ملک کے لیے کون مخلص ہے
ملک کی تینوں بڑی جماعتیں اگلی حکومت بنانے کے لیے تمام حربے استعمال کر رہی ہیں۔
حکومت سندھ کو جوکام اقتدار کے نئے دورانیے کے آغاز میں کرنا چاہیے تھے، وہ اب آیندہ انتخابات کے قریب آجانے پر بعجلت کیے جا رہے ہیں یا شاید وہ بھی کاغذی کارروائی بھی دکھاوا بلکہ عوام کو دھوکہ دینا بھی کہا جاسکتا ہے یا پھر پری پول دھاندلی۔
عرض ''عوام کی خدمت'' تو ہرگز نہیں کہی جاسکتی، اگر جذبہ عوامی خدمت یا صوبے کے مسائل کو حل کرنا ہوتا تو انتخابات کے فوراً بعد حکومت سنبھالتے ہی ترقیاتی کاموں کا آغازکیا جاتا تاکہ اسی دور حکومت میں ان کے ثمرات بھی حاصل ہوجاتے اور عوام حکومتی کارکردگی کو دل سے سراہتے بھی۔ جب کہ کچھ کام تو ایسے تھے جن میں فنڈز وغیرہ کا بھی مسئلہ نہیں تھا مثلاً کوٹہ سسٹم کا خاتمہ۔ میرٹ پر داخلوں اور ملازمتوں کا حصول وغیرہ۔ مگر حکومت سندھ ہی نہیں وفاقی حکومت کی بھی ساڑھے چار سالہ کارکردگی عوام کے سامنے ہے بطور خاص حکومت سندھ کی۔
شہروں سے پی پی حکومت کو ویسے ہی اللہ واسطے کا بیر ہے، مگر سندھ کے دیہات میں جہاں سے وہ کامیاب ہوکر شہروں پر بھی اپنی حکمرانی مسلط کرنے میں کامیاب ہوئے کچھ نہ کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی کارکردگی نہ ہونے کو تو ''عمر کا تقاضا'' کہہ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے مگر موجودہ وزیر اعلیٰ نے ابتدا میں بڑے مثبت بیانات دے کر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ وہ بہت جلد سندھ حکومت کی کارکردگی مثالی بنا دیں گے اور تمام ترقیاتی کاموں کو نہ صرف جاری کریں گے بلکہ ان کو مقررہ مدت میں مکمل بھی کرایں گے۔
ان بیانات پر ہم نے بھی اپنے ایک اظہاریے میں ان کے عزائم کو سراہا تھا اور دعا کی تھی کہ وہ حالات پر جلد قابو پاکر سندھ کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوں۔ مگر آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کہ یہ سب کچھ زبانی کلامی ہی تھا، کیونکہ باتیں بنانا اور کام نہ کرنا شاید ہماری عادت بن چکی ہے اس لیے کہ عملی صورتحال کا دور دور پتہ نہ چلا۔ کراچی میں گندگی، پانی و فضا میں آلودگی، ملاوٹ، مہنگائی کا چرچہ تو وفاقی اداروں تک زیر بحث آتا رہا ہے، مگر سندھ کے دوسرے شہروں بلکہ دیہات میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے (ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو ایڈز زدہ خون دینے کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں ہوا) ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ سندھ حکومت مختلف شعبوں کے متعلق بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے عوام کو مطلع تو کرتی ہے کہ فلاں کام کا آغاز کیا جا رہا ہے جو بہت جلد مکمل ہوجائے گا، مگر کسی بھی شعبے کی کارکردگی بہتر ہوتی کسی کو نظر نہیں آتی۔
تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود اخبارات میں خبر آئی کہ پہلے کے مقابلے میں داخلے کم ہوئے (سرکاری اسکولوں میں) نتائج بے حد مایوس کن رہے جب کہ اساتذہ کی تعداد پہلے سے زیادہ ریکارڈ کی گئی، کثیر تعداد میں سرکاری اسکول غیر فعال رہے۔ جب اسکول غیر فعال، کارکردگی ناقص، داخلے کم تو پھر اساتذہ کی تعداد میں اضافے کا کیا مطلب؟ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اقربا پروری، رشوت خوری اور جانبداری جوں کی توں جاری ہے۔ بلاضرورت اساتذہ کا تقرر کرکے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھایا گیا ہے (اس مد میں خرچ کی گئی رقم کہاں، کیسے جاتی ہے اس پر ہم پہلے ہی روشنی ڈال چکے ہیں)اس طرح کے اقدام حکومتی ارکان کے خود اپنی حکومت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر یہ روزگار فراہم کرنا ہے تو یہ کوئی صائب طریقہ نہیں۔
حیدر آباد میں گورنمنٹ کالج (کالی موری) کو یونیورسٹی کا درجہ دینا اگرچہ حیدرآباد کے لوگوں کی دیرینہ ضرورت کو پورا کرنا ہے مگر جس وقت یہ کام کیا گیا ہے اس کو بھی ایسا ہی اقدام کہا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد کو مسلسل نظرانداز کرنے کے بعد وہاں کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی گئی ہو۔ جب کہ بہت پہلے ایم کیو ایم (اپنی ٹوٹ پھوٹ سے قبل) وہاں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کرچکی تھی مگر پی پی حکومت وہاں یونیورسٹی کے مطالبے کو ہمیشہ نظرانداز کرتی رہی اگر یہ اعلان اخلاص پر مبنی ہوتا تو آج سے برسوں پہلے ہوسکتا تھا مگر حیدرآباد پر دوسری جماعت کے اثرات زیادہ ہونے کی سزا وہاں کے عوام کو دی جاتی رہی (مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی اگر واقعی یونیورسٹی کام کا آغاز کردے)۔ بات دراصل یہ ہے کہ آیندہ انتخابات میں کچھ حاصل کرنے کی جان توڑ کوشش میں پی پی کو اب احساس ہوا کہ شہروں کو ان کے حقوق سے محروم کرکے انھوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی۔
جس کا پورا فائدہ ایم کیو ایم کو حاصل ہوا اور وہ بجا طور پر شہری نمایندگی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ تو شاید کسی سیانے نے پی پی کے کرتا دھرتاؤں کو شہروں کے مسائل کی طرف متوجہ ہونے کا مشورہ دیا ہے لہٰذا حیدر آباد پر یہ کرم فرمایا گیا کہ شاید وہاں سے کچھ سیٹیں مل جائیں مگر اب تک کراچی کی حالت زار پر پی پی کو ذرا بھی رحم آیا نہ یہاں سے کچھ نشستیں لینے کا خیال۔ جب کہ پی ٹی آئی موجودہ صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں کوشاں ہے۔
ویسے تو کہا جاتا رہا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں کہا جاسکتا، مگر ایم کیو ایم کی موجودہ تقسیم (لندن و پاکستان) کے پیش نظر کئی سیاسی جماعتیں نہ صرف بغلیں بجا رہی ہیں بلکہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے خواب بھی دیکھ رہی ہیں۔ ''آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا'' مگر یہ بھی ہے کہ پی پی کو جو نادر موقعہ ملا ہے اس پر انھوں نے کوئی خاطرخواہ لائحہ عمل آیندہ کے لیے مرتب نہیں کیا (خاص کر کراچی کے حوالے سے)۔
ہر شعبۂ زندگی میں بدعنوانیوں کے واقعات سے ذرایع ابلاغ بھرے نظر آتے ہیں۔ خاص کر قانون نافذ کرنے والوں کی قانون شکنی شہریوں کے لیے بے حد اذیت ناک ہے۔ پولیس کا ہے کام مدد آپ کی کے بجائے پولیس کا ہے کام مدد خود اپنی زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ پولیس مقابلوں پر کھلم کھلا جعلی ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ شہر میں کبھی اسٹریٹ کرائم، کبھی چھرا مار وارداتوں کو بھی اب عوام پولیس کی اپنی کارکردگی قرار دے رہے ہیں، کہ ان وارداتوں میں بے گناہ شہریوں کو حراست میں لے کر ان سے رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لاپتہ افراد کے لواحقین سے رقم مانگی جاتی ہے رقم نہ ملنے کی صورت میں ان افراد کو جعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں فیروز آباد تھانے سے ایک شہری ایک اور تھانے کے عقبی کمرے سے تین شہریوں کو پولیس کی غیر قانونی تحویل سے بازیاب کرانے کی اطلاعات اخبارات کی زینت بنیں۔ ان سب کے لواحقین سے تاوان طلب کیا گیا تھا، جب کہ ایک شہری کو مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے پر سندھ ہائی کورٹ نے ڈی آئی جی ویسٹ کو تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ یہ تو تازہ ترین واقعات ہیں، جب کہ کئی بار اس سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ عدالت نے ازخود ایسے پولیس مقابلوں کی تحقیقات کو ضروری قرار دیا ہوا ہے۔ تو کیا ایسی اہم ادارتی غیر ذمے داریوں سے حکومت کو بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
اس دور حکومت میں عام شہری تو کیا سیاسی کارکنان، مذہبی جماعتوں کے ارکان کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ایک مذہبی جماعت اپنے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے جیل بھر مہم چلا رہی ہے، مگر انتخابات جیتنے کے لیے عوامی مسائل پر مکمل پرخلوص اور بااعتماد توجہ دینے کی بجائے نئی نئی ترکیبیں بلکہ سازشیں تمام سیاسی جماعتیں بروئے کار لا رہی ہیں۔ جب کہ حکومت سندھ بھی کسی نہریں عوام دوست منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی بجائے عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے پر اپنی ساری صلاحیتیں صرف کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ ملک کی تینوں بڑی جماعتیں اگلی حکومت بنانے کے لیے تمام حربے استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں سے کسی کے لیے پاکستان اہم نہیں اپنی حکمرانی اہم ہے، کسی بھی قیمت اور کسی بھی صورت میں۔
عرض ''عوام کی خدمت'' تو ہرگز نہیں کہی جاسکتی، اگر جذبہ عوامی خدمت یا صوبے کے مسائل کو حل کرنا ہوتا تو انتخابات کے فوراً بعد حکومت سنبھالتے ہی ترقیاتی کاموں کا آغازکیا جاتا تاکہ اسی دور حکومت میں ان کے ثمرات بھی حاصل ہوجاتے اور عوام حکومتی کارکردگی کو دل سے سراہتے بھی۔ جب کہ کچھ کام تو ایسے تھے جن میں فنڈز وغیرہ کا بھی مسئلہ نہیں تھا مثلاً کوٹہ سسٹم کا خاتمہ۔ میرٹ پر داخلوں اور ملازمتوں کا حصول وغیرہ۔ مگر حکومت سندھ ہی نہیں وفاقی حکومت کی بھی ساڑھے چار سالہ کارکردگی عوام کے سامنے ہے بطور خاص حکومت سندھ کی۔
شہروں سے پی پی حکومت کو ویسے ہی اللہ واسطے کا بیر ہے، مگر سندھ کے دیہات میں جہاں سے وہ کامیاب ہوکر شہروں پر بھی اپنی حکمرانی مسلط کرنے میں کامیاب ہوئے کچھ نہ کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی کارکردگی نہ ہونے کو تو ''عمر کا تقاضا'' کہہ کر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے مگر موجودہ وزیر اعلیٰ نے ابتدا میں بڑے مثبت بیانات دے کر عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ وہ بہت جلد سندھ حکومت کی کارکردگی مثالی بنا دیں گے اور تمام ترقیاتی کاموں کو نہ صرف جاری کریں گے بلکہ ان کو مقررہ مدت میں مکمل بھی کرایں گے۔
ان بیانات پر ہم نے بھی اپنے ایک اظہاریے میں ان کے عزائم کو سراہا تھا اور دعا کی تھی کہ وہ حالات پر جلد قابو پاکر سندھ کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوں۔ مگر آہستہ آہستہ اندازہ ہوا کہ یہ سب کچھ زبانی کلامی ہی تھا، کیونکہ باتیں بنانا اور کام نہ کرنا شاید ہماری عادت بن چکی ہے اس لیے کہ عملی صورتحال کا دور دور پتہ نہ چلا۔ کراچی میں گندگی، پانی و فضا میں آلودگی، ملاوٹ، مہنگائی کا چرچہ تو وفاقی اداروں تک زیر بحث آتا رہا ہے، مگر سندھ کے دوسرے شہروں بلکہ دیہات میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے (ہیپاٹائٹس کے مریضوں کو ایڈز زدہ خون دینے کا واقعہ زیادہ پرانا نہیں ہوا) ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ سندھ حکومت مختلف شعبوں کے متعلق بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے عوام کو مطلع تو کرتی ہے کہ فلاں کام کا آغاز کیا جا رہا ہے جو بہت جلد مکمل ہوجائے گا، مگر کسی بھی شعبے کی کارکردگی بہتر ہوتی کسی کو نظر نہیں آتی۔
تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود اخبارات میں خبر آئی کہ پہلے کے مقابلے میں داخلے کم ہوئے (سرکاری اسکولوں میں) نتائج بے حد مایوس کن رہے جب کہ اساتذہ کی تعداد پہلے سے زیادہ ریکارڈ کی گئی، کثیر تعداد میں سرکاری اسکول غیر فعال رہے۔ جب اسکول غیر فعال، کارکردگی ناقص، داخلے کم تو پھر اساتذہ کی تعداد میں اضافے کا کیا مطلب؟ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اقربا پروری، رشوت خوری اور جانبداری جوں کی توں جاری ہے۔ بلاضرورت اساتذہ کا تقرر کرکے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھایا گیا ہے (اس مد میں خرچ کی گئی رقم کہاں، کیسے جاتی ہے اس پر ہم پہلے ہی روشنی ڈال چکے ہیں)اس طرح کے اقدام حکومتی ارکان کے خود اپنی حکومت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر یہ روزگار فراہم کرنا ہے تو یہ کوئی صائب طریقہ نہیں۔
حیدر آباد میں گورنمنٹ کالج (کالی موری) کو یونیورسٹی کا درجہ دینا اگرچہ حیدرآباد کے لوگوں کی دیرینہ ضرورت کو پورا کرنا ہے مگر جس وقت یہ کام کیا گیا ہے اس کو بھی ایسا ہی اقدام کہا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد کو مسلسل نظرانداز کرنے کے بعد وہاں کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کی گئی ہو۔ جب کہ بہت پہلے ایم کیو ایم (اپنی ٹوٹ پھوٹ سے قبل) وہاں یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کرچکی تھی مگر پی پی حکومت وہاں یونیورسٹی کے مطالبے کو ہمیشہ نظرانداز کرتی رہی اگر یہ اعلان اخلاص پر مبنی ہوتا تو آج سے برسوں پہلے ہوسکتا تھا مگر حیدرآباد پر دوسری جماعت کے اثرات زیادہ ہونے کی سزا وہاں کے عوام کو دی جاتی رہی (مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی اگر واقعی یونیورسٹی کام کا آغاز کردے)۔ بات دراصل یہ ہے کہ آیندہ انتخابات میں کچھ حاصل کرنے کی جان توڑ کوشش میں پی پی کو اب احساس ہوا کہ شہروں کو ان کے حقوق سے محروم کرکے انھوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری تھی۔
جس کا پورا فائدہ ایم کیو ایم کو حاصل ہوا اور وہ بجا طور پر شہری نمایندگی کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ تو شاید کسی سیانے نے پی پی کے کرتا دھرتاؤں کو شہروں کے مسائل کی طرف متوجہ ہونے کا مشورہ دیا ہے لہٰذا حیدر آباد پر یہ کرم فرمایا گیا کہ شاید وہاں سے کچھ سیٹیں مل جائیں مگر اب تک کراچی کی حالت زار پر پی پی کو ذرا بھی رحم آیا نہ یہاں سے کچھ نشستیں لینے کا خیال۔ جب کہ پی ٹی آئی موجودہ صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی تگ و دو میں نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں کوشاں ہے۔
ویسے تو کہا جاتا رہا ہے کہ سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں کہا جاسکتا، مگر ایم کیو ایم کی موجودہ تقسیم (لندن و پاکستان) کے پیش نظر کئی سیاسی جماعتیں نہ صرف بغلیں بجا رہی ہیں بلکہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے خواب بھی دیکھ رہی ہیں۔ ''آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا'' مگر یہ بھی ہے کہ پی پی کو جو نادر موقعہ ملا ہے اس پر انھوں نے کوئی خاطرخواہ لائحہ عمل آیندہ کے لیے مرتب نہیں کیا (خاص کر کراچی کے حوالے سے)۔
ہر شعبۂ زندگی میں بدعنوانیوں کے واقعات سے ذرایع ابلاغ بھرے نظر آتے ہیں۔ خاص کر قانون نافذ کرنے والوں کی قانون شکنی شہریوں کے لیے بے حد اذیت ناک ہے۔ پولیس کا ہے کام مدد آپ کی کے بجائے پولیس کا ہے کام مدد خود اپنی زیادہ اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ پولیس مقابلوں پر کھلم کھلا جعلی ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ شہر میں کبھی اسٹریٹ کرائم، کبھی چھرا مار وارداتوں کو بھی اب عوام پولیس کی اپنی کارکردگی قرار دے رہے ہیں، کہ ان وارداتوں میں بے گناہ شہریوں کو حراست میں لے کر ان سے رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لاپتہ افراد کے لواحقین سے رقم مانگی جاتی ہے رقم نہ ملنے کی صورت میں ان افراد کو جعلی مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں فیروز آباد تھانے سے ایک شہری ایک اور تھانے کے عقبی کمرے سے تین شہریوں کو پولیس کی غیر قانونی تحویل سے بازیاب کرانے کی اطلاعات اخبارات کی زینت بنیں۔ ان سب کے لواحقین سے تاوان طلب کیا گیا تھا، جب کہ ایک شہری کو مبینہ طور پر جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے پر سندھ ہائی کورٹ نے ڈی آئی جی ویسٹ کو تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ یہ تو تازہ ترین واقعات ہیں، جب کہ کئی بار اس سے قبل بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ عدالت نے ازخود ایسے پولیس مقابلوں کی تحقیقات کو ضروری قرار دیا ہوا ہے۔ تو کیا ایسی اہم ادارتی غیر ذمے داریوں سے حکومت کو بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
اس دور حکومت میں عام شہری تو کیا سیاسی کارکنان، مذہبی جماعتوں کے ارکان کوئی بھی محفوظ نہیں۔ ایک مذہبی جماعت اپنے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے جیل بھر مہم چلا رہی ہے، مگر انتخابات جیتنے کے لیے عوامی مسائل پر مکمل پرخلوص اور بااعتماد توجہ دینے کی بجائے نئی نئی ترکیبیں بلکہ سازشیں تمام سیاسی جماعتیں بروئے کار لا رہی ہیں۔ جب کہ حکومت سندھ بھی کسی نہریں عوام دوست منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی بجائے عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے پر اپنی ساری صلاحیتیں صرف کرنے پر توجہ دے رہی ہے۔ ملک کی تینوں بڑی جماعتیں اگلی حکومت بنانے کے لیے تمام حربے استعمال کر رہی ہیں۔ ان میں سے کسی کے لیے پاکستان اہم نہیں اپنی حکمرانی اہم ہے، کسی بھی قیمت اور کسی بھی صورت میں۔