کتنی مٹھائی بانٹی گئی تھی
یہ بات تواتر سے دہرائی جارہی ہے کہ شریف برادران تو غریب لوگ تھے اور انھوں نے سارا مال اقتدار کے دنوں میں بنایا ہے۔
QUETTA:
سیاسی جماعتوں کے میڈیا منیجرز کا کردار تب سے بے حد اہم ہوگیا ہے جب سے میڈیا کی طاقت بے حدوحساب بڑھ گئی ہے۔ اب ملک فتح کرنے، انقلابات لانے اور سیاسی دھمال ڈالنے جیسے سارے کارنامے میڈیا پر ہی انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک گزشتہ کالم میں، میں نے نواز شریف کے میڈیا منیجرز کا ذکر کیا تھا کہ انھیں معروف ایشوز پر دفاع کرنا ہی نہیں آتا۔ اس سلسلے میں کچھ مثالیں بھی دی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کے قطعاً کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ میری باتوں کا انھوں نے برا نہیں مانا ہے بلکہ تھوڑے بہت شکر گزار ہی ہوئے ہیں تو پھر کیوں نہ ان کی تھوڑی اور مدد کردوں اور ان کی مزید کمزوریوں کا ذکر کردوں۔
چلیے پہلے ''شیخ الاسلام'' والے کنٹینر مارچ کے حوالے سے نواز شریف کے عدلیہ بحالی لانگ مارچ کی بات کرلیتے ہیں۔ اعتراض اور فخر کیا جاتا ہے کہ یہ لانگ مارچ گوجرانوالہ سے کیوں لوٹ گیا تھا؟ اسے ٹاپو ٹاپ اسلام آباد تک جانا چاہیے تھا کیونکہ وہاں کسی نامعلوم جگہ پر چھپ کے عمران خان اور تحریک انصاف بھی اس میں شامل ہونے کے انتظار میں تھے۔ ان کا شوق پورا نہ ہوسکا۔ شرلاک ہومز لکن میٹی ہی کھیلتا رہ گیا۔ ساتھ ہی یہ نکتہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ عدلیہ کو تو فوج نے بحال کیا تھا۔ گویا مارچ جاری رہتا تو عدلیہ نے اپنے آپ بحال ہوجانا تھا۔ یا پھر بحالی کے فرمان پر نواز شریف نے ٹھپہ لگانا تھا۔ ایسے احتجاج کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ جس قوت نے کام کرنا ہے اسے ایسا کرنے پر آمادہ کرلیا جائے، جس نے بھی عدلیہ کو بحال کیا تھا اس نے اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اسی لانگ مارچ کے پریشر کی وجہ سے کیا تھا اور پھر جب بحالی کا یقین ہوگیا تھا تو پھر لانگ مارچ نے اسلام آباد تربوز کھانے جانا تھا؟ مجھے افسوس ہے کہ نوازشریف کے میڈیا منیجرز یہ معمولی سی بات کبھی ٹھیک طرح سے واضح نہیں کرسکے۔
ایک الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ جب پرویز مشرف نامی ایک جرنیل نے ٹیک اوور کیا تھا تو ملک کی معاشی حالت ابتر تھی اور سارے لوگ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے تھے، نوازشریف کو ہتھکڑیاں لگنے پر بے تحاشا مٹھائی بٹی تھی، بالکل جھوٹ۔ ایسا کچھ بھی نہ تھا اور نہ ہی اس طرح مٹھائی بانٹی گئی تھی۔ ہر طرف وہی معروف سناٹا تھا جو ہر ایسے موقعے پر دیکھا گیا ہے جب جب کسی جرنیل کو ملک کی قسمت سنوارنے کا شوق چڑھا ہے۔ صرف فوٹو بنوانے کے لیے ساڑھے تین بندوں نے آدھا کلو مٹھائی کا ڈبہ خریدا تھا۔ چاہے اخبار کی فائل نکال کے دیکھ لیں، جب بھی ایسی مہم جوئی ہوئی ہے چند شامل باجوں کے سوا پورے ملک میں صدمے کی کیفیت ہی پائی گئی ہے۔ مٹھائیاں بانٹ کے کسی نے مار کھانی ہے۔ ہاں البتہ وہ مختصر سا ریوڑ جو لگاتار سیاپے کے بعد بھی سیاست اور جمہوریت کا ککھ نہیں بگاڑ سکا اس میں موجود بلیوں کو جھوٹ کے چھیچھڑے اور باندریوں کو ریوڑیاں بٹتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کیا نواز شریف کے میڈیا منیجرز اس وقت کے حالات سے نابلد ہیں۔ یہ ذکر چھڑے تو انھیں چپ لگ جاتی ہے۔
یہ جو صوبائی الیکشن کمشنروں کو بدلنے کا ٹنٹا کھڑا کردیا گیا تھا، یہ پہلے کیوں نہیں تھا؟ اس کی بڑی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے جو گزشتہ ضمنی انتخابات جیتے ہیں ان میں دھاندلی کی تھی اور اسے روکا نہیں گیا۔ اس دھاندلی کا سب سے بڑا ثبوت وہ ہوائی فائرنگ تھی جو رات کے وقت بڑی دیدہ دلیری سے کی گئی، لوکرلو بات۔ ارے بھئی! مانا کہ فائرنگ کرنا ایک غلط حرکت ہے لیکن یہ دھاندلی کا ثبوت کہاں سے ہوگئی؟ ووٹنگ کے وقت تو فائرنگ کرکے ووٹ نہیں ڈلوائے گئے تھے۔ یہ تو الیکشن کے بعد جیت کی خوشی میں کی گئی تھی۔ میڈیا منیجرز جب بھی یہ ذکر سنتے ہیں تو فوراً دفاعی پوزیشن میں آجاتے ہیں حالانکہ یہ سب ایک بے ہودہ طریقہ سے جشن فتح منانے کا معاملہ ہے۔ ایسا واہیات مظاہرہ شادیوں پر بھی ہوتا ہے، وڈیرے کے ہاں بیٹا پیدا ہونے پر بھی اور کرکٹ میچ جیتنے پر بھی۔ اس کا الیکشن میں دھاندلی اور الیکشن کمیشن سے کیا تعلق؟یہ خوامخواہ ریں ریں شروع کردیتے ہیں۔ مقامی ایس ایچ او کے پاس چلے جائیں، وہ سنبھال لے گا۔
یہ بات تواتر سے دہرائی جارہی ہے کہ شریف برادران تو غریب لوگ تھے اور انھوں نے سارا مال اقتدار کے دنوں میں بنایا ہے، یہ بات غلط ہے۔ وہ ضیاء الحق کے دور سے قبل ہی ملک کے متمول خاندانوں میں شمار ہوتے تھے اور جب بھٹو نے اتفاق فاؤنڈری کو قومی ملکیت میں لیا تو وہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی صنعتوں میں سے ایک تھی۔ انھوں نے ترقی کا یہ سفر موافق اور ناموافق، تمام حالات میں جاری رکھا ہے۔ وہ ہمیشہ سے کامیاب بزنس مین اور صنعت کار رہے ہیں۔ میں اس بات پر بے سمت تبصرہ نہیں کروں گا کہ انھوں نے اپنے ادوار حکومت میں ناجائز فائدے اٹھائے ہیں یا نہیں کیونکہ میں وثوق سے اس بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا لیکن مجھے اتنا معلوم ہے کہ کاروباری حلقوں میں ان کی ساکھ بہت اچھی ہے۔ اسی کاروباری مزاج، وژن اور ساکھ کی بدولت ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ نامساعد حالات میں بھی بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچاسکتے ہیں۔یہ ایک ایسا کام ہے جو وہ وڈیرہ ہرگز نہیں کرسکتا جو اپنے علاقے میں کوئی انڈسٹری تو کجا کوئی اسکول بھی برداشت نہیں کرتا۔ پانچ برس کی حکومتیں مکمل ہونے پر چاروں صوبوں کی حالت پر نظر ڈال لیں، آپ کو میری بات کا ثبوت مل جائے گا۔ نواز شریف کے میڈیا منیجرز بھی یہ ثبوت دیکھ لیں۔
''شیخ الاسلام'' اسلام آباد قدم رنجہ فرمانے لگے تو راہ چلتے نواز شریف نے ایک تبصرہ پھینکا۔ ''پلے نئیں دھیلا، تے کردی میلہ میلہ'' میڈیا پر کہا گیا کہ یہ تکبر کی نشانی ہے۔ موصوف کے پاس دولت کیا آگئی ہے کہ وہ ''شیخ الاسلام'' کی ''غربت'' کا مذاق اڑا رہے ہیں، لاحول ولاقوۃ۔ جاہلوں نے محاورے کو فیس ویلیو پر لے کر باتیں بنانا شروع کردیں اور اکڑفون کے تبرے چھوڑنے لگے۔ نون لیگی میڈیا منیجرز بھی شاید ان جیسے ہی عالم فاضل ہیں ۔ لہٰذا وہ صورت حال کو واضح کرنے کی بجائے آئیں بائیں شائیں کے پردے میں چھپ گئے، حالانکہ یہ معاملہ صاف کرنا ایک سادہ سی بات تھی۔ آئیے! شعیب بن عزیز کے مشہورومعروف مصرعے ''اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں'' کے انداز میں اس تبصرے کو بھی محاورے کے طور پر استعمال کرکے دیکھتے ہیں۔ بات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
''شیخ الاسلام نے اپنی وکالت خود کی، عدلیہ نے مقدمے کی کوئی نظیر طلب کی تو وہ اسے پیش کرنے سے قاصر رہے، پلے نئیں دھیلا، تے کردی میلہ میلہ۔''
''شیخ الاسلام چالیس لاکھ افراد کا لانگ مارچ لے کر چلے تھے لیکن اس کا صرف ایک فیصد اسلام آباد پہنچا۔ پلے نئیں دھیلا، تے کردی میلہ میلہ۔''
''جمہوریت بیزار نقارچی 12 اکتوبر 1999 کو ہزاروں من مٹھائیاں تقسیم ہونے کی دلیلیں ابھی تک بجارہے ہیں اور امریکی سروے کے لحاظ سے نون لیگ ایک بار پھر مقبول ترین پارٹی قرار پاگئی ہے۔ پلے نئیں دھیلا، تے کردی میلہ میلہ۔''
مسلم لیگ نون کاذکر ختم ہوا۔ آئندہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے میڈیا منیجرز کی باری ہے، وہ تیار رہیں۔