سیاسی اخلاقیات یا مفاد پرستی
چھوٹی پارٹیوں کے لوگ بڑی قومی پارٹیوں میں اسی لیے جاتے ہیں کہ شاید اقتدار میں آنے کا موقع مل جائے
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکریٹری سابق چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی قومی اسمبلی ندیم افضل چن نے اپنے سیاسی اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری کے اہم عہدے سے اس لیے استعفیٰ دے دیا ہے کہ ان کے بھائی وسیم افضل چن نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
سینئر سیاست دان ندیم افضل چن نے آصف علی زرداری کے استعفیٰ قبول نہ کیے جانے کے باوجود اپنا استعفیٰ واپس لینے سے معذرت کرلی ہے۔ ندیم افضل چن کا خیال ہوگا کہ بحیثیت جنرل سیکریٹری ان کی ذمے داری لوگوں کو پیپلزپارٹی میں شامل کرنا ہے جب کہ وہ اپنے بھائی کو پی ٹی آئی میں شمولیت سے نہ روک سکے تو وہ دوسروں کو پی پی میں شمولیت کے لیے راغب کیسے کرسکیں گے۔
ندیم چن نے استعفیٰ کی وجہ اپنے جس سیاسی اخلاق کو قرار دیا ہے وہ کوئی منفرد نہیں بلکہ ہر سیاسی خاندان اور سیاسی پارٹی میں عام ہے جس کو خود ساختہ جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت یہی ہے اور ہر شخص کو اپنی پسند کی سیاسی پارٹی میں جانے اور واپس آنے،کسی بھی سیاسی قائد کو پسند یا نا پسند کرنے کا حق ہے۔ سیاسی خاندانوں میں بھائی بھائی ہی نہیں بلکہ میاں بیوی، بہن بھائی جیسے قریبی اور خونی رشتے بھی کمزور پڑجاتے ہیں اور نئے سیاسی تعلق جوڑلیے جاتے ہیں اور جب چاہے توڑ بھی لیے جاتے ہیں۔
آج پھر جنرل عمر (ر) کے ایک صاحبزادے زبیر عمر مسلم لیگ ن میں اور ان کے بھائی اسد عمر پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی اور ان کے والد سابق گورنر پنجاب صادق قریشی نواز دور میں مسلم لیگ ن میں تھے پھر شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ نہ ملنے پر پیپلزپارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے جب کہ ان کے بھائی پیپلزپارٹی میں ہیں۔ سابق اسپیکر فخر امام اور ان کی اہلیہ عابدہ حسین پہلے مسلم لیگ ن میں تھے اور عابدہ حسین ن لیگی حکومت میں امریکا میں سفیر بھی رہیں اور اب پی ٹی آئی سے الیکشن لڑنا چاہتی ہے جن کا مقابلہ اپنے قریبی عزیز فیصل صالح حیات سے ہوگا جو پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر جنرل پرویز مشرف کے وزیر بن گئے تھے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھے جہاں سے وہ پیپلزپارٹی میں گئے اور اب پی ٹی آئی میں رہ کر نواز شریف کے سخت دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ق لیگ کے سربراہ سیاسی مفاہمت کے بادشاہ کہلانے والے آصف علی زرداری بھی خوب ہیں کہ جنھوں نے نواز شریف سے مل کر جنرل پرویز سے صدارت چھڑوائی پھر ججوں کے مسئلے پر نواز شریف کو ناراض کرکے صدارت حاصل کی جب کہ محترمہ کی شہادت پر انھوں نے جنرل پرویز کی حامی مسلم لیگ ق کو قاتل لیگ قرار دیا تھا مگر اپنی حکومت کی مدت پوری کرانے کے لیے اور متحدہ سے تنگ آکر اپنی ہی قرار دی گئی قاتل لیگ کو پی پی حکومت میں غیر قانونی طور پر ڈپٹی وزیراعظم تک کا عہدہ بخش دیا تھا تو پی پی کے کسی بھی رہنما نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیا تھا تو اب ندیم افضل چن کو اپنے بھائی کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے پر سیاسی اخلاقیات کیسے یاد آگئی۔
یہ ایک ایسا سوال ہے جو تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں موجود ان رہنماؤں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ان کے اصول اور سیاسی اخلاق کہاں چلا جاتا ہے جب ان کے قائدین من مانے فیصلے، پارٹی منشور اور سیاسی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو وہ خاموش کیوں رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تینوں بڑی پارٹیاں اپنے سربراہوں کی سیاسی جاگیریں ہیں اور اکثر سیاست دان اپنے سیاسی نظریے کے لیے نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے سیاسی مجبوری کے باعث مختلف پارٹیوں میں آتے جاتے ہیں اور ان کا کوئی اصول نہیں ہوتا۔ قومی پارٹیوں کے برعکس چھوٹی قومی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام، جے یو پی، جماعت اسلامی سے بہت کم لوگ اپنی پارٹی چھوڑتے ہیں وہ جے یو آئی اور جے یو پی میں رہتے ہوئے اپنے قائدین کی سیاسی مخالفت میں گروپ ضرور بنالیتے ہیں جب کہ جماعت اسلامی میں ایسی گروپنگ کبھی نہیں ہوئی۔
صوبائی اور قوم پرست پارٹیوں میں بھی گروپنگ ہے جب کہ تین بڑی پارٹی میں ایسی کوئی گروپنگ نہیں ہے کیونکہ تینوں قومی پارٹیاں ہیں جن میں پی پی پی اور ن لیگ اقتدار میں آتی رہی ہیں جب کہ دونوں سے سیاسی مفاد پرستی کے حامی اب اس امید پر پی ٹی آئی میں آرہے ہیں کہ شاید وہ اقتدار میں آجائے۔
بڑی پارٹی والوں کے مفادات بھی بڑے اور چھوٹی پارٹی والوں کے مفادات چھوٹے ہوتے ہیں۔ چھوٹی پارٹیوں کے لوگ بڑی قومی پارٹیوں میں اسی لیے جاتے ہیں کہ شاید اقتدار میں آنے کا موقع مل جائے، چھوٹے سیاسی پارٹیاں بھی اپنے اصولوں پر نہیں بلکہ سیاسی مفاد اور اقتدار کے لیے حکومتی حلیف بنتی ہیں جن کی جے یو آئی اور متحدہ میں واضح طور پر نظر آتی ہے جو کہیں حکومتی حلیف ہیں تو کہیں اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہیں۔
چوہدری شجاعت اور ان کے کزن پرویز الٰہی اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید پہلے نواز شریف کے ساتھ ان کی حکومتوں میں رہے۔ نواز شریف کی جبری جلاوطنی میں جنرل پرویز کے ساتھ مل گئے تھے اور اب تینوں سیاسی اخلاقیات پامال کرکے نواز شریف کے کٹر سیاسی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ملک سے زیادہ باہر رہنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کبھی شریف خاندان کی آنکھ کا تارا تھے جنھیں شریف برادران نے علالت کے باعث اپنے کندھوں پر بٹھاکر خانہ کعبہ کا طواف کرایا تھا اور وہ شریفوں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے آج سیاسی مخالفت میں نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف عمران خان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
سابق وزرائے اعظم اور دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف جنرل ایوب خان اور جنرل ضیا کی حکومتوں میں شامل اور دونوں جنرلوں کے قابل اعتماد سیاسی شاگرد تھے بعد میں بھٹو نے جنرل ایوب کو ڈکٹیٹر قرار دے کر ان کے خلاف تحریک چلائی اور وزیراعظم بن کر جنرل ایوب خان کے جنازے میں شرکت کرنا گوارا نہ کی جنھیں وہ اپنا سیاسی باپ کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف کو جنرل ضیا الحق سیاست میں لائے اور انھیں اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی مگر اب نواز شریف جنرل ضیا الحق کو ڈکٹیٹر قرار دیتے ہیں۔
سردار فاروق لغاری کو اپنی حکومت میں اپنا بھائی بناکر بینظیر بھٹو نے صدر بنوایا تھا مگر پی پی حکومت کی بد طرفی پر محترمہ ناراض رہیں اور صدر آصف زرداری نے فاروق لغاری کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کی تھی۔ سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک کے دو اہم سیاست دانوں نوابزادہ نصر اﷲ خان اور مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات پر تعزیت تک نہیں کی تھی اور ولی خان کی تعزیت پر چارسدہ گئے تھے،کیونکہ دونوں بڑے قومی رہنما ان کے سیاسی مخالف تھے۔
آج کی سیاست میں بے شمار ایسے سیاسی رہنما ہیں جنھوں نے اپنی سیاست پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ سے شروع کی پھر وہ پارٹیاں بدلتے رہے اور اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مخالف بن کر پی ٹی آئی کے وفادار بنے ہوئے ہیں اور انھیں سیاسی فائدہ پی ٹی آئی میں رہ کر نہ ملا تو وہ اپنی پرانی پارٹیوں میں لوٹ جائیںگے اور فخریہ کہیںگے کہ میں اپنے گھر میں واپس آگیا ہوں کیونکہ میں یہاں سے کسی اور پارٹی میں کسی وجہ سے گیا تھا مگر اب اپنی ہی پارٹی میں واپس لوٹ آیا ہوں۔