سیدنا برہان الدین
معلوم نہیں ہمیں کیا ہوگیا ہے ہمیں دوست دشمن کی تمیز ہی نہیں رہی۔
بوہرہ داؤدی کمیونٹی کے روحانی پیشوا اور بین الاقوامی طور پر ایک انتہائی با وقار اور باعزت شخصیت سیدنا برہان الدین 102برس کے ہوچکے ہیں ۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے بوہرہ کمیونٹی کے لوگ اس سلسلے میں خوشیاں منا رہے ہیں۔ 102 برس کی عمر ایک لمبی مدت ہے اور دنیا بھر میں کم ہی لوگ اس عمر تک پہنچ پاتے ہیں اور جو پہنچ بھی پاتے ہیں تو صحت اور تندرستی کے ساتھ نہیں بلکہ طرح طرح کی بیماریوں ناتوانیوں اور کمزوریوں کے ساتھ لڑکھڑاتے ہوئے پہنچ پاتے ہیں ۔ ایسے عمر رسیدہ لوگوں کو دیکھ کر ان کی آخری عمر پر نہ صرف ترس آتا ہے بلکہ بعض لوگ عبرت کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔
سیدنا برہان الدین نے ساری عمر عبادت ِالہٰی اور خدمت خلق میں گذاری ہے ایک فیض عام ہے جو ان کی شخصیت سے جاری ہے اور انشاء اﷲ جاری رہے گا۔ بے شمار ممالک نے انھیں اپنے بہترین اعزازات سے نوازا ہے۔ انھیں بہت سارے ممالک ان کی عزت اور وقار کے پیش نظر پورا پورا پروٹوکول دیتے ہیں ۔ بہت سارے ترقی پذیر ممالک میں جہاں بوہرہ کمیونٹی کے لوگ موجود ہیں۔ سیدنا برہان الدین نے ایسے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کیا ہے اور بہت سارے ایسے منصوبوں پر کام جاری بھی ہے جن سے ان ممالک کے عوام کو بے پناہ فائدہ پہنچا ہے ۔
شاید یہی وجوہات ہیں جس کے باعث سیدنا ہمہ وقت ہشاش بشاش اور تندرست و توانا رہتے ہیں ۔ سیدنا برہان الدین کی روحانی قیادت میں بوہرہ کمیونٹی پاکستان جیسے بہت سارے ممالک میں اپنی کمیونٹی کے علاوہ مقامی باشندوں کے لیے بھی بہت سارے مفید منصوبوں پر کام کرتی ہے جن میں اسکول، کالج اور اسپتالوں کے منصوبے اور دیگر فلاحی منصوبے شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے بہت سارے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے جن سے بوہرہ کمیونٹی کی نیک نامی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل کے دور میں جو باتیں بوہرہ کمیونٹی کے لوگوں کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں ان میں ان کا ایک مخصوص قسم کا لباس جو پاجامے کے اُوپر سفید رنگ کے ایک اورکوٹ اور مخصوص قسم کی ایک ٹوپی پر مشتمل ہوتا ہے، کے علاوہ اس کمیونٹی کا ہر فرد ملنسار اور پرامن رہتا ہے۔
یہ لوگ صرف اور صرف کاروبار تک محدود رہتے ہیں سادہ زندگی گذارتے ہیں اور اپنی آمدنی کا ایک مخصوص حصہ اپنی کمیونٹی کی بہبود اور دیگر فلاحی کاموں کے لیے مختص کرتے ہیں۔ یہ لوگ کسی لڑائی جھگڑے میں نہ شریک ہوتے ہیں اور نہ کسی لڑائی جھگڑے ہی کا باعث بنتے ہیں۔ اپنے کام سے غرض رکھتے ہیں اور کسی کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرتے۔کراچی میں دو اسپتال جن کے نام برہانی اسپتال اور سیفی اسپتال ہیں بلا تخصیص رنگ ونسل و مذہب و ملت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کررہے ہیں ۔ الجامتہ السیفیہ عربی زبان میں تعلیم دینے کا ادارہ ہے۔ کراچی ہی میں سیفی پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ جسے پہلے قومیا لیا گیا تھا اب واپس برہانی کمیونٹی کے حوالے کردیاگیا ہے ٹیکنیکل تعلیم دینے میں بہترین خدمات انجام دے رہا ہے ۔
اس کے علاوہ کراچی کے اندر ہی بوہرہ برادری کے چار اسکول علاقے کے مکینوں کو بہترین تعلیمی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ کراچی یونیورسٹی کے اندر جنیٹک ڈیپارٹمنٹ کی عمارت نہ صرف بوہرہ برادری نے تعمیر کرکے دی ہے بلکہ اس وقت جنیٹک ڈیپارٹمنٹ کے تمام اخراجات بھی بوہرہ کمیونٹی ہی برداشت کر رہی ہے بہرحال جنیٹک ڈیپارٹمنٹ حکومت کے زیر نگرانی کام کر رہا ہے۔یہ وہ احسانات ہیں جو بوہرہ کمیونٹی اپنے تئیں اپنے پاکستانی بھائیوں پر کر رہی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ احسان کا بدلہ سوائے احسان کے کچھ نہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس احسان کا بدلہ اب بوہرہ کمیونٹی کے ہر لحاظ سے پرخلوص اور پر امن باشندوں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے چکایا جا رہا ہے۔
معلوم نہیں ہمیں کیا ہوگیا ہے ہمیں دوست دشمن کی تمیز ہی نہیں رہی۔ پتہ نہیں ہم کس طرف جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھ رہے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو ختم کرکے مکمل تباہی وبربادی کی جانب گامزن ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا ہمارا انجام کیا ہوگا۔ لگتا یوں ہے کہ ہمارا انجام ہمارے آغاز سے بہتر نہیں ہوگا۔ خدا کرے ایسا نہ ہو اور یہ خیال غلط ثابت ہو لیکن خواہشیں اتنی آسانی سے کہاں پوری ہوتی ہیں۔ اس موقعے پر ہم اپنے ملک میں پرامن طور پر رہنے والی بوہرہ کمیونٹی کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔اس امید کے ساتھ کہ پاکستان کی موجودہ نسل اپنے بڑوں کے نقش قدم کو پامال کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر خلوص نیت اور بھر پور اعتماد کے ساتھ انشاء اﷲ آگے بڑھے گی تاکہ ہماری نسل کو دل کھول کر شرمندہ کرسکے میں اپنے اس کالم کو ختم کرتاہوں۔خدا ہم سب کا حامی وناصرہو۔ آمین۔