آن لائن کاروبار کچھ ضروری باتیں

پاکستان کا محکمہ ڈاک آن لائن کاروبار کی وسعت پذیری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے

خواتین کو معاشی میدان میں بہتر مقام دلانے کےلیے آن لائن کاروبار ایک بہترین موقع مہیا کرسکتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

نوجوانوں کے مسائل کی نشاندہی ہمیشہ سے اہل قلم کا ایک اہم موضوع خیال کی جاتی رہی ہے۔ یہ ہمہ جہت موضوع ہے جسے ایک دو مضامین میں واضح نہیں کیا جاسکتا۔ میں یہاں ایک خاص مسئلے یعنی ''روزگار'' کا حل تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔

بنیادی تعلیم پہلے کی نسبت آسان ہوتی جا رہی ہے۔ بہت سے ایسے مضامین جن میں اعلی تعلیم پہلے یورپ و امریکہ کا سفر کیے بغیر تصور بھی نہیں کی جاسکتی تھی، اب پاکستانی جامعات میں پڑھائے جانے لگے ہیں۔ ہمارے ہاں گریجویٹس کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ جہاں خوش آئند بات ہے وہیں اس اضافے نے تشویش کو بھی دعوت دینا شروع کردی ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں اور پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے نہ صرف معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں بلکہ نفسیاتی اور سماجی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

صنعت کو توانائی کی کمی نے ڈس رکھا ہے جس سے عام گھرانے کے نوجوانوں کےلیے روزگار حاصل کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں روایتی کاروبار پر نسل در نسل تجارت سے منسلک خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔ مقابلہ اس قدر سخت کہ نئے آنے والوں کا اپنے پسندیدہ علاقوں میں دکان یا دفتر حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ بالفرض دکان مل بھی جائے تو اس کا کرایہ نکالنا سہل نہیں۔ یوں نئے آنے والے افراد محدود سرمائے سے اپنے روزگار کا بندوبست کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

ورکنگ ویمن کےلیے تو حالات اس سے بھی سخت ہیں۔ بلکہ ایسی خواتین کو ہر وقت ایک جنگ کا سامنا رہتا ہے۔ خود کو اس بات پر قائل کرنا کہ انہیں برسرِ روزگار ہونا ہے ایک ذہنی کشمکش کا مرحلہ ہے۔ اس کے بعد خاندان اور اہل محلہ کی مزاحمت فیصلہ بدلنے کی مسلسل دعوت دیتی رہتی ہے۔ فرض کیجیے کہ یہاں سے گزر لیا جائے تو دفتر یا فیکٹری کا ماحول اسے یہ باور کراتا رہتا ہے کہ اس نے نامناسب راستے کا انتخاب کیا ہے۔ سب سے گھناؤنی بات تو یہ ہے کہ ایسی خاتون کے کردار پر رائے دینا تقریباً ہر بندہ اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ کاروبار میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہیں اگر کوئی بیوٹی پارلر یا بوتیک بنا بھی لے تو ایک بڑا طبقہ فیشن انڈسٹری کو غیر اسلامی تصور کرتا ہے۔

ایسے میں آن لائن بزنس سے متعلق اپنی گزارشات قارئین تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ ممکن ہے کسی کےلیے روزگار کا انتظام ہو جائے اور میرے لئے دعاؤں کا۔ یو اے ای میں ایک کاروبار جو تیزی کے ساتھ فروغ پا رہا ہے وہ آن لائن بزنس ہے۔ نامور ویب سائٹس بڑے پیمانے پر صارفین کو گھر کی دہلیز پر خریداری کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ صارفین کےلیے تین باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں: پہلی یہ کہ مطلوبہ پروڈکٹ (شے) کا معیار کیا ہے؛ کمپنی کا ترسیلی (ڈیلیوری) نظام کیسا ہے؛ اور بعد از فروخت خدمات کیسی ہیں۔

دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اس لئے اس کے اثرات سے کسی بھی مارکیٹ کو محفوظ رکھنا تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی آن لائن بزنس تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ تاہم ابھی تک ترسیلی نظام میں بہت سی ایسی خرابیاں ہیں جنہیں دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان پوسٹ جو کئی برسوں سے خسارے میں جارہا ہے اگر موجودہ حالات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کر لے تو بہتر منافع کما سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی مقبولیت نے اس نوعیت کے کام کو آسان بنا دیا ہے۔ پاکستان کی نصف سے زائد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ اس وقت کوئی بھی کوریئر سروس اتنی فعال نہیں جو پاکستان کے تمام دیہاتوں اور قصبوں میں اپنا فعال ترسیلی نظام رکھتی ہو۔


میرے تین دوست اس طرز کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ لاہور میں مقیم دوست بچوں کے ملبوسات کی فروخت کرتے ہیں۔ انہیں پاکستان بھر سے آرڈر ملتے ہیں۔ کاروبار میں ہر گزرتے دن کے ساتھ وسعت آتی جارہی ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں جب یہ پوچھا کہ اس طرز کے کاروبار میں کیا مشکلات پیش آتی ہیں تو ان کا جواب تھا: خریدار کا اعتماد حاصل کرنا سب سے زیادہ اہم مرحلہ ہے۔ مارکیٹ میں عمومی طور پر لوگ آن لائن خریداری سے متنفر دکھائی دیتے ہیں۔ قابلِ اعتماد خریداروں کو بروقت ترسیل دوسرا اہم ترین نکتہ ہے۔ خریدار آن لائن ادائیگی سے بھی گھبراتا ہے۔ زیادہ تر آرڈر کیش آن ڈیلیوری کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ مشہور کوریئر سروسز سے کیش آن ڈیلیوری اکاؤنٹ لینا آسان نہیں۔ ان کی شرائط اور ضوابط خاصی بھاری بھرکم ہیں۔ اگر اکاؤنٹ حاصل بھی کرلیا جائے تو دیہی علاقوں تک ان کی رسائی نہیں جس سے خریدار کو ذہنی کوفت سے گزرنا پڑتا ہے۔

ایسے میں پاکستان پوسٹ ہی واحد آسرا رہ جاتا ہے۔ پاکستان پوسٹ میں پارسل کی ٹریکنگ کا کوئی انتظام نہیں جس سے خریدار کے ساتھ وعدہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ وعدے کا ایفاء تو مشکل تر۔ ایک اور وبا جو پاکستان پوسٹ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے وہ ہے پوسٹ مین کی اجارہ داری۔ کئی پوسٹ مین جعلی دستخطوں کے ذریعے رقوم نکلوا کر اپنے تصرف میں لے آتے ہیں جس کی واپسی کبھی قسط وار اور کبھی ناممکن بنادی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی شہر سے مختلف سپلائرز کی کاروباری لاگت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی ایک پارٹی سے پیسے پکڑ کر مقابل کے پارسل تاخیر کا شکار کر دیتے ہیں۔ اگر زیادہ سوال جواب کئے جائیں تو پارسل واپس تھما دیتے ہیں کہ متعلقہ پتا درست نہیں۔ اگر شکایت کی جائے تو کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ پوسٹ مین کا تو یہ تکیہ کلام ہے کہ جسے بتا سکتے ہو بتاؤ، مجھے فرق نہیں پڑنے والا۔

دوسرے دوست اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ کھیلوں کا سامان بالخصوص باکسنگ کٹس یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں آن لائن فروخت کرتے ہیں۔ ان کے گاہک کریڈٹ کارڈ سے خریداری کرتے ہیں۔ انہیں نہ ہی اپنی رقم ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے اور نہ سامان کے غیر معیاری ہونے کا اندیشہ۔ بین الاقوامی کوریئر سروسز کے ذریعے ترسیل کا بندوبست کرتے ہیں۔ ریئل ٹائم ٹریکنگ سسٹم کی بدولت صارف کو ذہنی کوفت سے بھی نہیں گزرنا پڑتا۔ یہ معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا تجربہ ہے۔ ہمیں اس نہج تک پہنچنے میں شاید کئی سال لگیں گے۔

تیسرے دوست کراچی میں آن لائن کریانہ اسٹور چلاتے ہیں۔ یہ اپنے نزدیکی علاقے میں سامان مہیا کرتے ہیں۔ ترسیل کےلیے خود جاتے ہیں۔ ان کا صارفین کے ساتھ ایک قریبی تعلق بنتا جارہا ہے۔ وہ اپنے اس تجربے سے بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی شرح فروخت کسی اچھے علاقے کی سپر مارکیٹ کے برابر ہے۔ تاہم ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ شروع میں لوگ چیزوں کے معیار سے متعلق فکر مند رہتے تھے مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔

خواتین کو معاشی میدان میں بہتر مقام دلانے کےلیے آن لائن کاروبار ایک بہترین موقع مہیا کرسکتا ہے۔ معمولی تربیت اور سوشل میڈیا کی بدولت خواتین زیادہ بہتر طور پر صارفین کی توجہ حاصل کرسکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بہتر ملازم پیدا کرنے کے بجائے بہترین آجر پیدا کریں اس سے نہ صرف کاروباری مواقع میں اضافہ ہوگا بلکہ سماجی ناہمواری کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

ہم میں سے ہر شخص کے اندر یہ خواہش موجود رہتی ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرسکے۔ یقین مانیے کہ بہترین مدد کسی کےلیے باعزت روزگار کا انتظام کرنا ہے۔ اگر ہم کسی کےلیے کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اپنے اردگرد ضرورت مند لوگوں کے روزگار کا بندوبست کرنے میں مدد مہیا کریں۔ یہ مدد مالی بھی ہوسکتی ہے، کسی کو متعارف کروا کر بھی کی جاسکتی ہے، کسی کو بہتر مشورہ دے کر کی جاسکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story