اس ہاتھ دیجیے اس ہاتھ لیجیے
عوام تو کالانعام ہیں، ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں، ان کو پتہ تک نہیں ہے کہ ان کے غم میں خادمان کرام اور لیڈران۔۔۔
کیا بتائیں کہ آج کل ہمارے دل میں کیا کیا کچھ ہو رہا ہے، اپنے لیڈران کرام اور خادمان عظام کی محنت و مشقت دیکھ کر نہ صرف ہمارے دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے بلکہ بہت کچھ اور بہت ہی زیادہ کچھ کچھ ہو رہا ہے۔ کتنے پریشان ہیں نہ دن دیکھ رہے ہیں نہ رات، نہ کھانے کا ہوش ہے نہ پینے کا ہوش... بس سب کو یہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ اس قوم کی عاقبت سنوار دیں، اکثر کو تو دو وقت کی روٹی کا وقت بھی نہیں مل رہا ہے چنانچہ لنچ اور ڈنر پر گزارا کر رہے ہیں۔ کبھی ایک دو مرغے اڑا لیے، کبھی ایک آدھا بکرا نگل لیا اور کبھی صرف پلاؤ زردے پر گزارا کر لیتے ہیں۔ پینے کے لیے پانی کے بجائے انتہائی کڑوے گھونٹ لیتے ہیں اور سونے کی جگہ جگالی کرتے ہیں، گویا
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
آپ خود بھی اخباروں میں ان کی سرگرمیاں، پیرگرمیاں اور زبان گرمیاں پڑھ رہے ہوں گے۔ کبھی میٹنگیں، کبھی جلسے، کبھی پریس کانفرنسیں، کبھی اے پی سی، کبھی ڈی پی سی اور بی پی جی... غرض یہ کہ انگریزی کی پوری الفابیٹ کو سر پر اٹھائے ہوئے ہیں، مورچے تیار ہو رہے ہیں، صفیں ترتیب دی جا رہی ہیں، گھوڑے پکڑے اور سدھائے جا رہے ہیں، پنج کروڑی، دس کروڑی اور بیس تیس کروڑی سردار مقرر کیے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ صرف اور صرف اس ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا جا رہا ہے، عوام کو جنت پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ملک کو فردوس گم گشتہ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے، عوام کو پتہ بھی نہیں کہ کتنے، کارساز مابہ فکر کار ماست، گویا
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عوام تو کالانعام ہیں، ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں، ان کو پتہ تک نہیں ہے کہ ان کے غم میں خادمان کرام اور لیڈران عظام کا کیا حال ہو رہا ہے۔ صبح یہاں ہوتے ہیں تو کل وہاں ہیں اور تو اور قوم کے لیے صرف قوم کے لیے دشمنوں کو بھی دوست بنایا جا رہا ہے اور رقیبوں کو بھی قریب کیا جا رہا ہے۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تیرے رہگزر کو میں
کل ہم نے ایک جدی پشتی خادم قوم کو دیکھا۔ بے چارا پسینے پسینے ہو رہا تھا۔ بے چارے کا دو گوبھیوں جتنا منہ بقدر دو شلجم رہ گیا تھا۔ پورے جسم کا انجر پنجر ڈھیلا ہو رہا تھا۔ کوئی کوشش کرتا تو پسلیاں بھی گنی جا سکتی تھیں۔ صرف جسم کا سینٹرل ایریا یعنی درمیانی علاقہ کچھ اپنے حال پر تھا، باقی بدل گیا تھا منہ میں جھاگ بھر بھر کر قوم کو عاقبت سنوارنے کا نسخہ بتا رہا تھا جو کچھ زیادہ گراں نہیں تھا صرف ایک چھوٹی سی پرچی ان کے صندوق میں ڈالنا تھی، صرف دسویں بار عوام کو موقع دینے کے لیے آمادہ کر رہا تھا وہ جنت بھی ان کے ہاتھ میں تھی جو ان کے پیچھے چلنے پر قوم کا ٹھکانہ بننے والے تھی ہم تو عوام کو یہی مشورہ دینگے کہ
نقصاں نہیں جنوں میں بھلے سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
ویسے تو ہر چار پانچ سال بعد یہ ''کھنب'' اور ''کھمبیوں'' کا میلہ لگتا ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ اس بار کچھ زیادہ میلہ ٹھیلہ ہو گا کیونکہ بڑے بڑے عظیم الشان سرکس اسٹال کیے جا رہے ہیں، طرح طرح کے ہنرمند اور بازی گر لائے جا رہے ہیں، بے شمار اقسام کے جانوروں کو بھی لایا جا رہا ہے جو ایک سے بڑھ کر ایک کرتب دکھائیں گے، کیلیں گاڑھی جا رہی ہیں، رسے کھنیچے جا رہے ہیں، تمبو اور بمبو تانے جا رہے ہیں، ہر جگہ یہی نعرے ہیں کہ ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے۔ کہیں پر نامی گرامی پہلوانوں کو جھانسے دے کر اپنے دنگل میں لایا جا رہا ہے۔ کہیں پر پیشہ ور پہلوان فیورٹ قسم کے دنگلوں سے رابطے کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سارے ''بھان متی'' بھی ہیں جو چن چن کر کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اٹھا رہے ہیں اور نئے نئے کتبے جوڑے جا رہے ہیں، گویا
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اور یہ سب کچھ کس لیے ہو رہا ہے، اے ناہنجار قوم تمہارے لیے، اے کالانعام عوام تمہاری خدمت کے لیے، اے پانچ سال میں صرف ایک انڈہ دینے والی مرغیو... ہوشیار، خبردار اس انڈے کو نہایت احتیاط سے استعمال کرو، ورنہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں... کیونکہ یہ انڈا وہ انڈا ہے جو تخت بھی دلا سکتا ہے اور تختہ بھی
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
ٹک اک نگاہ چوکی اور ''انڈہ'' دوستوں کا
مسئلہ اس میلے میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنیوالوں کا نہیں ہے، وہ تو فن کار ہیں، ہنر مند ہیں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہیں، پشت ہا پشت کا تجربہ رکھتے ہیں، کسی نہ کسی طرح ''مرغیوں'' کا انڈا نکال کر اپنی ٹوکریوں میں رکھوا لیں گے اور پھر عوام کی ''خدمت'' میں جُت جائیں گے لیکن مسئلہ مرغیوں کا ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی مفت میں اپنے انڈے دے دیں گی اور پھر دیواروں پر چڑھ کر نعرے بھی لگائیں گی، مطلب یہ کہ
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ ''فول'' کا ہے فول کدھر جائے گا
اس لیے ہم نے ان مرغیوں یا فولوں کے بارے میں سوچا اور اس لیے سوچا کہ ہم بھی ان ہی میں سے ہیں، ڈگڈگیوں کی آہنگ سے پتہ چلتا ہے کہ اس مرتبہ مداری اچھے خاصے جوش و خروش میں ہیں کیونکہ گزشتہ پانچ سال میں حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ وہ چوری چھپے، نظر بچا کر، چپکے چپکے والی بات نہیں رہی ہے بلکہ کھلے عام ڈنکے کی چوٹ اور ببانگ دہل وہ سب کچھ کرتے رہے جس کے لیے آئے تھے۔
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے وہ سب کر چلے
اس لیے ہر کوئی جیسے بھی کر کے اس بہتی گنگا بلکہ بہتے دریائے سندھ میں ہاتھ دھونا چاہے گا اور اگر عوام بھی پہلے جیسے سادہ دل رہے تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا اس لیے ہمارا فرض ہے کہ مرغیوں یا کالانعام کو بھی ذرا ساودھان کر دیں، ایک تو یہ اطلاع دینا تھی کہ اس مرتبہ انڈوں کی قیمت کئی گنا زیادہ ہے اس لیے قرض ادھار کی بجائے نقدا نقد لین دین ضروری ہے یعنی اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے اور پھر جس طرح مداریوں کا نعرہ ہے کہ ووٹ لیجیے اور لوٹ کر نہ آیئے اسی طرح آپ بھی نعرہ بنا لیں گے کہ اس ہاتھ سے نوٹ اور اس ہاتھ سے ووٹ... نوٹ دیجیے ووٹ لیجیے... کل کے دھوکے میں بالکل نہ آئے، کیا پتہ کل ہو نہ ہو اور کل کس نے دیکھی ہے۔
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
آپ خود بھی اخباروں میں ان کی سرگرمیاں، پیرگرمیاں اور زبان گرمیاں پڑھ رہے ہوں گے۔ کبھی میٹنگیں، کبھی جلسے، کبھی پریس کانفرنسیں، کبھی اے پی سی، کبھی ڈی پی سی اور بی پی جی... غرض یہ کہ انگریزی کی پوری الفابیٹ کو سر پر اٹھائے ہوئے ہیں، مورچے تیار ہو رہے ہیں، صفیں ترتیب دی جا رہی ہیں، گھوڑے پکڑے اور سدھائے جا رہے ہیں، پنج کروڑی، دس کروڑی اور بیس تیس کروڑی سردار مقرر کیے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ صرف اور صرف اس ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا جا رہا ہے، عوام کو جنت پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور ملک کو فردوس گم گشتہ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے، عوام کو پتہ بھی نہیں کہ کتنے، کارساز مابہ فکر کار ماست، گویا
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عوام تو کالانعام ہیں، ہاتھی کے کان میں سوئے ہوئے ہیں، ان کو پتہ تک نہیں ہے کہ ان کے غم میں خادمان کرام اور لیڈران عظام کا کیا حال ہو رہا ہے۔ صبح یہاں ہوتے ہیں تو کل وہاں ہیں اور تو اور قوم کے لیے صرف قوم کے لیے دشمنوں کو بھی دوست بنایا جا رہا ہے اور رقیبوں کو بھی قریب کیا جا رہا ہے۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تیرے رہگزر کو میں
کل ہم نے ایک جدی پشتی خادم قوم کو دیکھا۔ بے چارا پسینے پسینے ہو رہا تھا۔ بے چارے کا دو گوبھیوں جتنا منہ بقدر دو شلجم رہ گیا تھا۔ پورے جسم کا انجر پنجر ڈھیلا ہو رہا تھا۔ کوئی کوشش کرتا تو پسلیاں بھی گنی جا سکتی تھیں۔ صرف جسم کا سینٹرل ایریا یعنی درمیانی علاقہ کچھ اپنے حال پر تھا، باقی بدل گیا تھا منہ میں جھاگ بھر بھر کر قوم کو عاقبت سنوارنے کا نسخہ بتا رہا تھا جو کچھ زیادہ گراں نہیں تھا صرف ایک چھوٹی سی پرچی ان کے صندوق میں ڈالنا تھی، صرف دسویں بار عوام کو موقع دینے کے لیے آمادہ کر رہا تھا وہ جنت بھی ان کے ہاتھ میں تھی جو ان کے پیچھے چلنے پر قوم کا ٹھکانہ بننے والے تھی ہم تو عوام کو یہی مشورہ دینگے کہ
نقصاں نہیں جنوں میں بھلے سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں
ویسے تو ہر چار پانچ سال بعد یہ ''کھنب'' اور ''کھمبیوں'' کا میلہ لگتا ہے لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ اس بار کچھ زیادہ میلہ ٹھیلہ ہو گا کیونکہ بڑے بڑے عظیم الشان سرکس اسٹال کیے جا رہے ہیں، طرح طرح کے ہنرمند اور بازی گر لائے جا رہے ہیں، بے شمار اقسام کے جانوروں کو بھی لایا جا رہا ہے جو ایک سے بڑھ کر ایک کرتب دکھائیں گے، کیلیں گاڑھی جا رہی ہیں، رسے کھنیچے جا رہے ہیں، تمبو اور بمبو تانے جا رہے ہیں، ہر جگہ یہی نعرے ہیں کہ ہم سا کوئی ہو تو سامنے آئے۔ کہیں پر نامی گرامی پہلوانوں کو جھانسے دے کر اپنے دنگل میں لایا جا رہا ہے۔ کہیں پر پیشہ ور پہلوان فیورٹ قسم کے دنگلوں سے رابطے کر رہے ہیں۔ ان میں بہت سارے ''بھان متی'' بھی ہیں جو چن چن کر کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اٹھا رہے ہیں اور نئے نئے کتبے جوڑے جا رہے ہیں، گویا
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اور یہ سب کچھ کس لیے ہو رہا ہے، اے ناہنجار قوم تمہارے لیے، اے کالانعام عوام تمہاری خدمت کے لیے، اے پانچ سال میں صرف ایک انڈہ دینے والی مرغیو... ہوشیار، خبردار اس انڈے کو نہایت احتیاط سے استعمال کرو، ورنہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں... کیونکہ یہ انڈا وہ انڈا ہے جو تخت بھی دلا سکتا ہے اور تختہ بھی
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
ٹک اک نگاہ چوکی اور ''انڈہ'' دوستوں کا
مسئلہ اس میلے میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنیوالوں کا نہیں ہے، وہ تو فن کار ہیں، ہنر مند ہیں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے ہیں، پشت ہا پشت کا تجربہ رکھتے ہیں، کسی نہ کسی طرح ''مرغیوں'' کا انڈا نکال کر اپنی ٹوکریوں میں رکھوا لیں گے اور پھر عوام کی ''خدمت'' میں جُت جائیں گے لیکن مسئلہ مرغیوں کا ہے کہ کیا اس مرتبہ بھی مفت میں اپنے انڈے دے دیں گی اور پھر دیواروں پر چڑھ کر نعرے بھی لگائیں گی، مطلب یہ کہ
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ ''فول'' کا ہے فول کدھر جائے گا
اس لیے ہم نے ان مرغیوں یا فولوں کے بارے میں سوچا اور اس لیے سوچا کہ ہم بھی ان ہی میں سے ہیں، ڈگڈگیوں کی آہنگ سے پتہ چلتا ہے کہ اس مرتبہ مداری اچھے خاصے جوش و خروش میں ہیں کیونکہ گزشتہ پانچ سال میں حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ وہ چوری چھپے، نظر بچا کر، چپکے چپکے والی بات نہیں رہی ہے بلکہ کھلے عام ڈنکے کی چوٹ اور ببانگ دہل وہ سب کچھ کرتے رہے جس کے لیے آئے تھے۔
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے وہ سب کر چلے
اس لیے ہر کوئی جیسے بھی کر کے اس بہتی گنگا بلکہ بہتے دریائے سندھ میں ہاتھ دھونا چاہے گا اور اگر عوام بھی پہلے جیسے سادہ دل رہے تو کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا اس لیے ہمارا فرض ہے کہ مرغیوں یا کالانعام کو بھی ذرا ساودھان کر دیں، ایک تو یہ اطلاع دینا تھی کہ اس مرتبہ انڈوں کی قیمت کئی گنا زیادہ ہے اس لیے قرض ادھار کی بجائے نقدا نقد لین دین ضروری ہے یعنی اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے اور پھر جس طرح مداریوں کا نعرہ ہے کہ ووٹ لیجیے اور لوٹ کر نہ آیئے اسی طرح آپ بھی نعرہ بنا لیں گے کہ اس ہاتھ سے نوٹ اور اس ہاتھ سے ووٹ... نوٹ دیجیے ووٹ لیجیے... کل کے دھوکے میں بالکل نہ آئے، کیا پتہ کل ہو نہ ہو اور کل کس نے دیکھی ہے۔