مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نئے اقدامات

بات پر غور کرنا چاہیے کہ دونوں ملک کس طرح دوریاں ختم کر سکتے ہیں۔


کلدیپ نئیر October 27, 2017

بھارتی حکومت نے سابق آئی بی چیف دنیشور شرما Dineshwar Sharma کو مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لیے مقرر کر دیا ہے۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ایسی کوشش کی گئی ہے۔ نئی دہلی حکومت نے ماضی میں بھی اس مسئلہ پر مذاکرات کے لیے مختلف افراد کو مقرر کیا لیکن تب سرکاری افسروں کے بجائے وزراء کو مقرر کیا جاتا تھا تاکہ مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکے اور فوری طور پر کوئی قدم اٹھایا جا سکے، مگر ایسی کسی مشق کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ کشمیری لیڈر بھارت کے اس اقدام پر مطمئن نہیں ہیں اور نہ ہی کشمیریوں کی سرکاری نمایندے کے ساتھ ملاقات کے لیے کوئی مقام مقرر کیا گیا ہے۔

مذاکرات کے لیے موضوعات کا بھی تعین نہیں کیا گیا۔ لیکن دونوں فریقین چونکہ ایک دوسرے کے موقف سے آگاہ ہیں لہٰذا مذاکرات زیادہ طوالت اختیار نہیں کر سکتے۔ کشمیری چاہتے ہیں کہ وادی کو خود مختار اسلامی ریاست کا درجہ مل جائے لیکن بھارت اس بات پر تیار نہیں ہے کیونکہ وہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے پر مصر ہے۔ میں نے خود مصالحت کار کی حیثیت سے سری نگر کا بارہا دورہ کیا ہے لیکن میں بھی ان کے مطالبات قبول نہیں کر سکا۔ مجھے جس چیز سے مایوسی ہوئی وہ یہ ہے کہ سیاہ و سفید کے درمیان اب سرمئی ایریا نہیں رہا جو کہ چند سال قبل تک واضح طور پر موجود تھا۔ رویے میں اس قدر سختی آ گئی ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں سماجی روابط بھی بند ہو گئے ہیں۔

مجھے افسوس ہے کہ مجھے ایک ذاتی مثال دینا پڑ رہی ہے۔ماضی میں یسین ملک ہمیشہ مجھے اپنے گھر پر دعوت میں بلا لیتا تھا اور خاطر مدارت کرتا تھا۔ یہ درست ہے کہ اب وہ بھی علیحدگی پسندوں میں شامل ہو گیا ہے لیکن میں چاہتا تھا کہ وہ میرے ساتھ اپنے دل کی بات کرے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ میں یہ نہیں مانتا کہ یسین ملک کو میری سرینگر آمد کا علم نہیں تھا۔ وہ جموںو کشمیر لبریشن فرنٹ کا سربراہ ہے جس نے اپنے آدمی ہوائی اڈے پر تعینات کر رکھے ہیں تاکہ دیکھیں کہ کون بھارت سے یا کسی دوسری جگہ سے آتا ہے۔

یسین ملک کو علیحدگی پسندوں سے اطلاعات ملتی رہتی ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ یسین ملک خود مجھے حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بتائے جو بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہوتی ہیں جن کا میں خود جائزہ لوں، وہ اس بات پر رضا مند ہو گیا تھا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بجائے میں خود اس بارے میں تحقیقات کروں۔ ہم نے ایک رپورٹ تیار کی تھی جس میں دیکھا تھا کہ یسین ملک نے جو الزامات لگائے ہیں ان میں سے زیادہ تر درست ہیں۔ اس رپورٹ کو پاکستان میں بڑے بھرپور انداز میں شایع کیا گیا جس سے بھارت کو بہت شرمندگی ہوئی۔

یسین ملک کہتا ہے کہ وہ بھارتی نہیں ہے۔ لیکن میرے یسین ملک کے ساتھ تعلقات قومیت کی بنیادوں پر نہیں ہیں۔ کیا ذاتی تعلقات میں بھی تلخیاں پیدا ہو سکتی ہیں؟ کیا میں یہ سمجھ لوں کہ سیاسی معاملات میں ذاتی تعلقات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، اب کشمیر کا تنازعہ ہمارے درمیان حائل ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک اور مثال بھی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کس طرح ذاتی تعلقات کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ ایک دوسرا کشمیری لیڈر صابر شاہ بھی آج ایک بدلا ہوا شخص ہے۔ اس کی حیثیت میرے شاگرد بلکہ چیلے جیسی تھی۔ وہ اس وقت بھارت نواز تھا مگر اب وہ سختی سے مخالف ہو گیا ہے۔ لیکن اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر ذاتی تعلقات کیوں ختم ہو سکتے ہیں۔

یہ وہ قیمت ہے جو مجھے صابر شاہ کے خیالات میں تبدیلی کی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔ خاص طور پر ان کے لیے جو سیکولر اور جمہوری بھارت میں یقین رکھتے ہیں۔ کتنی بھی مخالفت کیوں نہ ہو ان کا اعتماد کم نہیں ہو سکتا اور اگر وہ بھی بدل جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کا پہلا موقف مضبوط نہیں تھا۔ یہی بات بھارت پر بھی صادق آتی ہے۔ ہم اس وقت مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو کی پالیسیوں پر درست انداز سے عمل درآمد نہیں کر رہے جنہوں نے کہ ہماری قوم کو اپنی جدوجہد کے ذریعے آزادی لے کر دی۔ اس بات سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے کہ بعض آوازیں نتھورام گوڈسے کی حمایت میں بھی بلند ہونے لگی ہیں جس نے مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کیا تھا۔

اگر بھارت نے مہاتما کے نظریات کو فراموش کر دیا تو اس سے مسلمانوں کی اکثریت والا کشمیر سخت غیرمحفوظ ہو جائے گا۔ ایک کشمیری مسلمان انجینئر نے جو مجھے ایئرپورٹ پر چھوڑنے آیا تھا مجھے بتایا کہ اسے ہر جگہ پر مشکوک سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ بنگلور گیا جو کہ کشمیر سے دور دراز کا ایک مقام ہے وہاں پر بھی پولیس نے صرف اس وجہ سے اسے ہراساں کیا کیونکہ وہ کشمیری مسلمان تھا۔

سیاسی پارٹیوں نے سیاست کو بہت محدود کر لیا ہے اور وہ بھی ذات پات اور دین دھرم کی شناخت تک محدود ہو گئی ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کو منوانے کی کوشش کریں۔ انھیں آزاد خیال تنظیموں کے ذریعے اپنی بات کی ترویج کرنی چاہیے اور ایسے لیڈروں کو آگے لانا چاہیے جو آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ ذات پات اور اونچ نیچ کے زہر سے ہمیں بچنا چاہیے بصورت دیگر بھارت کے دیگر علاقے مذہبی کیچڑ میں غرق ہو جائیں گے۔ یہ کشمیریوں کے مفاد میں ہے کہ ''اسٹیٹس کو'' کو خراب نہ کیا جائے تاآنکہ کوئی بہتر حل تلاش نہیں کر لیا جاتا۔ یہ اس صورت ممکن ہے جب تینوں فریق بھارت' پاکستان اور کشمیری عوام کو باہم مل کر بیٹھنا چاہیے اور ڈائیلاگ کرنا چاہیے۔

بھارت اس کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ پاکستان کو دراندازی کا مورد الزام ٹھہراتا ہے حالانکہ جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے دوران اس مسئلہ کے حل پر اتفاق رائے کر لیا گیا تھا۔ مشرف آگرہ گئے جہاں وہ وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ سمجھوتے پر تقریباً پہنچ ہی گئے لیکن بھارت کی وزیراطلاعات سشما سوراج نے سمجھوتے کے معاہدے کو بدل دیا اور اس میں سے کشمیر کا لفظ خارج کر دیا۔ اس کے بعد سے دونوں ملکوں میں خلیج میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور بعد میں مشرف کی کارگل مہم نے حالات اور زیادہ خراب کر دیے۔

یہاں میں اس افسوسناک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا جب اٹل بہاری واجپائی نے جو کہ بس میں بیٹھ کر لاہور گئے تھے۔ انھوں نے نئی دہلی سے آنے والی ایک ٹیلی گرام مجھے دکھائی جس میں بتایا گیا تھا کہ جموں کے قریب بہت سے ہندو ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ واجپائی نے کہا انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کے لاہور جانے پر بھارت میں کس قسم کا ردعمل ہو گا لیکن اس کے باوجود انھوں نے تعلقات بحال کرنے کا عزم جاری رکھنے کا اعلان کیا اور نواز شریف کے ساتھ مل کر دوستی کا مرحلہ طے کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن بعد میں جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

جہاں تک سندھ طاس معاہدے کا ذکر ہے تو میرے خیال میں اس معاہدے کو کسی اور معاہدے سے بدلا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے پاکستان رضا مندی پر تیار نہیں خواہ پانی کسی استعمال کے بغیر بحیرہ عرب کی نذر ہوتا رہے، لیکن نہ تو اس کا آبپاشی کے لیے استعمال کیا جائے اور نہ ہی بجلی کی پیداوار کے لیے۔

پاکستان میں ایک مصیبت ہے کہ وہ ہر چیز کو کشمیر سے جوڑ دیتے ہیں خواہ کشمیر سے دور کا تعلق بھی نہ ہو جو کہ بہت پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے حل ہونے میں سالہا سال لگ جائیں گے۔ سندھ طاس معاہدے پر اس انداز سے نظرثانی کرنا جس سے دونوں فریق مطمئن ہو سکیں اس سے امن کی فضا کے قائم ہونے میں مدد ملے گی۔ ہمیں چاہیے کہ اس معاہدے پر الگ طور پر غور کریں باقی چیزوں کو چھوڑ دیں۔ صرف اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ دونوں ملک کس طرح دوریاں ختم کر سکتے ہیں۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں