طالبان کا قیدی کینیڈین جوڑا

دین اسلام سے رغبت رکھنے والے ایک غیرملکی جوڑے کی حیرت انگیز کہانی


سید عاصم محمود October 29, 2017
عمر خضر مشہور مصری نژاد کینیڈین سماجی کارکن، احمد خضر کا بیٹا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: یہ اکتوبر 2012ء کی بات ہے، ایک کینڈین شہری، جوشوا بوائل اپنی امریکی بیگم، کیٹلین کولمین کے ساتھ کرغزستان کے راستے افغانستان میں داخل ہوا۔ یہ جوڑا افغان علاقوں میں گھوم پھر کر نہ صرف غریب افغانوں کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ دین اسلام میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ جب یہ جوڑا صوبہ وردک میں گھوم پھر رہا تھا، تو طالبان نے انہیں اغوا کرلیا۔خیال ہے کہ وہ طالبان حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھتے تھے۔

طالبان کے قائدین خود کو دین اسلام کا پرستار کہتے ہیں، مگر کیا ایک نہتے غیر مسلم جوڑے کو اغوا کرنے کا عمل اسلامی کہلاسکتا ہے؟ یہ واقعہ حقیقتاً اسلامی جنگی اصولوں اور سلف صالحین کے طرز عمل کی نفی تھا۔حضرت اسامہ بن زیدؓ اپنا لشکر لے کر جانب فلسطین روانہ ہونے لگے، تو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں دس نصیحتیں فرمائی تھیں۔ ان میں ایک یہ تھی کہ کسی بچے یا عورت کو قتل نہ کرنا اور دوسری یہ کہ جو غیر مسلم جنگ سے کوئی تعلق نہ رکھیں، انہیں کچھ نہیں کہنا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ (صحیح مسلم۔ تاریخ طبری)

جوشوا بوائل اور اس کی بیگم کا جنگ و جدل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ طالبان نے انہیں دشمن کا جاسوس سمجھ کر گرفتار کیا۔ لیکن جب یہ اشتباہ دور ہوگیا اور پتا چلا کہ وہ عام غیر مسلم سیاح ہیں، تو طالبان کو چاہیے تھا کہ انہیں رہا کردیتے۔ مگر انہوں نے اس جوڑے کو پانچ سال تک جبری قید میں رکھا اور حالات سے عیاں ہے کہ ان غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔

حقیقتاً طالبان نے ایک غیر مسلم جوڑے کو اپنی حماقت کے باعث دین اسلام سے دور کردیا۔چالیس سالہ جوشوا بوائل کینیڈا کے ایک جج کا بیٹا ہے۔ اس نے آرام و آسائش کے ماحول میں آنکھ کھولی۔ شعور سنبھالا تو وہ عالمی حالات و سیاست میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ ایک انسان دوست اور انصاف پسند آدمی ہے۔ عالمی حالات کا گہرائی سے جائزہ لینے پر اسے احساس ہوا کہ اکلوتی سپرپاور، امریکا اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے عالم اسلام پر چڑھ دوڑی ہے اور یہ کہ مسلمان اپنے دفاع میں امریکی تنصیبات پر حملے کررہے ہیں۔

یہی وجہ ہے، وہ ایک کینیڈین مسلمان نوجوان، عمر خضر کے معاملے میں اس کی حمایت کرنے لگا۔ عمر خضر مشہور مصری نژاد کینیڈین سماجی کارکن، احمد خضر کا بیٹا ہے۔ افغان جہاد کے دوران احمد خضر افغانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں بہت سرگرم رہا۔ چونکہ وہ اسامہ بن لادن کے قریب تھا لہٰذا اسے بھی القاعدہ رہنما تصور کرلیا گیا۔واقعہ نائن الیون کے بعد امریکی افغانستان جاپہنچے اور القاعدہ رہنماؤں کا تعاقب کرنے لگے۔ 2002ء میں انہوں نے احمد خضر کے بیٹے، عمر خضر کو گرفتار کرلیا اور اسے گوانتانامو کیمپ لے گئے۔ پندرہ سالہ عمر کیمپ میں سب سے کم عمر قیدی تھا۔ اس دوران احمد خضر امریکی فوجیوں سے لڑتے ہوئے چل بسا۔عمر خضر کا کہنا تھا کہ وہ القاعدہ کارکن نہیں مگر امریکیوں نے دعویٰ کیا کہ گرفتاری سے قبل اسی نے دستی بم پھینک کر ایک امریکی فوجی مار ڈالا۔

2009ء میں امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ ایک فوجی عدالت میں عمر پر مقدمہ چلے گا۔ تب تک عمر کے اہل خانہ کینیڈا منتقل ہوچکے تھے۔ اب وہ امریکی حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ ان مظاہروں میں عمر کی بڑی بہن، زینب خضر سب سے زیادہ سرگرم تھی۔جوشوا بوائل کینیڈین نوجوان، عمر خضر کو بے گناہ سمجھتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر عمر مجرم بھی ہے، تو اسے انصاف تو ملنا چاہیے، یہ کیا کہ مقدمہ چلائے بغیر اسے آٹھ سال تک نظر بند رکھا گیا؟ نیز اسے ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا۔ عمر سے ہمدردی رکھنے کی بنا پر جوشوا بھی اس کے حق میں جاری مظاہروں میں شریک ہونے لگا۔انہی مظاہروں میں جوشوا کی زینب سے ملاقات ہوئی۔ دونوں رفتہ رفتہ قریب آگئے۔ حتیٰ کہ جوشوا کینیڈا میں خضر خاندان کا ترجمان بن گیا۔ جلد ہی جوشوا اور زینب ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور انہیں نے بیاہ رچانے کا فیصلہ کرلیا۔ شادی سے قبل جوشوا نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ بیاہ اواخر 2009ء میں انجام پایا۔

بدقسمتی سے جوشوا اور زینب کے مزاج میں خاصا فرق تھا جو بعداز شادی زیادہ عیاں ہوگیا۔ اسی لیے شادی زیادہ عرصہ نہ چل پائی اور دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ تاہم جوشوا دین اسلام میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ لہٰذا اس نے اسلامی کتب کا مطالعہ جاری رکھا۔



جوشوا فطرت کا عاشق ہونے کی وجہ سے سیرو سیاحت کا شوقین تھا۔ ایک دن وہ امریکا کے دیہی علاقوں کی سیر کرنے نکل کھڑا ہوا۔ دوران سفر ہی اس کی ملاقات ایک معصوم دیہاتی لڑکی، کیٹلین کولمین سے ہوئی۔ مزاج کی ہم آہنگی جلد ہی انہیں ایک دوسرے کے قریب لے آئی۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے شادی کرلی۔شادی کے بعد جوشوا نے اسے بتایا کہ وہ دین اسلام میں دلچسپی رکھتا ہے۔

کولمین عیسائی مذہبی ماحول کی پروردہ تھی مگر شوہر کی وجہ سے وہ بھی اسلام کی طرف مائل ہونے لگی۔ وسط 2012ء میں جوشوا نے پروگرام بنایا کہ دونوں وسطی ایشیا کے اسلامی ممالک کی سیاحت کرنے نکلتے ہیں۔ یوں سیرو تفریح کا موقع ملتا جبکہ وہ اسلامی ممالک میں جاکر وہاں کے رسوم و رواج اور اقدار سے بھی واقف ہوجاتے۔چناں چہ جولائی 2012ء میں وہ سب سے پہلے روس پہنچے۔ پھر قازقستان، تاجکستان اور کرغستان سے ہوتے ہوئے افغانستان پہنچ گئے۔

جوشوا یہ ملک دیکھنے کا متمنی تھا جہاں اس کی سابق بیوی نے کئی سال گزارے تھے۔ نیز اب وہ عالمی دہشت گردی کے منظر نامے میں اہم درجہ حاصل کرچکا تھا۔ ایک مقصد یہ بھی تھا کہ غریب افغانوں کی دامے درمے سخنے مدد کی جائے۔ وہ صوبہ وردک میں گھوم پھر رہے تھے کہ طالبان کے ہتھے چڑھ گئے۔طالبان نے پھر انہیں افغانستان میں مختلف مقامات پر رکھا۔ اغوا کے وقت کولمین حمل سے تھی۔ اس نے دوران اسیری ہی پہلے بیٹے کو جنم دیا۔ بعدازاں اس کے مزید دو بچے پیدا ہوئے۔ اس دوران طالبان وقتاً فوقتاً اسیر جوڑے کی ویڈیو ریلیز کرتے رہے۔

اگست 2016ء میں جوڑے کی ویڈیو یوٹیوب یہ منظر عام پر آئی۔ اس میں جوشوا بتاتا نظر آتا ہے کہ اگر افغان حکومت نے کینیڈا یا امریکا کے کہنے پر اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں، تو طالبان نے ہمیں دھمکی دی ہے کہ وہ ہم کو قتل کردیں گے۔ دسمبر 2016ء میں ایک اور ویڈیو ریلیز ہوئی جس میں جوڑے کے دو بچے بھی موجود تھے۔ اس میں جوشوا نے تمام فریقین سے اپیل کی کہ وہ امن معاہدہ کرلیں تاکہ ان کی رہائی عمل میں آسکے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور کینیڈا کی حکومتوں نے جوشوا بوائل اور کولمین کی رہائی کے سلسلے میں سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ وجہ یہی کہ جوشوا دونوں حکومتوں پر سخت تنقید کرتا تھا۔ اسی لیے وہ ان کی نگاہوں میں ناپسندیدہ فرد بن گیا۔

رہائی مل گئی
یہ 11 اکتوبر 2017ء کی بات ہے، فضا میں چکر کھاتے امریکی ڈرون سے دیکھا گیا کہ پاک افغان سرحد کے قریب ایک مقام پر لوگ کچھ افراد کو گاڑی کی ڈکی میں بند کررہے ہیں۔ چونکہ ڈرون بہت اوپر اڑ رہی تھی لہٰذا ان لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہوا ورنہ وہ ڈرون کے سامنے ایسی مشکوک حرکت نہ کرتے۔امریکیوں نے اس ڈرون کے ذریعے گاڑی کا تعاقب شروع کردیا۔ وہ گاڑی ایک ویران مقام سے پاکستان میں داخل ہوئی اور کرم ایجنسی کی جانب بڑھنے لگی۔ امریکیوں نے فوراً پاک فوج کو گاڑی کے متعلق مطلع کیا اور بتایا کہ اس کی ڈکی میں بند اہم لوگ ہوسکتے ہیں۔

پاک فوج نے سرعت سے چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دیں جو گاڑی کی طرف روانہ کردی گئیں۔ ضلع کوہاٹ میں واقع نواں کلی کے مقام پر پاک فوج کے جوانوں نے گاڑی کو جاپکڑا۔ گاڑی والوں نے جیسے ہی جوانوں کو دیکھا، وہ ان پر فائرنگ کرنے لگے۔اس موقع پر ہمارے جوانوں نے زبردست مہارت، ہنر مندی اور تدبر کا ثبوت دیا۔ انہوں نے دھیان رکھا کہ ایک بھی گولی ڈکی پر نہ لگنے پائے جس میں قیدی بند تھے۔ یہ معرکہ چند منٹ جاری رہا۔ معرکے کی تفصیل ابھی کلاسیفائیڈ ہے۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایک گاڑی سوار مارا گیا، بقیہ بھاگ گئے۔بعض کہتے ہیں کہ سبھی گاڑی سوار ہلاک کردیئے گئے۔

بہرحال پاک فوج کے جوانوں کی اعلیٰ جنگی مہارت کے باعث گاڑی کی ڈکی کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ جب اسے کھولا گیا تو اندر سے جوشوا اپنے خاندان سمیت برآمد ہوگیا۔ یوں اس کی پانچ سالہ قید کا سخت دور انجام کو پہنچا۔ جوانوں نے جوشوا اور اس کے بیوی بچوں کو سامان خورونوش دیا اور ان کی دلجوئی کرنے میں لگے رہے۔جوشوا نے بعدازاں پاک فوج کے جوانوں کی تعریف کی جو جان ہتھیلی پر رکھ کر اسے اور اس کے خاندان کو بچانے میں کامیاب رہے۔ نہایت احتیاط کے باوجود ایک گولی کا شارپنل جوشوا کی ٹانگ پر جا لگا مگر اسے معمولی زخم آیا اور وہ بال بال بچ گیا۔

جب جوشوا کی رہائی کی خبر عام ہوئی تو امریکی میڈیا ڈھونڈورا پیٹنے لگا کہ اسے امریکا کی انٹیلی جنٹس معلومات پر رہا کرایا گیا ہے۔ گویا امریکی اس کارنامے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرنے لگے۔ حالانکہ اصل کارنامہ پاک فوج کے جوانوں نے انجام دیا۔ انہوں نے مغویوں کو صحیح سالم رہا کرالیا اور ان پر آنچ نہ آنے دی۔ورنہ ایسے آپریشنوں میں عموماً مغوی مارے جاتے ہیں۔ جوشوا بتاتا ہے ''جب گولیوں کا تبادلہ جاری تھا، تو میں نے سنا، ایک اغوا کار چیخ کر بولا، بندیوں (مغویوں) کو مار دو۔مگر پاک فوج کے جوانوں نے انہیں ایسا کرنے کا موقع نہ دیا اور بڑی پھرتی سے اغوا کاروں کو قابو کرلیا۔''

اُدھر صدر ٹرمپ کا غرور و تکبر ملاحظہ فرمائیے، جب اس واقعہ کی خبر موصوف کو ملی، تو وہ طمطراق سے کہنے لگے: ''یہ (واقعہ) اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے جو (ملک) ہماری عظمت کو تسلیم نہیں کرتے تھے، اب وہ (امریکا کو) سپرپاور مان رہے ہیں۔'' گویا صدر ٹرمپ اس احساس اور جذباتی انسانی واقعے کو بھی سیاست کا شکار بناتے ہوئے پاکستان پر چڑھائی کرنے لگے۔

دوسری طرف جوشوا بوائل نے اہل خانہ کے ہمراہ کسی بھی امریکی جنگی یا سول جہاز میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ وجہ یہی کہ اسے امریکیوں پر اعتبار نہ تھا۔ جوشوا کو ڈر تھا کہ زینب خضر کا سابق شوہر ہونے کے ناتے امریکی اسے لے جاکے قید کرسکتے ہیں۔ یا کم از کم تفتیش ضرور کریں گے۔ اسی لیے وہ ایک عام ایئرلائن کی پرواز سے کینیڈا گیا اور امریکیوں سے کوئی بھی مدد لینے سے انکار کردیا۔جوشوا اور اس کے اہل خانہ اب کینیڈا کے پر آسائش ماحول سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔

خاص طور پر اس کے چھوٹے دونوں بیٹوں کو تو کینیڈا پہنچ کر ہی لگا کہ وہ طلسم ہوش ربا آگئے ہیں۔ انہوں نے اب تک اپنی ساری زندگی ایک کوٹھڑی میں بسر کی تھی۔ طالبان انہیں ''بندی'' کہتے تھے۔ اسی لیے بچے اس لفظ سے آشنا ہوگئے۔ طالبان نے بچوں کو تو کچھ نہیں کہا، مگر وہ جوشوا اور کولمین سے لڑتے جھگڑتے رہتے۔ جوشوا نے اپنے وطن پہنچ کر طالبان پر الزام لگایا کہ ان کی وجہ سے کولمین کا اسقاط حمل ہوا اور ایک بیٹی دنیا میں نہ آسکی۔ نیز یہ کہ ایک گارڈ نے کولمین کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ طالبان یہ الزام تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

جوشوا بتاتا ہے کہ اس کے بچے سورج دیکھنے کے عادی نہیں تھے، اس لیے ہر روز اسے نکلتا اور ڈوبتا دیکھ کر پریشان ہوتے رہے۔ وہ ہر شے کو تجسس سے دیکھتے۔ میز پر چڑھ کر دونوں ہاتھوں سے کھانا کھاتے۔ گویا ایک لحاظ سے وہ جنگلی بن چکے تھے اور اب انہیں تہذیب و ادب و آداب سے آشنا کرانا پڑے گا۔ وہ پہلی بار زندگی کو اصل روپ میں دیکھ رہے ہیں ورنہ وہ اپنی کوٹھڑی کی چار دیواری ہی کو کل کائنات سمجھتے تھے۔امریکی حکمران طبقے نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر افغانستان پر قبضہ کررکھا ہے۔ اسی لیے بہت سے لوگ امریکیوں کے خلاف افغان طالبان کی جدوجہد کو برحق اور جائز سمجھتے ہیں۔

ان میں جوشوا بوائل جیسے غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ لیکن اغوا برائے تاوان، منشیات کی اسمگلنگ اور چوری ڈاکے جیسی غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوکر وہ اپنی ہی پوزیشن خراب کرلیتے ہیں۔ جوشوا بوائل کا واقعہ اس امر کی بہترین مثال ہے۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے افغان عوام اور پاکستانی طالبان سے بددل ہوچکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔