روہنگیا مسلمان بنگلا دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں بے بسی کی تصویر بن گئے
بنیادی سہولیات کی کمی کے باعث روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے
میانمار میں ریاستی جبر کا شکار لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلا دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں بے بسی اور افلاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق دس لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان بنگلا دیش میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیئے گئے یہ افراد اسی فکر میں اپنے روز و شب گزارتے ہیں کہ انہیں اگلے وقت کا کھانا ملے گا بھی یا نہیں، اگر ملے گا تو کون دے گا لیکن یہ لوگ اپنے مستقبل سے ناامید نہیں ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے کیمپ میں مقیم زہرہ بیگم اور ان کاخاندان پیدل سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں داخل ہوا، زہرہ بیگم کا کہنا ہے کہ راکھین میں موجود مسلمانوں کی حالت زار بہت خراب ہے تاہم انہیں یہاں آکر بہت سکون ملا ہے۔
ایک اور خاتون سمیرا اختر کا کہنا تھا کہ بہت سے مہاجرین سمندر کے راستے بنگلا دیش آ تے ہوئے کشتی ڈوبنے کے باعث ہلاک ہوگئے۔
رواں ماہ 11 اکتوبر کو 20 سالہ حسینہ اختر نے مہاجرین کیمپ میں محمد جوبید کو جنم دیا، حسینہ نے اس وقت اپنا آبائی علاقہ چھوڑا جب وہ حاملہ تھیں تاہم کشیدہ حالات کےباعث وہ لوگ بنگلہ دیش آگئے۔ حسینہ کے گھر یہ دوسرے بچے کی پیدائش ہے اور وہ اپنے بچے کی پرورش کے لیے فکر مند ہیں۔
18 سالہ محمد یوسف کیمپوں میں پناہ گزینوں کی تعداد سے پریشان ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مزید لوگوں کی آمد سے ان کی زندگی میں پریشانیاں آگئی ہیں۔ اس سے پہلے یہاں کے لوگوں اورحکام کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک تھا لیکن جب سے مزید لوگ آئے ہیں حکام کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے۔
دوسری جانب 80 سالہ زمل کی بیٹی اپنی اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے مہاجرین کو دی جانے والی خوراک جمع کرتی ہے اور یہ لوگ اسی خوراک پر گزارا کرتے ہیں، میانمار میں زمل کا پورا گاؤں ہی جلا دیا گیا تھا۔ زمل نے جذباتی لہجے میں کہا کہ وہ واپس میانمار جانا نہیں چاہتیں بلکہ یہیں مرنا چاہتی ہیں۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق دس لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمان بنگلا دیش میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیئے گئے یہ افراد اسی فکر میں اپنے روز و شب گزارتے ہیں کہ انہیں اگلے وقت کا کھانا ملے گا بھی یا نہیں، اگر ملے گا تو کون دے گا لیکن یہ لوگ اپنے مستقبل سے ناامید نہیں ہوئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے کیمپ میں مقیم زہرہ بیگم اور ان کاخاندان پیدل سرحد پار کرکے بنگلہ دیش میں داخل ہوا، زہرہ بیگم کا کہنا ہے کہ راکھین میں موجود مسلمانوں کی حالت زار بہت خراب ہے تاہم انہیں یہاں آکر بہت سکون ملا ہے۔
ایک اور خاتون سمیرا اختر کا کہنا تھا کہ بہت سے مہاجرین سمندر کے راستے بنگلا دیش آ تے ہوئے کشتی ڈوبنے کے باعث ہلاک ہوگئے۔
رواں ماہ 11 اکتوبر کو 20 سالہ حسینہ اختر نے مہاجرین کیمپ میں محمد جوبید کو جنم دیا، حسینہ نے اس وقت اپنا آبائی علاقہ چھوڑا جب وہ حاملہ تھیں تاہم کشیدہ حالات کےباعث وہ لوگ بنگلہ دیش آگئے۔ حسینہ کے گھر یہ دوسرے بچے کی پیدائش ہے اور وہ اپنے بچے کی پرورش کے لیے فکر مند ہیں۔
18 سالہ محمد یوسف کیمپوں میں پناہ گزینوں کی تعداد سے پریشان ہیں، ان کا کہنا تھا کہ مزید لوگوں کی آمد سے ان کی زندگی میں پریشانیاں آگئی ہیں۔ اس سے پہلے یہاں کے لوگوں اورحکام کا رویہ ان کے ساتھ ٹھیک تھا لیکن جب سے مزید لوگ آئے ہیں حکام کا رویہ تبدیل ہوگیا ہے۔
دوسری جانب 80 سالہ زمل کی بیٹی اپنی اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے مہاجرین کو دی جانے والی خوراک جمع کرتی ہے اور یہ لوگ اسی خوراک پر گزارا کرتے ہیں، میانمار میں زمل کا پورا گاؤں ہی جلا دیا گیا تھا۔ زمل نے جذباتی لہجے میں کہا کہ وہ واپس میانمار جانا نہیں چاہتیں بلکہ یہیں مرنا چاہتی ہیں۔