تیزی سے ہوتا ہے۔ قطبی سیب اس پھل کی پہلی قسم ہے جس میں یہ عمل سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے۔ سیب کی قاشیں کاٹ کر رکھ دی جائیں تو کئی دنوں تک ان پر داغ نمودار نہیں ہوتے اور یہ بالکل تازہ رہتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر قطب سیب خراب نہیں ہوتا اور گلتا سڑتا نہیں ہے۔
قطبی سیب کینیڈین کمپنی اوکانانگن کے صدر نیل کارٹر اور اس کی بیوی لوئزا کی بیس سالہ محنت کا ثمر ہے۔ سائنس دانوں کی یہ جوڑی دو عشرے سے خراب نہ ہونے والے سیب پر تحقیق کررہی ہے۔ انھوں نے اس سیب کی پہلی کاشت 2003 ء میں کی تھی۔ چودہ سال تک وہ جینیاتی طور پر تیار کردہ سیب کے انسانی صحت اور ماحولیات پر اثرات کا جائزہ لیتے رہے۔ تمام متعلقہ دستاویزات اور شواہد انھوں نے امریکی محکمہ زراعت کو بھی پیش کیے، جن کا جائزہ لینے کے بعد محکمے نے قرار دیا ہے کہ قطبی سیب، سیبوں کی دیگر اقسام ہی کی طرح ہیں، بس یہ خراب ہونے اور گلنے سڑنے کی خامی سے پاک ہیں۔
نیل کارٹر کے مطابق قطبی سیب کے درخت عام سیبوں کے پیڑوں ہی کی طرح نمو پاتے ہیں، بس ان میں پی پی او کی مقدار برائے نام ہوتی ہے۔ نیل کے مطابق انھیں ہمیشہ تازہ رہنے والے سیب کی تیاری کا خیال اس وقت آیا تھا جب پہلی بار اس کا جینیاتی نقشہ بنانے میں کام یاب حاصل کی گئی تھی۔ اس نقشے کی مدد سے انھوں نے چار جینز کی نشان دہی کی جو پی پی او کی پیداوار کے ذمہ دار تھے۔ انھوں نے '' جینز سائلنسنگ تیکنک'' کی مدد سے ان جینز کو غیرفعال کردیا چناں چہ قطبی سیب میں اس خامرے کی پیدائش رُک گئی۔
نیل اور لوئزا نے کینیڈا میں چند اسٹورز کو قطبی سیب کی رسد شروع کردی ہے جب کہ آئندہ ماہ سے امریکا میں چار سو سے زائد سپراسٹورز پر بھی ان کی فروخت شروع ہوجائے گی۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔