طالبان خان
دنیا کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عدل کے بغیر امن اور انصاف کا تصور ہی ناممکن ہے۔
نام تو اس کا دلدار تھا اور اس مناسبت سے لوگوں کو موصوف سے خیر و برکت کی توقع ہونی چاہیے تھی لیکن عملاً اس کی عادات اور اس کے معاملات میں شر انگیزی کا مادہ جیسے کہ کہا جاتا ہے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور وہ اپنے ملنے والوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا۔ اسے بہت سوں نے محبت سے، مروت سے اور بعض اوقات ڈانٹ اور غصے کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوتا۔
ایک سمجھدار آدمی نے اسے ناقابل اصلاح و علاج قرار دے کر نتیجہ اخذ کیا کہ انتظار کریں، اس وقت کا جب دلدار یا اس کے گھر کا کوئی فرد کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے کہ وہ خود دوسروں سے مدد یا رحم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو کر خباثت اور خیر میں تمیز کرنے سے آشنا ہو جائے اور پھر ایک روز ایسا ہی ہوا کہ دلدار کے گھر میں جان لیوا بیماری داخل ہو گئی۔
اس کا کاروبار تباہی سے دوچار ہوگیا اور اس کی ناجائز و غیرقانونی حرکات کی جوابدہی کے سلسلے میں مختلف محکموں نے اس کی ناکہ بندی کر دی لیکن جب لوگوں نے اس سمجھدار اور سیانے آدمی سے رجوع کر کے اسے بتایا کہ ان تمام آفات میں گھرنے کے باوجود دلدار کی خباثتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تو اس نے جواب دیا کہ تم سچ کہتے ہو کیونکہ بچھو کی تو فطرت ہی ڈنگ مارنا ہے، اس لیے بچھو کا علاج اسے مار دینا ہی ہے لیکن افسوس کہ دلدار ایک انسان ہے، اس کو تو مار ڈالنا بھی جرم ہو گا۔ اس مصیبت کا بندوبست محاورے کی زبان میں ''اینٹ کا جواب پتھر'' ہی سے ممکن ہے۔
دنیا کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عدل کے بغیر امن اور انصاف کا تصور ہی ناممکن ہے۔ پروردگار نے خود عدل قائم کر کے انسان کے لیے مثال در مثال تقلید کے رستے بتائے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی تو بات ہی بہت بڑی ہے، ایک لادین اور بے علم انسان بھی صبح ہونے سے اگلی صبح تک خدائی عدل کی ان گنت صفات کا مشاہدہ کرتا ہے۔
اس تمہید کا مدعا اپنے ملک پاکستان میں عدل کی دھجیاں بکھیرتے دیکھ کر صرف ماتم کرنے سے آگے بڑھ کر عدل قائم کرنے کی ترغیب دلانا مقصود ہے۔ گزشتہ کئی برس سے اور خاص طور پر شہید بے نظیر بھٹو کے صدقے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت نے تو لاقانونیت پر قابو نہ پانے کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ پانی کا بہاؤ ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی گھرانے کا سربراہ اہل خانہ کے لیے مثال قائم کرتا اور قابل تقلید نمونہ ہوتا ہے۔ اگر ایک پولیس افسر لاقانونیت میں کریمنل کا مددگار بن جائے تو اس کے ماتحت تھانے کرائم کنٹرول کی بجائے جرائم کے گڑھ بن جاتے ہیں اور اگرحکمران کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہوں تو ملک کے شہری کیا کچھ نہیں کر گزریں گے، وہی کچھ ہو رہا ہے۔
اس وقت ملک انرجی کرائسس، کرپشن اور لاقانونیت و دہشت گردی کی بڑی خوفناک تکون میں گھرا ہوا ہے اور کسی اتھارٹی کی مخلص اور فوری کوشش ان عفریتوں سے نمٹتی دکھائی نہیں دے رہی۔ پنجابی کے ڈنگ ٹپاؤ دعوے اور وعدے البتہ سننے، پڑھنے کو ملتے ہیں۔ لوگ بھی اتنی بے حسی اور نومیدی کے جذبات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں کہ زبان پر شعر اتر آتا ہے کہ
دل بجھ چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو
یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو
چند روز قبل جب کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے میں دو ہفتے سے بھی کم مدت باقی رہ گئی ہے، ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے۔ یہ کانفرنس پانچ سال سے جاری دہشت گردی کے بعد اب سیاسی پارٹیوں کے سربراہان نے منعقد کرنے کا سوچا اور وہ بھی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی آفر کے بعد۔ ابھی یہ معلوم نہیں کہ یہ آفر کسی نمائندہ طالبان گروپ نے دی یا انھی نے جو بے شمار سکول، عبادت گاہیں، مزار اور فوجی کیمپ تباہ کر چکے ہیں، فوجیوں اور پولیس ملازمین کی گردنیں مار چکے ہیں، اسپتالوں میں گرنیڈ چلاتے ہیں، خودکش بمباروں اور بارود بھری گاڑیوں کے ذریعے بے گناہوں کے پرخچے اڑاتے رہتے ہیں یا تمام طالبان کی نمائندہ تنظیموں کے افراد ان مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں یا کوئی کھیل کھیلنے والے ہیں کیونکہ ان میں عمران خاں کی عدم شرکت شکوک پیدا کرتی ہے۔
حکومت کی پانچ سالہ مدت مکمل ہونے سے صرف دو ہفتے قبل اچانک ایک آل پارٹیز کانفرنس کا طالبان سے ڈائیلاگ کرنے کا ارادہ جہاں ایک طرف دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے وہاں خوش آئند بھی ہے کہ چلو عمران خاں کا کئی سال سے ایک مؤقف درست ثابت ہو گیا کہ برطانیہ اور امریکا جیسی بڑی طاقتیں قبائلیوں کو مسخر کرنے میں ناکام رہی ہیں، اس لیے بُرے طالبان سے نمٹنے کے لیے اچھے قبائلی سرداروں کے توسط سے اس نہ ختم ہونے والی جنگ اور دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جب عمران خان نے کئی سال قبل اپنا یہ مؤقف حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے سامنے رکھا تو بہت سے مسخروں نے اسے طالبان خان کا طعنہ دے دیا، اب وہی پارٹیاں عمران خان کے تجزیئے اور مؤقف پر بات آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔ یہ اچانک سیاسی اکٹھ بے وقت ہی سہی برا نہیں بشرطیکہ نتیجہ خیز ہو۔
ملک میں جاری لاقانونیت پر چند ماہ میں قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اس کا طریق کار بیان کرنا ایک الگ کالم کا متقاضی ہے، اس لیے آئندہ اتوار اس پر لکھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے جو نیک نیتی اور آہنی عزم درکار ہے وہ موجودہ حکومت کے بس کا کام نہیں لہٰذا تجاویز کیئر ٹیکر حکومت کو پیش کی جائیں گی۔
ایک سمجھدار آدمی نے اسے ناقابل اصلاح و علاج قرار دے کر نتیجہ اخذ کیا کہ انتظار کریں، اس وقت کا جب دلدار یا اس کے گھر کا کوئی فرد کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے کہ وہ خود دوسروں سے مدد یا رحم کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو کر خباثت اور خیر میں تمیز کرنے سے آشنا ہو جائے اور پھر ایک روز ایسا ہی ہوا کہ دلدار کے گھر میں جان لیوا بیماری داخل ہو گئی۔
اس کا کاروبار تباہی سے دوچار ہوگیا اور اس کی ناجائز و غیرقانونی حرکات کی جوابدہی کے سلسلے میں مختلف محکموں نے اس کی ناکہ بندی کر دی لیکن جب لوگوں نے اس سمجھدار اور سیانے آدمی سے رجوع کر کے اسے بتایا کہ ان تمام آفات میں گھرنے کے باوجود دلدار کی خباثتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تو اس نے جواب دیا کہ تم سچ کہتے ہو کیونکہ بچھو کی تو فطرت ہی ڈنگ مارنا ہے، اس لیے بچھو کا علاج اسے مار دینا ہی ہے لیکن افسوس کہ دلدار ایک انسان ہے، اس کو تو مار ڈالنا بھی جرم ہو گا۔ اس مصیبت کا بندوبست محاورے کی زبان میں ''اینٹ کا جواب پتھر'' ہی سے ممکن ہے۔
دنیا کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عدل کے بغیر امن اور انصاف کا تصور ہی ناممکن ہے۔ پروردگار نے خود عدل قائم کر کے انسان کے لیے مثال در مثال تقلید کے رستے بتائے ہیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی تو بات ہی بہت بڑی ہے، ایک لادین اور بے علم انسان بھی صبح ہونے سے اگلی صبح تک خدائی عدل کی ان گنت صفات کا مشاہدہ کرتا ہے۔
اس تمہید کا مدعا اپنے ملک پاکستان میں عدل کی دھجیاں بکھیرتے دیکھ کر صرف ماتم کرنے سے آگے بڑھ کر عدل قائم کرنے کی ترغیب دلانا مقصود ہے۔ گزشتہ کئی برس سے اور خاص طور پر شہید بے نظیر بھٹو کے صدقے میں معرض وجود میں آنے والی حکومت نے تو لاقانونیت پر قابو نہ پانے کے ریکارڈ قائم کر دیے ہیں۔ پانی کا بہاؤ ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی گھرانے کا سربراہ اہل خانہ کے لیے مثال قائم کرتا اور قابل تقلید نمونہ ہوتا ہے۔ اگر ایک پولیس افسر لاقانونیت میں کریمنل کا مددگار بن جائے تو اس کے ماتحت تھانے کرائم کنٹرول کی بجائے جرائم کے گڑھ بن جاتے ہیں اور اگرحکمران کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہوں تو ملک کے شہری کیا کچھ نہیں کر گزریں گے، وہی کچھ ہو رہا ہے۔
اس وقت ملک انرجی کرائسس، کرپشن اور لاقانونیت و دہشت گردی کی بڑی خوفناک تکون میں گھرا ہوا ہے اور کسی اتھارٹی کی مخلص اور فوری کوشش ان عفریتوں سے نمٹتی دکھائی نہیں دے رہی۔ پنجابی کے ڈنگ ٹپاؤ دعوے اور وعدے البتہ سننے، پڑھنے کو ملتے ہیں۔ لوگ بھی اتنی بے حسی اور نومیدی کے جذبات کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں کہ زبان پر شعر اتر آتا ہے کہ
دل بجھ چکا ہے اب نہ مسیحا بنا کرو
یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو
چند روز قبل جب کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے میں دو ہفتے سے بھی کم مدت باقی رہ گئی ہے، ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا ہے۔ یہ کانفرنس پانچ سال سے جاری دہشت گردی کے بعد اب سیاسی پارٹیوں کے سربراہان نے منعقد کرنے کا سوچا اور وہ بھی طالبان کی طرف سے مذاکرات کی آفر کے بعد۔ ابھی یہ معلوم نہیں کہ یہ آفر کسی نمائندہ طالبان گروپ نے دی یا انھی نے جو بے شمار سکول، عبادت گاہیں، مزار اور فوجی کیمپ تباہ کر چکے ہیں، فوجیوں اور پولیس ملازمین کی گردنیں مار چکے ہیں، اسپتالوں میں گرنیڈ چلاتے ہیں، خودکش بمباروں اور بارود بھری گاڑیوں کے ذریعے بے گناہوں کے پرخچے اڑاتے رہتے ہیں یا تمام طالبان کی نمائندہ تنظیموں کے افراد ان مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں یا کوئی کھیل کھیلنے والے ہیں کیونکہ ان میں عمران خاں کی عدم شرکت شکوک پیدا کرتی ہے۔
حکومت کی پانچ سالہ مدت مکمل ہونے سے صرف دو ہفتے قبل اچانک ایک آل پارٹیز کانفرنس کا طالبان سے ڈائیلاگ کرنے کا ارادہ جہاں ایک طرف دلچسپ اور مضحکہ خیز ہے وہاں خوش آئند بھی ہے کہ چلو عمران خاں کا کئی سال سے ایک مؤقف درست ثابت ہو گیا کہ برطانیہ اور امریکا جیسی بڑی طاقتیں قبائلیوں کو مسخر کرنے میں ناکام رہی ہیں، اس لیے بُرے طالبان سے نمٹنے کے لیے اچھے قبائلی سرداروں کے توسط سے اس نہ ختم ہونے والی جنگ اور دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جب عمران خان نے کئی سال قبل اپنا یہ مؤقف حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے سامنے رکھا تو بہت سے مسخروں نے اسے طالبان خان کا طعنہ دے دیا، اب وہی پارٹیاں عمران خان کے تجزیئے اور مؤقف پر بات آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔ یہ اچانک سیاسی اکٹھ بے وقت ہی سہی برا نہیں بشرطیکہ نتیجہ خیز ہو۔
ملک میں جاری لاقانونیت پر چند ماہ میں قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اس کا طریق کار بیان کرنا ایک الگ کالم کا متقاضی ہے، اس لیے آئندہ اتوار اس پر لکھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے جو نیک نیتی اور آہنی عزم درکار ہے وہ موجودہ حکومت کے بس کا کام نہیں لہٰذا تجاویز کیئر ٹیکر حکومت کو پیش کی جائیں گی۔