ہمارا نظامِ عدل اور حصولِ انصاف

عدالتوں میں رشوت، سفارش، ایم پی اے، ایم این اے، وڈیرا شاہی، اقربا پروری، سب کچھ چلتا ہے


عدالتوں میں رشوت، سفارش، ایم پی اے، ایم این اے، وڈیرا شاہی، اقربا پروری، سب کچھ چلتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا میں ہر دور میں نظام عدل قائم رہا۔ جب بھی کسی علاقے میں ناانصافی ہوئی اور وہ حد سے بڑھ گئی تو اسے اندھیر نگری یا ظلمت کے نظام سے تشبیہ دی گئی جس کے خاتمے کےلیے اللہ تعالیٰ نے اپنا انصاف نازل فرمایا۔ مثلاً شعیب علیہ السلام کی قوم وزن میں کمی بیشی کرتی تھی، جب کسی کو مال دیتے تو کم دیتے اور جب کسی سے مال لیتے تو زیادہ لیتے۔ اس قوم پر شعیبؑ بھیجے گئے۔ آپ نے قوم کو اس کام سے روکا مگر وہ باز نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے تباہ کردیا۔

فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم کیا، اس کا بھی وہی نتیجہ نکلا۔ قوم عاد اور ثمود بھی انہی وجوہ سے ہلاک کی گئیں۔ اس وقت بھی دنیا میں نظام عدل قائم ہے لیکن ہر ملک اور قوم کا معیار اپنا ہے۔ امریکا میں ان کے کہنے کے مطابق عدالتیں آزاد ہیں اور انصاف پر مبنی فیصلہ کرتی ہیں لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وہاں بھی حکومتی رٹ چیلنج ہورہی ہو یا فیصلہ کسی غیر امریکی کے حق میں ہو تو امریکی عدالتیں بھی خاموش ہو جاتی ہیں یا اپنا فیصلہ تبدیل کردیتی ہیں۔ یہی صورت یورپی ممالک کی ہے۔ بھارت میں عدالتیں آزاد ہیں لیکن وہ بھی مسلمانوں کے خلاف فیصلہ بہت جلد اور ان کے حق میں بہت دیر سے دیتی ہیں یا دیتی ہی نہیں۔

پاکستان میں نظام عدل بہت ہی ناقص ہے۔ غریب آدمی کے بس سے تو بالکل باہر ہے۔ کمزور آدمی جو مالی یا ذہنی طور پر کمزور ہو اسے انصاف نہیں ملتا۔ مجھے ایک بار عدالت جانے کا اتفاق ہوا۔ مجھے اطلاع ہی نہیں دی گئی اور میرے خلاف ڈگری ہوگئی۔ جب ڈگری ہوگئی تو مجھے بذریعہ ڈاک اطلاع دی گئی۔ میں عدالت پہنچا، وکیل کیا اور عدالت میں درخواست دی کہ مجھے اطلاع نہیں ملی لہٰذا مجھے صفائی کا موقع دیا جائے۔ اس میں چھ ماہ لگ گئے جس کے بعد مجھے صفائی کا موقع دیا گیا تو وکیل صاحب نے فرمایا کہ جو کیس دائر کیا تھا وہ مکمل ہوگیا، اب نیا کیس دائر کرنا ہے اس لئے فیس بھی دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔ فیس دوبارہ دی گئی اور مقدمہ درج ہوگیا۔ وہ بھی آٹھ ماہ بعد ختم ہوا۔ اس طرح تقریبا 15 سے 18 ماہ چھوٹے سے مقدمے میں لگ گئے۔

عدالت میں ریڈر پچاس روپے لے کر نئی تاریخ دے دیتا ہے جبکہ مخالف عدالت کے باہر کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ عدالت میں 100 روپے میں گواہ مل جاتا ہے جبکہ جج صاحب کو اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ یہ کرائے کا گواہ ہے، ہر روز کسی نہ کسی مقدمے میں گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ عدالت میں کاغذات کی تصدیق کا نظام بھی درست نہیں۔ اوتھ کمشنر صاحب بیس روپے لیتے ہیں اور ان سے جو دل چاہے، تصدیق کروا لیجیے۔ بے شک کسی چیز کا وجود تک نہ ہو، مگر وہ تصدیق کردیتے ہیں اور ان کی کوئی پڑتال نہیں ہوتی جبکہ اگر کوئی سرکاری افسر غلط تصدیق کردے اور پتا چل جائے تو اسے نوکری تک سے نکال دیا جاتا ہے۔

جب کوئی عدالت میں مقدمہ دائر کرواتا ہے تو وکیل کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مخالف فریق کو مقدمے کا پتا نہ چلنے پائے اور جلد از جلد مخالف کے خلاف ڈگری ہوجائے اور اپنے مؤکل کو اپنی کامیابی کا یقین دلا کر اپنی پوری فیس وصول کرسکے۔

ویسے تو جہانگیر بادشاہ کی زنجیر عدل کی طرح پنجاب میں بھی عدل کی زنجیر موجود ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے ''سی ایم کمپلین سیل'' قائم کیا ہوا ہے۔ میں نے اس سیل میں ایک شکایت درج کروائی۔ جب دو ماہ تک کوئی جواب نہ آیا تو دوبارہ یاد کروایا لیکن جواب نہ آیا، پھر یاد کروایا۔ اس کے ایک ماہ بعد ڈی سی او صاحب کی طرف سے پٹواری صاحب گھر پر تشریف لائے اور معلومات لے کر چلے گئے۔ اس کے 15 دن بعد ڈی ایس پی صاحب کے دفتر سے فون آیا کہ کل آپ کی ڈی ایس پی صاحب کے سامنے پیشی ہے۔ میں اگلے دن مقررہ وقت پر پہنچا، پتا چلا کہ میرا مخالف پہلے ہوکر چلاگیا ہے اور مجھ سے کہا گیا کہ یہ کیس عدالت کا ہے اس لئے عدالت سے رجوع کیجیے؛ اور میری درخواست داخل دفتر کردی گئی۔

ہمارا نظامِ عدل پولیس سے بھی کچھ آگے ہے۔ عدالتوں میں رشوت، سفارش، ایم پی اے، ایم این اے، وڈیرا شاہی، اقربا پروری، سب کچھ چلتا ہے۔ اس کےلیے اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے یہ نظام درست ہوسکے۔ میری ذاتی رائے میں عدالتی نظام، نیب اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) جیسے تمام ادارے صدر صاحب کے ماتحت ہونے چاہئیں۔ ان کی سلیکشن، پوسٹنگ اور پروموشن بھی صدر صاحب خود کیا کریں۔ صدر صاحب اس معاملے میں کسی سے کوئی ڈکٹیشن نہ لیں۔

موجودہ نظامِ عدل میں سب سے زیادہ کردار وکیل صاحبان کا ہے، اسے کم کیا جائے۔ عدالتیں قومی زبان اردو استعمال کریں۔ جج صاحبان کوشش کریں کہ مقدمات خود سنیں۔ مخالف فریق کو اطلاع دینے کےلیے رابطہ نمبر حاصل کریں اور اطلاع پہنچانے کی ذمہ داری مقدمہ کرنے والے پر ڈالیں۔ جج صاحب کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ دباؤ ڈالنے یا سفارش کرنے والے سے متعلق اپنے حکامِ بالا کو مطلع کریں۔ فیصلہ اردو میں لکھیں تاکہ ایک واجبی سا پڑھا لکھا سائل بھی اسے سمجھ سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں