امریکی فوج خطرناک ’خفیہ جنگ‘ میں پھنس گئی

 نہ صرف خواتین بلکہ مرد فوجی بھی ساتھیوں اور افسروں کی جنسی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں


تزئین حسن October 29, 2017
اعلیٰ حکام اور عدالتیں مجرموں کو تحفظ دیتی ہیں، مظلوم فوجی ملازمت چھوڑنے پر مجبور۔ فوٹو : فائل

بیس سالہ ماریا فرانسس لیٹربیخ امریکی فوج میں ملازم تھی۔ اس کی تعیناتی نارتھ کیرولینا کے میرین بیس پر تھی جہاں سے وہ 14 دسمبر2007ئکو لاپتہ ہوگئی۔ گیارہ جنوری 2008 ء کو پولیس نے اس کی جلی ہوئی لاش اسکے کمانڈنگ افسر لارین کے گھرکے پچھلے صحن سے دریافت کی۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ماریا آٹھ مہینے کی حاملہ تھی۔ اسکی سوتیلی ماں کا کہنا تھا کہ ماریا نے مرنے سے کچھ عرصہ قبل اسے بتایاتھا کہ اسے اسکے کمانڈنگ افسر نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا لیکن اسکے رپورٹ کرنے پر بھی فوجی انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ ماریا کی ماں کا کہنا تھا کہ ماریا نے کچھ عرصہ قبل جنسی ہراسانی اور زیادتی کے خطرے کے با عث اپنے بیس سے تبادلے کی درخواست دی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اگر اس کی بات پر یقین کرکے تبادلہ کردیا جاتا تو اسکا ریپ اور بعد ازاں قتل نہ ہوتا۔ یادرہے کہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فوج میں ہر سال جنسی تشدد، زیادتی، ریپ اور جنسی ہراسانی کے ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔

امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی 2017ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2016 میں امریکی فوج میں جنسی زیادتی کے 6182 کیسز فائل ہوئے۔ یہ 2012 کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہیں جب 3604 کیسز رپورٹ کئے گئے تھے۔ پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی خواتین دشمن کے حملوں میں ہلاکت کی نسبت ساتھیوں اور افسران سے ریپ کے خطرے کی زیادہ شکار ہیں۔ امریکا دنیا کی واحد سپر پاور، امریکی دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب ترین قوم گردانی جاتی ہے۔ اسٹیٹ آف آرٹ ٹیکنالوجی اور جدید ترین عسکری وسائل سے بھرپور امریکی فوج 15 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ یہ دنیا کا سب سے طاقتور اور منظم ادارہ ہے۔

ہیلن بینیڈکٹ کولمبیا جرنلزم اسکول کی پروفیسر اور دس سے زائد کتب کی مصنفہ، نے عراق اور افغانستان میں تعینات امریکی فوجی خواتین کے ساتھ رکھے جانے والے ناروا رویہ پر' Soldier The Lonely ' نامی کتاب تصنیف کی۔ ان کا لکھنا ہے کہ امریکی فوج میں جنسی تشدد کے رحجانات کا بڑا سبب عورتوں سے نفرت کا شدید کلچر ہے۔

مصنفہ نے کتاب میں عراق میں تعینات پانچ خواتین کی آپ بیتیوں کے ذریعے فوجی خواتین کو در پیش صورت حال سے آگاہ کیا۔ ہیلن کہتی ہیںکہ ویت نام میں بڑی تعداد میں جسم فروش عورتیں ( prostitutes ) موجود تھیں جو عراق میں نہیں تھیں ، اس لئے عراق میں خواتین سپاہیوں کو بھیجا گیا۔ یاد رہے جنسی زیادتی کا شکار صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد فوجی بھی اس کا شکار رہے ہیں۔ مثلاً امریکی ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق صرف 2010ء میں ایک لاکھ آٹھ ہزار سے زائد امریکی فوجی خواتین اور مرد مختلف نوعیت کے جنسی تشدد کا شکار رہے جن میں سے 68 ہزار سے زائد نے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی اور جسمانی تکلیف دور کرنے کے لئے کم از کم ایک مرتبہ ملٹری کلینکس کا رخ کیا۔

افسوسناک اور سنگین امر یہ ہے کہ یہ جنسی زیادتیاں حکام بالاکو رپورٹ کرنے کا رحجان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف پانچ میں سے ایک خاتون جبکہ پندرہ میں سے ایک مرد فوجی اپنی اعلیٰ حکام کو اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کی رپورٹ کرتا ہے۔ اس سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ شکایات مسترد کر دی جاتی ہیں اور صرف آٹھ فیصد کیسز کی تفتیش ہوتی ہے جن میں سے سزائیں محض دو فیصد کو ہوتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ امریکا جیسے ملک کے فوجی ان واقعات کو کیوں رپورٹ نہیں کرنا چاہتے؟ جو رپورٹ کرتے ہیں ان کی شکایات کو کیوں مستردکیا جاتا ہے؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ دنیا کی طاقتور ترین فوج جنسی تشدد کے ان رحجانات پرکیوں قابو نہیں پا سکی؟ 18 مئی 2015ء کو شائع ہونے والی ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں یو ایس ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایاگیا ہیکہ گزشتہ سال جنسی حملوں کے62 فیصد متاثرین جنہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو رپورٹ کیا، کا کہنا ہے کہ انہیں شکایت کے بدلے میں افسران کی دشمنی اور برے رویہ، اپنے ساتھیوں کے طنز اور طعنے، انتظامی ایکشن یا سزا کی صورت میں انتقامی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنسی حملوں کے متاثرین کی بڑی تعداد فوج چھوڑ دیتی ہے۔

یاد رہے کہ اس سروے میں صرف حاضر سروس فوجی شامل کئے گئے تھے۔ جن خواتین و حضرات نے ان حملوں کے نتیجے میں فوج کو چھوڑ دیا یا انھیں شکایات کرنے پر فوج چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا گیا، وہ شامل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ''انتقامی کارروائی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو گی''۔ انتقامی کارروائی کے اسی ڈر کی وجہ سے زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی اکثریت ان واقعات کو رپورٹ نہیں کرتی لیکن PTSD یعنی POST TRAUMATIC STRESS AND DISORDERکا شکار ہو جاتی ہے جس سے فوج میں ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

سابق امریکی وزیردفاع لیون پنیٹا کے مطابق ہر سال 19000 مرد اور فوجی عورتیں جنسی حملوں کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے صرف 3200 رپورٹ ہوتے ہیں۔ 2010ء کے اعداد و شمار کے مطابق 3198 کیسسز کو پراسیس کیا گیا اور سزائیں صرف 244 کو ہوئیں یعنی جن حملوں پر سزائیں دی گئیں وہ کل تعداد کا ایک اعشاریہ تین(1.3) فیصد سے بھی کم بنتے ہیں۔

ایوارڈ وننگ ڈائریکٹر کربی ڈک نے سن 2012 میںThe Invisible Warکے نام سے امریکی فوج میں ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعات پر ایک ڈاکومنٹری بنائی جس نے صحافت کے ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی خوب ہلچل مچائی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی فوج میں جنسی تشدد اور زیادتیوں کا کلچرشروع ہی سے موجود ہے جنہیں فوج کی اعلیٰ قیادت کی سرپرستی حاصل ہے اور اسے خاموشی سے برداشت کیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنسی حملوں سے کہیں زیادہ تکلیف دہ پہلو انہیں رپورٹ کرنے پر فوج کے اعلیٰ حکام کی طرف سے اختیار کیا جانے والا رویہ ہے جس میں سزا مجرم کے بجائے شکایت کرنے والے کو ملتی ہے۔

ایک دلچسپ صورتحال اُس وقت سامنے آئی جب ستمبر 2011ء میں 28 فوجیوں نے، جن کا دعویٰ تھا کہ انھیں فوجی سروس کے دوران ریپ کیا گیا، اُس وقت کے وزیردفاع رمسفیلڈ پر براہ راست مقدمہ کیا۔ مدعیوں کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع کی اعلیٰ قیادت کی غفلت ان مجرموں کو سزا نہ ملنے کی ذمہ دار ہے، نتیجتاً ریپ کاکلچر فوج میں فروغ پا رہا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ عدالت نے یہ کیس جس نے Cocia vs Rumsfield کے نام سے شہرت حاصل کی، سننے ہی سے انکار کر دیا۔سن 2013ء میں پینٹاگون میں امریکی ایئر فورس کے جنسی حملوں کے روک تھام کے آفس کے سربراہ جیفری کروسنسکی کو پولیس نے ارلنگٹن میں پارکنگ لوٹ میں ایک عورت پر جنسی حملے کے الزام میں گرفتار کیا، بعد ازاں جیوری نے اسے بری کر دیا۔

اس سلسلے میں پچھلی تین دہائیوں میں متعدد بڑے سکینڈل سامنے آئے جن میں جنسی زیادتی سے زیادہ فوج کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے انھیں نظر انداز کرنے اور متاثرین کی شکایت کو مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ خود شکایات کنندگان کو ڈرا دھمکاکر شکایات واپس لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شکایات کرنے والوں کو فوج سے نکالنے، ان کا عہدہ کم کر نے یا پروموشن روکنے کے متعدد واقعات بھی موجود ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہو رہی اور زیادہ تر لوگ اپنی ملازمت ختم ہو جانے کے خوف سے ان واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے۔

جنسی زیادتی کے سلسلے میں سن 1991-92ء ٹیل ہک اسکینڈل کا خوب چرچا ہوا تھا جس میں1991 ء میں آٹھ ستمبر سے 12ستمبر کے دوران میں لاس ویگاس کے ہلٹن ہوٹل میں پہلی خلیجی جنگ پر ہونے والے سمپوزیم کے دوران 83 خواتین اور سات مرد فوجیوں پر ان کے اپنے ہی100 سے زائد ساتھیوں نے جنسی حملے کیے۔ ان حملوں کے ثبوت تصویروں اور وڈیوز کی صورت میں موجود تھے۔

یہ واحد سکینڈل تھا جس میں نہ صرف ذمہ داران کو سزائیں دی گئیں بلکہ جن افسران نے انہیں روکنے کی کوشش نہ کی ان میں سے بھی متعدد افراد کا طویل فوجی کیرئیر سزاؤں کے ذریعے ختم کیا گیا۔ اسکے علاوہ 2003ء میں امریکی ائیرفورس کے ایک سکینڈل نے بھی امریکی فضائیہ کو خوب بدنام کیا جس میں ائیر فورس کی خواتین نے ایک نامعلوم ای میل کے ذریعہ حکام بالا سے رابطہ کیا۔ بعد ازاں تحقیقات کے نتیجے میں ائیر فورس کی 12 فیصد خواتین نے دعویٰ کیا کہ انہیں انکے سینئر افسران نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا لیکن اس سلسلے کا سب سے بڑا سکینڈل 1996ء کا ابرڈین گراؤنڈ سکینڈل ہی قرارپاتا ہے جس میں 100 سے زائد حاضر سروس افسران پر مقدمہ چلا اور کئی افسران کو جرم ثابت ہونے کے بعد سزائیں بھی ہوئیں۔

رئیر ایڈمرل این برکھارڈٹ جو امریکی فوج میں جنسی حملوں کے بچاؤ کے حوالے سے بننے والے ادارے کی ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ''جنسی حملے ہماری ملٹری کی اقدار کی خلاف ورزی ہے اور انہیں برداشت نہیں کیا جانا چاہئے''۔ حالیہ برسوں میں امریکا میں اس حوالے سے نئی قانون سازی کی گئی ہے خصوصاً ماریا فرانسس لیٹر بیخ کے کیس کے بعد ان شکایت کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت محسوس کی گئی جس سے زیادتی کے کیسز کی رپورٹنگ میں اضافہ ہوا، شکایات پر مقدمہ چلانے اور کورٹ مارشل کی تعداد بھی بڑھی ہے لیکن اسکے باوجود امریکی فوج اب تک اس مسئلے سے نکل نہیں سکی۔ ایک دلچسپ بلکہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان واقعات کو عورتوں پر ظلم یا حقوق نسواں کے تناظر میں نہیں دیکھا جاتا۔

بڑھتا ہوا جنسی تشدد صرف امریکی فوج ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے بیشترمعاشروں کا مسئلہ ہے ۔ یاد رہے کہ اس وقت بھارت میں ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے دہلی کو' ریپ کیپیٹل آف دا ورلڈ' بھی کہا جاتا ہے۔ ہیلن بینیڈکٹ کا کہنا ہے کہ اس مسئلے سے نکلنے کے لئے حکومت کے پالیسی سازوں اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحافیوں کو نئے زاویوں سے اس مسئلے پر روشنی ڈالنی چاہیے مثلا ً کیا پورن لٹریچراور ویب سائٹس امریکی فوج اور معاشرے بلکے دنیا بھر میں جنسی تشدد کی ذمہ دار ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں