جو مر کے امر ہو جاتے ہیں…
اس ڈائیلیسز مرکز میں وہ بھی کمیٹی کے ایک ایسے رکن ہیں جو اپنی خدمات کا عوضانہ فقط دعاؤں کی صورت میں لیتے ہیں۔
SHAH HASSAN KHEL:
عموماً جب کسی کو کوئی لا علاج بیماری لاحق ہو جاتی ہے یا کوئی بھی مرض اپنی آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو مریض کو علم ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس گنی چنی سانسیں رہ گئی ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہمیں ان پیاروں کی فکر پڑ جاتی ہے جن کو ہم اپنے لواحقین کے طور پر چھوڑ کر جانے والے ہوتے ہیں یا پھر اپنے اثاثوں اور جائیداد کی اور اولاد کی... مگر وہ کہ جنھیں اللہ تعالی نیکی کی توفیق دیتا ہے اور جن کے دل میں ایسے حالات میں یہ سودا سما جاتا ہے کہ اس مختصر مہلت کو وہ کسی ایسے کام میں صرف کریں جو نامہء اعمال کی صورت ان کے ساتھ جانا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا کرنل شمیم احمد جاوید کے ساتھ کہ وہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور یقینا اس دور میں انھیں وہ سہولیات اور علاج کی options میسر نہ ہو ںگی تو ان کے دل میں اس منصوبے کا خیال آیا جسے تکمیل تک پہنچتے ہوئے دیکھنا اپنی زندگی میں نصیب نہ ہوا، مگر جس مرض سے ان کا انتقال ہوا اس کے علاج کا ایک ایسا مرکز بنا گئے کہ جس کی مثال شاید ہمیں ڈھونڈنے سے نہ ملے۔
راولپنڈی کے علاقے کمال آباد میں، کلمہ چوک کے قریب (نادرا کے دفتر سے چند سو گز کے فاصلے پر) اس عمارت کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر Pakistan Kidney Patients Association لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنی بیماری کے دوران کرنل شمیم احمد نے Kidney Dialysis Centreکی بنیاد ایک کمرے اور اپنے کل سرمائے سے اس کی ابتدا کی اور ان کی وفات کے بعد جب اس عمارت کی تکمیل ہوئی تو1997 میں ان کی بیگم نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔ ملک میں اس وقت ناقص خوراک اور پینے کے ناقص پانی کی فراہمی کے باعث گردوں کے امراض عروج پر ہیں اور جتنے بھی اسپتال اور مراکز ہیں وہ ناکافی لگتے ہیں۔ اس مرکز کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ یہاں پر مستحق افراد کو مفت علاج کی سہولت میسر ہے۔
''دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو گردوں کی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور میں آپ کو ایک ایسی جگہ دکھانا چاہتا ہوں جو اپنی نوعیت کی ایک جگہ ہے اور ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس کا علم بھی نہ ہو...'' کرنل مشتاق حسین قریشی صاحب جو کہ میرے ایک انتہائی محترم بزرگ ہیں، انھوں نے مجھ سے کہا اور پھر مجھے اس مرکز کے بارے میں کچھ معلوماتی بروشر بھجوائے اور میں ان کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے زندگی کے ایک ایسے پہلو سے متعارف کروایا جس سے ہم سب عموما واقف نہیں ہوتے۔
اس ڈائیلیسز مرکز میں وہ بھی کمیٹی کے ایک ایسے رکن ہیں جو اپنی خدمات کا عوضانہ فقط دعاؤں کی صورت میں لیتے ہیں۔ اس مرکز کی آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) ظہیر الدین ہیں۔ اس کے بعد اس مرکزکے روح رواں کرنل (ریٹائرڈ) یونس بھٹی ہیں جن کے ساتھ کرنل (ریٹائرڈ) مشتاق حسین بھٹی ہیں جو کہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹو ہیں، شوکت بیگ جو کہ پرانے بنکر ہیں اور مرکز کے ہر قسم کے اکاؤنٹس اور اخراجات کو منظم کرنے کے ذمے دار ہیں۔اس مرکز میں گردوں کے ڈائیلسز کے علاوہ او پی ڈی بھی ہوتی ہے جس میں ایک لیڈی ڈاکٹر ہر روز اپنے فرض کی انجام دہی کرتے ہوئے لگ بھگ صبح آٹھ بجے سے لے کر دن دو بجے تک ساٹھ سے ستر مریضوں کو چیک کرتی ہیں۔
ان مریضوں سے فقط بیس روپے پرچی کے لیے جاتے ہیں اور ہر قسم کی دوا اور انجکشن بالکل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنیوالے ڈاکٹر حضرات یا تو بغیر کسی عوضانے کے کام کرتے ہیں یا پھر برائے نام عوضانہ لیتے ہیں۔ آرگنائزنگ کمیٹی کے سب ارکان وہ ہیں جو کوئی عوضانہ تو کیا لیتے بلکہ وہ اپنی جیب سے اس مرکز کے لیے مستقل کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور چائے کا ایک کپ تک بھی کسی فنڈ میں سے پینا حرام سمجھتے ہیں۔اس مرکز میں کل بیس ڈائیلسز مشینیں ہیں اور سو مریض ان کے ہاں فہرست میں ہیں، ایک مشین کی قیمت لگ بھگ بارہ لاکھ ہوتی ہے اور اس کی عمر چھ برس ہوتی ہے۔ ان بیس مشینوں کی مدد سے یہاں ہر روز چونتیس مریضوں کا ڈائیلسز کیا جاتا ہے، ایک ڈائیلسز کم از کم چار گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے اور یوں اگر ساری مشینیں بالکل درست حالت میں ہوں تو چونتیس مریضوں کا ڈائیلسز کیا جا سکتا ہے۔ جب کسی مریض کے گردے مکمل طور پر جواب دے جاتے ہیں تو اس کے بعد مصنوعی طریقے سے اس کے خون کی صفائی کی جاتی ہے، اس کے لیے ڈائیلسز مشینیں استعمال کی جاتی ہیں۔
یہاں صرف بیس فیصد مریضوں سے ڈائیلسزکی فیس لی جاتی ہے اور وہ بھی وہ لوگ ہیں جو کہ اپنے والدین کا علاج زکوۃ کی رقم سے نہیں کروانا چاہتے، مگر ان سے بھی وہ فیس نہیں لی جاتی جو کہ عام اسپتالوں میں رائج ہے۔ عموما یہ فیس پانچ سے سات ہزار تک لی جاتی ہے مگر یہاں جو لوگ یہ فیس ادا کرنا چاہتے ہیں وہ فقط پندرہ سو لی جاتی ہے اور یہ اس kitکی قیمت جو کہ خون کی صفائی کے عمل میں استعمال کی اور پھر ضایع کر دی جاتی ہے۔ اس ادارے کو بیت المال کے ساتھ ان مخیر حضرات کی سر پرستی حاصل ہے جو کہ اپنے وسائل کو دوسرے انسانوں کی بہتری کے لیے خرچ کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں، اللہ کی خوشنودی پاتے اور مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں بیرون ممالک سے مشینوں کی صورت میں عطیات اور رقوم کی صورت میں امداد بھجوانے والے لوگ بھی ہیں ۔حال میں میں جنرل (ریٹائرڈ) ایاز احمد نے ایک RO Plant اس مرکز کو ہبہ کیا ہے، اس کی لاگت لگ بھگ تیس لاکھ روپے ہے اور اس کی اہمیت کسی بھی ڈائیلسز مرکز میں سب سے بڑھ کر ہے۔ اس پلانٹ میں وہ پانی فلٹر کر کے تیار کیا جاتا ہے جو کہ گردوں کی صفائی کے عمل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس پلانٹ کے مل جانے سے اس مرکز کو یہ سہولت ہو گئی ہے کہ جو پانی پہلے کہیں اور سے لینا پڑتا تھا وہ اب یہاں خود تیار کیا جا سکتا ہے۔
اس مرکز کے پاس دو ایمبولینس بھی ہیں جو مریضوں کی منتقلی اور ہنگامی حالات میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس مرکز کی پوری عمارت کی تعمیر اور سہولیات کے حصول میں بھی لوگوں کے عطیات کی بڑی اہمیت ہے، اس میں سے عمارت میں اوپر نیچے آنے جانے کے لیے لفٹ، مختلف کمروں اور وارڈز کی تعمیر اور ضروری آلات کی فراہمی، مرکز کی اپنی لیبارٹری جس میں کہ بنیادی ٹسٹ وغیرہ کیے جاتے ہیں، جنریٹر اور دیگر ضروریات مثلاً ہیٹر اور اے سی وغیرہ شامل ہیں جو کہ اس مرکز کی انتہائی بنیادی ضروریات ہیں۔ جنریٹر میں ڈیزل ان کا سب سے بڑا خرچہ ہے کیونکہ اگر ڈائیلسز کے عمل کے دوران بجلی بند ہو جائے تو مشین میں موجود خون چند منٹوں میں جم جاتا ہے اور ضایع ہو جاتا ہے اس لیے اس انتہائی موثر جنریٹر کا ہونا بہت ضروری ہے جو کہ اس مرکز کو وقف کیا گیا تھا۔
گردوں کے مریض کو ہفتے میں دو ڈائیلسز کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مرکز میں لوگ دور دور سے آتے ہیں... کئی مریض پچھلے چھ برس سے آ رہے ہیں۔ ڈائیلسز سے نہ کسی کے گردے صحت یاب ہو سکتے ہیں نہ کسی کی عمر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے مگر اتنا ہے کہ مریض اپنی عمر کے آخری چند برس اس علاج سے کچھ بہتر انداز میں گزار سکتا ہے بجائے اس کے کہ وہ سسک سسک کر مو ت کا انتظار کرتا رہے۔ یہ طریقہ علاج انھیں موت سے ہمکنار ہونے تک ایک امید سے منسلک رکھتا ہے... ان لوگوں کے لیے یہ مرکز امید کا منبع ہے جن کے پاس اس کی سکت نہیں اور ان کے دلوں سے ان لوگوں کے لیے دعائیں نکلتی ہیں جو اپنی دولت میں سے چند فیصد نکال کر انھیں علاج مہیا کرنے کی کاوش کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس مرکز میں ہر مشین کے ساتھ دیوار پر ایک تختی لگی ہوئی ہے جس پر عطیہ دینے والے کا نام لکھا ہوا ہے... اس مرکز میں آنیوالا ہر شخص ان ناموں کو پڑھ کر ایک بار ان لوگوں کے لیے ضرور دعا گو ہوتا ہے۔ سلام ہے ان لوگوں کو جو اس نیک عمل کو تسلسل کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہیں اور اپنے قیمتی وقت میں سے بہت سارا وقت ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو ہماری توجہ کے طالب اور مستحق ہیں۔
پورے مرکز کو دیکھنے اور سراہنے کے بعد جب واپسی کا عزم کیا تو شوکت بیگ صاحب نے مجھے ایک خالی دیوار دکھائی، جس پر چار پوائنٹ تھے مگر ان کے ساتھ اور کچھ نہ تھا، انھوں نے بتایا کہ اس مرکز میں رجسٹرڈ مریضوں کے حساب سے فوری طور پر چار مریضوں کی اور اس کے بعد اگلے مرحلے میں اس مرکز کی توسیع کی ضرورت ہے... میں اس کالم کے توسط سے اپنے اندرون اور بیرون ملک قارئین سے درخواست کرتی ہوں کہ اپنے زکوۃ، صدقات اور عطیات کے لیے فوری رابطہ کریں تا کہ آپ کی مدد سے کسی کو علاج کی سہولت میسر ہو سکے...
فون نمبرز۔ 051-5683036-37-38
info@pkpa.org.pk
www.facebook.com/pkpaorg
عموماً جب کسی کو کوئی لا علاج بیماری لاحق ہو جاتی ہے یا کوئی بھی مرض اپنی آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو مریض کو علم ہو جاتا ہے کہ اس کے پاس گنی چنی سانسیں رہ گئی ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہمیں ان پیاروں کی فکر پڑ جاتی ہے جن کو ہم اپنے لواحقین کے طور پر چھوڑ کر جانے والے ہوتے ہیں یا پھر اپنے اثاثوں اور جائیداد کی اور اولاد کی... مگر وہ کہ جنھیں اللہ تعالی نیکی کی توفیق دیتا ہے اور جن کے دل میں ایسے حالات میں یہ سودا سما جاتا ہے کہ اس مختصر مہلت کو وہ کسی ایسے کام میں صرف کریں جو نامہء اعمال کی صورت ان کے ساتھ جانا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا کرنل شمیم احمد جاوید کے ساتھ کہ وہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور یقینا اس دور میں انھیں وہ سہولیات اور علاج کی options میسر نہ ہو ںگی تو ان کے دل میں اس منصوبے کا خیال آیا جسے تکمیل تک پہنچتے ہوئے دیکھنا اپنی زندگی میں نصیب نہ ہوا، مگر جس مرض سے ان کا انتقال ہوا اس کے علاج کا ایک ایسا مرکز بنا گئے کہ جس کی مثال شاید ہمیں ڈھونڈنے سے نہ ملے۔
راولپنڈی کے علاقے کمال آباد میں، کلمہ چوک کے قریب (نادرا کے دفتر سے چند سو گز کے فاصلے پر) اس عمارت کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس پر Pakistan Kidney Patients Association لکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنی بیماری کے دوران کرنل شمیم احمد نے Kidney Dialysis Centreکی بنیاد ایک کمرے اور اپنے کل سرمائے سے اس کی ابتدا کی اور ان کی وفات کے بعد جب اس عمارت کی تکمیل ہوئی تو1997 میں ان کی بیگم نے اس عمارت کا افتتاح کیا۔ ملک میں اس وقت ناقص خوراک اور پینے کے ناقص پانی کی فراہمی کے باعث گردوں کے امراض عروج پر ہیں اور جتنے بھی اسپتال اور مراکز ہیں وہ ناکافی لگتے ہیں۔ اس مرکز کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ یہاں پر مستحق افراد کو مفت علاج کی سہولت میسر ہے۔
''دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو گردوں کی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور میں آپ کو ایک ایسی جگہ دکھانا چاہتا ہوں جو اپنی نوعیت کی ایک جگہ ہے اور ممکن ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس کا علم بھی نہ ہو...'' کرنل مشتاق حسین قریشی صاحب جو کہ میرے ایک انتہائی محترم بزرگ ہیں، انھوں نے مجھ سے کہا اور پھر مجھے اس مرکز کے بارے میں کچھ معلوماتی بروشر بھجوائے اور میں ان کی شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے زندگی کے ایک ایسے پہلو سے متعارف کروایا جس سے ہم سب عموما واقف نہیں ہوتے۔
اس ڈائیلیسز مرکز میں وہ بھی کمیٹی کے ایک ایسے رکن ہیں جو اپنی خدمات کا عوضانہ فقط دعاؤں کی صورت میں لیتے ہیں۔ اس مرکز کی آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) ظہیر الدین ہیں۔ اس کے بعد اس مرکزکے روح رواں کرنل (ریٹائرڈ) یونس بھٹی ہیں جن کے ساتھ کرنل (ریٹائرڈ) مشتاق حسین بھٹی ہیں جو کہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹو ہیں، شوکت بیگ جو کہ پرانے بنکر ہیں اور مرکز کے ہر قسم کے اکاؤنٹس اور اخراجات کو منظم کرنے کے ذمے دار ہیں۔اس مرکز میں گردوں کے ڈائیلسز کے علاوہ او پی ڈی بھی ہوتی ہے جس میں ایک لیڈی ڈاکٹر ہر روز اپنے فرض کی انجام دہی کرتے ہوئے لگ بھگ صبح آٹھ بجے سے لے کر دن دو بجے تک ساٹھ سے ستر مریضوں کو چیک کرتی ہیں۔
ان مریضوں سے فقط بیس روپے پرچی کے لیے جاتے ہیں اور ہر قسم کی دوا اور انجکشن بالکل مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں کام کرنیوالے ڈاکٹر حضرات یا تو بغیر کسی عوضانے کے کام کرتے ہیں یا پھر برائے نام عوضانہ لیتے ہیں۔ آرگنائزنگ کمیٹی کے سب ارکان وہ ہیں جو کوئی عوضانہ تو کیا لیتے بلکہ وہ اپنی جیب سے اس مرکز کے لیے مستقل کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور چائے کا ایک کپ تک بھی کسی فنڈ میں سے پینا حرام سمجھتے ہیں۔اس مرکز میں کل بیس ڈائیلسز مشینیں ہیں اور سو مریض ان کے ہاں فہرست میں ہیں، ایک مشین کی قیمت لگ بھگ بارہ لاکھ ہوتی ہے اور اس کی عمر چھ برس ہوتی ہے۔ ان بیس مشینوں کی مدد سے یہاں ہر روز چونتیس مریضوں کا ڈائیلسز کیا جاتا ہے، ایک ڈائیلسز کم از کم چار گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے اور یوں اگر ساری مشینیں بالکل درست حالت میں ہوں تو چونتیس مریضوں کا ڈائیلسز کیا جا سکتا ہے۔ جب کسی مریض کے گردے مکمل طور پر جواب دے جاتے ہیں تو اس کے بعد مصنوعی طریقے سے اس کے خون کی صفائی کی جاتی ہے، اس کے لیے ڈائیلسز مشینیں استعمال کی جاتی ہیں۔
یہاں صرف بیس فیصد مریضوں سے ڈائیلسزکی فیس لی جاتی ہے اور وہ بھی وہ لوگ ہیں جو کہ اپنے والدین کا علاج زکوۃ کی رقم سے نہیں کروانا چاہتے، مگر ان سے بھی وہ فیس نہیں لی جاتی جو کہ عام اسپتالوں میں رائج ہے۔ عموما یہ فیس پانچ سے سات ہزار تک لی جاتی ہے مگر یہاں جو لوگ یہ فیس ادا کرنا چاہتے ہیں وہ فقط پندرہ سو لی جاتی ہے اور یہ اس kitکی قیمت جو کہ خون کی صفائی کے عمل میں استعمال کی اور پھر ضایع کر دی جاتی ہے۔ اس ادارے کو بیت المال کے ساتھ ان مخیر حضرات کی سر پرستی حاصل ہے جو کہ اپنے وسائل کو دوسرے انسانوں کی بہتری کے لیے خرچ کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں، اللہ کی خوشنودی پاتے اور مر کر بھی امر ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں بیرون ممالک سے مشینوں کی صورت میں عطیات اور رقوم کی صورت میں امداد بھجوانے والے لوگ بھی ہیں ۔حال میں میں جنرل (ریٹائرڈ) ایاز احمد نے ایک RO Plant اس مرکز کو ہبہ کیا ہے، اس کی لاگت لگ بھگ تیس لاکھ روپے ہے اور اس کی اہمیت کسی بھی ڈائیلسز مرکز میں سب سے بڑھ کر ہے۔ اس پلانٹ میں وہ پانی فلٹر کر کے تیار کیا جاتا ہے جو کہ گردوں کی صفائی کے عمل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس پلانٹ کے مل جانے سے اس مرکز کو یہ سہولت ہو گئی ہے کہ جو پانی پہلے کہیں اور سے لینا پڑتا تھا وہ اب یہاں خود تیار کیا جا سکتا ہے۔
اس مرکز کے پاس دو ایمبولینس بھی ہیں جو مریضوں کی منتقلی اور ہنگامی حالات میں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس مرکز کی پوری عمارت کی تعمیر اور سہولیات کے حصول میں بھی لوگوں کے عطیات کی بڑی اہمیت ہے، اس میں سے عمارت میں اوپر نیچے آنے جانے کے لیے لفٹ، مختلف کمروں اور وارڈز کی تعمیر اور ضروری آلات کی فراہمی، مرکز کی اپنی لیبارٹری جس میں کہ بنیادی ٹسٹ وغیرہ کیے جاتے ہیں، جنریٹر اور دیگر ضروریات مثلاً ہیٹر اور اے سی وغیرہ شامل ہیں جو کہ اس مرکز کی انتہائی بنیادی ضروریات ہیں۔ جنریٹر میں ڈیزل ان کا سب سے بڑا خرچہ ہے کیونکہ اگر ڈائیلسز کے عمل کے دوران بجلی بند ہو جائے تو مشین میں موجود خون چند منٹوں میں جم جاتا ہے اور ضایع ہو جاتا ہے اس لیے اس انتہائی موثر جنریٹر کا ہونا بہت ضروری ہے جو کہ اس مرکز کو وقف کیا گیا تھا۔
گردوں کے مریض کو ہفتے میں دو ڈائیلسز کروانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مرکز میں لوگ دور دور سے آتے ہیں... کئی مریض پچھلے چھ برس سے آ رہے ہیں۔ ڈائیلسز سے نہ کسی کے گردے صحت یاب ہو سکتے ہیں نہ کسی کی عمر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے مگر اتنا ہے کہ مریض اپنی عمر کے آخری چند برس اس علاج سے کچھ بہتر انداز میں گزار سکتا ہے بجائے اس کے کہ وہ سسک سسک کر مو ت کا انتظار کرتا رہے۔ یہ طریقہ علاج انھیں موت سے ہمکنار ہونے تک ایک امید سے منسلک رکھتا ہے... ان لوگوں کے لیے یہ مرکز امید کا منبع ہے جن کے پاس اس کی سکت نہیں اور ان کے دلوں سے ان لوگوں کے لیے دعائیں نکلتی ہیں جو اپنی دولت میں سے چند فیصد نکال کر انھیں علاج مہیا کرنے کی کاوش کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس مرکز میں ہر مشین کے ساتھ دیوار پر ایک تختی لگی ہوئی ہے جس پر عطیہ دینے والے کا نام لکھا ہوا ہے... اس مرکز میں آنیوالا ہر شخص ان ناموں کو پڑھ کر ایک بار ان لوگوں کے لیے ضرور دعا گو ہوتا ہے۔ سلام ہے ان لوگوں کو جو اس نیک عمل کو تسلسل کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہیں اور اپنے قیمتی وقت میں سے بہت سارا وقت ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو ہماری توجہ کے طالب اور مستحق ہیں۔
پورے مرکز کو دیکھنے اور سراہنے کے بعد جب واپسی کا عزم کیا تو شوکت بیگ صاحب نے مجھے ایک خالی دیوار دکھائی، جس پر چار پوائنٹ تھے مگر ان کے ساتھ اور کچھ نہ تھا، انھوں نے بتایا کہ اس مرکز میں رجسٹرڈ مریضوں کے حساب سے فوری طور پر چار مریضوں کی اور اس کے بعد اگلے مرحلے میں اس مرکز کی توسیع کی ضرورت ہے... میں اس کالم کے توسط سے اپنے اندرون اور بیرون ملک قارئین سے درخواست کرتی ہوں کہ اپنے زکوۃ، صدقات اور عطیات کے لیے فوری رابطہ کریں تا کہ آپ کی مدد سے کسی کو علاج کی سہولت میسر ہو سکے...
فون نمبرز۔ 051-5683036-37-38
info@pkpa.org.pk
www.facebook.com/pkpaorg