بدر کے میدان میں

’’بہادر بنو، مضبوط رہو، فتح اور نصرت الٰہی تمہارے ساتھ ہے۔‘‘


Hakeem Mumtaz Hilal Madni August 06, 2012
’’بہادر بنو، مضبوط رہو، فتح اور نصرت الٰہی تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

جنگ بدر حق و باطل کے درمیان پہلی بڑی لڑائی تھی جس میں اﷲ نے نبی ﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کو کام یابی اور کام رانی عطا فرمائی۔ یہ وہی جنگ تھی جس میں اﷲ نے مسلمانوں کو لڑنے کی اجازت تو عطا فرمادی تھی، مگر اسلامی حدود میں رہتے ہوئے۔ غزوۂ بدر کو ہم مسلمانوں کی پہلی عسکری تربیت بھی قرار دے سکتے ہیں، کیوں کہ اہل ایمان نے سرور عالمؐ کی قیادت میں جس طرح میدان بدر میں اپنی عسکری صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، اس سے اندازہ ہوا کہ خدائے واحد کو ماننے والے اور ساری دنیا میں نعرۂ توحید بلند کرنے والے کس جوش اور جذبے کے مالک ہیں۔ یہ جنگ بدر کی فتح ہی تھی جس کے بعد اﷲ نے اسلام کو تمام کرۂ ارض پر فتح مبین عطا فرمائی اور کل عالم خدا کی وحدانیت سے گونچ اٹھا۔

جب تاج دار انبیاء ﷺ کو کفار مکہ نے بہت تنگ کیا تو اﷲ کے نبیؐ اﷲ کے حکم پر اپنے ساتھیوں سمیت مکہ چھوڑ کر مدینے چلے آئے۔ مگر کفار کو اب بھی چین نہیں تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے قدم نہ جمنے دیے جائیں اور ان کی اجتماعی قوت کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔

اﷲ کے حبیبؐ بھی کفار مکہ کے ارادے سے باخبر تھے، اس لیے آپؐ ان تمام راستوں کی نگرانی کرواتے تھے جہاں سے کفار مکہ کا حملہ متوقع تھا۔ اس کے لیے نبی پاکؐ مسلمان جاں بازوں کی ٹولیاں ان راستوں کی دیکھ بھال کے لیے روانہ فرماتے رہتے تھے۔ خطرے کی شدت محسوس کرتے ہوئے صفر 2 ہجری میں اﷲ کے رسول ﷺ خود 70 سواروں کے ساتھ ابواء تک تشریف لے گئے۔ اس سفر میں عمرو بن مخشی الضمری سے معاہدہ ہوا کہ وہ غیر جانب دار رہے گا۔ ربیع الاول 2 ہجری میں کرز بن جابر الفہری مسلمانوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینے کی چراگاہ سے مدینے والوں کے کچھ جانور زبردستی لے گیا۔

جیسے ہی اس واقعے کی خبر ملی تو اہل ایمان اس کے پیچھے بھاگے اور صفوان تک اس کا پیچھا کیا، مگر وہ بچ نکلنے میں کام یاب ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد حضورؐ قدرے متفکر ہوگئے اور آپؐ نے بنو مدلج اور بنو ضمرا کے ساتھ غیر جانب دار رہنے کا معاہدہ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ چناں چہ جمادی الآخر 2 ہجری کو حضورؐ ادھر تشریف لے گئے اور اس طرح یہ معاہدہ طے پاگیا۔ اسی ماہ کے آخر میں 12 سواروں کا ایک جتھا عبداﷲ بن جحش کی قیادت میں روانہ ہوا جسے قریش کا قافلہ مل گیا۔ اس مقام پر مسلمان جوش میں آگئے اور انھوں نے حضورؐ کی ہدایت کے خلاف تیر چلادیے جس کے باعث قریش کا ایک آدمی مارا گیا اور دو قید ہوئے۔

حضورؐ نے قیدیوں کو چھوڑ دیا اور مقتول کا خوں بہا قریش کو ادا کردیا۔ قریش نے تاوان وصول کر لیا، مگر ابوجہل نے یہ مسلمانوں پر یہ الزام لگادیا کہ مسلمان قریش کے اس قافلے کو لوٹنا چاہتے ہیں جو ابو سفیان کی ماتحتی میں شام سے آرہا ہے اور جس کے پاس بہت سا مال و دولت ہے۔ ابو جہل نے اپنے لوگوں سے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنے اس قافلے کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے لیے فوری پیش قدمی کرنی ہوگی۔ ظاہر ہے ابوجہل کی یہ ترکیب کام کرگئی اور فوراً ایک ہزار کا لشکر جس میں 300 گھوڑے اور سات سو اونٹ تھے، تیار ہوگیا۔

قریش کے 15 سردار بھی اس لشکر میں شامل ہوگئے۔ ہر سردار نے وعدہ کیا تھا کہ یکے بعد دیگرے تمام لشکر کی خوراک کی کفالت کریں گے۔ ابوجہل مکہ سے چار یا پانچ منزل پر پہنچا تھا تو اسے یہ اطلاع مل گئی کہ ابو سفیان والا قافلہ بغیر کسی پریشانی کے مکے پہنچ چکا ہے۔ اس کے بعد اصولاً اسے واپس چلا جانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا۔ ابوجہل کے دل میں تو پہلے ہی کھوٹ تھا۔ اس نے سوچا کہ اچھا موقع ہے، کیوں نہ مدینے کے قریب پہنچ کر شان دار جشن منائیں۔ اس کا اطراف کے قبائل پر اچھا اثر پڑے گا جو بعد میں ہمارے کام آئیں گے اور مسلمانوں سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔ ابو جہل کی یہ بات حضورؐ کے علم میں آئی تو آپؐ نے حکم دیا کہ جو ساتھی میرے ساتھ چل سکتے ہیں، فوراً تیار ہوجائیں۔

پھر حضور ﷺ نے سرداران مہاجر و انصار کی مجلس طلب فرمائی اور اس معاملے کو شوریٰ میں پیش کردیا۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق بعد ازاں عمرؓ نے بات کی۔ پھر مقدارؓ بن عمروؓ انصاری نے جوشیلی تقریر کی۔ سعدؓ بن معاذ نے بھی انھی جذبات کا اظہار کیا۔

اسلامی لشکر میں ستر اونٹ اور تین گھوڑے سواری کے لیے تھے، تین سواروں کے لیے ایک اونٹ مقرر کیا گیا۔

مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں جہاں اترنا پڑا، وہاں بہت ریت تھا۔ لوگوں کے پائوں ریت میں دھنس جاتے تھے، اوپر سے پینے کا پانی بھی نہیں تھا، مگر اس موقع پر اﷲ نے ایسی بارش برسائی کہ ریت دب گئی اور مسلمانوں نے ریت ہٹا کر تالاب بنا لیا جو پانی سے بھر گیا۔ لشکر سے پیچھے ایک بلند ٹیلے پر حضور ﷺ کے لیے ایک چھپر بنادیا گیا جہاں صرف ابوبکر صدیقؓ، حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ یوم الجمعہ 17 رمضان المبارک2 ہجری کو صف بندی ہوئی۔ حضور ﷺ نے فوج کا معائنہ کیا اور پھر دعا کے لیے خدا کے سامنے ہاتھ اٹھادیے:

''یا اﷲ! یہ وہ اہل ایمان ہیں کہ اگر یہ لوگ ختم ہوگئے تو کل پورے کرۂ ارض پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔''

پھر دشمن فوج کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ''الٰہی! یہ قریش ہیں جو فخر و تکبر سے بھر پور ہیں، تیرے نافرمان، تیرے رسول سے جنگ کرنے والے! الٰہی! تیری نصرت تیری مدد کی ضرورت ہے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔''
اس کے بعد نبی رحمتؐ چھپر کے اندر داخل ہوگئے اور نماز کی نیت باندھی۔ ابوبکر صدیقؓ تلوار ہاتھ میں لیے مستعد کھڑے تھے۔ نماز کے دوران حضورؐ نے دعا کی:''الٰہیٰ! مجھے ندامت سے بچائیو۔ یا اﷲ! میں تجھے تیرا وعدہ یاد دلاتا ہوں۔''

بعد نماز حضورؐ نے طویل سجدہ فرمایا اور سجدے میں ''یاحی یا قیوم برحمتک یا استغیث'' پڑھتے رہے۔

اتنے میں حضورؐ پر اونگھ طاری ہوگئی، ادھر فوج پر بھی نیند کا غلبہ ہوگیا۔ پھر حضورؐ نے آنکھ کھول کر فرمایا:''ابوبکرؓ ! تجھے بشارت ہو کہ نصرت الٰہی بھی آپہنچی جبرئیل ؑ بھی آگئے ہیں۔''

ادھر مجاہدین نے آنکھ جھپک جانے کے بعد دشمن کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کی تعداد بہت کم اور مسلمانوں کی زیادہ ہوگئی ہے جس سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ حضورؐ میدان جنگ میں تشریف لائے اور مجاہدین کو یہ ہدایت فرمائی:''اپنی جگہ پر قائم رہنا، دشمن حملے کے لیے آگے بڑھے تو اسے آگے آنے دینا، جب وہ تمھارے تیروں کی زد میں آجائے تو خوب تیر برسانا، دشمن اور قریب آجائے تو نیزوں کا استعمال کرنا، تلوار کا استعمال آخر میں کرنا۔''

پھر انفرادی مقابلے شروع ہوئے جن میں اسود مخزومی کو حضرت حمزہؓ نے جہنم واصل کیا۔ پھر کفار کی طرف سے عتبہ اور اس کا بھائی شیبہ اور فرزند ولید نکلے جن سے مقابلے کے لیے حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہؓ بن حارث آگے بڑھے۔ حضرت حمزہ ؓ نے شیبہ کو اور حضرت علیؓ نے ولید کو جاتے ہی شکار کر لیا۔ عبیدہ اور عتبہ ایک دوسرے پر شمشیر زنی کر رہے تھے کہ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے بھی عتبہ پر حملہ کیا اور اسے ختم کردیا۔ اس دوران راست الفکر امیہ بن خلف جو بلال ؓ کو کلمۂ توحید پر ستایا کرتا تھا، قتل ہوا۔ اسی جنگ میں ابو جہل بھی جہنم واصل ہوا۔

لڑائی ہورہی تھی کہ اﷲ نے فرشتوں کو بھی اہل ایمان کی مدد کے لیے نازل فرمایا تھا جو مسلمانوں کو انسانوں کی صورت میں نظر آ رہے تھے۔ فرشتے مومنوں سے کہہ رہے تھے:''بہادر بنو، مضبوط رہو، فتح اور نصرت الٰہی تمہارے ساتھ ہے۔''

جب مسلمان اور کافر جنگ میں مصروف تھے، اس وقت حضور ؐ نے مٹھی کنکریوں پر شاہت الوجوہ پڑھ کر پھونکا اور وہ کنکریاں کفار کی جانب پھینکیں جس کے بعد کفار گھبراکر بھاگنے لگے۔ مسلمانوں نے تعاقب کرکے 70 کافروں کو گرفتار کرلیا۔

غزوۂ بدر میں 70 کافر مارے گئے اور صرف 14 مسلمان شہید ہوئے۔ قیدیوں کے متعلق شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ فدیہ لے کر رہا کردیا جائے اور فدیے کی رقم سے آئندہ جنگوں کی تیاری کی جائے۔ جن قیدیوں کے پاس رقم تھی، انھوں نے اسی وقت دے کر رہائی حاصل کر لی، جن کے پاس نہیں تھی، انھیں مدینے لے جایا گیا۔ ان قیدیوں میں سے بعض پڑھے لکھے بھی تھے، چناں چہ ان کے سپرد انصار کے بچے کردیے گئے اور ان قیدیوں نے زر فدیہ کے عوض ان بچوں کو تعلیم دی ۔ اسیروں کو مدینے میں ایسی آسائش و آرام کے ساتھ رکھا گیا کہ وہ مکہ جا کر کہا کرتے تھے:''خدا اہل مدینہ پر رحم کرے، خود کھجور پر گزارا کرتے تھے اور ہمیں روٹی کھلایا کرتے تھے۔''

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے:''اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھا اور فرمایا:''اب تم جو چاہو کرو، میں تمہیں بخش چکا ہوں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں